قارئین کرام!! یوں تو اس وقت تمام عالم اسلام مختلف قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن جو صورت حال اس وقت القدس اور کشمیر کی ہے۔ وہ ہر درد دل رکھنے والے انسان کے لیے جاں گسل اور فرسان روح ہے۔ کشمیر جل رہا ہے ، القدس لہو لہو ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے حکمران جمود کی جس کیفیت میں ہیں وہ نا قابل بیان ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے:

کشمیر جلے تو جلنے دو
بکتی ہے اقصی بکنے دو
یہ قوم تماشا بینوں کی
اک اور تماشا کرنے دو

اور حقیقت بھی یہی ہے قبلہ اول منتظر ہے کسی نورالدین زنگی اور ایوبی کے روحانی فرزند کا جو ببانگ دہل پکار اٹھے:

اے قبلہ اول! ہم تیرے لیے آخری سجدہ لائیں گے۔
ہیکل کے منارے ٹوٹیں گے، آئین جفا مٹ جائیں گے۔

زخمی القدس ، جلتا کشمیر اور مسلم امہ کی اجتماعی بے حسی اس بات کی عکاس ہے کہ«جب دل سے زیادہ بدن کی آرائش ہونے لگے اور روح سے زیادہ جسم کی زیبائش ہونے لگے تو زندگی موت کہلاتی ہے. جب حق کی جگہ حکایت.. اور جہاد کی جگہ جمود.. ملک کی جگہ مفاد اور اخلاق و مروت، شرافت و دیانت اور شمشیروسناں کی جگہ منافقت، عیاری، فحاشی، مایوسی اور تعصب آجائے تو اقوام پر اجتماعی موت طاری ہو جاتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ آج یہی مرض الموت ہے جس میں امت مسلمہ مبتلا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔‘‘ کسی نے عرض کیا: ’’اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘آپ ﷺنے فرمایا: ’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ (أبو داود :4297)
اس ارشاد گرامی کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج دنیا کی محبت ہی ہے جس میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے شمشیر و سناں کے وارث، دینی حمیت کے خوگر، شرم و حیا کے زیور سے آراستہ.، دلیری کے مظہر، ہمت مرداں کے دھنی ، اعلائے کلمۃ اللہ کے متمنی اور قیصر و کسری کے محلات میں بلا تردد گھس جانے والےمسلماں نعمت اسلام سے بد گماں، قران وسنت سے بیزار، وفا شعاری اور اخلاص سے نا واقف ہو کر کفر کی ہیبت سے لرزہ بر اندام ہیں۔
شام و کشمیر اور فلسطین و برما میں مسلما ں بیٹیاں، مسلمانوں کا قبلہ اول اور مسجد بابری کسی یوسف بن تاشفین، طارق بن زیاد اور کسی محمد بن قاسم کی راہ تک رہی ہیں. خواب غفلت میں ڈوبے مسلمانوں کو رب العزت کا فرمان گرامی جھنجھوڑ رہا ہے:

وَمَالَكُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا١ۙۚ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًاؕ

ا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔(النساء:75)
ہماری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کہ کبھی کوئی غیر مسلم بیٹی کی طرف بھی بری نظر سے دیکھتا تو مسلم سپہ سالاروں کو حکم دے دیا جاتا کہ وہ ظالموں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں..آج حالت یہ ہے کہ ہماری مسلماں بیٹیاں یہود و ہنود کے پنجہ استبداد میں سسک رہی ہیں اور کسی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی ہیں۔
لیکن ہم بحیثیت قوم اس قدر مریض ہو چکے ہیں کہ ہمارے دل احساس اور مظلوموں کی آہ و بکا سمجھنے سے قاصر ہیں.اور ایسا ہو بھی کیسے؟
جب یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ
«گنگھرو کی جھنکار اور ڈھولک کی تھاپ پرناچنے والی ماؤں کے بطن سے کبھی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوتے»
اہل اسلام پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے مسلمان گاجر اور مولی کی طرح کٹ رہے ہیں. اور جن لوگوں کو اللہ نے اس آزمائش سے محفوظ رکھا ہے انکو ایک ہی دھن لگی ہے اور وہ ہے دنیا کی سرداری، دنیا کا جاہ وجلال اور برینڈڈ اور نان برینڈڈ کی دوڑ.. اور اس بات کا شعور وافر کہ دنیا میں کیسے میں اعلی اسٹیٹس کا حامل بن سکتا ہوں..
یاد رکھیے!!! قدرت ڈھیل تو دیتی ہے مگر برائی میں مداہنت اختیار کرنے والوں کے لیے قدرت کا انتقام بڑا سخت بھی ہے.جیسا کہ رب العزت نے خود اعلان فرمایا :

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌؕ

 يقينا اپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (البروج – 12)

‘‘تو آئیے!! ہم یہ دعا کریں کہ رب العزت ہمیں اس خطرناک صورتحال سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن فرمائے آمین  ۔

وماتوفیقی الا باللہ ۔

                                                     
                     

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے