مسلمان اسلام کا دفاع کسی تعصب کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ اس حقیقت کی بنا پر کہ یہ دین رب رحیم و کریم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اسی لئے یہ دین مسلمانوں کے نزدیک ان کی جان و مال اور ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے، مسلمان اس کے لئے سب کچھ قربان تو کرسکتے ہیں مگر اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ اسلام کی حقانیت یہ ہے کہ اس نے خوں ریزی کو سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جنگ میں خون ریزی کی اگرچہ اجازت دی ہے۔ مگر ترغیب یہی دلائی ہے کہ خون ریزی کے بغیر مسئلہ حل ہو جائے تو خوں ریزی سے گریز کیا جائے۔ سیدنا مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ جس میں وہ ایک سریہ پر روانہ ہوئے، دشمن خوف کے مارےقلعہ بند ہوئے تو انہوں نے اپنے گھوڑےپر سوار ہوکر قلعے کی فصیل سے انہیں کلمہ شہادت پیش کیا، جسے قلعہ والوں نے فوراً قبول کرلیا، سیدنا مسلم رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے مالِ غنیمت ہاتھ سے جانے کاشکوہ کیا اور رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ ﷺ بہت زیادہ خوش ہوئے اور اس عمل کی بڑی تحسین فرمائی۔اسلام در حقیقت عدل و انصاف،حق و صدات کا درس دیتا ہے۔
سیدنا عمر بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسلام کی کتنی خوشنما تعریف کی ہے! فرماتے ہیں کہ ’’اسلام ایک ناقابلِ شکست فصیل ہے اور مضبوط دروازہ ! اسلام کی فصیل اس کا عدل و انصاف ہے اور اس کا دروازہ حق و صداقت ! اگر یہ فصیل گرجائے اور یہ دروازہ ٹوٹ جائے تو اسلام مغلوب ہوجائے گا۔ جب تک سلطان مضبوط ہوگا اسلام غالب رہے گا اور سلطان کی مضبوطی تلوار اور کوڑے کی بدولت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مضبوطی کا راز حق و انصاف اور عدل و مساوات میں پنہاں ہے۔ ‘‘
اسلام نے انسانوں کی زندگیوں کو ہر لحاظ سے پاکیزہ بنانے کا اہتمام کیا۔ انسان کی جسمانی اور مادّی ضروریات کی فراہمی اور اخلاقی و روحانی بالیدگی کی فکر اسلام کا تقاضا ہے۔ آج دنیا کی مہذب حکومتیں بہت سے ادارے قائم کرکے بہبودی انسانیت کا ڈھنڈورہ تو خوب پیٹتی ہیںمگر ان اداروں کی کارکردگی سے کوئی مطمئن نہیں ہے۔ اسلام نے معاشرے کی تنظیم و تربیت کا ایسا نظام قائم کیا تھا جس میں ہر شخص نیکی کا علمبردار اور برائی کا دشمن بن گیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے معاشرے کے ہر فرد کو مکلف ٹھہرایا ہے کہ برائی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے کی بجائے برائی کا سد باب کرنیکی فکر کرے۔ اسلام دین حق ہے جو اپنے پیروکاروں کی نشو ونما اور تعلیم و تربیت کے زرّیں اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی اسلام نے عمر رضی اللہ عنہ جیسا سپوت پیدا کیا۔زمانۂ جاہلیت میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی جوانمردی، عالی ہمتی، پرکشش شخصیت اور اوصاف حمیدہ کی وجہ سے پورے معاشرے میں نمایاں تھے۔ آپ پر رسول ﷺ کا یہ قول منطبق ہوتا ہے کہ
خِيَارُكُمْ فِی الْجاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقِهُوا (مسند احمد )
تم میں سے جو جاہلیت میں اگلی صفوں میں ہوتے ہیں وہ اسلام میں بھی اگلی صفوں میں ہوں گے بشرطیکہ اسلام کو سمجھ لیں۔ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو سمجھا تھا جیسے سمجھنے کا حق ہوتا ہے۔
عمر بن خطاب قریش کے سرداروں میں سے تھے آپ ان سرداروں کی طرح نہ تھے جو لہو و لعب اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتے اور نفسانی خواہشات کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ جوانی کا دور بھی آپ نے لایعنی کاموں میں نہیں گنوایا بلکہ آپ تو اعلی مقامات کے حصول میں کوشاں رہتےتھے۔آپ کی طبیعت گھٹیا کاموں پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔آپ بڑے حساس مزاج اور رقیق القلب انسان تھے ۔ جوں ہی آپ نے ہوش سنبھالا اور عملی زندگی میں داخل ہوئے آپ کے یہ اوصاف ہر شخص کو نظر آنے لگے۔قریش کے اکثر لوگ تجارت پیشہ تھے۔ عمر بھی تاجر تھے۔ عمر نے نہایت سوچ سمجھ کر تجارت کے میدان میں قدم رکھا تھا ۔ آپ کپڑے کے تاجر تھے خصوصاََ حریر و ریشم کا کاروبار کرتے تھے۔تجارت میں آپ کے شریک کار کعب بن عدی التنوخی تھے۔آدمی کے کاروبار سے بھی اس کی افتادِ طبع کا کسی حد تک پتہ چلتا ہے۔ سردار عمر کا ریشمی پارچہ جات کا کاروبار ان کی نفاست ِطبیعت کی دلیل ہے۔ ریشم ( حریر ) تمام پارچہ جات میں سب سے زیادہ نفیس، خوب صورت اور قیمتی کپڑا ہوتا ہے۔ اِہل جنت کا لباس بھی اللہ نے حریر کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے :
وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۰۰۲۳
( اور ان کا (اہل جنت ) لباس جنت میں حریر کا ہوگا)۔( الحج 23)
اسلام قبول کرنے سے قبل عمر بہت دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام کے بعد بھی ان کی یہ شان قائم رہی مگر قبول اسلام نے ان کے اندر انکساری و سادگی اور بھی بڑھ گئی ۔ آپ مردانگی اور رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ہجرت کا سفر بھی چھپ کر نہیں کیا بلکہ روانگی سے قبل اس کا اعلان فرمایا۔ آپ مکہ کی ایک بلند پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے سرداروں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’’ معاندینِ اسلام جان لو۔ عمر مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کر رہا ہے۔ جو اپنی ماں کو رلانا چاہتا ہے‘ بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے اور بچوں کو یتیم چھوڑنا چاہتا ہے وہ اس وادی میں مجھ سے مڈبھیڑ کر لے۔‘‘ کسی جواں مرد کو یہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
خشیت الٰہی سے دل آباد ہو جائے تو پھر بندہ مومن تکلیف دہ مادی وحشت سے نجات پاکر پاکیزہ روحانی سکون سے متمتع ہو سکتا ہے۔ روح و جسم کا تزکیہ ہو جائے تو بندہ راضی برضائے الٰہی ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس سے راضی اور خوش ہوجاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوسروں ہی کے معاملہ میں سخت گیر اور بے لاگ نہ تھے بلکہ آپ کا کمال یہ ہے کہ اپنی ذات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ اگر دل میں کبھی کوئی غیر پسندیدہ خیال آتا تو اسے سختی سے جھٹک دیتے ،اپنے آپ کو ڈانٹ پلاتے اور اپنا محاسبہ خود کرتے ۔
کتبِ احادیث میںخلیفہ ثانی سے متعلق بے شمار احادیث موجود ہیں، قرآن مجید نے ہی سابقون الاولون کو رضائے الہٰی کی سند دیدی ہے، پھر جن کی تربیت خود مربی اعظم ﷺ فرمائے کیا اس کی تربیت میں کوئی کمی کوتاہی رہ سکتی ہے؟ جسے ہر وقت اپنے ایمان کی فکر ہو، کیا وہ شخص نعوذ باللہ بے ایمان ہوسکتا ہے؟ جس نےآدھی دنیاکی خلافت ملنے کے بعد بھی اپنی ذات پر کچھ خرچ نہیں کیا بلکہ ملت کی فکر میں دن رات مگن رہے، جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا تھا کیا وہ خود باطل کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ جس کی دنیا کے غیر مسلم مورخین بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے حتیٰ کہ مائیکل ایچ ھارٹ نےاپنی کتاب’’ تاریخ میں با اثر ترین اور محبوب ترین شخصیات‘‘ میں 52 نمبر پر اسی خلیفہ ثانی کا ذکر کیا ہے۔چشم فلک نے اس عظیم خلیفہ کے کئی کارنامے دیکھے بعض روایات میں فلسطین کے فتح کا ایک ایسا عجیب منظر پیش کیا گیا ہے جسے پڑھ کر عدل و انصاف کے اس عظیم پیکر کی شخصیت کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ روایات کے مطابق سیدنا ابو عبیدہ اورسیدنا خالدبن ولید بھی ان کے ساتھ تھے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اونٹ پر سوار تھے ، ایک غلام آپ کا ہم رکاب تھا ، دونوں باری بار ی اونٹ پر سوار ہوتے۔ جب وہ بیت المقدس پہنچے تو غلام سوار تھا اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ مہار پکڑے ہوئے تھے۔‘‘
سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ روزانہ صبح سویرے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے قادسیہ کے قاصد کی راہ تکتے ایک روز باہر نکلے تھے کہ ایک اونٹ سوار آتا دیکھا، پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ کہا میرا نام سعدبن عمیلہ فزاری ہے، جنگ قادسیہ کی فتح کی خوشخبری لایا ہوں، امیر المؤمنین نے اس کے اونٹ کی رُکاب پکڑلی اور ساتھ چلتے ہوئےان سے جنگ کے حالات سننا شروع کردیے،چلتے چلتے مدینہ میں داخل ہوئے، تو سعد بن عمیلہ کو معلوم ہوا کہ یہی خلیفۃ الرسول ہےتو گھبرا گئے، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، بلکہ تم حالات سناتے جاؤ مسجد نبوی ﷺ میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور فتح کی خوشخبری سنائی۔ اس وقت فرمایا کہ امر خلافت میری ذمہ داری ہے، اگر میں اسے اس طرح انجام دوں کہ آپ لوگوں کو گھروں میں اطمینان نصیب ہو تو میری یہ خوش قسمتی ہے۔
انہی کی دورِ خلافت میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مجاہدین دریائے دجلہ کو بغیر پل کے عبور کرکےبحرِ ظلمات میں دوڑادئیے گھوڑے ہم نے کے مصداق ٹھہرے،کسریٰ کا سفید محل قصر ابیض جب فتح ہوا تو اس محل سے 30 کھرب دینار کا خزانہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سراقہ بن مالک کو بلاکر کسریٰ کا لباس، تاج اور کنگن سونپے، جس سے رسول اکرم ﷺ کی پیشین گوئی بھی سچ ثابت ہوئی۔
صحیح ابن حبان اور طبرانی اوسط میں صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کے کی دعا ان الفاظ میں مانگتے تھے:
اللھم أعز الإسلام بعمر بن خطاب
اے اللہ ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت بخش !،اور رسولِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لو کان نبیا بعدی، لکان عمر
یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوناہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
سیدناابوبکر، سیدناعمررضی اللہ عنہما کے لئے خصوصا فرمایا:
الحمد للہ الذی أیدنی بکما
(حمد و تعریف ہے اس اللہ کے لئے، جس نے آپ دونوں سے میری تائید فرمائی) اے عمر ! جس راستے پر تم جا رہے ہوتے ہو، اگر شیطان اس راستے پر آرہا ہوتو وہ تمہارا خود سے راستہ چھوڑ جاتا ہے۔
وہ کونسی خوبی ہے جس کی نسبت رسول اکرم ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں کی ؟ اور کون سا شرف ہے جو اس عظیم انسان ابن خطاب کے حصے میں نہیں آیا؟
بعض مقامات ایسے بھی ہیں جن میں رب کریم نے خود عمر کی بات کی تائید میں قرآن مجید کی آیات نازل فرماکر ان کی شان میں مزید نکھار پیدا کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے: تین مقامات پر میری بات کی رب نے خود تائید فرمادی۔
1مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا، اس پر آیت:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى نازل ہوئی۔
2 ازواج مطہرات کو پردے کا مشورہ دیا جس پر آیت حجاب نازل ہوئی۔
3جب ازواج مطہرات نے رسول اکرم ﷺ سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی تو میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے تمہارا تعلق ختم کرکے ان کے لئے متبادل ازواج لے آئیں، چنانچہ اسی مفہوم کی آیت نازل ہوئی۔(بخاری ، مسلم)
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے فوراً بعد مسلمانوں میں جس قسم کے اختلافات پھوٹنے کا خطرہ تھا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جو جو فتنے سر اٹھا رہے تھے ان کی بیخ کنی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے سے روکنے میں اگر کسی کا مرکزی کردار تھا تو وہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی تھے،جس قسم کا سلوک خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنابِ عمر نے کیا تھا لازمی تھا کہ یہود جن کا اصل چہرہ قرآن نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے، وہ اپنی ازلی خباثت کی طرف لوٹ آئیں اور انہوں نے عمر فاروق کی عظیم ہستی کو ایک متنازع بنانے کی کوشش کی لیکن
نورِ خدا ہے، کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
حقیقت تو یہی ہے کہ اہل بیت و خلفائے راشدین آپس میں گہرے مراسم و تعلقات رکھتے تھے،جو گستاخیاں ان کے متعلق تاریخ کا حصہ بناکرپیش کی جاتی ہیں اگر واقعتاً یہ واقعات درست ہوتے تو اہل بیت اور خلفائے راشدین کے مابین تعلقات کی ناگوار فضا بھی مسلمانوں کو پتہ چل جاتی، یہ کیا کہ ایک ہی طرح کی تاریخ بار بار دھرائی جاتی ہے، لیکن حقیقت کو نہیں دیکھا جاتا، سچ تو یہ ہے کہ ان کے آپس میں گہرے مراسم تھے، حتیٰ کہ ان کےآپس میں رشتہ بھی ہوئے، ان کی اولاد بھی آپس میں گہرے مراسم رکھتی تھی، ان کی بھی آپس میں ایک دوسرے خاندان میں رشتے ہوئے، اہل بیت کی خاندان میں کئی عمر و ابوبکر و عثمان نام ملتے ہیں، زندہ محبت کی یہ مثالیں، جھوٹی کہانیاں گڑھنے والوں کو کیوںنظر نہیں آتیں؟؟
مان اسلام کا دفاع کسی تعصب کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ اس حقیقت کی بنا پر کہ یہ دین رب رحیم و کریم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اسی لئے یہ دین مسلمانوں کے نزدیک ان کی جان و مال اور ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے، مسلمان اس کے لئے سب کچھ قربان تو کرسکتے ہیں مگر اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ اسلام کی حقانیت یہ ہے کہ اس نے خوں ریزی کو سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جنگ میں خون ریزی کی اگرچہ اجازت دی ہے۔ مگر ترغیب یہی دلائی ہے کہ خون ریزی کے بغیر مسئلہ حل ہو جائے تو خوں ریزی سے گریز کیا جائے۔ سیدنا مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ جس میں وہ ایک سریہ پر روانہ ہوئے، دشمن خوف کے مارےقلعہ بند ہوئے تو انہوں نے اپنے گھوڑےپر سوار ہوکر قلعے کی فصیل سے انہیں کلمہ شہادت پیش کیا، جسے قلعہ والوں نے فوراً قبول کرلیا، سیدنا مسلم رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے مالِ غنیمت ہاتھ سے جانے کاشکوہ کیا اور رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ ﷺ بہت زیادہ خوش ہوئے اور اس عمل کی بڑی تحسین فرمائی۔اسلام در حقیقت عدل و انصاف،حق و صدات کا درس دیتا ہے۔
سیدنا عمر بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسلام کی کتنی خوشنما تعریف کی ہے! فرماتے ہیں کہ ’’اسلام ایک ناقابلِ شکست فصیل ہے اور مضبوط دروازہ ! اسلام کی فصیل اس کا عدل و انصاف ہے اور اس کا دروازہ حق و صداقت ! اگر یہ فصیل گرجائے اور یہ دروازہ ٹوٹ جائے تو اسلام مغلوب ہوجائے گا۔ جب تک سلطان مضبوط ہوگا اسلام غالب رہے گا اور سلطان کی مضبوطی تلوار اور کوڑے کی بدولت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مضبوطی کا راز حق و انصاف اور عدل و مساوات میں پنہاں ہے۔ ‘‘
اسلام نے انسانوں کی زندگیوں کو ہر لحاظ سے پاکیزہ بنانے کا اہتمام کیا۔ انسان کی جسمانی اور مادّی ضروریات کی فراہمی اور اخلاقی و روحانی بالیدگی کی فکر اسلام کا تقاضا ہے۔ آج دنیا کی مہذب حکومتیں بہت سے ادارے قائم کرکے بہبودی انسانیت کا ڈھنڈورہ تو خوب پیٹتی ہیںمگر ان اداروں کی کارکردگی سے کوئی مطمئن نہیں ہے۔ اسلام نے معاشرے کی تنظیم و تربیت کا ایسا نظام قائم کیا تھا جس میں ہر شخص نیکی کا علمبردار اور برائی کا دشمن بن گیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے معاشرے کے ہر فرد کو مکلف ٹھہرایا ہے کہ برائی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے کی بجائے برائی کا سد باب کرنیکی فکر کرے۔ اسلام دین حق ہے جو اپنے پیروکاروں کی نشو ونما اور تعلیم و تربیت کے زرّیں اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی اسلام نے عمر رضی اللہ عنہ جیسا سپوت پیدا کیا۔زمانۂ جاہلیت میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی جوانمردی، عالی ہمتی، پرکشش شخصیت اور اوصاف حمیدہ کی وجہ سے پورے معاشرے میں نمایاں تھے۔ آپ پر رسول ﷺ کا یہ قول منطبق ہوتا ہے کہ
خِيَارُكُمْ فِی الْجاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقِهُوا (مسند احمد )
تم میں سے جو جاہلیت میں اگلی صفوں میں ہوتے ہیں وہ اسلام میں بھی اگلی صفوں میں ہوں گے بشرطیکہ اسلام کو سمجھ لیں۔ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو سمجھا تھا جیسے سمجھنے کا حق ہوتا ہے۔
عمر بن خطاب قریش کے سرداروں میں سے تھے آپ ان سرداروں کی طرح نہ تھے جو لہو و لعب اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتے اور نفسانی خواہشات کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ جوانی کا دور بھی آپ نے لایعنی کاموں میں نہیں گنوایا بلکہ آپ تو اعلی مقامات کے حصول میں کوشاں رہتےتھے۔آپ کی طبیعت گھٹیا کاموں پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔آپ بڑے حساس مزاج اور رقیق القلب انسان تھے ۔ جوں ہی آپ نے ہوش سنبھالا اور عملی زندگی میں داخل ہوئے آپ کے یہ اوصاف ہر شخص کو نظر آنے لگے۔قریش کے اکثر لوگ تجارت پیشہ تھے۔ عمر بھی تاجر تھے۔ عمر نے نہایت سوچ سمجھ کر تجارت کے میدان میں قدم رکھا تھا ۔ آپ کپڑے کے تاجر تھے خصوصاََ حریر و ریشم کا کاروبار کرتے تھے۔تجارت میں آپ کے شریک کار کعب بن عدی التنوخی تھے۔آدمی کے کاروبار سے بھی اس کی افتادِ طبع کا کسی حد تک پتہ چلتا ہے۔ سردار عمر کا ریشمی پارچہ جات کا کاروبار ان کی نفاست ِطبیعت کی دلیل ہے۔ ریشم ( حریر ) تمام پارچہ جات میں سب سے زیادہ نفیس، خوب صورت اور قیمتی کپڑا ہوتا ہے۔ اِہل جنت کا لباس بھی اللہ نے حریر کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے :
وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۰۰۲۳
( اور ان کا (اہل جنت ) لباس جنت میں حریر کا ہوگا)۔( الحج 23)
اسلام قبول کرنے سے قبل عمر بہت دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام کے بعد بھی ان کی یہ شان قائم رہی مگر قبول اسلام نے ان کے اندر انکساری و سادگی اور بھی بڑھ گئی ۔ آپ مردانگی اور رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ہجرت کا سفر بھی چھپ کر نہیں کیا بلکہ روانگی سے قبل اس کا اعلان فرمایا۔ آپ مکہ کی ایک بلند پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے سرداروں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’’ معاندینِ اسلام جان لو۔ عمر مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کر رہا ہے۔ جو اپنی ماں کو رلانا چاہتا ہے‘ بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے اور بچوں کو یتیم چھوڑنا چاہتا ہے وہ اس وادی میں مجھ سے مڈبھیڑ کر لے۔‘‘ کسی جواں مرد کو یہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
خشیت الٰہی سے دل آباد ہو جائے تو پھر بندہ مومن تکلیف دہ مادی وحشت سے نجات پاکر پاکیزہ روحانی سکون سے متمتع ہو سکتا ہے۔ روح و جسم کا تزکیہ ہو جائے تو بندہ راضی برضائے الٰہی ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس سے راضی اور خوش ہوجاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوسروں ہی کے معاملہ میں سخت گیر اور بے لاگ نہ تھے بلکہ آپ کا کمال یہ ہے کہ اپنی ذات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ اگر دل میں کبھی کوئی غیر پسندیدہ خیال آتا تو اسے سختی سے جھٹک دیتے ،اپنے آپ کو ڈانٹ پلاتے اور اپنا محاسبہ خود کرتے ۔
کتبِ احادیث میںخلیفہ ثانی سے متعلق بے شمار احادیث موجود ہیں، قرآن مجید نے ہی سابقون الاولون کو رضائے الہٰی کی سند دیدی ہے، پھر جن کی تربیت خود مربی اعظم ﷺ فرمائے کیا اس کی تربیت میں کوئی کمی کوتاہی رہ سکتی ہے؟ جسے ہر وقت اپنے ایمان کی فکر ہو، کیا وہ شخص نعوذ باللہ بے ایمان ہوسکتا ہے؟ جس نےآدھی دنیاکی خلافت ملنے کے بعد بھی اپنی ذات پر کچھ خرچ نہیں کیا بلکہ ملت کی فکر میں دن رات مگن رہے، جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا تھا کیا وہ خود باطل کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ جس کی دنیا کے غیر مسلم مورخین بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے حتیٰ کہ مائیکل ایچ ھارٹ نےاپنی کتاب’’ تاریخ میں با اثر ترین اور محبوب ترین شخصیات‘‘ میں 52 نمبر پر اسی خلیفہ ثانی کا ذکر کیا ہے۔چشم فلک نے اس عظیم خلیفہ کے کئی کارنامے دیکھے بعض روایات میں فلسطین کے فتح کا ایک ایسا عجیب منظر پیش کیا گیا ہے جسے پڑھ کر عدل و انصاف کے اس عظیم پیکر کی شخصیت کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ روایات کے مطابق سیدنا ابو عبیدہ اورسیدنا خالدبن ولید بھی ان کے ساتھ تھے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اونٹ پر سوار تھے ، ایک غلام آپ کا ہم رکاب تھا ، دونوں باری بار ی اونٹ پر سوار ہوتے۔ جب وہ بیت المقدس پہنچے تو غلام سوار تھا اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ مہار پکڑے ہوئے تھے۔‘‘
سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ روزانہ صبح سویرے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے قادسیہ کے قاصد کی راہ تکتے ایک روز باہر نکلے تھے کہ ایک اونٹ سوار آتا دیکھا، پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ کہا میرا نام سعدبن عمیلہ فزاری ہے، جنگ قادسیہ کی فتح کی خوشخبری لایا ہوں، امیر المؤمنین نے اس کے اونٹ کی رُکاب پکڑلی اور ساتھ چلتے ہوئےان سے جنگ کے حالات سننا شروع کردیے،چلتے چلتے مدینہ میں داخل ہوئے، تو سعد بن عمیلہ کو معلوم ہوا کہ یہی خلیفۃ الرسول ہےتو گھبرا گئے، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، بلکہ تم حالات سناتے جاؤ مسجد نبوی ﷺ میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور فتح کی خوشخبری سنائی۔ اس وقت فرمایا کہ امر خلافت میری ذمہ داری ہے، اگر میں اسے اس طرح انجام دوں کہ آپ لوگوں کو گھروں میں اطمینان نصیب ہو تو میری یہ خوش قسمتی ہے۔
انہی کی دورِ خلافت میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مجاہدین دریائے دجلہ کو بغیر پل کے عبور کرکےبحرِ ظلمات میں دوڑادئیے گھوڑے ہم نے کے مصداق ٹھہرے،کسریٰ کا سفید محل قصر ابیض جب فتح ہوا تو اس محل سے 30 کھرب دینار کا خزانہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سراقہ بن مالک کو بلاکر کسریٰ کا لباس، تاج اور کنگن سونپے، جس سے رسول اکرم ﷺ کی پیشین گوئی بھی سچ ثابت ہوئی۔
صحیح ابن حبان اور طبرانی اوسط میں صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کے کی دعا ان الفاظ میں مانگتے تھے:
اللھم أعز الإسلام بعمر بن خطاب
اے اللہ ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت بخش !،اور رسولِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لو کان نبیا بعدی، لکان عمر
یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوناہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
سیدناابوبکر، سیدناعمررضی اللہ عنہما کے لئے خصوصا فرمایا:
الحمد للہ الذی أیدنی بکما
(حمد و تعریف ہے اس اللہ کے لئے، جس نے آپ دونوں سے میری تائید فرمائی) اے عمر ! جس راستے پر تم جا رہے ہوتے ہو، اگر شیطان اس راستے پر آرہا ہوتو وہ تمہارا خود سے راستہ چھوڑ جاتا ہے۔
وہ کونسی خوبی ہے جس کی نسبت رسول اکرم ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں کی ؟ اور کون سا شرف ہے جو اس عظیم انسان ابن خطاب کے حصے میں نہیں آیا؟
بعض مقامات ایسے بھی ہیں جن میں رب کریم نے خود عمر کی بات کی تائید میں قرآن مجید کی آیات نازل فرماکر ان کی شان میں مزید نکھار پیدا کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے: تین مقامات پر میری بات کی رب نے خود تائید فرمادی۔
1مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا، اس پر آیت:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى نازل ہوئی۔
2 ازواج مطہرات کو پردے کا مشورہ دیا جس پر آیت حجاب نازل ہوئی۔
3جب ازواج مطہرات نے رسول اکرم ﷺ سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی تو میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے تمہارا تعلق ختم کرکے ان کے لئے متبادل ازواج لے آئیں، چنانچہ اسی مفہوم کی آیت نازل ہوئی۔(بخاری ، مسلم)
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے فوراً بعد مسلمانوں میں جس قسم کے اختلافات پھوٹنے کا خطرہ تھا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جو جو فتنے سر اٹھا رہے تھے ان کی بیخ کنی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے سے روکنے میں اگر کسی کا مرکزی کردار تھا تو وہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی تھے،جس قسم کا سلوک خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنابِ عمر نے کیا تھا لازمی تھا کہ یہود جن کا اصل چہرہ قرآن نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے، وہ اپنی ازلی خباثت کی طرف لوٹ آئیں اور انہوں نے عمر فاروق کی عظیم ہستی کو ایک متنازع بنانے کی کوشش کی لیکن
نورِ خدا ہے، کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
حقیقت تو یہی ہے کہ اہل بیت و خلفائے راشدین آپس میں گہرے مراسم و تعلقات رکھتے تھے،جو گستاخیاں ان کے متعلق تاریخ کا حصہ بناکرپیش کی جاتی ہیں اگر واقعتاً یہ واقعات درست ہوتے تو اہل بیت اور خلفائے راشدین کے مابین تعلقات کی ناگوار فضا بھی مسلمانوں کو پتہ چل جاتی، یہ کیا کہ ایک ہی طرح کی تاریخ بار بار دھرائی جاتی ہے، لیکن حقیقت کو نہیں دیکھا جاتا، سچ تو یہ ہے کہ ان کے آپس میں گہرے مراسم تھے، حتیٰ کہ ان کےآپس میں رشتہ بھی ہوئے، ان کی اولاد بھی آپس میں گہرے مراسم رکھتی تھی، ان کی بھی آپس میں ایک دوسرے خاندان میں رشتے ہوئے، اہل بیت کی خاندان میں کئی عمر و ابوبکر و عثمان نام ملتے ہیں، زندہ محبت کی یہ مثالیں، جھوٹی کہانیاں گڑھنے والوں کو کیوںنظر نہیں آتیں؟؟
مان اسلام کا دفاع کسی تعصب کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ اس حقیقت کی بنا پر کہ یہ دین رب رحیم و کریم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اسی لئے یہ دین مسلمانوں کے نزدیک ان کی جان و مال اور ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے، مسلمان اس کے لئے سب کچھ قربان تو کرسکتے ہیں مگر اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ اسلام کی حقانیت یہ ہے کہ اس نے خوں ریزی کو سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جنگ میں خون ریزی کی اگرچہ اجازت دی ہے۔ مگر ترغیب یہی دلائی ہے کہ خون ریزی کے بغیر مسئلہ حل ہو جائے تو خوں ریزی سے گریز کیا جائے۔ سیدنا مسلم بن حارث رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ جس میں وہ ایک سریہ پر روانہ ہوئے، دشمن خوف کے مارےقلعہ بند ہوئے تو انہوں نے اپنے گھوڑےپر سوار ہوکر قلعے کی فصیل سے انہیں کلمہ شہادت پیش کیا، جسے قلعہ والوں نے فوراً قبول کرلیا، سیدنا مسلم رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے مالِ غنیمت ہاتھ سے جانے کاشکوہ کیا اور رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ ﷺ بہت زیادہ خوش ہوئے اور اس عمل کی بڑی تحسین فرمائی۔اسلام در حقیقت عدل و انصاف،حق و صدات کا درس دیتا ہے۔
سیدنا عمر بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسلام کی کتنی خوشنما تعریف کی ہے! فرماتے ہیں کہ ’’اسلام ایک ناقابلِ شکست فصیل ہے اور مضبوط دروازہ ! اسلام کی فصیل اس کا عدل و انصاف ہے اور اس کا دروازہ حق و صداقت ! اگر یہ فصیل گرجائے اور یہ دروازہ ٹوٹ جائے تو اسلام مغلوب ہوجائے گا۔ جب تک سلطان مضبوط ہوگا اسلام غالب رہے گا اور سلطان کی مضبوطی تلوار اور کوڑے کی بدولت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مضبوطی کا راز حق و انصاف اور عدل و مساوات میں پنہاں ہے۔ ‘‘
اسلام نے انسانوں کی زندگیوں کو ہر لحاظ سے پاکیزہ بنانے کا اہتمام کیا۔ انسان کی جسمانی اور مادّی ضروریات کی فراہمی اور اخلاقی و روحانی بالیدگی کی فکر اسلام کا تقاضا ہے۔ آج دنیا کی مہذب حکومتیں بہت سے ادارے قائم کرکے بہبودی انسانیت کا ڈھنڈورہ تو خوب پیٹتی ہیںمگر ان اداروں کی کارکردگی سے کوئی مطمئن نہیں ہے۔ اسلام نے معاشرے کی تنظیم و تربیت کا ایسا نظام قائم کیا تھا جس میں ہر شخص نیکی کا علمبردار اور برائی کا دشمن بن گیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے معاشرے کے ہر فرد کو مکلف ٹھہرایا ہے کہ برائی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے کی بجائے برائی کا سد باب کرنیکی فکر کرے۔ اسلام دین حق ہے جو اپنے پیروکاروں کی نشو ونما اور تعلیم و تربیت کے زرّیں اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی اسلام نے عمر رضی اللہ عنہ جیسا سپوت پیدا کیا۔زمانۂ جاہلیت میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی جوانمردی، عالی ہمتی، پرکشش شخصیت اور اوصاف حمیدہ کی وجہ سے پورے معاشرے میں نمایاں تھے۔ آپ پر رسول ﷺ کا یہ قول منطبق ہوتا ہے کہ
خِيَارُكُمْ فِی الْجاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقِهُوا (مسند احمد )
تم میں سے جو جاہلیت میں اگلی صفوں میں ہوتے ہیں وہ اسلام میں بھی اگلی صفوں میں ہوں گے بشرطیکہ اسلام کو سمجھ لیں۔ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو سمجھا تھا جیسے سمجھنے کا حق ہوتا ہے۔
عمر بن خطاب قریش کے سرداروں میں سے تھے آپ ان سرداروں کی طرح نہ تھے جو لہو و لعب اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتے اور نفسانی خواہشات کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ جوانی کا دور بھی آپ نے لایعنی کاموں میں نہیں گنوایا بلکہ آپ تو اعلی مقامات کے حصول میں کوشاں رہتےتھے۔آپ کی طبیعت گھٹیا کاموں پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔آپ بڑے حساس مزاج اور رقیق القلب انسان تھے ۔ جوں ہی آپ نے ہوش سنبھالا اور عملی زندگی میں داخل ہوئے آپ کے یہ اوصاف ہر شخص کو نظر آنے لگے۔قریش کے اکثر لوگ تجارت پیشہ تھے۔ عمر بھی تاجر تھے۔ عمر نے نہایت سوچ سمجھ کر تجارت کے میدان میں قدم رکھا تھا ۔ آپ کپڑے کے تاجر تھے خصوصاََ حریر و ریشم کا کاروبار کرتے تھے۔تجارت میں آپ کے شریک کار کعب بن عدی التنوخی تھے۔آدمی کے کاروبار سے بھی اس کی افتادِ طبع کا کسی حد تک پتہ چلتا ہے۔ سردار عمر کا ریشمی پارچہ جات کا کاروبار ان کی نفاست ِطبیعت کی دلیل ہے۔ ریشم ( حریر ) تمام پارچہ جات میں سب سے زیادہ نفیس، خوب صورت اور قیمتی کپڑا ہوتا ہے۔ اِہل جنت کا لباس بھی اللہ نے حریر کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے :
وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۰۰۲۳
( اور ان کا (اہل جنت ) لباس جنت میں حریر کا ہوگا)۔( الحج 23)
اسلام قبول کرنے سے قبل عمر بہت دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام کے بعد بھی ان کی یہ شان قائم رہی مگر قبول اسلام نے ان کے اندر انکساری و سادگی اور بھی بڑھ گئی ۔ آپ مردانگی اور رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ہجرت کا سفر بھی چھپ کر نہیں کیا بلکہ روانگی سے قبل اس کا اعلان فرمایا۔ آپ مکہ کی ایک بلند پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے سرداروں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ’’ معاندینِ اسلام جان لو۔ عمر مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کر رہا ہے۔ جو اپنی ماں کو رلانا چاہتا ہے‘ بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے اور بچوں کو یتیم چھوڑنا چاہتا ہے وہ اس وادی میں مجھ سے مڈبھیڑ کر لے۔‘‘ کسی جواں مرد کو یہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
خشیت الٰہی سے دل آباد ہو جائے تو پھر بندہ مومن تکلیف دہ مادی وحشت سے نجات پاکر پاکیزہ روحانی سکون سے متمتع ہو سکتا ہے۔ روح و جسم کا تزکیہ ہو جائے تو بندہ راضی برضائے الٰہی ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس سے راضی اور خوش ہوجاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دوسروں ہی کے معاملہ میں سخت گیر اور بے لاگ نہ تھے بلکہ آپ کا کمال یہ ہے کہ اپنی ذات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ اگر دل میں کبھی کوئی غیر پسندیدہ خیال آتا تو اسے سختی سے جھٹک دیتے ،اپنے آپ کو ڈانٹ پلاتے اور اپنا محاسبہ خود کرتے ۔
کتبِ احادیث میںخلیفہ ثانی سے متعلق بے شمار احادیث موجود ہیں، قرآن مجید نے ہی سابقون الاولون کو رضائے الہٰی کی سند دیدی ہے، پھر جن کی تربیت خود مربی اعظم ﷺ فرمائے کیا اس کی تربیت میں کوئی کمی کوتاہی رہ سکتی ہے؟ جسے ہر وقت اپنے ایمان کی فکر ہو، کیا وہ شخص نعوذ باللہ بے ایمان ہوسکتا ہے؟ جس نےآدھی دنیاکی خلافت ملنے کے بعد بھی اپنی ذات پر کچھ خرچ نہیں کیا بلکہ ملت کی فکر میں دن رات مگن رہے، جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا تھا کیا وہ خود باطل کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ جس کی دنیا کے غیر مسلم مورخین بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے حتیٰ کہ مائیکل ایچ ھارٹ نےاپنی کتاب’’ تاریخ میں با اثر ترین اور محبوب ترین شخصیات‘‘ میں 52 نمبر پر اسی خلیفہ ثانی کا ذکر کیا ہے۔چشم فلک نے اس عظیم خلیفہ کے کئی کارنامے دیکھے بعض روایات میں فلسطین کے فتح کا ایک ایسا عجیب منظر پیش کیا گیا ہے جسے پڑھ کر عدل و انصاف کے اس عظیم پیکر کی شخصیت کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ روایات کے مطابق سیدنا ابو عبیدہ اورسیدنا خالدبن ولید بھی ان کے ساتھ تھے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اونٹ پر سوار تھے ، ایک غلام آپ کا ہم رکاب تھا ، دونوں باری بار ی اونٹ پر سوار ہوتے۔ جب وہ بیت المقدس پہنچے تو غلام سوار تھا اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ مہار پکڑے ہوئے تھے۔‘‘
سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ روزانہ صبح سویرے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے قادسیہ کے قاصد کی راہ تکتے ایک روز باہر نکلے تھے کہ ایک اونٹ سوار آتا دیکھا، پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ کہا میرا نام سعدبن عمیلہ فزاری ہے، جنگ قادسیہ کی فتح کی خوشخبری لایا ہوں، امیر المؤمنین نے اس کے اونٹ کی رُکاب پکڑلی اور ساتھ چلتے ہوئےان سے جنگ کے حالات سننا شروع کردیے،چلتے چلتے مدینہ میں داخل ہوئے، تو سعد بن عمیلہ کو معلوم ہوا کہ یہی خلیفۃ الرسول ہےتو گھبرا گئے، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، بلکہ تم حالات سناتے جاؤ مسجد نبوی ﷺ میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور فتح کی خوشخبری سنائی۔ اس وقت فرمایا کہ امر خلافت میری ذمہ داری ہے، اگر میں اسے اس طرح انجام دوں کہ آپ لوگوں کو گھروں میں اطمینان نصیب ہو تو میری یہ خوش قسمتی ہے۔
انہی کی دورِ خلافت میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مجاہدین دریائے دجلہ کو بغیر پل کے عبور کرکےبحرِ ظلمات میں دوڑادئیے گھوڑے ہم نے کے مصداق ٹھہرے،کسریٰ کا سفید محل قصر ابیض جب فتح ہوا تو اس محل سے 30 کھرب دینار کا خزانہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سراقہ بن مالک کو بلاکر کسریٰ کا لباس، تاج اور کنگن سونپے، جس سے رسول اکرم ﷺ کی پیشین گوئی بھی سچ ثابت ہوئی۔
صحیح ابن حبان اور طبرانی اوسط میں صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کے کی دعا ان الفاظ میں مانگتے تھے:
اللھم أعز الإسلام بعمر بن خطاب
اے اللہ ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو عزت بخش !،اور رسولِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لو کان نبیا بعدی، لکان عمر
یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوناہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
سیدناابوبکر، سیدناعمررضی اللہ عنہما کے لئے خصوصا فرمایا:
الحمد للہ الذی أیدنی بکما
(حمد و تعریف ہے اس اللہ کے لئے، جس نے آپ دونوں سے میری تائید فرمائی) اے عمر ! جس راستے پر تم جا رہے ہوتے ہو، اگر شیطان اس راستے پر آرہا ہوتو وہ تمہارا خود سے راستہ چھوڑ جاتا ہے۔
وہ کونسی خوبی ہے جس کی نسبت رسول اکرم ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں کی ؟ اور کون سا شرف ہے جو اس عظیم انسان ابن خطاب کے حصے میں نہیں آیا؟
بعض مقامات ایسے بھی ہیں جن میں رب کریم نے خود عمر کی بات کی تائید میں قرآن مجید کی آیات نازل فرماکر ان کی شان میں مزید نکھار پیدا کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے: تین مقامات پر میری بات کی رب نے خود تائید فرمادی۔
1مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا، اس پر آیت:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى نازل ہوئی۔
2 ازواج مطہرات کو پردے کا مشورہ دیا جس پر آیت حجاب نازل ہوئی۔
3جب ازواج مطہرات نے رسول اکرم ﷺ سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی تو میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے تمہارا تعلق ختم کرکے ان کے لئے متبادل ازواج لے آئیں، چنانچہ اسی مفہوم کی آیت نازل ہوئی۔(بخاری ، مسلم)
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے فوراً بعد مسلمانوں میں جس قسم کے اختلافات پھوٹنے کا خطرہ تھا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جو جو فتنے سر اٹھا رہے تھے ان کی بیخ کنی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے سے روکنے میں اگر کسی کا مرکزی کردار تھا تو وہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی تھے،جس قسم کا سلوک خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنابِ عمر نے کیا تھا لازمی تھا کہ یہود جن کا اصل چہرہ قرآن نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے، وہ اپنی ازلی خباثت کی طرف لوٹ آئیں اور انہوں نے عمر فاروق کی عظیم ہستی کو ایک متنازع بنانے کی کوشش کی لیکن
نورِ خدا ہے، کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
حقیقت تو یہی ہے کہ اہل بیت و خلفائے راشدین آپس میں گہرے مراسم و تعلقات رکھتے تھے،جو گستاخیاں ان کے متعلق تاریخ کا حصہ بناکرپیش کی جاتی ہیں اگر واقعتاً یہ واقعات درست ہوتے تو اہل بیت اور خلفائے راشدین کے مابین تعلقات کی ناگوار فضا بھی مسلمانوں کو پتہ چل جاتی، یہ کیا کہ ایک ہی طرح کی تاریخ بار بار دھرائی جاتی ہے، لیکن حقیقت کو نہیں دیکھا جاتا، سچ تو یہ ہے کہ ان کے آپس میں گہرے مراسم تھے، حتیٰ کہ ان کےآپس میں رشتہ بھی ہوئے، ان کی اولاد بھی آپس میں گہرے مراسم رکھتی تھی، ان کی بھی آپس میں ایک دوسرے خاندان میں رشتے ہوئے، اہل بیت کی خاندان میں کئی عمر و ابوبکر و عثمان نام ملتے ہیں، زندہ محبت کی یہ مثالیں، جھوٹی کہانیاں گڑھنے والوں کو کیوںنظر نہیں آتیں؟؟