گذشتہ سطور میں ہم نے روایات صحیحہ و حسنہ سے حضرات خلفاء راشدین سیدنا ابو بکر ، عمر،عثمان،علی رضی اللہ عنہم کی داڑھیوں کے متعلق ثابت کیا تھا کہ انکی داڑھیاں مکمل تھیں، اور وہ اپنی داڑھیاں نہ تو کٹواتے تھے، نہ ہی ترشواتے تھے، نہ ہی چھوٹا کرتے تھے، نہ ہی سفید بال نوچتے تھے، بلکہ سنت رسول ﷺ کی موافقت کرتے ہوئے داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑدیتےتھے۔
نیز یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد جن شخصیات کی سب سے زیادہ اقتداء کی جاتی تھی ان میں یہ چاروں سرفہرست ہیں، بلکہ انکا واجب الاتباع ہونارسول اللہ ﷺ سے منصوص ہے، جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں،ان چار شخصیات کا زمانہ 40 ہجری تک محیط ہے، 21 رمضان 40 ہجری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تقریباً 100 سال سے زیادہ عرصہ تک ایسی شخصیات زندہ رہیں جنہوں نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، لہذا خلفاء راشدین میں سے کسی کو دیکھنے والے تقریباً 140ہجری کے بعد تک اور بالعموم کسی بھی صحابی کو دیکھنے والے تقریباً 210 ہجری کے بعد تک زندہ رہے، کیونکہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی رسول ﷺ سیدناابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں ، جنکی وفات 110 ہجری ہے۔ (تقریب التہذیب:3111)
چونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ کرام ہی کی اتباع کی جاتی تھی اس بناء پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ 210 ہجری تک داڑھی کے متعلق عمومی رجحان یہی تھا کہ مکمل داڑھی رکھی جاتی تھی،اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں عمومی رجحان یہ تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفاء راشدین کی اتباع کو ترجیح دیتے تھے، لہذا ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ صحابہ کرام کی داڑھیاں بھی مکمل ہی ہوا کرتی تھیں، یعنی وہ داڑھی کی تراش خراش سے احتراز ہی کرتے تھے، ہمارے اس دعوے کی تصدیق درج ذیل روایات سے بھی ہوتی ہے،چارسردار صحابہ کرام کی داڑھی کی صفات و کیفیات آپ ملاحظہ کرچکےاب مزید ملاحظہ ہو:

پہلی روایت:5)

صدی بن عجلان بن وہب ابو امامہ الباہلی(المتوفیٰ:86ھ)
6) الحجاج بن عامر الثُمالی
7) مقدام بن معدیکرب الکندی(المتوفیٰ:87ھ)
8) عبد اللہ بن بسر المازنی(المتوفیٰ:88یا 96ھ)
9) عتبہ بن عبدابوالولید السلمی(المتوفیٰ:87یا بعد90ھ) کی داڑھیاں:
امام سلیمان بن احمد الطبرانی(المتوفیٰ:360) رحمہ اللہ نے کہا:
سندِ حدیث:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، ثنا أَبِي، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ:

متنِ حدیث:

رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ .

شرحبیل بن مسلم رحمہ اللہ نے کہامیں نے رسول اللہ ﷺ کے پانچ صحابہ کو دیکھا و اپنی مونچھیں پست کیا کرتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھنے دیتے، اورانہیں خوب گھنا کرتے تھے،ابو امامہ الباہلی، اور الحجاج بن عامر الثمالی، اور المقدام بن معدیکرب، اور عبداللہ بن بسر المازنی، عتبہ بن عبد السلمی، یہ سب ہونٹ کے کناروں سے مونچھیں پست کرتے تھے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی:3218،617،معرفۃ الصحابہ لابن نعیم:1951، السنن الکبری للبیہقی:706،مسند الشامیین للطبرانی:540،الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم:1236،2413،2436،تاریخ ابی زرعۃ:351،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے،سلسلہ ضعیفہ:4056،آداب الزفاف: 209)
دوسری روایت:

10)سعد بن مالک بن سنان ابو سعیدالخدری (المتوفیٰ:63 یا 64 یا65 ھ)
11)جابر بن عبد الله بن عمرو بن حرام الانصاری الخزرجی السلمی (المتوفیٰ:بعد 70ھ)
12)عبد الله بن عمر بن الخطاب القرشی العدوی، ابو عبد الرحمن (المتوفیٰ:73 یا 74ھ)
13)سلمۃ بن عمرو بن الاکوع(المتوفیٰ:74ھ)
14)مالک بن ربیعہ ابو اسید الساعدی البدری(المتوفیٰ:40ھ)
15) رافع بن خدیج بن رافع الانصاری(المتوفیٰ:74ھ)
16)انس بن مالک الانصاری(المتوفیٰ:92ھ) کی داڑھیاں:
امام سلیمان بن احمد الطبرانی(المتوفیٰ:360) رحمہ اللہ نے کہا:
سندِ حدیث:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ الْعَلَّافُ الْمِصْرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ:

متنِ حدیث:

أَنَّهُ رَأَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهٍ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، وَسَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ، وَأَبَا أُسَيْدٍ الْبَدْرِيَّ، وَرَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ يَأْخُذُونَ مِنَ الشَّوَارِبِ كَأَخْذِ الْحَلْقِ، وَيُعْفُونَ اللِّحَى، وَيَنْتِفُونَ الْآبَاطَ.

