کچھ بد بخت لوگ ،جو بظاہر اسلام کے دعویدار ہیں، رسول اللہ ﷺ کے دوہرے داماد، مسلمانوں کےتیسرے خلیفہ راشد،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کو آپ رضی اللہ عنہ کے لیے سعادت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کی مظلومانہ شہادت آپ کے اپنے جرائم کی پاداش میں ہوئی۔ نعوذ باللہ
صد افسوس کہ اپنے آپ کو سنی باور کرانے والے بعضے جاہل سکالر بھی اسی رٹی رٹائی گردان کے اسیر ہو گئے۔
حالانکہ!
1۔ نبی اکرم ﷺنے وحیِ الٰہی سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اعزازِ شہادت سے سرفراز ہونے کی پیش گوئی فرمائی ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: «اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ» (صحیح البخاری: 3675)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺسیدنا ابو بکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئےتو اس نے لرزنا شروع کر دیا۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا : احد ٹھہر جاؤ، تمہارے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
2۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیش گوئی بطور ِ اعزاز فرمائی تھی اور زبانِ نبوت سے اس اعزاز کی خوش خبری پا کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر بھی ادا کیا تھا۔

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ المَدِينَةِ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِي: «افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَإِذَا عُثْمَانُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ المُسْتَعَانُ

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں مدینہ منورہ کے ایک باغ میں موجود تھا کہ ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔نبی اکرم ﷺ نے مجھےفرمایا : دروازہ کھولیے اور آنے والے کو انہیں پہنچنے والی مصیبت پر جنت کی بشارت دیجیے۔ (میں گیا تو) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ میں نے انہیں رسول اللہ ﷺ کی دی گئی خوش خبری سنائی۔ یہ سن کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کی تعریف کی اور فرمایا : میں اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد کا درخواست گزار ہوں۔(صحیح البخاری : 3490، صحیح مسلم : 2403)
3۔ نبی اکرم ﷺ نے شہادت کی یہی خوش خبری سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خود اپنی زبانی بھی سنائی۔

عَنْ أَبِي سَهْلَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْعُوا لِي بَعضَ أَصْحَابِي» ، قُلْتُ: أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: «لَا» . قُلْتُ: عُمَرُ؟ قَالَ: «لَا» . قُلْتُ: ابْنُ عَمِّكَ عَلِيٌّ؟ قَالَ: «لَا» . قَالَتْ: قُلْتُ: عُثْمَانُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: «تَنَحَّيْ» . فَجَعَلَ يُسَارُّهُ، وَلَوْنُ عُثْمَانَ يَتَغَيَّرُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الدَّارِ وَحُصِرَ فِيهَا، قُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: « لَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَإِنِّي صَابِرٌ نَفْسِي عَلَيْهِ

ابو سہلہ رحمہ اللہ(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت )فرمایا :میرے پاس میرے کسی صحابی کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا: ابو بکر کو بلائیں؟فرمایا : نہیں۔عرض کیا : عمر کو؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا: آپ کے چچا زاد علی کو؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : عثمان کو؟ فرمایا : ہاں۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے مجھے ایک طرف ہونے کا کہا اور رازدارانہ انداز میں کچھ فرمانے لگے، اس بات کو سنتے ہوئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ تبدیل ہو رہا تھا۔ ابو سہلہ کہتے ہیں : جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن آیا اور آپ کا محاصرہ کر لیا گیا تو ہم نے عرض کیا : امیر المومنین! کیا آپ باغیوں سے قتال نہیں کریں گے؟ فرمانے لگے : نہیں، اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے (شہادت کا)وعدہ دیا تھا، میں اسی پر اپنے آپ کو پابند رکھوں گا۔(مسند الامام احمد : 24253، وسندہ صحیح)
4۔ وفات کے قریب رسول اللہ ﷺکی طرف سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سنائی گئی شہادت کی خوش خبری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی سنی تھی:

عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقْبَلَتْ إِحْدَانَا عَلَى الْأُخْرَى، فَكَانَ مِنْ آخِرِ كَلَامٍ كَلَّمَهُ، أَنْ ضَرَبَ مَنْكِبَهُ، وَقَالَ: «يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللَّهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي» ثَلَاثًا

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا۔(جب وہ حاضر ہوئے تو) رسول اللہ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہم (ازواج)نے بھی یہ دیکھ کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ نبی اکرم ﷺ کا آخری کلام تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ مار کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان! اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی قمیص پہنائیں گے، اگر منافق آپ سے وہ قمیصِ خلافت چھیننا چاہیں تو آپ نے اسے اتارنا نہیں، یہاں تک مجھے آ ملو(شہید ہو جاؤ)۔پھر فرمایا : عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو خلعت ِ خلافت پہنائیں گے، اگر منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو آپ نے شہید ہونے تک اسے نہیں اتارنا۔یہ بات آپ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔(مسند الامام احمد : 24566، وسندہ صحیح)
ان صحیح احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیش گوئی وحیِ الٰہی سے بزبانِ نبوت بیان کر دی گئی تھی اور یہ خوش خبری بطور ِ اعزاز تھی، لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کو متنازعہ بنانا ظالموں، جاہلوں اور منافقوں کا کام ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں محبت ِصحابہ واہل بیت پر زندہ رکھے اور اسی پر شہادت کی موت دے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے