ترا ثانی کہاں پیدا،فقط کہنے کی باتیں ہیں
اگر سارا زمانہ مان لے گا،ہم نہ مانیں گے
علمی رموز سے آشنا،مطالعہ حدیث سے بہرہ ور،سماجی خدمتوں سے آشنا،فن تدریس وفتاوی سے شناسا،سندھ کی معروف علمی درسگاہ جامعہ بحرالعلوم السلفیہ،میر پور خاص کے نوجوان مدرس ومفتی،عربی علوم وفنون کے مدرس وسینئر استاذ مولانا منیر احمد سلفی ایک حادثاتی موت کا شکار ہو گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
سوانحی خاکہ:
مولانا منیر احمد سلفی مرحوم جونیجو قبیلے کے نوجوان عالم دین تھے۔آپ کا آبائی علاقہ گوٹھ گوگا سریوسفانی ہے۔یکم اپریل 1986ء کو علی نواز کے گھر پیدا ہوئے۔اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کئے۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول مٹھی سے کیا۔
موصوف محترم کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا بے حد شوق تھا۔وہ دینی تعلیم کے حصول میں کافی رغبت رکھتے تھے۔اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے 2001 میں جامعہ بحر العلوم السلفیہ سیٹلائیٹ ٹاون میر پور خاص میں داخل ہوئے اور 2008ءمیں مروجہ دینی فنون مکمل پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔
اساتذہ کرام:
آپ نے جامعہ بحر العلوم کے زیر سایہ جن علمی شخصیات سے کسب فیض کیا ان میں:
شیخ الحدیث مولانا عبدالحئی عابد رحمہ اللہ
شیخ مولانا صہیب حیات رحمہ اللہ
مولانا خالد اکرم المدنی حفظہ اللہ
مولانا افتخار احمد الازہری حفظہ اللہ
مولانا عبداللہ سلیم حفظہ اللہ
مولانا عبدالرشید عاصم حفظہ اللہ
صاحبان کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔
دوران تعلیم انہوں نے اپنے اساتذہ کرام کی سرپرستی میں عصری تعلیم کے حصول کے لئے بھی کوشاں رہے۔انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات نمایاں نمبروں سے پاس کئے۔
جامعہ بحرالعلوم السلفیہ میں دینی و علمی خدمات
مولانا سلفی مرحوم کتاب وسنت کے سچے خادم تھے۔انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں یادگار دینی خدمات سر انجام دیں۔انہوں نے فراغت کے بعد خود کو کتاب وسنت کی ترویج کے لئے وقف کر دیا تھا۔ان کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے میں ان کی مادر علمی جامعہ بحر العلوم السلفیہ میر پور خاص کا بڑا اہم کردار ہے۔انہوں نے فراغت کے بعد مادر علمی ہی کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کیا۔یہیں انہوں نے اپنے شیخ اور استاذ مولانا افتخار احمد الازہری حفظہ اللہ کی سرپرستی میں تدریس اور فتوی نویسی کا منصب سنبھالا اور تاحیات دینی خدمات کی توفیق پاتے رہے۔انہیں فلاحی امور سے بھی دلچسپی تھی۔
وہ گاہے بگاہےغرباء اور مساکین کی خدمت کرتے رہتے۔اس بارے میں ہمارے علمی دوست مولانا عبدالرحیم سموں صاحب (صدر مدرس:جامعہ دارالعلوم سلفیہ،نواں کوٹ،تھرپارکر) نے بتایا
«جامعہ میں دوران تعلیم انہوں نے عربی اور عصری تعلیم بطور پرائیویٹ جاری رکھی۔امتحانات میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کے حامل رہے۔اساتذہ اور انتظامیہ نے اپنے ہونہار شاگرد کی قابلیت کا اندازہ کر لیا تھا۔انہوں نے مولانا مرحوم کو جامعہ بحرالعلوم السلفیہ کے مکتب کی نگرانی سونپ دی۔اسی طرح جامعہ کے ممتاز رکن الحاج محمد اسماعیل میمن صاحب کی خصوصی ہدایت پر انہیں مادر علمی میں مسند تدریس پر فائز کر دیا گیا۔جہاں آخر دم تک تدریس کے فرائض ادا کرتے رہے۔تدریس کے ساتھ ساتھ شعبہ فتاوی بھی ان ذمے لگا دیا گیا۔وفاق المدارس السلفیہ کے سالانہ امتحانات کے نگران مقرر ہوتے اور پوری جانفشانی کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں پوری کرتے۔
اپنے گوٹھ گاسر جونیجہ میں اپنے محسن خاص شیخ محمد حسن سموں (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث،تھر پارکر) کے توسط سے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کروائی اور غریب گھرانوں کے لئے اپنے محسن کی طرف سے سہولتوں سے آراستہ پانچ گھر تعمیر کرائے۔
مقالات راشدیہ کی تدوین میں علمی کاوشیں:
جامعہ بحرالعلوم السلفیہ کا ایک شعبہ ریسرچ و تحقیق کا ہے جس کے تحت سہ ماہی میگزین مجلہ’’بحرالعلوم‘‘ کے مختصر اور ضخیم خصوصی نمبرز شائع کئے جاتے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ،شیخ الحدیث،یادگار اسلاف علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ ودیگر اہل حدیث اکابر پر خصوصی اشاعتوں کے علاوہ شیخ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے 14 ضخیم جلدوں میں مقالات ومضامین شائع ہوئے ہیں۔ان علمی موسوعات کی ترتیب وتدوین میں ممدوح گرامی مولانا منیر احمد سلفی مرحوم و مغفور کی فکری کاوشیں شامل ہیں جو یقینا ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔اللہ تعالی اس علمی سرمایے کو مرتبین وشائقین مطالعہ کے لئے نفع بخش بنا دے۔آمین
دینی صحافت کے احیاء میں کردار:
مولانا مرحوم کو دینی ادب وصحافت سے خاصا لگاو تھا۔بلاشبہ وہ ایک بے بدل مضمون نگار تھے۔انہیں اردو اور سندھی دونوں زبانوں میں لکھنے کا ملکہ حاصل تھا۔وہ تحریر وانشاء کی باریکیوں سے آگاہ تھے۔ان کے علمی اور تحقیقی مضامین اور مقالات خطہ سندھ کے چار معروف تحقیقی رسائل ماہنامہ «دعوت اہل حدیث»(کراچی)، ماہنامہ «اسوہ حسنہ»(کراچی) اور سہ ماہی «دعوت اسلام» (حیدر آباد) میں چھپتے رہے۔
«دعوت اہل حدیث»_ جمعیت اہل حدیث سندھ کا معروف علمی جریدہ ہے۔جس کے سرپرست فضیلةالشیخ پروفیسر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ اور چیف ایڈیٹر ہمارے دوست مولانا عبدالصمد المدنی حفظہ اللہ ہیں۔یہ جریدہ بیک وقت اردو اور سندھی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔مولانا منیر احمد سلفی رحمہ اللہ اس رسالے کے بہت رسیا تھے اور ان کے دونوں زبانوں میں کئی مضامین اس میں شائع ہوئے۔
اسی طرح سہ ماہی « دعوت اسلام»بھی بلدہ سندھ کا ایک معیاری اور علمی جریدہ ہے۔اس کے سرپرست معروف سندھی دانشور پروفیسر مولانا مولا بخش محمدی حفظہ اللہ اور ایڈیٹر مولانا عبدالقیوم لنجو حفظہ اللہ ہیں۔یہ سہ ماہی میگزین صرف سندھی زبان میں شائع ہوتا ہے۔ہمارے ممدوح گرامی نے اس رسالے کی آبیاری میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور کئی ایک مضامین اس رسالے کے لئے سپرد قلم کئے۔
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی، پاکستان کا ممتاز دینی ادارہ ہے۔جس کے بانی پروفیسر چوہدری محمد ظفراللہ رحمہ اللہ ہیں،جامعہ کی طرف سے ایک خوبصورت میگزین «اسوہ حسنہ» کے نام سے شائع ہوتا ہے۔اس رسالے کے ایڈیٹر اور بانی ہمارے قلمی دوست مولانا ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ ہیں۔یہ رسالہ بھی مولانا سلفی رحمہ اللہ کی قلمی جولان گاہ کا مرکز رہا۔کئی اصلاحی مضامین اس رسالے میں بھی شائع ہوئے۔
چوتھا میگزین سہ ماہی مجلہ «بحرالعلوم» ہے جس کا تذکرہ سابقہ سطور میں ہو چکا ہے۔یہ میگزین جامعہ بحرالعلوم السلفیہ(میر پور خاص) کا ترجمان ہے۔جس کے بانی ایڈیٹر شیخ افتخار احمد الازہری حفظہ اللہ ہیں۔اس رسالے کی تیاری اور خصوصی اشاعتوں میں مولانا منیر احمد سلفی رحمہ اللہ کی کافی خدمات ہیں۔
«بحرالعلوم» اب تک کئی ایک خصوصی شمارے چھاپ چکا ہے۔ہر شمارے میں مولانا سلفی مرحوم نے خصوصی مضمون لکھا اور ان خصوصی اشاعتوں کی ترتیب وپروف خوانی میں اپنے ادارے کے احباب ذوق مولانا راشد حسن،مولانا حافظ عبدالمتین ورئیس ادارہ شیخ افتخار الازہری حفظھمااللہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی صاحب ہمت کر کے مولانا کے شائع شدہ اردو اور سندھی مضامین کے الگ الگ مجموعے تیار کر دے۔پھر یہ مرتب مجموعہ چھپ بھی جائے گا۔
اس طرح آنے والی نسل ان سہل انگیز اور تحقیقی پرکاری سے لبریز مضامین سے خاطر خواہ استفادہ کر سکے گی۔میرے خیال میں یہ کام ہمارے محسن شیخ الحدیث مولانا افتخار الازہری حفظہ اللہ اپنی سرپرستی میں کروائیں تو بہت بہتر ہو گا۔کیوں کہ ایک تو وہ عرصہ دراز سے مجلہ’’بحر العلوم ‘‘کے ذریعے اکابر کی تراث علمی کی حفاظت کا سامان کر رہے ہیں۔پھر مولانا مرحوم تو ان کے اپنے ادارے کے مدرس اور دیرینہ خادم تھے۔اس لحاظ سے بھی یہ جامعہ بحرالعلوم السلفیہ کی بنیادی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔اللہ تعالی توفیق خاص سے نوازیں۔آمین
نیک زندگی کا عملی نمونہ:
مولانا مرحوم باخبر عالم دین،علم دوست،ادب نواز،اخلاق واخلاص کے پیکر اور وضعدار شخص تھے۔انہوں نے اپنے اور بیگانے سب میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیا۔ان کا درس وخطاب بھی بڑا اثر انگیز اور دلپذیر ہوتا تھا۔خلوت وجلوت اور سفر وحضر میں بلند کردار کے مالک رہے۔مولانا مرحوم کی حیات سعید کی جھلک دیکھ کر امام نووی رحمہ اللہ کی بیان کردہ عبادالرحمان کی ایک صفت یاد آتی ہے:
ان للہ عبادا فطنا
طلقوا الدنیا وخافوا الفتنا
’’بلاشبہ اللہ کے بہت سے سمجھدار بندے ہیں،جنہوں نے دنیا کو چھوڑ دیا اور فتنوں سے ڈر گئے۔‘‘
مولانا مرحوم کے متعلق جو باتیں اہل علم کی زبانی سنی ہیں،اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اللہ تعالی کی محبت اور عظمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ وہ دین کے معاملے میں غیور وجسور تھے۔
وفات حسرت آیات
مولانا جونیجو مرحوم آج مورخہ 3جولائی 2021ء کو حسب معمول علی الصبح تدریس کے لئے جامعہ بحرالعلوم السلفیہ کی طرف بذریعہ موٹر سائیکل روانہ ہوئے۔ساڑھے چھ بجے ان کا موٹر سائیکل مٹھی روڈ وجھوٹو کے قریب اچانک سڑک پر چلتے اونٹ سے جا ٹکرایا،جس سے ان کے سر پر شدید قسم کی چوٹ آئی کہ موقع پر ہی ان کی فانی زندگانی انتہا ہوئی۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون
نماز جنازہ ان کے ہم عصر دوست ومدرس مولانا حافظ عبدالمتین صاحب نے پڑھائی۔
اہل توحید کا ایک جم غفیر جنازے میں شامل ہوا۔
مولانا موصوف شادی شدہ تھے لیکن اولاد کی نعمت سے ان کی جھولی خالی تھی۔ہمیں اللہ کے اس صالح بندے کے متعلق گمان ہے کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہو کر ان کی روحانی اولاد تلامذہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا دے گا۔
دعا ہے اللہ تعالی مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی دینی وعلمی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین
اللهم اغفر له وارحمه وأدخله فسيح جناتك جنات النعيم إنك أنت السميع العليم