عثمان بن عبیداللہ بن رافع رحمہ اللہ نے کہا کہ انہوں نے ابو سعید الخدری،اور جابر بن عبداللہ، اور عبداللہ بن عمر، اور سلمہ بن الاکوع، اور ابو اسید البدری، اور رافع بن خدیج ، اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کو دیکھاکہ وہ سب مونچھیں پست کرتے تھے گویا بالکل صاف،اور داڑھیوں کو چھوڑدیتے تھے، اور بغل کے بال نوچتے تھے۔
(طبرانی کبیر:668،علامہ البانی نے کہا:
فقد روى عن عثمان هذا ثلاثة من الثقات، فالنفس تطمئن لروايته، ولا سيما وقد وثقه ابن حبان (3/ 177) فالإسناد حسن. والله أعلم
عثمان نامی اس راوی سے روایت کرنے والے تین ثقات ہیں، چنانچہ دل اسکی روایت پر مطمئن ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ ابن حبان نے اسکی توثیق کی ہے،پس سند حسن ہے،واللہ اعلم (سلسلہ ضعیفہ:11/797)
تیسری روایت:

17)واثلہ بن الاسقع بن کعب اللیثی(المتوفیٰ:85ھ)
18)ابوہریرہ الدوسی الیمانی(المتوفیٰ:57ھ)
انس بن مالک،عبداللہ بن عمر،ابو سعید الخدری،ابو اسید الساعدی،رافع بن خدیج،جابر بن عبداللہ،سلمہ بن الاکوع کی داڑھیاں:
امام ابو جعفر احمد بن محمد الازدی الطحاوی (المتوفیٰ:321ھ) نے کہا:
سندِ حدیث:

مَا قَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَقِيلٍ , قَالَ: ثنا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ , قَالَ:

متنِ حدیث:

رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَوَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ , يُحْفِيَانِ شَوَارِبَهُمَا وَيُعْفِيَانِ لِحَاهُمَا , وَيُصَفِّرَانِهَا.

اسماعیل بن ابی خالدرحمہ اللہ نے کہا میں نے انس بن مالک اور واثلہ بن الاسقع کو دیکھا ،وہ دونوں اپنی مونچھیں پست کرتے تھے اور اپنی داڑھیاں بڑھاتے تھے، اور انہیں رنگتے تھے۔
اسماعیل بن عیاش نے مزید کہا کہ:

وَحَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ الْمَدَنِيُّ , قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ , وَأَبَا هُرَيْرَةَ , وَأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ , وَأَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ , وَرَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ , وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ , وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ , وَسَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ , يَفْعَلُونَ ذَلِكَ.

مجھےعثمان بن عبیداللہ بن رافع المدنی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ ،اور ابو سعید الخدری، اور ابو اسید الساعدی ، اور رافع بن خدیج ، اور جابر بن عبداللہ ، اور انس بن مالک، اور سلمہ بن الاکوع کو دیکھا وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔(شرح معانی الآثار: 6565، 6566،شعب الایمان للبیہقی:6030،6031،طبرانی کبیر:6217)
فائدہ:
اس روایت کو اسماعیل بن عیاش کی بناء پر ضعیف تو قرار نہیں دیا جاسکتا ، اگرچہ یہاں وہ غیر الشامیین سے روایت کررہا ہے، کیونکہ غیر الشامیین سے اسکی روایت علی الالطلاق ضعیف نہیں ہوتی، بلکہ متابعات و شواہد میں پیش کی جاسکتی ہے، کیونکہ اسماعیل بن ابی عیاش بذاتہ ثقہ ہے، جبکہ عراقی حجازی رواۃسے روایت کرنے میں اسے علماء نے مختلط قرار دیا ہے، چنانچہ علامہ عبدالرحمن المعلمی نے کہا:
إسماعيل ثقة في نفسه لكن عن غير الشاميين تخليط كثير فحده إذا روى عن غير الشاميين أن يصلح في المتابعات والشواهد
اسماعیل بذات خود ثقہ ہے، لیکن غیر شامی رواۃ سے روایت کرنے میں بہت اختلاط کرتا تھا،پس اسکی حد یہ ہے کہ جب غیر شامی رواۃ سے روایت کرے تو اسکی روایت متابعات و شواہد میں صالح ہے۔(التنکيل بما فی تانيب الکوثری من الاباطيل:1/417،رقم:52)
نیز یہاں اسماعیل بن عیاش کی دو روایات ہیں ، ایک اسماعیل بن ابی خالد سےجو کہ کوفی ہے،اور دوسری عثمان بن عبیداللہ بن رافع سےجو کہ مدنی ہے اور اس مؤخر الذکر روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ حسن قرار دے چکے ہیں،حالانکہ یہاں بھی اسماعیل کا شیخ یعنی عثمان ”مدنی“ راوی ہے ، جیسا کہ اس سے پہلے والی روایت کے ذیل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔(سلسلہ ضعیفہ :11/797)
علاوہ ازیں اس روایت کا تعلق احکام و اصول سے نہیں بلکہ حلیہ سے ہے۔واللہ اعلم
اب تک ہم اٹھارہ(18)صحابہ کرام کی داڑھیوں کے متعلق ثابت کر آئے ہیں کہ وہ مکمل تھیں ،انہوں نے اپنی داڑھیوں کو انکی طبعی حالت پر چھوڑ رکھا تھا، اور وہ داڑھی کاٹنے یا تراشنے سے مکمل اجتناب کرتے تھے، یہ بہت ہی معتمد اور معتد بہ تعداد ہے، حالانکہ اس سلسلے میں فقط خلفاء راشدین کا اسوہ ہی حجت قاطعہ اور حق و باطل کے مابین فارق بیّن،اور محل ّاجماع اور ہر طرح کے نزاع و خلاف کے لئے بتّار کی حیثیت رکھتا ہے،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم کئی صفحات میں دسیوں روایات سے داڑھی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ بالتفصیل بیان کر آئے ہیں،جسکے بعد تو اختلاف و تاویل کی گنجائش ہی نہیں رہتی پر’’ نور علیٰ نور‘‘ کے بمصداق خلفاء راشدین کا اسوہ طیبہ، پھر اس پر مزید انوار و تجلیات کہ چودہ صحابہ کرام کا طرز عمل ،اور یہ سب ہی صرف ایک ہی مسئلے کی برہان ہیں کہ ”داڑھی میں سنت اسے اسکے حال پر چھوڑ دینا ہے،خواہ وہ جتنی بھی دراز یا گھنی ہوجائے“اس ساری تفصیل کے بعد یہ معاملہ اسقدر روشن ہوچکا ہے کہ اب اس مسئلے میںابہام یا اجمال یا اختلاف و نزاع کا دعویٰ از خود باطل ہوجاتا ہے۔وللہ الحمد علیٰ ذلك
فائدہ:
یاد رہے ہم صرف صحابہ کرام تک محدود رہے ہیں،اگر اس سے آگے بڑھ کر تابعین و تبع تابعین اور انکے آج تک آنے والےمتبعین باحسان کی داڑھیوں اور انکے اقوال و آراء کو بھی اپنی اس تحریر کا حصہ بنالیں تویقیناً پورا دیوان تیار ہوجائے گا، موضوع کا احاطہ پھر بھی نہیں ہوسکے گا۔

اب تک ہم اٹھارہ(18)صحابہ کرام کی داڑھیوں کے متعلق ثابت کر آئے ہیں کہ وہ مکمل تھیں ،انہوں نے اپنی داڑھیوں کو انکی طبعی حالت پر چھوڑ رکھا تھا، اور وہ داڑھی کاٹنے یا تراشنے سے مکمل اجتناب کرتے تھے، یہ بہت ہی معتمد اور معتد بہ تعداد ہے، حالانکہ اس سلسلے میں فقط خلفاء راشدین کا اسوہ ہی حجت قاطعہ اور حق و باطل کے مابین فارق بیّن،اور محل ّاجماع اور ہر طرح کے نزاع و خلاف کے لئے بتّار کی حیثیت رکھتا ہے،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم کئی صفحات میں دسیوں روایات سے داڑھی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ بالتفصیل بیان کر آئے ہیں،جسکے بعد تو اختلاف و تاویل کی گنجائش ہی نہیں رہتی پر’’ نور علیٰ نور‘‘ کے بمصداق خلفاء راشدین کا اسوہ طیبہ، پھر اس پر مزید انوار و تجلیات کہ چودہ صحابہ کرام کا طرز عمل ،اور یہ سب ہی صرف ایک ہی مسئلے کی برہان ہیں کہ ”داڑھی میں سنت اسے اسکے حال پر چھوڑ دینا ہے،خواہ وہ جتنی بھی دراز یا گھنی ہوجائے“اس ساری تفصیل کے بعد یہ معاملہ اسقدر روشن ہوچکا ہے کہ اب اس مسئلے میںابہام یا اجمال یا اختلاف و نزاع کا دعویٰ از خود باطل ہوجاتا ہے۔وللہ الحمد علیٰ ذلك

فائدہ:

یاد رہے ہم صرف صحابہ کرام تک محدود رہے ہیں،اگر اس سے آگے بڑھ کر تابعین و تبع تابعین اور انکے آج تک آنے والےمتبعین باحسان کی داڑھیوں اور انکے اقوال و آراء کو بھی اپنی اس تحریر کا حصہ بنالیں تویقیناً پورا دیوان تیار ہوجائے گا، موضوع کا احاطہ پھر بھی نہیں ہوسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے