قرآنِ عزیز اقوامِ ماضیہ کے تاریخی واقعات اور اس کے نیک و بد نتائج و ثمرات و حالات کے پیشِ نظر لانے اور ان سے عبرت و بصیرت حاصل کرنے کی جگہ جگہ ترغیب دیتا ہےاور خود بھی اِسی لیے گزشتہ قوموں کے اُن واقعات کو بکثرت بیان کرتا ہے جو اس مقصدِ عظیم کے لیے مُفید اور عبرت آموز ہیں ۔تاریخی مشاہدات  و تجربات کے ذریعہ اُن اقوام واُمم کے حالات ناقابلِ انکار درجہ تک روشنی میں آئے تو دنیا کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ قرآنِ کریم نے اِن سے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ حرف بحرف صحیح نکلا   اور قرآنِ پاک کے  بیان میں حقیقت سرموتجاوز ثابت نہیں ہوا۔

تاریخی ماضی اصحاب البحر کے واقعات،قوم عاد و ثمود، موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل اور فرعونِ مِصر کے واقعات غرض یہ کہ اسی قسم کے تاریخی واقعات ہیں جو یہودِ اسلام  کی دشمنی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے زندہ جاوید شہادتیں ہیں۔

ظاہر ہے کہ جہل کے اندھیروں میں رہنے والوں کو علم کی روشنی کبھی برداشت نہیں ہوسکتی وہ افراد جو تاریکی کو غنیمت شمار کر کے اپنی ریاست کا سکہ جمائے ہوئے تھے ۔ اسلام کےنورانی وجود کے سامنے اُن تمام رئیسوں کی ریاست دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ اب یہ سوچنے لگے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس نور کا خاتمہ کر دیا جائے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالی ٰنے اپنے اس نورانی وجود کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی اس لئے وہ تمام طاقتیں جو اسلام کے خلاف اٹھیں انکا سر کچل دیا گیا اور اسلام کا سر بلند و بالا ہو کر کائنات کو یہ سمجھا یاگیا کہ جس کا محافظ اللہ ہو آسمان و زمین کی تمام طاقتیں مل کر بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتی ہیں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں بیچارے مسلمانوں کو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، دہکتے پتھروں کے نیچے لٹایا گیا۔ اقتصادی پابندی لگائی گئی۔ ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔خود رسول مقبول ﷺ پر پتھر پھینکے گئے ۳سال تک آپﷺ کو ایک غار میں محبوس رہنا پڑا جو شعبِ ابو طالب کے نام سے موسوم ہے۔ لیکن یہ تمام پریشانیاں ایک طرف اور مسلمانوں کا جوش و ولولہ ایک طرف ۔ گویا کلمہ توحید نے ان کے وجود میں روحِ استقامت پھونک دی تھی۔

 حسد مہلک مرض:

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسلام جیسے دین کی مخالفت پر یہود کیوں کمر بستہ ہو گئے۔ جبکہ کفار عرب بت پرست تھے جو اِن کے آئین کے خلاف ہے لیکن بجائے اس کے رسول  اللہ ﷺ کی مدد کرتے ان کے پیچھے پڑگئے۔اس علت کو خوداللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجیدمیں نقل فرمایا ہے۔

 ارشادِباری تعالیٰ :

وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّاللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۱۰۹ ( البقرة، :109)

(مسلمانو) اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافر بنا دیں اور (لطف تو یہ ہے کہ ) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی یہ تمنا باقی ہے پس تم معاف کردو اور در گزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا کوئی حکم بھیجے بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ایجاد کینہ و بغض :

اوس و خزرج میں جس دشمنی کی آگ کو رسول اسلام نے اپنے اخلاق کے پانی سے بجھا دیا تھا اسلام کے خلاف اُن یہودیوں نے پھر سےاس میں آگ لگانے کی بھر پور کو شش کی ۔ شاس بن قیس یہودی نے اوس و خزرج کو بہکانا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی رگ جاہلیت پھڑک اٹھی قریب تھا کہ جنگ کا بگل بج جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کی سیاست مداری نے شاس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ بن ہشام ج۲ص204۔205)

اسی جریان کے پیش نظر وحی نازل ہوئی :

قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُهَدَآءُ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۰۰۹۹ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ۰۰۱۰۰ (آل عمران :99-100)

اے رسول کہہ دو اے اہل کتاب دیدہ و دانستہ اللہ  کی (سیدھی )راہ میں (ناحق)کجی(ڈھونڈھ)کے ایمان والوں کو اس سے کیوں روکتے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے اے ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کے کسی فرقہ کا بھی کہنا مانا تو (یاد رکھو کہ )وہ تم کو ایمان لانے کے بعد (بھی) پھر دوبارہ کافر بنا کرچھوڑیں گے۔

سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِيْ كَانُوْا عَلَيْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ١ؕ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۱۴۲ (البقرة:142)

بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کی طرف پہلے (سجدہ کرتے تھے)اس سے (دوسرے قبلہ کی طرف ) مڑ جانےکا کیا باعث ہوا (اے رسولﷺ تم اِن کے جواب میں )کہو کہ پورب پچھم سب اللہ کا ہے جسے چاہتاہے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتاہے۔

ابتدائے مخالفت:

آپ نے مخالفت کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمایا لیکن جب اسلام اپنے مقتضیات کے بموجب لوگوں کی فکری ترقی کے پیش نظر احکام بیان کرنے لگا اور یہودیوں کے بعض عقائد نسخ ہونے لگے تو کینہ و بغض کی وجہ سے یہود اسلام کی مزید مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ مثلا اونٹ کا گوشت شریعت یہود میں حرام تھا لیکن شریعت محمدی ﷺمیں حلال ہے۔ تو یہ کہنے لگے اے محمدﷺ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ آئین ابراہیم علیہ السلام پر ہیں پھر کس طرح ان کے حلال کو حرام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا فورا ًجواب دیا۔

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِيْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۹۳ (آل عمران : 93)

تورات کے نازل ہونے کے قبل یعقوب علیہ السلام نے جو چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں تھیں ان کے علاوہ بنی اسرائیل کے لئے تمام کھانے حلال تھے (اے رسول ان یہود سے )کہو اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچے ہو تو» توریت «لے آؤ اور اس کو (ہمارے سامنے)پڑھو“)اسلامی تعلیمات کا عروج دقیق مطالعہ کی روشنی میں معلوم ہوتاہے۔ غور فرمائیے اس آیت میں اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺسے یہ نہیں فرمایا کہ ان کی سازشوں کا جواب آپ جیسے چاہیں ویسے دیں۔ جب کہ رسول اللہ ﷺکے خلاف ایک کام بھی نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی تاکید کے لئے کہہ دیا کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا ہے حکم رَبِّی کے تحت کیجئے۔

یہود کی ثروت پرستی

مال و دولت اگر ایک ہدف بن جائے تو یہ بدترین صفت ہے یہود نے اپنی زندگی کا ہدف ہی مال بنا لیاہے ۔چاہے جیسے مال حاصل ہو حاصل کرو یہ فقط اس لئے ہے کہ وہ حیات بعد الموت کے قائل نہیں ہیں۔ اسی دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ویل ڈورانٹ لکھتے ہیں: یہود جہان حیات بعد از مرگ پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ جزا و سزا کو اسی دنیا میں منحصر شمار کرتے ہیں۔(تاریخ تمدن ویل ڈورانٹ ص 345 ج۲)

اہل کتاب یہودی تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے چونکہ قرآن میں تدبر نہیں کر پارہے ہیں اس لئے اپنے ہدف اصلی سے خود بھٹکے ہوئے ہیں جسے وہ خود نہیں سمجھ پارہے ہیں۔

وَقَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَۚۖ۰۰۷۲ (آل عمران :72)

(ترجمہ) اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اپنے لوگوں سے کہا مسلمانوں پر جو کتاب نازل ہو ئی ہے اس پر صبح سویرے ایمان لے آؤ اور آخر وقت انکار کر دیا کرو شائد مسلمان (اس تدبیر سے )اپنے دین سے) پھر جائیں۔

اب تک تو طعنہ زنی کر رہے تھے کہ ان کے پاس کوئی قبلہ ہی نہیں ہے اور جب اللہ نے پیغمبر کے دل کی آواز سن لی تو یہودیوں میں سے کچھ لوگ آکر کہنے لگے کہ آپ نے قبلہ کیوں بدل دیا ہم آپ کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں گے جب تک آپ اسی پہلے والے قبلہ کی طرف نماز نہ پڑھیں۔پیغمبر اسلام نے رفاعہ بن قیس قردم بن عمر کعب بن اشرف وغیرہ کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن  اللہ تعالی ٰنے ان کی درخواست کو صاف صاف رد کر دیا بلکہ ان کی اس حرکت کو دیوانگی اور سفاہت پر محمول کر کے یہ فرمایا۔

کہہ دو اے رسول ! اے لوگوں میں تم تمام لوگوں کی طرف اللہ  تعالیٰ کا فرستادہ ہوں۔ عرب کی طرف آپ کا مبعوث ہونا اس لیے نہ تھا کہ آپ عرب تھے بلکہ ہدف یہ تھا کہ وہ برائیوں اور غلط پرستیوں سے نجات پالیں۔ اسی طرح یہودیوں کی طرف رسول اسلام نے تو دعوت بھی نہیں دی تھی۔ دعوت تو اللہ نے دی تھی آپ تو فقط واسطہ عبدو معبود تھے ۔

پیغمبر اسلام نے مسالمت ، اپنے خلق عظیم ہونے کے پیش نظر بحکم اللہ رب العزت بیت المقدس کو بعنوان قبلہ منتخب فرمایا اسی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے آپ نے یہودیوں کے ساتھ ایک دن روزہ بھی رکھا تھا(صحیح بخاری ج۱ص498)

لیکن جب آپ نے انہیں اسلام کی طرف مدعو کیا تو وہی یہود جو اب تک اہل مدینہ کو دھمکیاں دیا کرتے تھے جان بوجھ کر مخالفت پر اتر گئے وہ تو یہ چاہتے تھے کہ رسول اسلام ان کی جیسی کہتے رہیں اور حکم ربّیِ پر عمل کرنے کے بجائے وہ ان کے اصول کے پابند ہو جائیں۔ولفن سون اسرائیلی مورخ پیغمبر اسلام اور یہود کے نزاع کی تحلیل یوں کرتاہے۔

جب پیغمبراسلام نے اپنے ہدف میں کامیابی کے لئے اقتصادی ضرورت محسوس فرمائی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو روسائے یہود کے پاس بھیجا وہ سردار قبیلہ قینقاع کے پاس گئے پیغمبر اسلام کا نامہ دیا اور اپنے اہداف بیان کئے تو وہ ملعون طعن و تشنیع کرنے لگا بولا کیا تمہارا  اللہ ہماری کمک کا محتاج ہے؟یہ جملہ اتنا سخت تھا کہ فوراً وحی نازل ہوئی :

لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِيَآءَ۠ بِغَيْرِ حَقٍّ١ۙ وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۰۰۱۸۱(آل عمران:181)

 جو (یہودی) لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تو کنگال ہے اور ہم بڑے مالدار ہیں اللہ نے ان کی یہ بکواس سنی ان لوگوں نے جو کچھ کیا اور ان کا انبیاءکو ناحق قتل کرنا ۔ہم ابھی اسے لکھے لیتے ہیں اور (آج جو جی میں آئے کہیں مگر) قیامت کے دن )ہم کہیں گے کہ اچھا تو اپنی شرارتوں کے عوض میں جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔

اگر پیغمبرکی تعلیم فقط بت پرستی سے مبارزہ کرنا ہوتا اور وہ یہودیوں کو اپنی نبوت کے اقرار کی دعوت نہ دیتے تو مسلمانوں اور یہودیوں میں کبھی در گیری نہ ہوتی۔یہود ان کی تعلیمات کا اعتراف کرتے اور اپنی جان و مال کے ساتھ ان کی مدد کرتے بشرطیکہ وہ ایک نئی رسالت کا اقرار نہ چاہتے ۔ اس لئے کہ یہود کا طرز فکر اصلاً اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی ان کو اس کے دین سے جدا کر دے اور جو ایسا کرےگا یہود کبھی اس کا ساتھ نہ دیں گے وہ نبی جو بنی اسرائیل سے نہ ہو یہود اس کو کبھی قبول نہیں کرسکتے۔(تاریخ الیہود فی بلاد العرب۔ ونفسون ص122)

یہ تھا اس یہودی مورخ کا نظریہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دعوت پیغمبر اسلام اپنے کسی فائدہ کے لئے نہ تھی اور نہ ہی آپ کی دعوت کا دائرہ کسی خاص گروہ سے مخصوص تھا بلکہ آپ کی دعوت خود کائنات کے فائدہ کے لئے تھی اور اسکا دائرہ لا محدود تھا اس لئے کہ وہ تمام عالم کے  اللہ کے پیغمبر تھے۔

قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا (الاعراف:158)

لیکن یہود نے اپنے اس عقیدہ کو چھپانے کی کوشش کی اور یہ ادعا کیا کہ در حقیقت ایمان جزا وسزا کا معیار ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے دعوے کے پردہ کو فاش کر دیا اور صاف صاف دعوے کی دلیل طلب کر لی جس میں وہ ناکام ہو گئے ۔

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۹۴ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ۰۰۹۵ (البقرة:94۔95)

اے رسول کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر خاص تمہارے واسطے ہے اور لوگوں کے واسطے نہیں تو پس اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ لیکن وہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جو پہلے کر گذرے ہیں کبھی تمنا نہیں کر سکتے اور اللہ تو ظالموں سے خوب واقف ہے۔

انکی دنیا طلبی فقط اس لئے ہے تا کہ عذاب الٰہی سے بچ سکیں لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ روز قیامت کا عذاب عمر کی زیادتی یا کمی پر موقوف نہیں ہے۔

وَلَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَيٰوةٍ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا١ۛۚ يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ١ۚ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ١ؕ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَؒ۰۰۹۶( البقرة:96)

بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی، آپ انہیں کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں  ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔

اعتراض: اعتراض اگر فہم و ادراک کے لئے ہو تو بہترین صفت ہے لیکن اگر کسی کو ذلیل کرنے کے لئے اعتراض کے تیر برسائے جائیں تو یہ بدترین صفت ہے۔ یہود نے اسلام کو نقصان پہچانے کے لئے یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام میں تو کچھ ہے ہی نہیں فقط تورات کی باتوں کو تحریف کر دیا گیا ہے۔ آپس میں کہنے لگے ہم صبح میں اسلام قبول کر لیں گے اور شام میں اسلام ترک کر دیں گے تا کہ لوگ سمجھیں کہ اگر اسلام میں کچھ ہوتا تو ہم اسے کیوں ترک کرتے۔اللہ تعالی ٰنے یہود کی اس خیانت کی طرف یوں اشارہ فرمایا:

وَدَّتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَمَا يُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۰۰۶۹ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ۰۰۷۰ (آل عمران : 69-70)

 اہل کتاب سے ایک گروہ تو بہت چاہتاہے کہ کسی طرح تم کو راہ راست سے بھٹکا دیں حالانکہ وہ خود اپنے ہی کو بھٹکاتے ہیں اور اس کو سمجھتے بھی نہیں ہیں  اے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ بن سکتے ہو۔

لیکن جب توریت میں ایسا کچھ نہ ملا تو شرمندگی اور عاجزی کی خاک ان کے چہرہ پر مل دی گئی۔

اسلام کے خلاف یہود کی سازشیں:

اب تک جن باتوں کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا اسکا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نہ لانے کی وجہ سے یہود اسلام و مسلمین کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔ صدر اسلام سے لیکر آج تک یہود نے جو سازشیں اسلام کے خلاف تیار کی ہیں وہ سورج کی روشنی سے بھی زیادہ روشن ہیں ۔شرط ہے دیدہ بصیرت موجود ہو۔ یہاں فقط صدر اسلام کی کچھ سازشوں کو پیش کرنا مقصود ہے۔

رسول کو بہکانا:

 اپنی سازشوں میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ رسول اسلام کو بہکانے کی کوشش کی اس لئے کہ اگر رسول اللہ ہمارے شیشے میں اتر گئے تو پھر مسئلہ ہی حل ہے وہی ہوگا جو ہم چاہیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اسلام کو فوراً اس سازش کی طرف متنبہ کرایا۔

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ١ؕفَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۰۰۴۹(المائدة:49)

اور اے رسول جو احکام  اللہ تعالیٰ نے نازل کئے ہیں تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اور ان کی خواہش نفسانی کی پیروی مت کرو بلکہ تم ان سے بچے رہو (ایسا نہ ہو ) کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے تم کو بھٹکا دیں پھر اگر یہ لوگ تمہارے حکم سے منہ موڑ لیں تو سمجھ لو کہ گویا اللہ ہی کی مرضی ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انہیں مصیبت میں پھنسا دے اور اس میں تو شک نہیں کہ بہتیرے لوگ بد چلن ہیں۔

قوم یہود اسلام کے بدترین دشمن ازل سے ہی رہے ہیں عرب کی غیر متمدن بستی جو از نظر زمان بھی غیر متمدن تھی اور از نظرمکان بھی۔ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا باعث فخر و مباہات تھا۔ جگہ ایسی جگہ تھی جہاں صبح کو حلووں کے بت بنائے جاتے تھے اور دوپہر کو وہی زینت دستر خوان ہوتے۔ ایسے غیر متمدن ماحول میں رسول اسلام ﷺنے تمدن کی روح پھونکی ، اب تک جو عرب بیٹیوں کوزندہ دفن کرنا باعث عز و جاہ تصور کر رہاتھا۔پیغمبر اسلام کی تبلیغ کے نتیجے میں وہی بیٹیوں کی پرورش اور ان کے وجود سے خوش ہونے لگا۔360خداؤں کے بجائے لاالٰہ الا اللہ کا نعرہ فضائے عرب کو نور افشاں کرنے لگا۔

بہرحال!  اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے پیغمبر پرگزشتہ اقوام کے حالات ظاہر کر کے عبرت آموز قلب اور بصیرت افروز نگاہ کے لیے بہت کچھ سامان رشد و ہدایت عطاء فرمایا تاکہ موجودہ امم و اقوام، سرکش اور مفسد قوموں کے نتائج بد اور ہولناک پاداشِ عمل سے عبرت حاصل کریں اور نیکو کار و خیر اندیش قوموں کے حالات و واقعات اور ان کے ثمرات خیر کو اختیار کر کے دین و دنیا کی فوز و فلاح کو اپنا سرمایہ بنائیں ۔

 xxx

یہودی ریاست اور اس کی تباہ کاریاں   ڈاکٹر استراج خان
یہودی ریاست کے قیام کا پسِ منظر:

سیدنا سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد یروشلم کی حکومت ۹۳۵ق م میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور دونوں جلد ہی تباہ ہوگئیں۔ ایک کو آشوریوں نے تباہ کیا اور دوسرے کو بابل (عراق) کے حکمران بختِ نصر نے برباد کرکے یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ کئی سالوں بعد کورنیس فارسی حکمران کے ذریعے فلسطین میں ان کی واپسی ہوئی لیکن کچھ ہی وقت بعد یونانی اور پھر رومی سلطنت نے انہیں تاراج کردیا اور اس وقت سے یہ تاراج اور دربدری کے سوہانِ روح عذاب سے گزرتے آرہے ہیں اور اگر کہیں انہیں سکون اور چین کی زندگی ملی ہے تو مسلم حکومتوں کے سایہ میں۔ (یہودی حکومت اور اس کی تباہ کاریاں، شیخ عبد المعید مدنی، صفحہ ۵، ماخوذ از کتاب وسنت ڈاٹ کام)

اس حالت میں صدیاں گزر گئیں تو ان کے ذہن میں اپنا  ایک ہوم لینڈ بنانے کا تصور ابھرا۔ اس کے لیے انہوں نے صیہون (Zionism) نامی تحریک شروع کی۔ صہیون در اصل قدس (یروشلم) کے چار پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کا نام ہے جہاں سیدنا داؤد علیہ السلام نے گیارہویں صدی عیسوی قبل مسیح میں حبرون سے منتقل ہونے کے بعد اپنا محل بنایا اور اپنی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ یہ نام دراصل سیدنا داؤد علیہ السلام کی حکومت اور ہیکلِ سلیمانی کی از سر نو بناء کی طرف اشارہ کرتا ہے اس طور پر کہ قدس اس کا دارالخلافہ ہوگا۔ اور اس سے مقصود فلسطین میں یہودی حکومت کا قیام ہے جہاں سے یہود پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرکے راج کرے۔ (الموسوعۃ المیسرہ فی الادیان والمذاھب والاحزاب المعاصرہ، الندوۃ العالمیہ للشباب الاسلامی، ۱: ۵۱۸، مادہ الصھیونیۃ، دار الندوہ للطباعۃ والنشر، ۱۴۲۰ھ)

صہیون کا لفظ سب سے پہلے ایک ہزار قبل مسیح میں مملکتِ سیدنا داؤد علیہ السلام کے ضمن میں استعمال ہوا۔ پھر جب 586-538 ق م میں یہود کو بابلی قید سے نجات ملی تو انہوں نے مکابیین (Maccabis Movement)کے نام سے صہیون کی طرف واپسی اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے لیے ایک تحریک چلائی۔ اس کے بعد 138-118 ق م میں مارکوجنا (Barkokhia)کے نام سے اس مقصد کے لیے ایک تحریک چلائی گئی۔ مارکوجنا کی طرح ایک تحریک موزس کریتی (Mozes Alkriti)نے چلائی۔ 1532-1501ء میں ڈیوڈ رابن (David Rubin) اور اس کے شاگرد سلیمان مولوخ (Solomon Moloch)نے فلسطین میں دوبارہ سلطنتِ یہود کے قیام کے لیے یہود کو متحرک کیا۔ 1657-1604ء میں اس حوالہ سے منشاءبن اسرائیل (Mansheh Ben Israel) کا نام آتا ہے۔  1676-1626ء میں سبٹے زیفی (Sabbatai Zifi)نے مخلص مسیحِ یہود ہونے کا دعوی کیا جو کہ فلسطین میں حکومت قائم کرے گا لیکن اس منصوبہ کو عملی جامہ دینے سے پہلے وہ مرگیا۔ روچلڈ (Rocheld)اور موسی مونٹیفوری (Moses Montfury)نے تاجر یا سوداگر تحریک کے نام سے اس مقصد کو اچھالا۔ 1882ء میں ہکلر جرمانی (Hickler Germani) نے باقاعدہ طور پر اس موضوع پر « اقوالِ انبیاء کے مطابق فلسطین میں یہودکی واپسی» کے نام نے ایک کتاب لکھی۔ 1893ء میں ناثان برنباوم (Nathan Bernbaum) نے سب سے پہلے اس مقصد کے لیے صیہونیت (Zionism) کی اصطلاح استعمال کی۔اور  1882ء میں روس میں «محبانِ صیہون(Lovers of Zion)» کے نام سے ایک تحریک متعارف ہوئی جس کی سرپرستی ایک یہودی معالج لیون پنسکر (Leon Pinsker) کر رہا تھا اور اس کا مقصد ہجرتِ فلسطین اور عبرانی زبان کے احیاء کی حوصلہ افزائی تھی۔

آخر کار موجودہ صیہونی تحریک کی بنیاد ایک یہودی صحافی ٹھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl)نے رکھی۔ ہرزل کی ولادت پوڈاپسٹ (Budapest)میں 2/5/1860ء کو ہوئی۔ اس نے ویانا یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور اس کا مقصدِ وحید تمام دنیا پر یہود کی سلطنت کا قیام تھا جس کی ابتداء فلسطین میں قیامِ سلطنت سے ہوگی۔ (نفس مصدر)

ہرزل نے 1897ء میں عالمی صیہونی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی قرار داد پاس ہوئی اور ہرزل نے اعلان کیا کہ اس کا نفرنس کا ماحصل مجھ سے پوچھا جائے تو میں علی الاعلان کہہ دوں گا کہ میں نے یہودی ریاست قائم کردی۔ اس وقت اس تحریک کا نام صیہونی تنظیم (Zionist Organization)تجویز ہوا لیکن1960 ء میں اسے عالمی صیہونی تنظیم (World Zionist Organization) سے بدل دیا گیا۔( موسوعۃ الیھود والیھودیۃ والصہیونیۃ، ڈاکٹر عبد الوہاب مسیری، ۱۷: ۳۹۰، اعداد اسامہ بن زہراء)

آخر کار 1948ء میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا آف ورلڈ ریلیجن لکھتا ہے:

«Zionists overwhelmingly favored the ancient homeland of Israel as the proper site for a Jewish state. In the early 20th century Zionists begen settling in Palestine, which was then part of the Ottoman Empire. During World War 1 Great Britains Balfour Declaration promised that, if the Allies won, territory would be set aside for a Jewish state. But it was only after World War 2, the murder of millions of European Jews in the HOLOCAUST, and considerable Zionist agitation that the state of Israel was established on May 14, 1948.»( The Encyclopedia of World religions, Robert S. Ellwood and Gregory D. Alles, Page: 488, Word Zionism, Facts on File, Inc, New York)

یعنی صیہونیوں نے بہت حد تک قدیم وطن «اسرائیل» کو یہودی ریاست کے لیے مناسب جگہ قرار دیدی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں صیہونی عثمانی سلطنت میں داخل خطہ «فلسطین» میں اقامت اختیار کرنے شروع ہوگئے۔ پہلی جنگ عظیم میں «عظیم برطانوی بالفور اعلامیہ» نے وعدہ کیا کہ اگر اتحادی جیت گئے تو یہودیوں کے لیے ایک الگ علاقہ بطورِ ریاست مختص کیا جائے گا۔ البتہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی بات ہے کہ ہولوکاسٹ میں لاکھوں تعداد میں یورپی یہود اور معقول تعداد میں صیہونی تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کے بعد ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے لیے ریاست کا قیام کردیا گیا۔

یہودی ریاست کی قیام اور بقاء کے لیے تباہ کاریاں:

 اس ریاست کے قیام اور بقاء کے لیے عملی طور پر مسلمانوں کی زندگی میں جو تباہی لا کھڑی کردی گئی وہ یہ تھی کہ:

۱: ہرزل نے اس ریاست کے قیام کے لیے عثمانی سلطان عبد الحمید ثانی سے دو مرتبہ ملاقات کی اور پانچ بار اپنے نمائندے بھیجے اور ہر طرح کی لالچ دیدی لیکن جب وہ نہ مانے تو مختلف ہتھکنڈوں سے موصوف کو سلطنت سے ہٹا دیا گیا اور مسلمانوں کے مرجع خلافتِ عثمانیہ ترکی کو یہودی نژاد مصطفی کمال کے ہاتھ تاراج کردیا گیا اور نہ صرف یہ کہ فلسطین کا سودا کیا گیا بلکہ مسلمانوں کی مجتمع قوت ٹکڑے کردی گئی جس کی تلخی آج تک مسلمانوں کی زندگیوں میں محسوس ہو رہی ہے۔

۲: فلسطین کے مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ہر قسم جائز وناجائز حربے استعمال کیے گئے اور ہر قدم پر دھوکہ اور فریب کا استعمال کیا گیا۔( یہودی ریاست اور اس کی تباہ کاریاں: ۸)

۳:اور جب ہوس وزر کی لالچ سے مقصد پورا نہ ہوا تو ان  کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے کئی مرتبہ وہاں کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی جیسا کہ حال ہی میں 8مئی 2021کو اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں پر دورانِ نماز حملہ کیا۔ ان سارے مظالم کا بنیادی مقصد غاصبانہ طور پر عرب مسلمانوں کی زمین پر قبضہ اور ان کا اس خطے سے اخراج ہے۔

اس کے علاوہ صیہونی تحریک نے اپنے سامنے جو مقاصد رکھے ہیں وہ پوری دنیا کے لیے یکساں طور پر انتہائی خطرناک ہیں:

۱: صیہونی ساری دنیا کے یہودیوں کو ایک ہی نیشنلٹی دینے پر یقین رکھتی ہے یعنی «اسرائیلی نیشنیلٹی»، (کیونکہ ان کے مطابق ساری دنیا ان کی ملکیت ہے)۔

۲: وہ اپنے الہٰ «یہوہ» کے وعدے کے مطابق ساری دنیا پر یہودی تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس میں اولین ترجیح کا حامل خطہ ارضِ میعاد «دریائے نیل تا دریائے فرات» ہے۔

۳: ان کے مطابق سرداری اور حکمرانی کے لائق صرف یہودی ہیں باقی ساری دنیا کے لوگ ان کے نوکر اور خادم ہیں۔

۴: ان کے مطابق دنیا میں دہشت پھیلانا دنیا پر راج کرنے کے لیے بہترین راستہ ہے۔

۵: ان کے مطابق وہ وقت نہیں رہا جب حکومت مذہب کی تابع ہوتی تھی بلکہ اب غلبہ صرف سونے اور چاندی کو حاصل ہے، لہذا دنیا کے تمام وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے۔

۵: اپنی ریاست کے قیام کے لیے غیر یہودیوں کو اخلاقی معیار سے گری ہوئی باتوں میں الجھانا ان کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔

۶: سیاست کو اخلاق حمیدہ اور سچائی سے صاف کرنا ان کا عقیدہ ہے بلکہ ان کے نزدیک سیاست کے باب میں دھوکہ دہی، فریب، جھوٹ اور دغا بازی ہی اخلاق حمیدہ ہیں۔

۷: دنیا کے حکمرانوں کو اپنے کنٹرول اور قبضہ میں لینا تاکہ وہ ایسے حکمران کا چناؤ کرے جو غیر اخلاقی باتوں میں ملوث ہوں، حکمرانی کے لیے ہر حد تک گر سکتے ہوں اور قومی شعور اور درد سے بے خبر ہوں۔

۸: پریس اور میڈیا کو اپنے کنٹرول میں لینا لازمی ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ان باتوں کی طرف متوجہ کیا جائے جو ان کے کام کی ہوں۔

۹: حکمران اور عوام کے مابین مخالفت اور بداعتمادی کی فضا پیدا کرنا تاکہ وہ اپنی کرسی کی بچاؤ کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔

۱۰: اشرافیہ اور معاشرے کے طاقتور افراد کے مابین خصومت اور جھگڑے کی آگ بھڑکانا تاکہ ان کی قوت اپنے مابین استعمال ہوتی رہے۔ نیز اس اختلاف کا مقدس مقصد محض تسلط، حکمرانی اور غلبہ کا حصول ہونا چاہیے۔

۱۱: تمام ممالک کے مابین بلکہ ممالک کے اندر جنگ کی آگ مشتعل رکھنا تاکہ ان طاقت کمزور ہوتی رہے اور حکومتیں گرتی رہیں اور اس کے مقابلے میں ان کی حکومت قائم ہوتی رہے۔ (اس بات کا اندازہ پروٹوکولز کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ: یورپ بھر میں رونما ہونے والے واقعات و «حادثات» کا کسی نہ کسی طریقے سے یہودیوں کے ساتھ رشتہ جڑ رہا تھا اور انہی کے مفادات کو تقویت مل رہی تھی۔»)( یہودی پروٹوکولز1 : گریٹر اسرائیل کے عالمی صہیونی منصوبے کی خفیہ دستاویزات، مترجم، محمد یحیی خان، صفحہ ۱۱۶)

۱۲: مظلوموں کے ساتھ ان کی آزادی اور فریاد رسی کی آڑ میں کھڑا ہونا تاکہ ان کو اپنے صف میں شامل کیا جاسکے اور ان کو ہر اس شخص کے خلاف اٹھایا جا سکے جو ان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ (مثال کے طور پر یہود اپنی خفیہ دستاویزات «پروٹوکولز» میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ہم ان مظلوم طبقوں کو ان کے اصل حقوق دلانے کے لیے نجات دہندہ کے روپ میں آگے بڑھتے ہیں اور انہیں اپنی عسکری تنظیموں مثلا سوشلسٹوں، انارکسٹوں، اور کمیونسٹوں کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔۔۔۔ پھر یہ سب ہماری فوج کے طور پر کام آتے ہیں)۔( یہودی پروٹوکولز2 : گریٹر اسرائیل کے عالمی صہیونی منصوبے کی خفیہ دستاویزات، مترجم، محمد یحیی خان، صفحہ ۱۳۷)

۱۳: مالی بحران (Financial Crises)کو اپنے کنٹرول میں کرنا تاکہ دنیا کا اشرافیہ اور امیر لوگ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور رہیں۔

۱۴: لوگوں کے دلوں سے ایمان کی دولت اور ان کی عقلوں سے اللہ کے وجود کی فکر مٹانا اور اس کے بدلے مادی قوانین کو جگہ دینا۔

۱۵: ہر وہ طریقہ اپنانا جس کے ذریعے غیر یہودیوں کی دولت یہود کے خزانوں کی طرف منتقل ہوتی رہے۔ (اور اس کی مثال موجودہ بینکنگ نظام ہے، خصوصی طور پر سوئس بینکس)۔

۱۶: ایک اعلیٰ حکومتی ادارہ کا قیام جس کی جڑیں دنیا کے ہر خطہ تک وسیع ہوں اور تمام حکمران اس کے سامنے مجبور وعاجز ہوں۔ (اس کی مثال امریکہ اور انگلینڈ کی مملکت ہوسکتی ہے یا مستقبل میں گریٹر اسرائیل)۔( الموسوعۃ المیسرہ ۱: ۵۲۰)

۱۷: لوگوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کے لیے دنیا میں فحاشی اور عریانی کے اڈے قائم کرنا۔ مثال کے طور پر جرمنی میں یہودیوں نے کئی قحبہ خانے اور لواطت کے اڈے قائم کردیے۔ ماہر جنسیات ہیولاک ایلس کے تیار کردہ ایک سروے کے مطابق برلن شہر میں بیس ہزار لونڈے جسم فروشی کرتے تھے۔ جرمن صحافی جولیس سٹریچر نے اس کاروبار کا ذمہ دار یہود ہی کو ٹھہرایا۔

۱۸: عورت کو سیاسی عناصر تک رسائی کے لیے خصوصی ہتھیار بنانا۔ چنانچہ انڈیانا یونیورسٹی کے پروفیسر ابلاغیات سٹیون الن کار (Steven Carr)نے 2000ء میں «ہالی ووڈ اینڈ اینٹی سمیٹزم (Holly wood & anti-Semitism) کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ یہودیوں نے دنیا کے اس سب سے بڑے فلمی مرکز کو کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

۱۹: یہودیوں کے خلاف لکھی گئی کتابیں غائب کروانا مثلا جیرالڈ سمتھ کی «بین الاقوامی یہود» کے نام سے ایک کتاب جس میں یہودیوں کی کرتوتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے، کے ایک ایک نسخہ کو یہودیوں نے آٹھ آٹھ سو ڈالر میں خرید کر «امیوں» کے ہاتھ لگنے سے بچایا۔ (یہودی پروٹوکولز1: ۱۰۴/ ۱۰۵)

۲۰: فری میسنز جیسی تنظیم کا قیام جس کا مقصد لوگوں کو مذہب سے بیگانہ اور بدظن کرانا، مذہب کی معتبر شخصیات کو آپس لڑانا اور فرقوں کے درمیان چپقلش پیدا کرنا تھا۔ ان ہی کرتوتوں کی وجہ سے 1960 ء میں پاکستان نے فری میسنز کو ممنوع قرار دے کر ان کی عمارتوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔( نفس مصدر: ۱۱۳)

 فری میسن تحریک آج بھی اپنا کام کر رہی ہے مگر جن ممالک میں اسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے وہاں اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔( یہودی پروٹوکولز1:۱۱۶)

ایسے کئی تباہ کن مقاصد اور منصوبے یہودی ریاست اپنے قیام اور بقاء کے لیے سامنے رکھتی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا پریشانیوں کے گرداب میں پھنستی جارہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے