سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک دوسرے کے ہمدرد وخیرخواہ تھے۔ وہ دونوں دورِ نبوت میں تبلیغی وجہادی مہموں میں ایک ساتھ رہے۔ اہم امور میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے مشیر ومعاون رہے۔ مخالفین ایک واقعہ بھی پیش نہیں کر سکتے کہ اُن کے درمیان کسی قسم کی شکر رنجی ہوئی ہو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی کے دور میں مجلس عامہ میں شامل رہے اور چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے اگر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کسی قسم کی حق تلفی کی ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں منبر پر ان کی فضیلت نہ فرماتے ۔
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:

«أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ أَبُو بَكْرٍ» ثُمَّ قَالَ: «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ»

’’ میں آپ کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے بعد امت کے بہترین شخص کے بارے خبر نہ دوں؟ وہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر فرمایا: کیا میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ( زوائد مسند الإمام أحمد ۱/106، 110 وسندہ حسن والحدیث صحیح متواتر)
اسی طرح سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے پوچھنے پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بہترین ہستی قرار دیا۔
محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے اپنے والد گرامی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «أَبُو بَكْرٍ» ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ عُمَرُ» ، وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ عُثْمَانُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ؟ قَالَ: «مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ»

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کے بعد بہترین ہستی کون ہے؟ فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ، عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ ، پھر اس ڈر سے کہ مزید پوچھا تو آپ عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے، میں نے کہا: ابا جان ! پھر تو آپ ہیں نا؟ فرمایا : میں تو ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘ ( صحیح البخاری :3671، سنن ابی داود:4629)
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافت کو ہدیۂ تبریک پیش کیا اور انہوں نے اپنے دور خلافت میں اسوئہ رسول کی پیروی کی ۔
عبد خیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برسر منبر فرماتے سنا:

قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَعَمِلَ بِعَمَلِهِ، وَسَارَ بِسِيرَتِهِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ذَلِكَ. ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ فَعَمِلَ بِعَمَلِهِمَا، وَسَارَ بِسِيرَتِهِمَا، حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ذَلِكَ»

’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اسوئہ رسول کی پیروی کی، آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سیرت پر عمل کیا حتں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی حالت میں فوت کر دیا، آپ رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ نامزد ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل اختیار کیا اور ان کی سیرت پر عمل کیا یہاں تک کہ اللہ کو پیارے ہوئے گئے۔ ( زوائد مسند الامام أحمد 1/127 وسندہ صحیح)
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے تصدیق کی ہے کہ سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نے اپنے دور خلافت میں زندگی کے آخری سانس تک اسوئہ رسول پر عمل پیرا رہے۔
سيدنا علي المرتضي رضي الله عنه نے شہادت کی کہ سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر رضی اللہ عنہما نبی پاک  صلی اللہ علیہ و سلم  کے ہمہ وقت ساتھ رہے۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا :

وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ، يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، وَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ(شہادت کے بعد) چارپائی پر رکھ دیئے گئے، جنازہ اٹھانے سے پہلے لوگ چاروں طرف کھڑے تھے اور آپ کے لیے دعا واستغفار کر رہے تھے۔ میں بھی ان میں شامل تھا، اچانک سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے کندھے سے پکڑب کر اپنی طرف متوجہ کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا: آپ کے بعد بھلا کون ہے؟ جس کی مثل عمل کرکے اللہ کے دربار میں حاضری مجھے محبوب رہی ہو؟ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے ساتھیوں(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ جگہ دے گا کیونکہ میں اکثر نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  سے سنا کرتا تھا کہ میں ، ابو بکر اور عمر گئے، میں،ابو بکر اور عمر داخل ہوئے ، میں ابو بکر اور عمر نکلے۔( صحیح البخاری: 3685، صحیح مسلم: 2389)
مذکورہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے راضی تھے، اور اُن کے لیے دعائے رحمت کی اور سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو خاتم النبیین  صلی اللہ علیہ و سلم  کے سفر وحضر کا ساتھی ظاہر کرتے رہے۔
امام باقر رحمہ اللہ اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو ہدایت کا امام کہا اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی قرابت داری کا اظہار فرمایا:
سالم بن ابی حفصہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ وَجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَقَالَا لِي: يَا سَالِمُ تَوَلَّاهُمَا وَابْرَأْ مِنْ عَدُوِّهِمَا فَإِنهمَا كَانَا إِمَامَيْ هُدًى، قَالَ سَالِمُ: وَقَالَ لِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ: يَا سَالِمُ أَيَسُبُّ الرَّجُلُ جَدَّهُ؟ أَبُو بَكْرٍ جَدٍّي لَا نَالَتْنِي شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَتَوَلَّاهمَا وَأَبْرأُ مِنْ عَدُوِّهِمَا

’’ میں نے ابو جعفر محمد بن علی(امام باقررحمہ اللہ) اور جعفر بن محمد(امام صادق رحمہ اللہ) سے سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: سالم! ان سے محبت رکھیے اور ان کے دشمنوں سے اظہار برأت کیجیے، کیونکہ وہ دونوں ہدایت کے امام تھے، سالم کہتے ہیں: مجھے جعفر بن محمد صادق رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا: سالم! بھلا بندہ اپنےدادا کو بھی گالی دے سکتاہے؟ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے دادا ہیں، مجھے قیامت کے دن محمد  صلی اللہ علیہ و سلم  کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں ان (سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) سے محبت نہ رکھوں اور ان کے دشمنوں سے اظہار برأت نہ کروں۔‘‘ ( الاعتقاد للبیھقی:506 وسندہ حسن)
خلفاء ثلاثہ کے اپنے دور میں اہل بیت سے عمدہ مراسم تھے۔ جس کے تذکرے سینہ بہ سینہ اُن کی اولاد میں منتقل ہوئے یہی وجہ ہے کہ چوتھی پانچویں نسل میں اہل بیت کی نامور شخصیات نے اُن کو خراج تحسین پیش کیا۔
امير المؤمنين سيدنا علي المرتضيٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا جو اصل حقائق کا ترجمان اور ایمانی اخوت کی حلاوت سے لبریز ہے۔ اس میں لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھا:

أیہا الناس أخبرونی من أشجع الناس؟

’’لوگو! مجھے بتاؤ کہ سب سے بڑھ کر شجاع اور دلیر کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اے امیر المؤمنین! آپ ہی شجاع ترین ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جہاں تک میرا معاملہ ہے(اس میں اتنی حقیقت ہے کہ) میرا جس کسی دشمن سے مقابلہ ہوا میں نے حساب برابر کر دیا لیکن تم مجھے أشجع الناس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کون ہے؟
حاضرین نے کہا: پھر ہم نے نہیں جانتے، لہٰذا آپ ہی بتائیں کہ وہ کون ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ۔
اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول  صلی اللہ علیہ و سلم  کو کفار قریش کی گرفت سے چھڑانے کی پاداش میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے المناک انجام اور آپ کے صبر واستقلال کا واقعہ سنایا اور پھر اتنا روئے کہ آپ کی چادر تر ہونے لگی۔ پھر آپ نے کوفی سامعین سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ۔
’’مؤمن آل فرعون بہتر تھا…… یا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ؟
حاضرین کوئی جواب نہ دے سکے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جواب کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ گھڑی( جس میں انہوں نے رسول کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کو کفار قریش سے چھڑانے کی پاداش میں خوفناک مارکھائی تھی) آلِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہے، کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپائے پھرتا تھا اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کا اعلان کر رہا تھا۔ ( الکنز، رقم:35690)
جو خود نڈر اور دلیر ہو وہ دوسروں کی دلیری وشجاعت کا اعتراف کرتاہے جس کا دل سیاہ اور دماغ میں تعصب ہو اس فسادی کو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتاہے اور من گھڑت قصے تراش کر امت میں نفرت کی خلیج حائل کرتے ہیں ورنہ حقائق کی دنیا میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ وعلی رضی اللہ عنہ شیروشکر تھے۔
سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا باپ کی جدائی کے غم سے نڈھال ہوگئیں۔ بیعت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے انعقاد کے چھ ماہ بعد اُن کا انتقال ہوا چونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا اُن کی وفات کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کیئےجن سے اولاد ہوئیآپ رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے کا نام ابو بکر اور دوسرے کا نام عثمان رکھا۔ سیدنا حسن نے بھی اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے دونوں بھائی ابو بکر وعثمان اور بھتیجا ابو بکر بن حسن رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید ہوئے جن کی شجاعت وشہادت کا شیخ محمد حسین النجفی نے سعادۃ الدارین فی مقتل الحسین (ص 446 تا 449) نے اعتراف کیا ہے :
قابل غور پہلو ہے کہ بزدل آدمی بھی اپنے بیٹوں کے نام دشمنوں کے نام پر نہیں رکھتا چہ جائیکہ حیدر کرار رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا، آپ کے بقول جس نے خلافت کی حق تلفی کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغ فدک سے محروم کیا ہو ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ ابو بکر نام رکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا ابو بکر وعلی کے مابین کسی قسم کی رنجش نہ تھی بلکہ وہ رحماء بینھم کی عمدہ تعبیر تھے۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا نکاح ہوا اُن کے ہاں بیٹا ہوا انہوں نے اس کا نام ابو بکر رکھا، کسی نے مجبور کیا ہو، تاریخ میں مذکور نہیں۔ دراصل سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  اور آپ کے قرابتداروں سے محبت تھی۔ سیدنا حسین وسیدنا حسین کو کندھوں پر بٹھایا کرتے تھے اور اپنے دور خلافت میں بھی اُن سے پیار کرتے تھے چنانچہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وفات کے بعد بیٹے کا نام ابو بکر رکھ کر نانا جان کی یار غار سے الفت ومحبت کو تازہ کیا۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کا سفر وحضر میں ساتھ دیا جس کا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں برملا اعتراف کیا اسی طرح ابو بکر بن علی وعثمان بن علی اور ابو بکر بن حسن رحمہم اللہ تعالیٰ نے کربلا کے میدان میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ باعث افسوس ہے کہ مجالس میں ان کی شہادت کا تذکرہ نہیں کیا جاتا کہ کہیں سامعین غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر نہ پہنچ جائیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اہل بیت سے اور اہل بیت کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے الفت ومحبت تھی۔ اس بنا پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے محبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام واہل بیت عظام سے والہانہ عقیدت کا اظہار اہل سنت کا منہج ہے۔
الٰہی ! جس طرح سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ وسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مابین الفت ویگانگت تھی اسی طرح امت مسلمہ کو بامی اخوت ومحبت کے رشتہ میں پیوست کردے تاکہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر طاغوتی قوتوں کو بحر احمر میں غرق کر دیں۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے