زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان کے عظیم مبلغ اسلام اور مخلص ساتھی مولانا محمد اسحٰق شاہد دہلوی ہم سے بچھڑ گئے ۔انا لله وإنا إليه راجعون
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص تھا جو دینی گلستاں کو ویراں کر گیا
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
انسانی زندگی بڑی دلفریب گزر گاہوں سے گزر کر اس عارضی دنیا میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا کرتی ہے مولانا مفتی محدث العصر، مفسّر قرآن مولانا عبد الستار محدث دہلوی رحمتہ اللہ کے داماد ، مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی امیر جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان کے بہنوئی اور مرحوم محمد ابراہیم کے صاحبزادے مولانا محمد اسحٰق شاہد دہلوی بھی اپنے ہم وطنوں، علماء کرام ، اساتذہ کرام ، طلباء کرام ، اپنے فیملی ممبرز اور اپنی سلیقہ شعار باوفا قرآن مجید کی حافظہ بیوی، مولانا عبد الستار محدث دہلوی رحمتہ اللہ کی صاحبزادی کو بڑے دھیمے سے زیر لب تبسم کر کے یہ کہہ گئے کہ میں اب دنیا کی ساری رونقوں کو ، رعنائیوں کو ، گھر بار کو، اپنے دولت کدہ کو، اپنے دینی گلستاں جامعہ ستاریہ الاسلامیہ (جسکی آبیاری مولانا حافظ عبد الغفار سلفی نے کی تھی )کو خصوصاً ننھے منھے نفوسِ قدسیہ کو اور اپنے لختِ جگر ، جگر گوشوں کو سلام آخری کر کے جارہا ہوں اور اب میں (عالم برزخ میں ) ابدی نیند سو جاؤں گا۔ بس اب مجھے رات کے آخری پہر تہجد کی نماز میں اور پنج وقتہ نمازوں میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر بارگاہِ ایذدی میں میرے حق میں دعائے خیر، دعائے مغفرت کرتے رہنا کیونکہ اب تم پر میرا یہ حق تمہارے قلوب و اذھان پر بآواز بلند ہمیشہ دستک دیتا رہے گا ۔ کیونکہ مالک ِ ارض و سماں کی دنیا اس جہان فانی سے بہت اچھی ہے اس کے دامان رحمت کی رفعتیں ، برکتیں اور وسعتیں بے کنار ہیں جنہیں میں یا میری لکھی گئی تحریر احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے فارسی کے اس شعر میں کیا تصویر کھینچی ہے۔
نشان مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آمد تبسم بر لب اوست
میں قارئین کرام کو بندہ مومن کی اک نشانی بتاتا ہوں جب رب تعالیٰ اپنے بندے کو موت سے ہمکنار فرماتے ہیں تو اس کے لبوں پر ہلکی سی تبسم کی روشنی ہوتی ہے یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت کی آرزو کرنا شرعاً منع ہے لیکن موت کی تیاری کرنا ہر ذی روح کے لئے بہت ہی ضروری ہے کیونکہ موت تو انسان کی و ہ سواری ہے جو عمر بھر کی زندگی کے صحرا میں بھٹکنے والے مسافر کو اپنے مسکن کی جانب واپس لے جایا کرتی ہے چونکہ اب اس بندہ مومن نے واپس لوٹنا نہیں ہوتابلکہ انسان کو اس کی ملاقات کی طوالت روزِ محشر کے بپا ہونے تک لیجاتی ہے۔
شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمین خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر، صبر کر
حال دل ہم بھی سناتے عابد لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب بہت یاد آیا
مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کے متعلق اپنی یادوں کے گنجلکوں کو سلجھانے کی کوششوں میں ہوں شخصیت نویسی تھوڑا مشکل کام ہے لیکن جب کوئی ایک سرا ہاتھ لگ جائے تو پھر یہ مشکل کام آسان ہوجاتا ہے اللہ تعالی کا مجھ پر احسان عظیم ہے کہ اس نے مجھے ماں باپ کی پرخلوص محبت سے نوازا جو آج تک جاری ہے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی باک نہیں ہے کہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر اگر کسی رشتے نے مجھے خلوص اور محبت سے اپنی آغوش میں لیا تو وہ میرے والدین ہیں کہ جن کی گھنی چھاؤں نے کبھی میرے ناتواں کندھوں کو ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ہر لمحہ میری بارگاہ ایزدی میں التجاء ہے کہ وہ میرے والدین کو صحت و عافیت کے ساتھ کی بہترین حالتوں میں لمبی عمریں عطا فرمائے میرے والدین کا مجھ پر اتنا ہی احسان کافی تھا کہ انہوں نے مجھے لاشعور سے شعور بخشا لیکن مجھے اپنے رب کی توحید اور مجسم رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی تعلیمات سے آشنا کراکے جو احسان مجھ پر میرے والدین نے کیا ہے میں تہی دامن اس کا بدلہ انہیں نہیں دے سکتا بس اللہ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ اس کا بہتر بدلہ میرے والدین کو عطا فرمائے
والدین کے بعد جن اساتذہ کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف پایا ان میں سب سے نمایاں استاذ گرامی شارح قرآن و حدیث حضرت مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ ہیں کہ جن سے میں حروف و الفاظ کی مالا کونہ صرف جوڑنا سیکھا بلکہ انہی کی خدمت کا ثمر ہے کہ مجھ ایسے لابالی اور بے پرواہ طبیعت کے حامل شخص نے صبر ، حوصلہ ، ہمت ، استقامت اور تشکر کی نعمتیں پائیں.
شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کے اسم گرامی سے پہلی مرتبہ واقفیت جامعہ شمس الہدی اہل حدیث ڈسکہ میں گزرے ایام تحفیظ میں اس وقت ہوئی جب جامعہ شمس الہدی اہل حدیث کی جانب سے ہشت صفحاتی تعارفی پمفلٹ شائع ہوا تھا جسے زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت اور مسائل سے آگہی کے لیے شائع کیا گیا تھا میرے تحفیظ القرآن کے پہلے استاذ استاذ الحفاظ حافظ عابد الہی صاحب نے ڈیزائن کیا تھا یک رنگہ پنفلٹ چھپ کے آیا تو اس پر مولف کے طور پر استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی صاحب کا نام درج تھا دوسری مرتبہ ان کو تبھی دیکھا جب ان کے سامنے ان کے سایۂ شفقت میں تعلیمی مدارج طے کرنے کی خواہش لے کے حاضر ہوا تھا میری زندگی کی یہ کربناک حقیقت ہے کہ میں نے اثری تعلیم کا آغاز تحفیظ القرآن سے کیا تھا لیکن میں اس کی تکمیل نہ کر سکا تحفیظ القرآن کے مشن کو ادھورا چھوڑا اور اپنا رخ ہی بدل لیا ڈسکہ سے نکلے تو سیدھا ساہووالہ جاپہنچے سیالکوٹ وزیرآباد روڈ پر ساہووالہ ریلوے اسٹیشن سے کوئی 3 کلو میٹر جنوب کی جانب واقع ساہووالہ کی تاریخ «سل کوٹ» سے سیالکوٹ میں بدلنے والے سیالکوٹ جتنی ہی پرانی ہے ساہووالہ ہر دور کے انسانوں میں عمدہ تہذیب و ثقافت ما گہوارہ رہا ہے ہندوستان کی ریاست کپور تھلہ کے مختلف علاقوں سے جب ہمارے اجداد دیگر مسلمانوں کی معیت میں ہجرت کرکے آئے تو ان مہاجروں کے کچھ گھرانے ساہووالہ میں بھی آباد ہوئے اس لحاظ سے ساہووالہ سے ہمارے واقفیت ہماری قرابت داریوں کی وجہ سے بھی تھی لیکن یہ پہلاوقع تھا کہ جب مجھے ساہووالہ جانے کا اتفاق ہوا ڈسکہ سمبڑیال روڈ پر واقع بھوپال والا سے ساہووالہ کا فاصلہ قریبا پانچ کلومیٹر ہے ان دنوں ہمارے گاؤں سے ساہووالہ براستہ بھوپالول والا سفر کا کل۔خرچ 10 روپے تھا یہ پہلا موقع تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ہمارا رخ ساہووالہ کی جانب ہوا یہ وہ دن تھے کہ جب ہمارے لیے ان دس روپوں کا حصول بھی ناممکن تھاگھر میں غربت اور کسمپرسی کے ڈیرے تھے لیکن میرے دادا مرحوم میری والدہ محترمہ کے شوق نے مجھے ہمت دلائی اور میں ساہووالہ جاپہنچا بھوپال والا سے تانگہ سواری کے ذریعے ساہووالہ پہنچا ان دنوں بھوپال والا سے آنے والے تانگے گورنمنٹ ہائی سکول ساہووالہ کے قریب رکا کرتے تھے کوچوان نے جہاں تانگہ روکا اس کے بالکل سامنے شمال کی جانب ساہووالہ کا مندر محلہ ہے اس چوک میں مشرقی رستہ چرچ روڈ کہلاتا ہے اس کے بالکل سامنے مغربی جانب رستہ ساہووالہ کی گنجان آبادی سے ہوتا ہوا محلہ قلعہ ساہووالہ پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے کئی رستے مختلف سمتوں چلنے والے انہی راستوں سے ہوتے ہوئے ساہووالہ سے باہر نکل جاتے ہیں
ساہووالہ کی بل کھاتی ہوئی گلیوں سے گزر کے جب جامع اہل۔حدیث مسجد قلعہ والی میں قائم جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ کی لائبریری اور دفتر میں پہنچا تو ہر قسم کے گاؤ تکیہ اور تصنع سے مبرا اوراق کو اپنے رشحات فکر سے مزین کرتے دنیا وما فیھا سے غافل اپنے کام میں منہمک اک شخصیت کو پایا ۔
کشادہ پیشانی تراش خراش سے مبراء ریش سر پر پشمینہ کی سلائیوں سے بنو ہوئی ٹوپی زیب تم کیے ہوئے سر اور داڑھی میں کہیں کہیں اترتی چاندی متبسم چہرہ میں ان کے سامنے جا بیٹھا جامعہ شمس الہدی میں رہتے ہوئے مولانا عبدالغفور طاہر حفظہ اللہ اور دیگر اساتذہ سے ادب کی جو عادتیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ عادت سلام کرنے کی بھی تھی لائبریری میں جیسے داخل ہوا سلام کہا میرے سامنے بیٹھی شخصیت نے نگاہیں اٹھائیں اک لمحے کو میری طرف دیکھا اور سوال کیا جی بیٹا کیسے آنا ہوا ان کے استفسار پر جب مدعا بیان کیا کہ حضور والا مولانا محمد یحیی گوندلوی کو ملوا دیں تو ہمارا کام بھی ہوجائے گا نگاہ اٹھائی اور گویا ہوئے جی کہیے میں ہی ہوں محمد یحیی ایک لمحے میں تو جیسے حیرت ناک کیفیت سے دوچار ہوگیا ارے یہ کیسی شخصیت ہیں کہ جن کے ہاں کوئی قاری ، حافظ ، یا مولوی کا لاحقہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت الاستاذ ایسی شناختوں اور علامتوں کو لایعنی اور بے مقصد جانتے ہیں یہ تو بالمشافہ کی بات ہے آپ کسی اجنبی سے بھی ملتے یا کسی پر فون پر گفتگو فرماتے تو تعارف کے لیے اپنی یہی تین لفظی شناخت پیش فرماتے «جی محمد یحیی گوندلوی» ضروری انٹرویو کے بعد مجھے حکم ہوا کہ رمضان المبارک ختم ہوجائے تو تعلیمی سلسلہ شروع ہو گا تو آپ بھی آجانا رمضان المبارک کے بعد مدارس میں جب تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو میں بھی ان کے حلقۂ تدریس میں جاپہنچا ایسا پہنچا کہ پھر وہیں سے سند فراغت پائی
مولانا محمد یحیی گوندلوی پیدائش اور تعلیم و تربیت
مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ نے نومبر 1952ءمیں گوجرانوالہ شہر کے نواحی قدیمی علمی اور ادبی قصبے گوندلوالہ میں محمد یعقوب بن جیون خان کے ہاں آنکھ کھولی آپ کے والد گرامی اک عام سادہ لوح مگر راسخ العقیدہ مسلمان تھے اولاد میں بڑا ہونے کی وجہ سے انہوں نے محمد یحیی کو سکول کی پانچ جماعتیں پاس کروانے کے بعد مزید تعلیمی کے لیے زاویہ بدلا جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات کی دام الفت میں لابٹھایا جامعہ اسلامیہ میں آپ نے جلیل القدر شیوخ سے علوم اسلامیہ کے روایتی نصاب درس نظامی کی تکمیل کی دوران تعلیم ہی آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان ممتاز حیثیت سے پاس کیا ایام طالب علمی میں آپ نے اک محنتی طالب علم کے طور پر شناخت پائی اور ہر امتحان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں درس نظامی سے وقت فراغت آخری امتحان کے ممتحن شارح حدیث حضرت مولانا محمد حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ تھے مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی سے آپ کے خاندانی اور قریبی مراسم تھے دوران امتحان جب آپ نے ان کو بخوشی یہ بتایا کہ «فاضل عربی کا امتحان پاس کرلیا ہے» (تب فاضل عربی ہی نہیں بالکل صرف حفظ کی سند رکھنے والے لوگ بھی محکمہ تعلیم میں بطور مدرس بھرتی ہوجایا کرتے تھے ) مولاناعطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ آپ کی قابلیت کو جانچ چکے تھے لہذا حضرت نے حکم فرمایا کہ مدرسے سے فراغت کے بعد کبھی سکول کی ملازمت نہ کرنا خود کو دینی علوم کی آبیاری کے لیے وقف کیے رکھنا اس کے لیے تعلیم مزید کے لیے آپ کو تخصص کا مشورہ دیا لہذا آپ نے فراغت کے بعد فیصل آباد میں قائم ادارہ علوم اثریہ کا رخ کیا جہاں مولانا اسحاق چیمہ رحمہ اللہ اور مولانا ارشادالحق اثری رحمہ اللہ جیسے کبار علماء کرام سے علوم و فنون میں مزید رسوخ حاصل کیا۔
دوران تخصص علوم حدیث آپ کی تحقیق کا عنوان رہے جس پر آپ نے ادارہ علوم اثریہ کی روایت کے مطابق اک مبسوط مقالہ لکھا شومئی قسمت سے وہ ابھی تک شائع نہیں ہوسکا علوم و معارف کی تحصیل مکمل کرنے کے بعد آپ نے فضیلۃ الشیخ عطا ءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے علوم دینیہ کی تدریس و ترویج کی راہ اپنائی اور تادم واپسیں اسی راہ پر گامزن رہے۔
تدریسی سرگرمیوں کا آغاز
1978 میں علوم و فنون کی تحصیل سے فراغت پائی تو تدریس کی راہ پر گامزن ہوئے اس سفر کا آغاز دارالحدیث محمدیہ سے کیا جہاں آپ نائب مدرس اعلی کے عہدے تک پہنچے تھے کہ اس دوران صدر مدرس دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد کے صدر مدرس مولانا داود علوی قتل ہوگئے اور یہ چلتا سلسلہ رک گیا دارالحدیث محمدیہ میں آئے تعطل کے بعد آپ کی خدمات قلعہ دیدار سنگھ میں قائم جامعہ رحمانیہ کے لیے حاصل کرلی گئیں عرصہ پانچ سال آپ وہاں مقیم رہے پھر بوجوہ وہاں سے چھوڑ کرفضیلۃ الشیخ حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کے قائم کردہ دارالعلوم رحمانیہ منڈی فاروق آباد میں بطور صدر مدرس خدمات انجام دیتے رہے 1993 میں فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کے مشورے سے جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ منتقل ہوئے اور پھر یہیں سے اپنے سفر آخرت کے لیے روانہ ہوئے.
تدریس آپ کی مصروقیت کا بہانہ جبکہ تصنیف و تالیف اپ کا نہ صرف شوق بلکہ جنون تھا ہمیں جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ میں ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا موقع میسر آیا جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ کی جامع قلعہ والی میں قائم ہے جبکہ استاذ گرامی کی رہائش گاہ دارہ ککے زئیاں والی مسجد سے ملحق تھی آپ روزانہ بلاناغہ جامعہ میں تشریف لاتے طلباء کی علمی تشنگی مٹانے کے ساتھ ساتھ اپنے تصنیف و تالیف کے شوق کو بھی پورا فرماتے ہمہ قسم کی تصنع اور بناوٹ سے مبراء مسند پر تشریف فرما ہوتے تو کئی کئی گھنٹے اپنے کام میں جتے رہتے ساہووالہ کی سرزمین کے لیے یہ اک سنہری دور تھا کہ جب ملک بھر سے تشنگان علم آپ کی علمی مجالس سے فیضیاب ہونے کے لیے کھنچے چلے آتے اور آپ سبھی کا خندہ پیشانی سے استقبال فرماتے اور ان طلاب دین کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے روایتی درس نظامی کی تدریس سے ہٹ کر ہر سال رمضان المبارک میں دورہ تفسیر القرآن کا اہتمام کرتے جسے خیبر سے کراچی تک شائقین شریک ہوتے اور احباب جماعت ساہووالہ ان کی مثالی مہمان نوازی کے لیے پیش پیش رہتے. دورہ تفسیر القرآن کا ریکارڈ 90 آڈیو کیسٹوں کی صورت میں ترتیب دیا گیا تھا انتہائی کام کی شیء ہے اللہ کرے کوئی اس ریکارڈکو کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کرسکے
تصنیف و تالیف
لکھنے کا شوق تو آپ کو ایام طالب علمی ہی سے تھا درس نظامی کے دور میں ہی آپ نے اس کا آغاز کیا تھا اور دوران تعلیم ہی آپ کا پہلا مضمون کسی جماعتی رسالے میں شائع ہوا تھا اس کے بعد یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آپ کے گوہر بار قلم سے قیمتی نوادرات منصۂ شہود پر آئے.
برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث کے عقائد و نظریات کو عقیدہ اہل حدیث کی صورت میں لکھ کے آپ نے ایک شاندار فریضہ انجام دیا یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر اہل حدیث گھرانے میں ہونا چاہیے اس کے علاوہ داستان حنفیہ ، مقلدین آئمہ کی عدالت میں ، خیرالبراہین ، ضرب شدید ، مطرقۃ الحدید ، جرابوں پر مسح ، نداء لغیراللہ ، تحقیق تین طلاق ، طلاق اور شریعت محمدیہ ، ضعیف اور موضوع روایات ، موضوع روایات تاریخ واسباب ، دیوبندی عالم دین مولانا احمد سعید ملتانی نے قرآن مقدس اور بخاری محدث کے نام ایک کتاب لکھی تو آپ نے اس کا جواب لکھا اسی طرح کسی گمنام حنفی عالم نے شادی کی پہلی دس راتیں کے عنوان سے کتاب لکھی تو آپ نے اس کا جواب شادی کی دوسری دس راتوں کی شکل میں لکھا جس میں مسلک اہل حدیث پر کیے گئے وار کا مسکت و مدلل جواب دیا گیا شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب معیارالحق کو کئی دہائیوں کے بعد آپ نےنئی تحقیق اور دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق ، تخریج اور تنقیح سے مزین کرکے شائع کیا اس میں آپ کو برطانیہ سے «ذوالفقار» نامی کسی شخصیت کا تعاون حاصل رہا اور یہ قیمتی سرمایہ شائع ہوکے اہل ذوق کے ہاتھوں میں آیا.
امریکہ میں مقیم کچھ دوستوں کی ترغیب اور تعاون پر آپ نے احادیث مبارکہ کا ترجمہ اور تشریح کا عظیم کام انجام دیا.علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے جامع ترمذی کی شرح لکھی اور شائع کی احادیث کی تشریح و توضیح کے ضمن میں آپ نے امام ترمذی رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی ہوئی کتاب شمائل کا ارود ترجمہ وتشریح خصائل محمدی کے نام سے کیا اور یہ بھی ایک مرتبہ چھپ چکی ہے اسے آپ نے اپنی زندگی ہی میں شائع کرالیا تھا احادیث کی شروحات کے ضمن میں آپ نے سنن ابن ماجہ کی شرح بھی لکھی تھی آپ اس جہان فانی سے داربقاء کوچ کر گئے لیکن افسوس کہ انتہائی اہمیت کی حامل سنن ابن ماجہ کی آپ کے قلم سے لکھی اردو شرح ہنوز شائع نہ ہو سکی حدیث اور اہل حدیث کا دفاع آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ حدیث یا اہل حدیث پر ہونے والے ہر قسم کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ہر وقت مقدور بھر تیار رہتے پاکستان کے کچھ عناصر کی جانب سے جب مصنف عبدالرزاق کا خود ساختہ جزء المفقود منصۂ شہود پر لایا گیا تو آپ نے اس کا مسکت و مدلل جواب لکھا اسی طرح کسی بھی سمت سے کسی بھی فتنے نے اسلام کی اجلی اور شفاف تعلیمات سے کے خلاف سر اٹھایا تو تحریری میدان میں اس کی سرکوبی کے لیے آپ موجود ہوتے آپ کی تحقیقی اور تصنیفی خدمات کے اعتراف میں شہر سیالکوٹ کے احباب جماعت کی طرف سے آپ کی کتاب خصائل محمدی شرح شمائل ترمذی کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر تشریف لائے اور امیر محترم نے اک معقول رقم آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو پیش فرمائی جسے آپ نے قبول فرمایا
صحافت
جن دنوں آپ فاروق آباد مقیم تھے انہی دنوں آپ نے حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی ترجمان السنۃ کے نام ایک جریدے کا اجراء کیا جو کامیابی سے جاری رہا اس کے علاوہ آپ ہفت روزہ اہل حدیث کے لیے بطور معاون مدیر خدمات انجام دیتے رہے اس کے ساتھ ساتھ آپ کے علمی اور تحقیقی مضامین جماعتی جرائد میں اتنی کثیر تعداد میں شائع ہوئے کہ انہی کو جمع کرلیا جائے تو ایک ضخیم مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوجائے
ذوق تحقیق اور فن مناظرہ
تعلیمات اسلامیہ میں تحقیق کا ذوق ایسا تھا کہ ہر مسئلے کی تہہ تک پہنچتے اور جب حقائق واضح ہوجاتے تو اس پر عمل پیرا ہوجاتے تو پھر اپنے نظرئیے اور موقف کا ہر فورم پر دفاع کرتے اسی ضمن میں گوجرانوالہ کے مولانا عبدالرشید انصاری جو حقائق کو عدالتوں کے ذریعے پرکھنے کے حوالے سے الگ شناخت رکھتے تھے «عقیقہ ساتویں دن « کے حوالے سے انہوں نے ڈسکہ کی عدالت میں دعوی دائر کیا جہاں مولانا محمد حیات محمدی اور استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی کو فریق بنایا گیا مقدمہ عدالت کے روبرو لگا تو آپ بطور فریق پیش ہوئے اور بھرپور دلائل سے اپنے موقف کا دفاع کیا جس کا فریق مخالف سے جواب نہ بن پایا کرسی انصاف پر متمکن جج صاحب بھی آپ کی قابلیت اور مسائل پر گرفت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ آپ کے حق میں دینے پر مجبور تھے اس فیصلے میں آپ نے اور مولانا محمد حیات محمدی رحمہ اللہ نے مولانا عبدالرشید انصاری کی طرف سے مبلغ 10000 روپے وصول کیے
آپ کی انہی خداد صلاحیتوں کے اعتراف میں رئیس المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ نے اپنی زندگی ہی میں جامع القدس چوک دالگراں میں پندرہ روز تربیتی مناظرہ کلاس کا انچارج مقرر فرمایا جہاں مولانا حافظ محمد عمر صدیق ، حافظ محمد یحیی عارفی ، مولانا خاور رشید بٹ ، مولانا عطاء الرحمان علوی اور مولانا محمد طیب محمدی جیسے عصر حاضر کے بڑے مناظرین نے آپ سے تربیت پائی۔
افتاء اور فتوی نویسی
آپ محقق تھے مصنف تھے اس کے ساتھ ہی کتاب و سنت کی روشنی میں فتوی نویسی پر بھی کمال مہارت رکھتے تھے جس کا جواب آپ کی سوچ کے مخالفین سے بھی نہ پن پاتا بلکہ وہ بھی آپ کے نظرئیے کے حامی بن جاتے ۔
اہل حدیث کے نظریات کے تحفظ کی خاطر راہوالی ضلع گوجرانوالہ سے مولانا محمد رفیق سلفی کی زیر قیادت ادارہ افکار المحدثین کا آغاز کیا گیا تو آپ اس کے ناظم بنائے گئے ادارہ افکار المحدثین کے تحت کچھ تحقیقی کام ہوا لیکن مولانا محمد رفیق سلفی اور استاذ گرامی ہر دو شخصیات کی رحلت کے ساتھ ہی وہ ادارہ بھی کہیں گردش ایام میں گم ہو کے رہ گیا
استاذ محترم بطور خطیب اسلام
مصنف اور محقق تو تھے ہی مگر آپ خطیب بھی لاجواب تھے دوران خطاب الجھی گتھیوں کو سلجھانہ تو ہم نے آپ سے سیکھا ہے شستہ مگر رواں دلائل و براہین سے مزین بغیر ترنم اور لگی لپٹی کے گفتگوتو جیسے آپ کی ذات گرامی کا خاصا قرار پائی تھی آپ کے خطاب میں روایتی پنجابی خطابت کا رنگ کم جبکہ عالمی اور ملکی حالات پر گہری نظر دکھائی دیتی مختصر وقت میں جامع گفتگو فرماتے کہ لوگ آپ کے گفتگو سے مشعل راہ پاتے جس اسٹیج پر آپ موجود ہوتے وہاں کسی بھی خطیب کو موضوع ، من گھڑت روایات اور لایعنی گفتگو کی جرأت نہ ہوتی۔
سیرت وکردار
تمسک بالکتاب والسنۃ میں استاذ گرامی کسی بھی قسم کی مداہنت یا مصلحت کے قائل نہ تھے حق بات نتائج چاہے کچھ بھی ہوں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ جاتے مسائل میں اگرچہ اختلاف رکھتے لیکن ان اختلافات کو مخالف کی ذات تک نہ لے جاتے احترام کے رشتے باقی رکھتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے جاننے اور چاہنے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے. آپ نے ساری زندگی سادگی سے بسر کی آپ نے جو راہ اپنائی تھی وہ مستقل مزاجی ، صبر اور تحمل ہی کا تقاضا کرتی ہے اسی لیے آپ جہاں گئے وہیں کے ہو رہے ساہووالہ میں آپ کو ایک مرتبہ گوجرانوالہ کے ایک بڑے دارالعلوم کی جانب سے اس دور میں آپ کو ملنے والی تنخواہ سے ڈبل تنخواہ اور دیگر سہولیات کی آفر ہوئی آپ نے ان سے خود معاملات طے کرنے کی بجائے انہیں اہل ساہووالہ کے روپرو کر دیا اور ساہووالہ کی جماعت کبھی بھی اس حق میں نہیں ہوسکتی تھی کہ آپ کی شخصیت ان سے الگ ہو جائے لہذا آپ ساہووالہ ہی میں مقیم رہے ۔
جماعتی وابستگی اور قائدانہ صلاحیتیں
مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل سمبڑیال کا نظم پہلی مرتبہ ترتیب پایا تو اراکین جماعت نے بطور امیر آپ کا انتخاب کیا مرکزی جمعیت اہل حدیث سے آپ کی وابستگی اتنی ہی قدیم تھی جتنا کہ آپ کا جماعتی تعارف زندگی کے آخری ایام میں آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع سیالکوٹ کے سرپرست تھے اس کے علاوہ سیالکوٹ میں جب مولانا صدیق اختر رحمہ اللہ کی سرپرستی میں تحریک تحفظ ختم نبوت اہل حدیث کا ڈول ڈالا گیا تو آپ کو اس کا امیر نامزد کیا گیا جبکہ مولانا عبد الحفیظ مظہر اس تحریک کے ناظم اعلی قرار پائے تحریک ختم نبوت اہل حدیث کے پروگراموں میں آپ بطور صدر مجلس شریک ہوتے اور سامعین کو اپنی قیمتی نصیحتوں سے بھی نوازتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ بے لوث تعلق کے باوجود معاصر اہل حدیث تحریکوں اور تنظیموں کے مقامی اور ملکی سطح کے ذمہ داران آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے
استاذ گرامی مولانا محمد یحیی گوندلوی رحمہ اللہ کی داستان حیات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ کسی مقام یا جگہ کے طلبگار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جس مقام پر بیٹھ جائیں وہ مقام اور جگہیں ان لوگوں کی وجہ سے مرجع خلاق بن جاتی ہیں۔
دینی مدارس وطن عزیز کی وہ بڑی این جی او ہے جو حکومت کے تعاون کے بغیر لاکھوں بچوں کو تعلیم، لباس، خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ ان مدارس کے اساتذہ کرام اور مہتمم حضرت توکل علی اللہ اپنی زندگیاں اس کارخیر میں صرف کردیتے ہیں۔ معمولی تنخواہوں پر گذارہ کرتے ہیں۔ اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے عمل کا صلہ اللہ سے ملنے کی امید رکھتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کو حکومت نہ صرف نظر انداز کرتی ہے بلکہ ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کرتی رہتی ہے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے ان قابل ذ کر مد ارس کو تعاون بھی حاصل نہیں ہوتا حتی کہ بجلی اور گیس کے بلز میں ڈالے گئے ٹیکسز بھی مساجد و مدارس ادا کرتے ہیں۔
ان مدارس دینیہ سے فراغت حاصل کرنے والے طلباء معاشرے کی دینی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور معاشرے میں اصلاح و تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خوشی و غمی میں بھی شریک رہتے ہیں اور معاشرے کے کارآمد افراد ہوتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح سے حکومت اسکول، کالج اور یونیورسٹی کےلیے عمارت مہیا کرتی اور وہاں پر تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں اور دیگر مراعات دیتی ہے بعینہ اسی طرح سے مدارس اسلامیہ کو بھی سہولیات دی جاتیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کے بارے ان کا معیار تبدیل ہو جاتا ہے۔
اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء کو یونین بنانے اور ملکی سیاست میں ہر طرح سے حصہ لینے کی آزادی اور اجازت ہے جبکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ سے یہ آزادی سلب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ آخر کیوں؟
کیا مدارس اسلامیہ کے طلبہ پاکستانی نہیں ہیں؟*
کیا مدارس اسلامیہ کے طلبہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے؟
کس قانون اور آئین کے تحت مدارس اسلامیہ کے طلبہ کا حق غصب کیا جارہا ہے؟
اگر سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی طلباء تنظیمیں بنانے اور انہیں سیاست میں ملوث کرنے کی آزادی ہے تو مدارس کے طلبہ کے لیے سیاست یا سیاسی پروگرام میں شرکت شجر ممنوعہ کیوں ؟
کیا ملک میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن و دیگر طلباء کی تنظیمیں موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں اور وہ ملکی سیاست میں حصہ بھی لیتی ہیں اور تحریک انصاف بھی طلباء کو سیاست میں استعمال کرتی رہی ہے تو اپنی حکومت میں مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے بارے ایسی پالیسی کیوں اختیار کررہی ہے؟
جناب وزیراعظم صاحب!!!
دینی حلقوں میں آپ کی کریڈیبلٹی پہلے ہی کچھ اچھی نہیں ہے اب آپ کی حکومت کے ایسے اقدامات رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے۔ اس لیے سوچیے اور غور کیجئے کہیں آپ سے ایسا فیصلہ کروا کر دینی لوگوں اور ارباب مدارس کو مزید دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے اس فیصلے سے دور رہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں ان مدارس کی طلباء کی آپ کو بھی ضرورت پڑ جائے۔
xxx
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۰۰۵۶
’’میں نےجنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘ (الذاریات:56)
اللہ تعالیٰ کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ اس کے حضور انتہائی عاجزی ، لاچاری، بے بسی اور انکساری کا اظہار کیا جائے ، قیام ،رکوع اورسجدہ عبادت نہیں بلکہ مظاہر عبادت ہیں ، تاہم ہماری شریعت میں غیر اللہ کے لیے انہیں ادا کرنا سخت منع کیا گیا ہے ۔
احترام کے لیے سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ عبادت کے طور پر مخلوق میں کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے۔ آج افسوس کے ساتھ ہمارے نام نہاد امام ، مذہبی راہنما،علماء،مشائخ، پیر،گدی نشین اپنے آپ کو سجدہ کروا کر کفر کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کے قدم چومتے ہیں سجدہ نہیں کرتےیا کسی کو راضی کرنے کے لیے پاؤں پڑجاتے ہیں ، اس کے قدموں میں گر جاتے ہیں یہ بھی سجدہ ہے ، نام بدل لینے سے حرام کام حلال نہیں ہوجاتا۔ یہود ونصاریٰ اور ہنود کے رسم ورواج سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ شرعی حدود وقیود کی پابندی لازمی ہے۔ تعظیمی سجدہ مشرکین ہی کا شعار ہے ۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سجدہ صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کا حق اور اسی کے ساتھ خاص ہے دوسرے کسی شخص کے لیے سجدہ قطعاً جائز نہیں ہے۔
سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو سجدہ کیا جائے ، کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتایا کہ میں حیرہ گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ اے اللہ کے رسول ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں، کہ ہم آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’بھلا بتا کہ اگر تو میری قبر پر گزرتا تو کیا اسے سجدہ کرتا؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تو ایسا نہ کرو ، اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا کہتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی پر شوہر کا بہت حق رکھا ہے ۔ (ابو داود : 2140)
نبی کریم ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے نوع انسان کو توحید کا پیغام سنا کر جینے کا سلیقہ سکھایا اور اللہ کا حق اور شکر ادا کرنا سکھایا۔شکرگزاری کا ایک طریقہ نماز ہے۔ شکرزبان کے علاوہ عمل سے بھی ادا کرنا چاہیے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ tفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نماز تہجد میں اتنا لمبا قیام فرماتے کہ نبی کریم ﷺ کے دونوں پاؤں یا دونوں پنڈلیوں پر ورم آجاتا اور جب نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق کہاجاتا توفرماتے : ’’ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ ( صحیح بخاری : 1130)
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کی شکرگزاری ہی اس کے فضل وکرم اور لطف ورحم کی زیادتی کا سبب ہے ، اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا ایک طریقہ سجدہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بندے سے ہر حال میں نزدیک ہوتاہے لیکن سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت زیادہ نزدیک ہوجاتاہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب آدم کا (مومن) بیٹا سجدے کی آیت پڑھتا ہے پھر(پڑھنے اور سننے والا) سجدہ کرتاہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہوکر کہتاہے : ہائے میرے لیے ہلاکت ، تباہی اور بربادی آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا اس نے سجدہ کیا لہٰذا اس کے لیے بہشت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیاگیا میں نے نافرمانی کی چنانچہ میرے لیے آگ ہے۔ (مسلم : 81)
سجدہ کی دو اقسام ہیں : ایک سجدہ تعظیمی اور دوسرا سجدۂ عبادت
سجدہ تعظیمی زمین پر سررکھ دینے سے پورا ہوجاتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ سجدۂ عبادت ہے اس میں تسبیحات کہی جاتی ہیں۔شریعت اسلامیہ میں سجدہ صرف اوپر نیچے ہونے کا نام نہیں بلکہ اس کی اصل روح یہ ہے کہ اپنی کامل عاجزی اور بے کسی کےاظہار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اورشانِ رفیع کا اعتراف کیا جائے۔
انسان کو جب کوئی خوشی ملے تو سجدۂ شکر کرنا مسنون ومستحب ہے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا آپ کو بشارت دی جاتی تو آپ اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔(ابوداود:2774)
ایک طویل حدیث میں ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی ہے یہ خبر سنتے ہی سجدے میں گر گئے۔ (صحیح بخاری : 4418)
سجدۂ شکر نعمت کے حصول جیسے اولاد،کسی چیز میں فتح اور مصیبت وتکلیف سے چھٹکارا اورخوشی ومسرت کے موقع پر یہ سجدہ مشروع ہے۔ اور ایک سجدہ کسی نشانی کے ظہور پر کیا جاتاہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سجدہ کرنا مکروہ ہے آپ نے مندرجہ بالا سطور میں پڑھ لیا ہے کہ یہ عمل اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے لہٰذا ایسی بات کرنا صحیح نہیں یہ عمل اور بھی بہت سی احادیث میں وارد ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار! مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیاگیا ہے ، تم رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا مانگو، تمہاری دعا قبولیت کے لائق ہوگی۔ (صحیح مسلم : 479)
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ، اس حدیث سے رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے کی ممانعت نکلی بلکہ رکوع میں صرف تسبیح کرے اور سجدے میں تسبیح اور دعا کرے۔
سجدے میں دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اس کا محتاط طریقہ یہ ہے کہ وہی دعائیں مانگی جائیں جو سجدے سے متعلق صحیح احادیث میں وارد ہیں۔ اپنے طور پر شریعت سازی نہ کریں کہ قرآن کی دعا کے ساتھ رَبَّنَا کو اللهُمّ سے بدل کر پڑھنا یہ شریعت سازی ہے جس مقام پر شریعت خاموش ہو ہمیں بھی وہاں حد سے نہیں بڑھنا چاہتے۔
سجدۂ عبادت میں باوضو،قبلہ رخ ہونا،تکبیر اوردعائیں کہنا ضروری ہے، سجدۂ شکر میں ایسی کوئی شرائط نہیں ۔ واللہ اعلم
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتےہیں : سجدۂ شکر کے افعال ، احکام اور اس کی شروط اور طریقہ سجدۂ تلاوت والا ہی ہے ۔
( المغنی لابن قدامہ المقدسی 2/372)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : اور کسی مصیبت اورمشکل سے نجات یا پھر انسان کے لیے کسی نعمت کے حصول کی بنا پر سجدہ شکر ادا کیا جاتاہے، جو کہ نماز کے باہر سجدہ تلاوت کی طرح ہی ہے ۔
(فتاوی منار الاسلام 1/205)
سجدہ یقیناً نیکی ہے بلکہ سجدہ تلاوت میں بھی ایسی کوئی شرائط نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سجدۂ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے لہٰذا اس کے لیے نماز کی شرائط مقرر نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وضو اور قبلہ رخ کے بغیر بھی جائز ہے۔ (مجموعہ فتاوی 23/165)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا اور قرآن مجید پر عمل کے لیے نبی کریم ﷺ کو ہمارے لیے بہترین عملی نمونہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس کی اتباع پر بخشش کا وعدہ فرمایا۔ اگر ہم زندگی کے تمام امور میں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل کریں تو ہماری ساری زندگی عبادت بن سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سنت محمدی ﷺ کے مطابق زندگی گزارنے اور مسنون سنتوں کو زندہ کرنے والا اور ان پر عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین
كيا هر نبي كے لیے حوض هوگا ؟
جی ہاں ! قیامت کے دن ہر نبی کے لیے حوض ہوگا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً .
قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہوگا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر ( اللہ کے فضل سے ) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے ۔(سنن ترمذی : 2443)
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن ہر نبی کے لیے حوض ہوگا لیکن سب سے عظمت والا حوض نبی کریم ﷺ کا ہوگا ۔
حوض كوثر كا اثبات
حوض کوثر قرآن کریم اور بہت سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔
ہم اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض دلائل ذیل میں نقل کرتے ہیں :
اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۰۰۱فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۰۰۲
یقیناً ہم نے تجھے حوض کوثر دیا ہے ۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر ۔ (الكوثر: ١-٢)
ابو عبیدہ کوفی کہتے ہیں : میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۰۰۱یعنی ’’ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے ‘‘کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
نَهَرٌ أُعْطِيَهُ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاطِئَاهُ عَلَيْهِ دُرٌّ مُجَوَّفٌ آنِيَتُهُ كَعَدَدِ النُّجُومِ .
یہ کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے نبی ﷺ کو بخشی گئی ہے، اس کے دو کنارے ہیں جن پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں۔ اس کے آبخورے ستاروں کی طرح ان گنت ہیں۔ (صحیح بخاری : 4965)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
سُئِلَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا الْكَوْثَرُ قَالَ : ذَاكَ نَهْرٌ أَعْطَانِيهِ اللہ ، يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ .
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے اللہ نے ہمیں جنت کے اندر دی ہے ۔(سنن ترمذی : 2542)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا، فَقُلْتُ : مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ : هَذَا الْكَوْثَرُ ۔
جب نبی اکرمﷺ کو معراج ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل ! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے کہا : یہ حوض کوثر ہے ( جو اللہ نے آپ کو دیا ہے ) ۔ (صحیح بخاری : 4964)
سیدنا عبد اللہ بن بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد کو حوض کے بارے میں شک ہونے لگا، اس لیے اس نے سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کو بلوایا، جب یہ اس کے ہاں گئے تو اس کے ہم نشینوں نے ان سے کہا : امیر نے آپ کو اس لیے بلوایا ہے کہ ہم آپ سے رسول اللہ ﷺ کے حوض کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ نے رسول اللہ ﷺسے حوض کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انھوں نے کہا:
قَالَ : نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَذْكُرُهُ، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ، فَلَا سَقَاهُ اللهُ مِنْهُ. (مسنداحمد : 19763)
جی ہاں !میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے، اور جو اس کوجھٹلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس سے نہ پلائے۔
ایک روایت کے لفظ ہیں :
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نَعَمْ، لَا مَرَّةً، وَلَا ثِنْتَيْنِ، وَلَا ثَلَاثًا، وَلَا أَرْبَعًا، وَلَا خَمْسًا، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ، فَلَا سَقَاهُ اللهُ مِنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ مُغْضَبًا .
ہاں ! ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، چار بار نہیں، پانچ بار نہیں (یعنی بہت بار سنا ہے ) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے۔ (سنن أبي داؤد : 4749)
حوض کوثر کا محل وقوع
حوض کوثر کا محل وقوع کہاں ہے یہ کہاں ہوگا ؟ اس کے متعلق رسول اللہ کا فرمان ہے :
مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي .(صحیح بخاري : 6588)
میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ کا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔
حوض کوثر کی وسعت
قارئین کرام ! حوض کوثر کی وسعت کیا ہے ؟ اس کے متعلق مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف روایات آتی ہیں ، ہم بعض روایات ذیل میں نقل کرتے ہیں ۔ جس سے بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ اس کی وسعت کیا ہے ۔
1۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
أَمَامَكُمْ حَوْضٌ كَمَا بَيْنَ جَرْبَاءَ، وَأَذْرُحَ .
تمہارے سامنے ہی (میرا )حوض ہوگا وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرحاء (شام کے دو علاقوں ) کے درمیان کا فاصلہ ہے۔(صحیح بخاري : 6577)
2۔ سيدنا حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو حوض کوثر کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ ﷺنے فرمایا :
كَمَا بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَصَنْعَاءَ . (صحیح بخاری : 6591)
( وہ اتنا بڑا ہے ) جتنا مدینہ اور صنعاء کے درمیان کا فاصلہ ہے۔
3۔سيدنا ثوبان اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إنَّ حَوْضِي مَا بَيْنَ عَدَنٍ إِلَى عُمَانَ .
میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن اور عمان کے درمیان کا فاصلہ ہے ۔(صحیح الترغیب الترھیب : 3184)
4۔سيدنا ابوسعيد خدري رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ لِي حَوْضًا مَا بَيْنَ الْكَعْبَةِ، وَبَيْتِ الْمَقْدِسِ .
میرا ایک حوض ہے (جس کی لمبائی ) کعبہ سے لے کر بیت المقدس تک ہے ۔(سنن ابن ماجة : 4301)
5۔سيدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ حَوْضِي لَأَبْعَدُ مِنْ أَيْلَةَ مِنْ عَدَنٍ .
بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے بھی زیادہ وسیع ہے۔(صحیح مسلم : 583)
6۔سيدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
حَوْضِي مَسِيرَةُ شَهْرٍ .
میرا حوض ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہے ۔ (صحیح بخاری : 6579)
7 سيدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَإِنَّ عَرْضَهُ كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ إِلَى الْجُحْفَةِ .
میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور حوض کوثر کی چوڑائی اتنی ہے جتنا ایلہ سے جحفہ تک کا فاصلہ ہے ۔(صحیح مسلم : 4711)
حوض کوثر کی لمبائی اور چوڑائی
حوض کوثر نہ زیادہ لمبا ہے اور نہ ہی زیادہ چوڑا بلکہ یہ چوکور ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ .
حوض کوثر کی لمبائی اور چوڑائی برابر ہے۔(صحیح مسلم : 2300)
حوض کوثر کے کنارے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی معظمﷺ نے فرمایا :
الْكَوْثَرُ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ .
الكوثر جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں۔(سنن ترمذی : 3361)
حوض کوثر کے پانی کا رنگ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مَاؤُهُ أَبْيَضُ مِنَ اللَّبَنِ، وَرِيحُهُ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ .
اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہوگی ۔(صحیح بخاري : 6579)
ایک روایت کے لفظ ہیں :
وَمَاؤُهُ أَبْيَضُ مِنَ الْوَرِقِ .
اس کا پانی چاندی سے زیادہ چمکدار ہوگا ۔(صحیح مسلم : 5971)
حوض کوثر کے پانی کا ذائقہ
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم ﷺ نے فرمایا :
أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، يَغُتُّ فِيهِ مِيزَابَانِ يَمُدَّانِهِ مِنَ الْجَنَّةِ، أَحَدُهُمَا مِنْ ذَهَبٍ، وَالْآخَرُ مِنْ وَرِقٍ .
حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جنت سے دو پر نالے اس میں شامل ہو کر اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے ایک پرنالہ سونے کا ہے اور ایک چاندی کا۔ (صحیح مسلم : 5990)
حوض کوثر کے پانی کی ٹھنڈک
قارئین کرام ! گرمی کے ایام میں لوگ ٹھنڈا پانی پینا پسند کرتے ہیں اور ٹھنڈا مشروب پی کر فرحت و سکون محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ حشر کی گرمی تو دنیا کی گرمی سے بھی سخت ہوگی تو اس دن رسول اللہ ﷺ جو اپنی امت کو حوض کوثر میں سے پلائیں گے اس کا پانی ذائقے اور خوشبوکے ساتھ ساتھ ٹھنڈا بھی ہوگا اور ٹھنڈا بھی ایسا کے برف بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
اَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ .
حوض کوثر کا پانی برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا ہوگا ۔(مسند احمد : 19804)
حوض کوثر کے پانی کا خوشبو
حوض کوثر کا پانی خوشبودار ہوگا اور اس کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ اچھی ہوگی ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
وَرِيحُهُ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ .
اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہے ۔(صحیح بخاري : 6579)
حوض کوثر کے پیالوں کی تعداد
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ فِي حَوْضِي مِنَ الْأَبَارِيقِ بِعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ .
بیشک میرے حوض پر آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں۔(سنن ترمذی : 2442)
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں آپ ﷺ سے سوال کیا کہ : اے اللہ کے رسول ﷺ ! حوض کے برتن کتنے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا .
اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! اس حوض کے برتن آسمان کے چھوٹے اور بڑے تمام ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں ۔(صحیح مسلم : 5989)
حوض کوثر کے پیالے سونے اور چاندی کے ہوں گے
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
تُرَى فِيهِ أَبَارِيقُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ كَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ .
حوض کوثر پر تم سونے اور چاندی کے جام آسمان کے ستاروں کے برابر دیکھو گے ۔ (صحیح مسلم : 2303)
یاد رہے کہ دنیا میں آپ ﷺ نے سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے :
لَا تَشْرَبُوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَالدِّيبَاجَ ، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا، وَلَكُمْ فِي الْآخِرَةِ
سونے اور چاندی کے پیالہ میں نہ پیا کرو اور نہ ریشم و دیباج پہنا کرو کیونکہ یہ چیزیں ان ( کافروں) کے لیے دنيا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں ۔ (صحیح بخاری : 563)
حوض کوثر کے پانی کی برکت
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ شَرِبَ مِنْهَا فَلَا يَظْمَأُ أَبَدًا .
جو شخص اس (حوض کوثر) سے ایک مرتبہ پی لے گا پھر وہ کبھی بھی (میدان حشر میں ) پیاسا نہ ہوگا۔(صحیح بخاري : 6579)
یاد رہے کہ حشر کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا لیکن حوض کوثر کا پانی اس قدر بابرکت ہوگا کہ جو ایک دفعہ اِسےپی لے گا پھر اُسے کبھی بھی پیاس نہیں لگے گی ۔
حوض کوثر کے پرندے
قارئین کرام ! جہاں پانی ہوتا ہے وہاں پانی پینے کے لیے پرندے بھی اتر آتے ہیں اور ایسے مقام پر پرندوں کا ہونا خوبصورتی کا باعث بھی ہوتا ہے ۔ رسول اللہ کے حوض پر بھی پرندے ہوں گے ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
ذَاكَ نَهْرٌ أَعْطَانِيهِ اللهُ، يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ، أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، فِيهَا طَيْرٌ أَعْنَاقُهَا كَأَعْنَاقِ الْجُزُرِ .
وہ ایک نہر ہے اللہ نے ہمیں جنت کے اندر دی ہے، یہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح ہیں ۔(سنن ترمذي : 2542)
حوض کوثر پر پہنچنا فلاح کی علامت ہے
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ أقول: إِيَّاكُم وَجَهنَّمَ! وَإِيَّاكُم وَالحدُودَ! فَإِذَا متُّ فَأَنا فَرطُكُم وَمَوعِدُكُم عَلَى الحَوضِ فَمَنْ وَرَدَ أَفْلَحَ.
میں تمہیں پیچھے سے پكڑ كر آگ سے روك رہا ہوں اور كہہ رہا ہوں: جہنم سے بچو،حدود سے بچو، جب میں فوت ہوجاؤں گا تو حوض پر تمہارا انتظار كروں گا، جو حوض تك پہنچ گیا وہ كامیاب ہو گیا۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 3087)
حوض کوثر پر آپ ﷺ کی موجودگي
حوض کوثر پر آپ ﷺ خود موجود ہوں گے ۔
نضر بن انس اپنے والد انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، کہ میں نے نبی معظم ﷺ سے سوال کیا :
أَنْ يَشْفَعَ فِيَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ: أَنَا فَاعِلٌ قَالَ: قُلتُ: يَا رَسُول اللهِ! فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ؟ قَالَ: اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ قَالَ: فَإِن لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ؟ قَالَ: اطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ؟ قَالَ فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلَاثَ المَوَاطِنَ .
آپ قیامت کے دن میری سفارش کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ضرور کروں گا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ قیامت کے دن میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : سب سے پہلے تم مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے کہا : اگر میں آپ سے پل صراط پر نہ مل سکوں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : تب میزان کے پاس مجھ سے ملنا، میں نے کہا : اگر میں آپ کو میزان کے پاس نہ پاؤں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو حوض پر پاؤ گے، ان تین مقامات میں سے کہیں نہ کہیں ضرور پاؤ گے ۔ (سلسلة الصحيحة : 2524)
رسول ﷺ کا اپنی امت کو پہچاننا
قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو وضو کی برکت سے پہچان لیں گے کیونکہ وضو کی برکت سے ان کے اعضاء چمک رہے ہوں گے اور اس سے آپ ﷺ ان کو پہچان کر اپنے حوض سے پلائیں گے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح ( دوسرے ) لوگوں کو اس ( حوض ) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا :
نَعَمْ لَكُمْ سِيمَا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ غَيْرِكُمْ تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ .
ہاں ! تمہاری ایک نشانی ہوگی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ (صحیح مسلم : 582)
سب سے پہلے جام کوثر پینے والے خوش نصیب
قارئین کرام ! سب سے پہلے فقراء مہاجرین کو حوض کوثر کا پانی پینے کی سعادت نصیب ہوگی ۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ .
میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اردن والے عمان تک کا فاصلہ ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سر دھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جو ناز و نعم عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لیے جاہ و منزلت کے دروازے کھولے جاتے ۔(سنن ترمذی : 2444)
اس کے علاوہ ہر موحد مؤمن اور نیک صالح شخص کو حوض کوثر کا پانی پینا نصیب ہوگا ۔
اہل یمن کا اعزاز
قارئین کرام ! روز قیامت جب حوض کوثر پر امت کا بہت زیادہ رش ہوگاتو رسول اللہ ﷺ لوگوں کو دور ہٹائیں گے تاکہ یمن والے آرام سے جام کوثر نوش کر لیں ۔ آپ ﷺکا فرمان ہے :
إِنِّي لَبِعُقْرِ حَوْضِي أَذُودُ عَنْهُ لِأَهْلِ الْيَمَنِ أَضْرِبُ بِعَصَايَ حَتَّى يَرْفَضَّ عَلَيْهِمْ
قیامت کے دن میں اپنے حوض کے پچھلے حصے میں ہوں گا اور اہل یمن کے لئے لوگوں کو ہٹا رہا ہوں گا اور انہیں اپنی لاٹھی سے ہٹاؤں گا یہاں تک کہ وہ چھٹ جائیں گے ۔(مسند احمد : 22426 )
حوض کوثر سے محروم لوگ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَذُودَنَّ رِجَالًا عَنْ حَوْضِي، كَمَا تُذَادُ الْغَرِيبَةُ مِنَ الْإِبِلِ عَنِ الْحَوْضِ .
اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں ( قیامت کے دن ) اپنے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح ہانک دوں گا جیسے اجنبی اونٹ حوض سے ہانک دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاري : 2367)
یہ لوگ کون ہوں گے ؟ اس کی وضاحت ایک اور حدیث میں موجود ہے کہ یہ بدعتی ہوں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ الْحَوْضَ رِجَالٌ مِمَّنْ صَاحَبَنِي، حَتَّى إِذَا رَأَيْتُهُمْ وَرُفِعُوا إِلَيَّ اخْتُلِجُوا دُونِي، فَلَأَقُولَنَّ: أَيْ رَبِّ أُصَيْحَابِي، أُصَيْحَابِي، فَلَيُقَالَنَّ لِي: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ .
حوض پر میرے ساتھیوں میں سے کچھ آدمی آئیں گےحتی کہ جب میں انھیں دیکھوں گا اور ان کو میرے سامنے کیا جائے گا تو انھیں مجھ ( تک پہنچنے ) سے پہلے اٹھا لیا جائے ، میں زور دے کر کہوں گا :اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں میرے ساتھی ہیں تو مجھ سے کہا جا ئے گا ۔آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کون سی بدعتیں ایجاد کر لیں ۔ (صحیح مسلم : 5996)
ایک روایت کی مطابق یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام سے مرتد ہوئے ہوں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى .
( قیامت کے دن ) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر ( حوض کوثر ) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ (صحیح بخاري : 7048)
ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے تھے کہ :
اللهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔ (صحیح بخاري : 7048)
اسی طرح وہ لوگ بھی حوض کوثر سے محروم ہوں گے جو ظالم حکمرانوں کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کرتے ہیں اور ظلم پر ان کا ساتھ دیتے ہیں ۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا :
أُعِيذُكَ بِاللہ يَا كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ مِنْ أُمَرَاءَ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِي، فَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ فَصَدَّقَهُمْ فِي كَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَا يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ وَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ أَوْ لَمْ يَغْشَ وَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ فِي كَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ.
اے کعب بن عجرہ ! میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ایسے امراء و حکام سے جو میرے بعد ہوں گے، جو ان کے دروازے پر گیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم پر ان کا تعاون کیا، تو وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں اور نہ وہ حوض پر میرے پاس آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پر گیا یا نہیں گیا لیکن نہ جھوٹ میں ان کی تصدیق کی، اور نہ ہی ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا۔(سنن ترمذی : 614)
اسی طرح دو گمراہ فرقے قدریہ اور مرجئه بھی حوض کوثر سے محروم ہوں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
صِنْفَان من أُمَّتِي لَا يَرِدَانِ عَلَيَّ الْحَوْضَ: الْقَدَرِيَّة وَالمُرجِئَة.
میری امت کے دو قسم کے لوگ حوض ِکوثر پر نہیں آ سکیں گے، قدریہ اور مرجئہ ۔(سلسلة الصحيحة : 2619 )
حوض کوثر سے کتنے لوگ سیراب ہوں گے ؟
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً .
قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہوگا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر ( اللہ کے فضل سے ) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے ۔(سنن ترمذی : 2443)
سیدنا زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ :
كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺفِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : مَا أَنْتُمْ بِجُزْءٍ مِّنْ مِئَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ مِنْ أُمَّتِي كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: سَبْعَ مِئَةٍ أَوْ ثَمَانِ مِئَةٍ.
ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺكے ساتھ تھے۔آپ ایک جگہ اترے تو میں نے سنا آپ فرما رہے تھے: میری امت میں سے جو لوگ میرے پاس حوض كوثر پر آئیں گے تم ان كا ایک لاكھواں حصہ بھی نہیں ہو۔ ( زید بن ارقم سے پوچھا گیا کہ ) اس دن تم کتنے تھے؟ زید نے كہا:سات یا آٹھ سو۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1503)
حوض کوثر پر رش
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَتَزْدَحِمَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى الْحَوْضِ ازْدِحَامَ إِبِلٍ وَرَدَتْ لِخَمْسٍ (صحیح الجامع : 5068)
یہ امت ضرور حوض کوثر پر رش کرے گی ان اونٹوں کی طرح جن کو چار دن پانی پینے سے روک کر پانچویں دن اجازت دی جائے ۔
قارئین کرام ! اگر اونٹوں کے ریوڑ کو چار دن پانی سے روک کر پانچویں دن پانی پینے کی اجازت دی جائے تو حوض پر اونٹوں کا کس قدر رش ہوگا ؟ اور وہ پانی حاصل کرنے کے لیے کس قدر کوشش کریں گے؟ بالکل اسی طرح یہ امت بھی حوض کوثر کو حاصل کرنے کے لیے اژدحام کرے گی اور کوشش کرے گی جس سے حوض کوثر پر رش پیدا ہو جائے گی ۔
حوض کوثر کے حصول کے لیے دعا کرنا
قارئین کرام ! ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور یہ دعا کرتا رہے کہ اللہ رب العالمین اسے اپنی نبی کا یہ جام نصیب فرمائے ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَقَدْ تَرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ لَعَجَائِزَ يُكْثِرْنَ أَنْ يَسْأَلْنَ اللهَ أَنْ يُورِدَهُنَّ حَوْضَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں نے مدینہ میں ایسی بوڑھی عورتوں (صحابیات) کو کثرت سے یہ دعا کرتے ہوئے پایا ہے کہ اللہ تعالی انہیں حوض کوثر کا جام نصیب فرمائے ۔( مسند ابی یعلی : 3355)
رب العزت نے بنی نوع انساں کی تخلیق فرمائی اور اس کی رہنمائی کے لیے اپنا دستور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں نازل فرمایا. اور انسانوں کی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے انھیں میں سے پیغمبر بھیج کر حجت تمام کر دی. دنیا میں اگر کوئی صانع کچھ ایجاد کرتا ہے جیسا کہ آج کا دور مشینی دور کہلاتا ہے اور ہر قسم کی مشینری ہم استعمال کرتے ہیں.. جب کوئی مشین خریدتے ہیں اس کے ساتھ ہمیں ایک کتابچہ(Booklet) ملتا ہے جس پہ ہدایات (Instruction) ہوتی ہیں کہ اس مشین کو کیسے استعمال کرنا ہے اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں تاکہ کوئی خرابی پیدا نہ ہو. کائنات کا سب سے بڑا صانع اورکاریگر جس نے ہماری تخلیق کی تو ہمیں جو ہدایات صادر فرمائیں وہ قرآن حکیم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں.آج اگر ہم پریشانیوں سے دو چار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دستور اور قانون رحمت سے بغاوت کی ہے. ہماری حکومتوں نے حدود اللہ کو وحشیانہ نظام تک کہہ کر رب العزت کے اس دستور کی بے حرمتی کی ہے. جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں..اخلاقی قدروں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ننھے پھولوں اور کلیوں کو درندگی کا نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکا ہے۔ ہماری اسی اخلاقی پستی کا تذکرہ بشیر بدر نے یوں کیا ہے:-
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
ان درندہ صفت، وحشیوں کا جو حد آدمیت پھلانگ چکے ہیں، کا واحد علاج حدود اللہ کا عملی نفاذ ہے۔
آئیے!!! قرآن مجید اور فرمان نبوی کی روشنی میں ان فرمودات عالیہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا نظام ہے جس نے برسوں سے جہالت میں لتھڑے معاشرے کو پر امن، با حیا اور اخلاقی قدروں کی پاسداری سکھادی. رب العزت کا فرمان ہے:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۳۳
جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔(المائدۃ:33)
یہ حل ہمارے خالق نے بتایا ہے معاشرے سے فساد کی بیخ کنی کے لیے. آئیے ایک اور مقام ملاحظہ فرمائیے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰى ١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۱۷۸
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا۔(البقرة:١٧٨)
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا١ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ١ٞ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا۰۰۹۲
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والاہے۔(النساء:٩٢)
یہ قانون امت مسلمہ کو اس کے خالق نے دیا اور ساتھ اس کی اہمیت یہ کہہ کر واضح فرمادی:
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰۤاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۰۰۱۷۹
عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے۔(البقرة:١٧٩)
اس کے علاوہ آج ہمارا معاشرہ ایک عام فرد سے لے کر حکومتی نمائندوں اور اہل اقتدار تک سب کے سب چور بنے ہوئے ہیں.ان کا علا ج بھی قران نے بتایا ہے: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۰۰۳۸
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا۔ عذاب، اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت وحکمت والا ہے۔(المائدة:٣٨)
اور جب اس کو نافذ کرنے کی باری آئی تو نبی رحمت ﷺنے اعلان فرمایا: لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا
اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی اس سزا سے مبرا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری : 3475 )
آج ہر طرف اخلاقی قدروں کا انحطاط ہے۔ شرم و حیا سے عاری افراد معصوم اور بے گناہ لوگوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں اور دوسری طرف لوگ ماڈرن ازم اور اہل یورپ کی نقالی میں فحاشی و بدکاری کے فروغ کے لیےنت نئے حربے آزما رہے ہیں ان کی درستگی کا طریقہ قران نے یوں بیان کیا:
اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۲
زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیئے۔(النور:٢)
اس کے علاوہ اگر شادی شدہ افراد معاشرے میں اسی بے راہروی اور گناہ کے مرتکب ہوں تو ان کو رسول اللہ ﷺنے اپنے عہد میں رجم کی سزا دی۔ ماعز اسلمی اور غامدی عورت کا واقعہ اس بات کا گواہ ہے کہ حکمرانوں کو قیام امن کے لیے اس حد کو بروئے کار لانا ہو گا، اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺکا فرمان صحیح مسلم میں موجود ہے۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كُرِبَ لِذَلِكَ، وَتَرَبَّدَ لَهُ وَجْهُهُ قَالَ: فَأُنْزِلَ عَلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ، فَلُقِيَ كَذَلِكَ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: «خُذُوا عَنِّي، فَقَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ رَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ نَفْيُ سَنَةٍ»
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ پر جب وحی اترتی تو آپ ﷺکو سختی معلوم ہوتی۔ اور چہرہ مبارک پر مٹی کا رنگ آ جاتا۔ ایک دن آپ ﷺپر وحی اتری آپ ﷺکو ایسی سختی معلوم ہوئی جب وحی موقوف ہو گئی تو آپ ﷺنے فرمایا: ”سیکھ لو مجھ سے، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے راستہ کر دیا اگر «ثيب» «ثيب» (شادي شده) سے زنا کرے اور «بكر» (كنواره) «بكر» سے تو «ثيب» کو سو کوڑے لگا کر سنگسار کریں گے۔ اور «بكر» کو سو کوڑے لگا کر وطن سے باہر کر دیں گے ایک سال تک۔‘‘(صحیح مسلم:1690)
اور فرمایا: وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا۰۰۱۶
تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کر لیں انہیں ایذا دو اگر وه توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے منہ پھیر لو، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(النساء:١٦)
اس کے علاوہ اگر کوئی دين اسلام سے پھر جائے تو اس کی سزا بھی اسلام نے مقرر فرمائی:
وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۲۱۷
اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔(البقرة:٢١٧)
اور مرتد کی سزا کے بارے میں نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا :
کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا اسے قتل کر ڈالو۔[صحیح بخاری:جلد سوم]
ہمارے معاشرے میں تباہی کا ایک اور سبب جھوٹی تہمت ہے۔محض گمان کی بنیاد پر دوسروں کے کردار کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ اس جرم کے ذریعے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنانے والوں کو قرآن نے یوں سیدھا کرنے کا حکم دیا۔
وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۰۰۴ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۵(النور:4)
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی (80) کوڑے مارو۔ اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ اور یہ لوگ خود بدکار ہیں مگر جنہوں نے ایسا لگانے کے بعد توبہ کی اور اپنی حالت درست کر لی تو اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
قارئینِ کرام!!
معاشرے کا ایک بہت بڑا ناسور اور امن کی راہ میں حائل رکاوٹ عاملوں، جادوگروں، جعلی پیروں کا صفایا اور اسلام کے مطابق ان کو اگر قرار واقعی سزا دی جائے تو نہ صرف یہ قیام امن کے لیے ضروری ہے بلکہ لوگوں کے ایمان، عزتیں اورمال محفوظ ہونے کے ساتھ ایک کثیر تعداد کے گھر بھی اجڑنے سے بچ جائیں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں:-
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
ہلاک و برباد کرنے والی (ان) چیزوں سے بچو، اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے اور جادو (کرنے اور کرانے) سے۔(صحیح بخاری)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاموقف تھا کہ جادوگر کو قتل کردیا جائے،چنانچہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سےایک سال قبل سرکاری فرمان جاری کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں۔ راوی کہتا ہے ۔’’سیدناعمررضی اللہ عنہ کی وفات سے ایک سال قبل ان کا خط ہمیں موصول ہوا۔ انہوں نے فرمایا، ہر جادوگر مرد اور عورت کو قتل کردو، چنانچہ ہم نےتین جادوگر عورتوں کو قتل کیا۔ (مسند امام احمد ،ص:۱۹۰،ج۱)
آج سے کچھ سال پہلے ایک انٹر نیشنل رپورٹ میں جرائم کی شرح کا تجزیہ کیا گیا اور وہ تجزیہ ماہ نامہ الاخوہ کے صفحات پر شائع ہوا تھا،اس میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ جرائم کی شرح سب سے کم سعودی عرب میں ہے کیونکہ وہاں شرعی حدود کا نفاذ ہے اور سب سے زیادہ شرح ان ممالک کی تھی جو مادر پدر آزاد معاشرے پر یقین رکھتے ہیں اور وہاں اخلاقی قدروں کا قحط ہے۔
اے ارباب اقتدار اور عوام الناس!!! انسانیت کے لیے سکون کا حل وہی ہے جو خالق کائنات نے اتارا ہے..آج ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں. ہماری نسلیں بربادی اور اخلاقی سطحیت کی ڈگر پر چل رہی ہیں. حدود اللہ کے نفاذ میں تاخیر اور رب تعالی کی نازل کردہ حدود کا مذاق کہیں ہمیں عذاب سے دو چار نہ کر دے اگر آپ بقا چاہتے ہیں تو حدود اللہ کا نفاذ کر دکھلائیے اور اس کے ثمرات بہت جلد ملنا شروع ہو جائیں گے..
ان شاء الله. وما توفيقي إلا بالله
اِسلام کے عائلی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خاندان کے عناصر کی تعداد بہت وسیع ہے۔ اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔
مغرب اور اسلام کے تصورِ خاندان میں یہ فرق ہے کہ مغرب میں یہ صرف ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے پر مبنی ہے اور کہیں اولاد میں سے بھی کوئی شامل ہوتا ہے ورنہ بیٹے بیٹیاں جوانی کو پہنچتے ہی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد والدین کا اُن سے کوئی عملی تعلق نہیں رہ جاتا۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کی تشکیل میں شریک ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچاؤں اور پھوپھیوں کی اولاد (عَصَبَات) اور ماموؤں اور خالاؤں کی اولاد (اَرحام) پر مشتمل ہے۔
اسلام متعدد احکام کے ذریعے خاندان کے باہمی تعلقات کومضبوط اور مربوط کرتا ہے۔ اسلام نے ان خاندانی تعلقات کو احکام کے ایک جال کی صورت باہم مربوط کر رکھا ہے۔ صاحبِ استطاعت اور کشادہ دست کے اوپر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ تنگ دست اور مجبور و ضرورت مند پر خرچ کرے۔ ایسے مسائل جن میں اس طرح کے مختلف مصارف پر خرچ کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں احکامِ نَفَقات (فی سبیل اللہ خرچ کے احکام)کہا جاتا ہے۔ اَحکامِ دیت کے تحت قتلِ خطا کی دیت کا بیان ہے کہ مقتول کے عَصَبَات (باپ کی طرف سے قرابت دار) اور قبیلہ اس کا حق دار ہے۔ احکامِ میراث کے تحت وراثت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں معیّن درجات اور حصوں کے مطابق اقارب کا حق مقرر کیا ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے۔ کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔
رشتہ و قرابت کے استحکام اور نشوو ارتقا میں اسلام نے خصوصی ترغیب و تحریص سے کام لیا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا حق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
يَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَايُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ
لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرہ۲۱۵)
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَا١ۖۚ ا۟لْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَؕ۰۰۱۸۰ (البقرہ۱۸۰)
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۰۰۷
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ (النساء۷)
احسان کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّبِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى(النساء۳۶)
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۰۰۱ (النساء۱)
اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
قطع رحمی کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ۰۰۲۲ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ۰۰۲۳
اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور رشتہ و قرابت کی رسیاں کاٹ ڈالو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور اُن کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ (محمد:۲۲۔۲۳)
قرآنِ مجید کی ان تعلیمات اور احکام کی تائید میں احادیثِ رسول ﷺ بھی وارد ہوئی ہیں: سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
أَنَا اللهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ
میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم (رشتے)کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے اخذ کرکے رکھا ہے۔ جو شخص اس رحم کو قائم رکھے گا میں بھی اُس کو قائم رکھوں گا، اور جو اِس کو توڑ دے گا میں بھی اُس کو توڑ دوں گا۔(سنن الترمذي:1907)
ایک حدیث میں آیا ہے:مسکین کو صدقہ دینے کا اجر ایک صدقے کا اجر ہے ، جب کہ رشتے دار کو صدقہ دینے کا اجر دوہرا ہے، ایک صدقے کا اور ایک رشتے کا۔
ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے:بہترین صدقہ وہ ہے جو ناراض (مخالف اور دشمن) رشتے دار کو دیا جائے۔ اس لیے کہ اُس کے اور صدقہ دینے والے کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے، محبت اور مودّت باقی نہیں رہی، لہٰذا اُس کے اوپر صدقہ کرنا اپنے نفس کو مارنا اور اِس کے اُوپر غالب آنا ہے اور یہی نفسِ انسانی کی تربیت اور تزکیہ ہے۔
ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ بھائی اپنے بھائی سے کینہ و کدورت رکھتا ہے۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔
عفوودرگزر، رواداری اور برداشت کہاں چلی گئی؟ ایثار اور مودّت کا کیا ہوا؟ حالانکہ یہی بھائی اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر بھائی اپنے بھائیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔
یہ درست ہے کہ مفادات کی یہ کش مکش اور جنگ قدیم انسانی تاریخ میں بھی تھی جب انسان واحد کنبہ تھا۔ اُس وقت صرف میاں بیوی اور بیٹے بیٹیاں ہی انسانی خاندان کے کل عناصر تھے۔ اس چھوٹے سے خاندان کے ایک فرد نے بھی اپنے بھائی کوقتل کر دیا تھا اور حسد کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس واقعے کی صداقت اپنی جگہ، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آیندہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل جاری رہے۔ انسان کیوں یہ پسند کرتا ہے کہ وہ آدم کا شرپسند اور خبیث بیٹا بن جائے۔ وہ اچھا اور طیب ابن آدم بننا کیوں پسند نہیں کرتا؟ یعنی وہ صالح، نفیس اور امن پسند انسان جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا مگر اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا ایمان کے منافی سمجھا۔ اُس موقعے پر کہے گئے اُس کے الفاظ کے اندر اُس کے صالح جذبات اور ایمانی احساسات کا بھرپور مظاہرہ موجود ہے۔ اُس نے کہا:
لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚاِنِّيْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۲۸(المائدہ۲۸)
اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
آج کا انسان قابیل جیسا انسان کیوں بننا چاہتا ہے کہ قیامت تک جو بھی قتل ہو گا اُس کا جرم اور گناہ اُس پہلے قاتل پر بھی ہو گا کیونکہ اُسی نے اس زندگی میں قتل کی روایت کا آغاز کیا ہے۔ الله کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ واللہ یہ دنیا اس قابل نہیں!اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتا تو اللہ کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ باہمی عداوتوں اور جھگڑوں میں مبتلا لوگوں کی اکثریت صاحب مال، اہل دولت اور امیروں کی ہے۔ فقیر اور تنگ دستوں کی لڑائی جھگڑے کے واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ اُن بے چاروں کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں جس کے اوپر وہ نزاع کھڑا کریں،جب کہ نزاع پیدا کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ میں کروڑوں نہیں اربوں کیسے حاصل کر سکتاہوں؟ سوچنا چاہیے کہ انسان یہ اربوں حاصل کرکے بھی اپنے استعمال میں کتنا لاتا ہے؟ انسان دولت کے یہ انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہئیں کہ اُس کے بعد دوسرے اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
دولت کی قیمت پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، بھائیوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سودا ہے۔ یہ شیطان کی پیروی ہے۔ شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ دین انسانی زندگی کی دو بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان اور اُس کے معبود، یعنی اللہ کے درمیان تعلق مضبوط تر ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہے کہ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات قائم اور اُستوار ہوں، مضبوط اور بہتر ہوں۔ اس تعلق بین الناس کے بھی دو پہلو خصوصی اہمیت رکھتے ہیں:اہل ایمان کے مابین محبت و اُلفت اور اقارب و رشتہ داروں کے مابین تعلقاتِ محبت!چونکہ رشتہ و قرابت کے عناصر کو دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حقوق حاصل ہیں اس لیے مسلم خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لیا جائے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ ہو۔ رب کے قرآن اور رسول ﷺ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔
محبت و اُلفت اور احترام و اکرام پر مبنی روابط اور تعلقات کو قائم رکھنا سب کا فرض ہے۔ رشتہ و قرابت کے تعلقات کو برابری کی سطح پر قائم رکھنا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ حدیث رسول ﷺ میں آیا ہے: رشتے کے ربط و تعلق کو وہ شخص قائم نہیں رکھتا جو بدلے اور برابری کی سطح پر ایسا کرے، بلکہ وہ شخص رشتہ قائم رکھتا ہے جس سے رشتے کو توڑا جائے تو وہ اُسے توڑنے کے بجاے جوڑے۔
صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو جواباً صلہ رحمی کرے۔ دوسرے سے محبت ملے تو وہ بھی اُس سے محبت کرے، کوئی احسان کرے تو وہ بھی احسان کرے، کوئی میل ملاقات رکھے تو وہ بھی اُسے ملتا رہے، کوئی تحفہ تحائف دے تو وہ بھی ایسا کرے۔ ایسا شخص حقیقی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ صلہ کا معنی ہی ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑنا ہے۔ حقیقی صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے کٹ جائے اُس سے جڑے رہو، اور جو تمھیں کچھ نہ دے اُسے تم عطا کرو۔ جو تم پر ظلم کرے اُسے معاف کر دو، اور جو تم سے بُرا سلوک کرے اُس سے تم حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ یہ ہے وہ شان جو ایک خاندان کے افراد و عناصر کے درمیان ہونی چاہیے۔
جب دولت کم تھی، صرف گزارا ہوتا تھا تب خاندان کے ہر معاملے میں لحاظ رکھا جاتا تھا، اب دولت کی ریل پیل ہے مگر خاندانی روابط کو مستحکم کرنے اور صلہ رحمی کا کوئی اہتمام نہیں۔ تنگی و خوش حالی کی ان دونوں حالتوں کا موازنہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تنگی کے وہ دن بہتر تھے جب خاندانی تعلقات کو قائم رکھنا اہم سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ آسانی کے ایام بے وقعت ہیں جب خوش حالی کی بنا پر باہمی عداوتیں اور مخاصمتیں زوروں پر ہیں۔ تعلقات ٹوٹ رہے ہیں، محبتیں کمزور ہو رہی ہیں، کدورتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ محسن انسانیت ﷺ نے بجا فرمایا ہے کہ امیری سامان کی کثرت سے نہیں ملتی بلکہ نفس کی بے نیازی اصل امیری ہے۔
آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پیدا ہورہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں وفات پارہے ہیں ، دنیا میں ہرآنے والایہاں سے جارہا ہے اس لئے اس بات میں کسی کو شک واختلاف نہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہرکسی کو دنیا سے جانا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ جب اس دنیا میں آنے کے بعد ہمیں مرہی جانا ہے تو پھر اس دنیا کی کیا حقیقت ہے ، یہاں ہم کیوں آئے ہیں اور ہمیں دنیا میں کیا کرنا چاہیے ؟
یہ دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے یعنی ہمیں اللہ نے دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ ہم اس کی بندگی کریں اور اس نے جو صراط مستقیم دیا ہے اس پر چلتے ہوئے زندگی بسر کریں ۔ اللہ کے سوا کسی کو بقا نہیں ہے ، یہاں ہرکسی کی زندگی متعین ومحدود ہے جب اس کی زندگی کا متعین دن آجاتا ہےوہ اس دن یہاں سے کوچ کرجاتا ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ مسافر کی طرح چند لمحہ بسر کرنے کی جگہ ہے ،ہمارا اصل ٹھکانہ آخرت ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے ،اللہ کا فرمان ہے :
يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ١ٞ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ۰۰۳۹
’’اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے ، یقین مانوکہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے۔‘‘(غافر:39)
بلکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی گھڑی بھر کا ٹھکانہ ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَهُمْ١ؕ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ۰۰۴۵
اور ان کو وہ دن یاد دلائیےجس دن اللہ ان کو اپنے حضور جمع کرے گا تو ان کو ایسا محسوس ہوگا کہ گویا وہ دنیا میں سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں، واقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔ (یونس:45)
کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک دنیا دار آیا ، فرعون آیا، قارون آیا، ھامان وشداد آیا مگر کسی کو اپنی فوج ، طاقت، سلطنت اور دنیا نے نہیں بچایا آخرکار دنیا چھوڑ کر سب کو جانا ہی پڑااس لئے کافر لوگ بھی موت سے انکار نہیں کرتے مگر وہ موت سے نصیحت نہیں لیتے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ،اللہ کا فرمان ہے :
زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ۰۰۷
کافروں کا خیال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ، آپ کہہ دیجئے ! کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور اٹھایا جائے گا ، پھر جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی تمھیں خبر دی جائے گی اور یہ کام اللہ پر انتہائی آسان ہے ۔ (التغابن:7)
ہر مسلمان آخرت پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن آخرت پر ایمان لانا ہے بلکہ اس آیت کی روشنی میں سب سے پہلے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم یہ پختہ عقیدہ بنائیں کہ اس دنیا سے وفات پاجانے کے بعد اللہ تعالی سارے انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا اور سب کے عملوں کا حساب وکتاب ہوگا پھر آخرت سے متعلق قرآن وحدیث میں جتنی باتیں مذکور ہیں ان سب پر ایمان لانا ہے مثلا برزخ کی زندگی،قبر کی نعمتیں، قبر کا عذاب، اسرافیل علیہ السلام کا صور پھونکنا، قبروں سے دوبارہ زندہ ہوکرکھڑا ہونا، محشر میں سب کا جمع ہونا،اللہ کی عدالت قائم ہونا، حساب وکتاب، حوض کوثر، پل صراط اور جنت وجہنم میں داخلہ وغیرہ ۔
آخرت برحق ہے اور دنیاوی زندگی دراصل آخرت کی تیاری کے لئے ہی ہے،اس لئے اللہ نے قرآن میں جابجا آخرت کی تیاری کا حکم دیا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰۱۸
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہرشخص دیکھ لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے اعمال کا کیا ذخیرہ بھیجا ہے۔ اور ہروقت اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔ (الحشر:18)
سورہ اسراء کی ایک آیت میں اللہ نے آخرت کی فکر کرنے کے ساتھ اس کی بہترتیاری کرنے والوں کو سعی مشکور(قدرکی جانے والی تیاری)کہہ کربشارت بھی دی ہے گویا وہاں فکرآخرت، تیاری اور نتیجہ تینوں بیان ہوا ہے، اللہ فرماتا ہے:
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا۰۰۱۹
جس نے آخرت کی فکر کی اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی ۔ (الاسراء:19)
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:
وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًا
اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالی کے یہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے ۔ (المزمل:20)
اس آیت سے سبق ملتا ہے کہ کل کے لئے خرچ کرنےاور کسی قسم کی قربانی دینےسے گریز نہیں کرنا چاہیے بلکہ آخرت میں بہتر بدلہ پانے کی امید میں ہر قسم کی خیروبھلائی کرتے رہنا چاہیے۔
یہاں ایک افسوسناک پہلو ذکرکرکے مضمون کے اصل ہدف کی طرف آؤں گا ۔ ہمارے دین کی اصل اور اس کا لب لباب آخرت کی تیاری اور اس کے ذریعہ آخرت کی کامیابی حاصل کرنا ہے،یہاں کی تمام دینی کارگزاریوں کا اصل ہدف آخرت کی تیاری ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت فکر آخرت سے حددرجہ غافل ہے جس سے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان بھی دوبارہ زندہ ہونے ، رب سے ملاقات کرنے اور آخرت کے حساب وکتاب کےمنکر ہوگئے؟۔انسانوں کی غفلت کی طرف اللہ تعالی نے بھی اشارہ کیا ہے ، رب العالمین کا فرمان ہے:
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ۰۰۱
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ (الانبیاء:1)
مذکورہ تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےہمیں آخرت پر ایمان پختہ کرنے کے ساتھ اپنے اندر فکر آخرت پیداکرنےکی اشد ضرورت ہے ، آخر اسی بات سے ہم میں اور کافروں میں دنیاوی زندگی کے مقصد میں فرق ہے ، وہ آخرت سے غافل دنیا کو ہی مسکن سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک اصل مسکن آخرت ہے۔چنانچہ میں ذیلی سطورمیں چند اہم نکات ذکر کرناچاہتا ہوں جوفکر آخرت پیدا کرنے میں معاون ہوں گے ۔ان شاء اللہ
1۔فکرآخرت پیداکرنے میں اہم رول اس احساس کا ہے کہ ہم ہمہ وقت اس شعورواحساس کے ساتھ جئیںکہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔وہ ہمارے عملوں سے باخبر ہے ،اس سے چھپاکر ہم کوئی بھی کام انجام نہیں دے سکتے ہیں۔اللہ کا فرمان ہے :
اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى ؕ۰۰۱۴
کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے ۔ (العلق:14)
اس احساس کے ساتھ جینے والا مسلمان ایمان کی حفاظت کرے گا، عمل صالحہ کی طرف گامزن رہے گا اور برائی کے انجام سے خوف کھاتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرتا رہے گا، گویا وہ ہمیشہ فکر آخرت اور اس کی تیاری میں لگارہے گا۔
2۔تقوی اختیار کرنے والا آخرت کے لئے فکرمند رہتا ہے اس لئے اللہ نے سفر آخرت کے لئے تقوی کا توشہ لینے کا حکم دیا ہے ، فرمان الہی ہے:
وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى
اوراپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو ، سب سے بہتر توشہ تقوی یعنی اللہ تعالی کا ڈر ہے۔ (البقرۃ:197)
تقوی کی تعریف ہے:
التقوى هي الخوف من الجليل والعمل بالتنزيل والرضا بالقليل والاستعداد ليوم الرحيل
یعنی تقوی اللہ سے ڈرنے، اس کے حکم پر عمل کرنے ، تھوڑی چیز پر قناعت کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا نام ہے ۔
آج انسان عمل سے کورا اور گناہوں کا رسیا اللہ سے بے خوف ہوجانے کی وجہ سے ہے ، جس کے دل میں خوف الہی ہو وہ آخرت کی فکر اور اس کی تیاری کرتا ہے ۔
(3) موت کو کثرت سے یاد کرنا اپنے اندر فکر آخرت پیداکرنے کے لئے بڑا معاون ذریعہ ہے ، موت دنیاوی زندگی کے خاتمے کا نام ہے، پھر اس کے بعد آخرت کی منزل شروع ہوجاتی ہےاس لئے نبی کریم ﷺ نے موت کو بکثرت یاد کرنے کا حکم دیا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتََ(صحيح الترمذي:2307)
’’لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔‘‘
آپ ﷺ کے اس فرمان کا مقصد ہے کہ ہم دنیا کی عارضی لذتوں اور شہوتوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، اللہ سے تعلق جوڑیں اور موت کو کثرت سے یاد کرکے موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کریں ، اسی لئے متعدد اسلاف سے منقول ہے کہ نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔ویسے تو اللہ نے بڑے بڑے ظالم کو عبرتناک موت دی ہے لیکن ان سب میں فرعون کی موت کو خصوصی طورپر نشان عبرت بنایا ہے۔
4۔فکر آخرت پیداکرنے میں قبروں کی زیارت بھی اہم ذریعہ ہے، کسی کی موت سے بالفور نصیحت ملتی ہی ہے ساتھ ہی گاہے بگاہے قبرستان جاکران مرنے والوں کی قبروں سے بھی نصیحت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انسان میں خوف الہی، نرم دلی اور فکر آخرت پیدا ہو، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهُ يُرِقُّ الْقَلْبَ، وَتُدْمِعُ الْعَيْنَ، وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا(صحيح الجامع:4584)
’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ، اب تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ دلوں کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے خشیت کے آنسو بہاتی ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے اور تم وہاں لغو بات نہ کرو۔‘‘
اس حدیث کے پس منظر میں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی حالت پہ غور کریں،آپ رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پرجاتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی ، آپ سے پوچھا جاتا کہ جنت و جہنم کے ذکر پہ آپ اس قدر نہیں روتے اس پہ کیوں روتے ہیں ؟تو وہ جواب دیتے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ، فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ، فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ» قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ»
آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سواگر کسی نے قبرکے عذاب سے نجات پائی تواس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے، سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اورمنظر کو نہیں دیکھا۔ (صحيح ابن ماجه:3461)
قبراور قبرستان ایک بھیانک جگہ ہے ، وہاں اپنے ان دوست واحباب ، رشتے دار اور اعزاء واقرباء کی قبروں کو پاتے ہیں جن کے ساتھ زندگی کے یادگار لمحات گزارے ہوتے ہیں کیا ان کے بچھڑنے کا غم نہیں ہوتا اور ان کی جگہ خود بھی جانے کی فکر پیدا نہیں ہوتی ؟
5۔موت کے بعد جتنے بھیانک مرحلے اور ہولناک مناظر ہیں ان سب پہ غور کیا کریں ۔ ان اسباق کوکتابوں سے اور علماء کے بیانات سے دہرایا کریں ،اس عمل سے آخرت کی تذکیر ہوتی رہے گی اور اس کی فکر پیداہونے میں مدد ملتی رہے گی۔ موت کی سختی، عذاب قبر، محشر کی ہولناکی، نفسی نفسی کا عالم ، حساب کی سختی ، پل صراط کی حقیقت اور جہنمیوں کی بھوک وتڑپ اور شدید سے شدید عذاب کا مطالعہ کرکے یقینا ایک مسلمان تڑپ اٹھے گا اور آخرت کی پریشانیوں اور سختیوں سے بچنے کی فکر کرے گا۔
6۔آخرت کی فکر اور اس کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا کی محبت یا دنیا طلبی ہے ، یہ حقیقت بھی ہے کہ جس کی دنیا جس قدر وسیع اور کشادہ ہے اس کے اندر دینداری کی اتنی ہی قلت ہے اور جس کی دنیا چھوٹی ہوتی ہے اس کے پاس دین زیادہ ہوتاہے۔اس بات کو دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے دین پر دنیا کو ترجیح دیدی اس نے آخرت کو بھلادیا ، اس حقیقت کو اللہ قرآن میں بایں الفاظ ذکر کررہا ہے ۔
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاٞۖ۰۰۱۶وَ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ؕ۰۰۱۷
بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ (الاعلی:16-17)
ہمارے عملوں پر تعجب ہے کہ ہم دارفانی اور اس کے لمحہ بھر کی لذتوں کوابدی زندگی اور ابدی سکون وراحت پر ترجیح دیتے ہیں جبکہ اللہ اس دنیا کو مچھر کے پَر برابربھی نہیں اہمیت دیتا ، سیدناسہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ (صحيح الترمذي:2320)
7۔آخرت کی فکر اور اس کی تیاری میں ایک بڑی رکاوٹ دلوں کی سختی اور ان میں کفر ومعصیت کی آلودگی کا ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم اپنے نفس کا تزکیہ اور دلوں کو کفر ومعصیت اوراخلاق رذیلہ سے پاک وصاف کرلیتے ہیں تو عبرت حاصل کرنے والی چیزوں سے ہمیشہ عبرت حاصل کرسکیں گے ورنہ دلوں کی سختی مانع عبرت کے علاوہ ترک واجبات اور فعل منکرات کا سبب بھی ہےاور اللہ کے یہاں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک ومعصیت کی آلودگیوں سے پاک کریں گے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ۙ۰۰۱۴
’’بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔‘‘ (الاعلیٰ:14)
8۔دنیا کی زندگی کو مسافر کی طرح گزاریں اس سے ہمارے اندرسے یہاں زیادہ دیر تک رہنے اور پُرتعیش زندگی گزارنےکا خیال جاتا رہے گا اس کی جگہ دل میں ذکر الہی اور فکر آخرت پیدا ہوگی۔یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں ہر آنے والا آخرت کے سفر کا مسافر ہے ، اس حقیقت کو جو سمجھ لیتا ہے وہ خود کو دنیا میں مسافر ہی سمجھتا ہے اوردنیاکا ایک مسافر جس طرح اپنا سامان سفر تیار رکھتا ہے کہ نہ جانے کب کوچ کرنا پڑے اسی طرح آخرت کا مسافر دین و ایمان اورعمل وعقیدہ کے ساتھ تیار رہتا ہے کہ نہ جانے کب موت کی سواری آجائے اور آخرت کی طرف کوچ کرجانا پڑے ۔ فکر آخرت کے اسی تناظر میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے :
كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ القُبُورِ
تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہواور اپنا شمار قبر والوں میں کرو۔ (صحيح الترمذي:2333)
مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کر لو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا۔
اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو، گویا تم دنیا سے جا چکے، اسی لیے آگے فرمایا: صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پا لینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لو، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔(منقول ازشرح ترمذی اردو)
9۔قرآن کو تفکر وتدبر کے ساتھ پڑھنا اپنے اندرفکر آخرت پیداکرنے کا ذریعہ ہے ۔ اللہ کی کتاب ہی تو ہدایت کا سرچشمہ اور دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضامن ہے ۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے ایک طرف ایمان میں زیادتی پیداہوتی ہے اور اعمال صالحہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف اللہ کا خوف ، نیتوں کی اصلاح اور جہنم سے بچنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے،یہ دونوں کیفیات قرآن کے انذار وتبشیر سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب مومن ایمان وعمل اور اس کے بدلے جنت ونعمت کی بشارت پڑھتا ہے تو وہ شوق جنت میں اس کےحصول کی طرف آتا ہے اور جب اللہ کے عذاب ، جہنم اور نافرمانوں کے حالات پڑھتا ہے تو مارے خوف کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتا ہے ۔ اس لئے ہمیشہ سمجھ کر قرآن کی تلاوت جاری رکھیں تاکہ جنت کا شوق اور جہنم کا خوف لگارہے ۔
10۔آخری پوائنٹ اس بات کا احساس رہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مرتے دم تک اس احساس کی حفاظت کرتے رہیں تاآنکہ موت آجائے ،ایک مسلمان کے سامنے مقصد تخلیق یعنی عبادت الہی رہنا چاہیے اور خلوص کے ساتھ ، سنت کے مطابق اللہ کی بندگی کرتے رہنا چاہیے تاآنکہ موت آجائے ، ان دونوں باتوں کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۰۰۱۰۲
اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ (آل عمران:102)
اور فرمان رب العالمین ہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُؒ۰۰۹۹ ’’اوراپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔‘‘(الحجر:99)
یہ چند نکات تھے جو فکر آخرت پیدا کرنےمیں معاون ہوں گے ، ان کے علاوہ بھی بہت سارے نکات ان میں داخل کئے جاسکتے ہیں مثلا دلوں کو نرم کرنے والے اور ان میں خوف پیداکرنے والے سارے عملوں سے فکرآخرت کی ترغیب ملے گی حتی آخرت میں ملنے والے ہرقسم کے عیش وآرام سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوگی۔
اللہ تعالی ہمارے اندر فکر آخرت پیدا کردے تاکہ ہم اس کی جیسی تیاری ہونی چاہیے کرسکیں اور آخرت میں نجات پاسکیں۔
محبت کیا ہے؟
مغرب کی اندھی تقلید میں مگن مسلمانوں کے نام ایک چشم کشا تحریر
محبت کیا ہے؟ اوراسلام جذبہ محبت کے بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟
مغرب کی اندھی تقلید میں مگن مسلمانوں کے نام ایک چشم کشا تحریر !
محبت ایک فطری اور طاقتور جذبہ ہے‘ جو کبھی بھی، کسی کو بھی ، کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ محبت دو طرح کی ہوتی ہے: پاکیزہ محبت اور ناپاک محبت۔
پاکیزہ محبت:
پاکیزہ محبت خلوص،ایثار اور وفاداری پر قائم ہوتی ہے اور ہمیشہ پائیدار اور دائمی رہتی ہے۔ اور ہر قسم کے ذاتی مفاد، خود غرضی اور بے وفائی سے پاک ہوتی ہے۔
ناپاک محبت :
خبیث محبت مالی، ذاتی اور جنسی‘ رذیل مفادات، خودغرضی اور بے وفائی پر قائم ہوتی اور ہمیشہ کمزور رہتی اور جلد ختم ہوجاتی ہے،بلکہ اس کا انجام دشمنی پر ہوتا ہے۔
اسلام کا تصورِ محبت:
پوری کائنات میں سب سے زیادہ محبت کا داعی اور فروغِ محبت پر ابھارنے والا مذہب اگر کوئی ہے تو وہ صرف اسلام ہے‘ جس میں محبت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
نبی کائنات جناب محمد رسول اللہ ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے‘ جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے‘ جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو،کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے تم آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ آپس میں سلام کو فروغ دو۔‘‘ (صحیح مسلم:کتاب الایمان، باب بیان انہ لاید خل الجنۃ الا المؤمنون و ان محبۃ المؤمنین من الایمان )
پیغامِ محبت کا امین‘ دین اسلام چونکہ خود ایک پاکیزہ مذہب ہے، لہٰذا اپنے ماننے والوں کو بھی ہمیشہ اور ہر معاملے میں پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیتا اور صرف پاکیزگی کو ہی قبول کرتا ہے۔ نبی رحمت رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔‘‘ (صحیح مسلم: کتاب الزكاة ، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتھا)
اسی لئے پاکیزہ محبت صرف وہی لوگ اپناتے ہیں‘ جو اسلام جیسے پاکیزہ دین سے محبت کرتے اور خود بھی مسلمان او ر مومن ہوتے ہیں۔
ہر انسان اپنے ہی جیسے انسان سے محبت کرتا ہے:
ابتدائے کائنات سے یہ ایک مسلمہ قاعدہ چلا آرہا ہے کہ ہر انسان دنیا میں اپنے ہی جیسے کردار کے حامل لوگوں سے محبت کرتا اور ان ہی کی رفاقت کا طالب رہتا ہے۔ جیسے : مشرک، کافر، زانی، شرابی، چور، ڈاکو، قاتل وغیرہ سب گنہگار اپنے ہی جیسے گنہگاروں سے محبت کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان اور مومن صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر مومنین سے ہی محبت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ان لوگوں کو اسی ترتیب سے جمع کرتا ہے اور آخرت میں بھی ان کا انجام انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا ‘جن سے وہ دنیا میں دلی محبت کرتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ وَ الْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ١ۚ وَ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ١ۚ
’’خبیث عورتیں‘ خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد‘ خبیث عورتوں کے لائق ہیں۔ اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں۔‘‘(النور:26)
یہ تو دنیا میں ان کی اپنے ہی جیسے کرداروں سے باہمی محبت اور میل جول ہے، اسی طرح آخرت میں بھی یہ لوگ اپنے ہی جیسے کرداروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا١ۙ۬ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْؕ۰۰۶فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸
’’اس (قیامت کے) دن لوگ (اپنے اعمال کے مطابق) مختلف ٹولیوں کی صورت میں جمع کئے جائیںگے، تاکہ انہیں انکے اعمال دکھادیئے جائیں، پھر جس نے ایک ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ایک ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی تو وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔‘‘(الزلزال:6تا8)
نبی کریم ﷺکا فرمان: ’’(خواب میں)میرے پوچھنے پر جبریل اور میکائیل علیہما السلام نے مجھے بتایا کہ جو منظر آپ کو دکھائے گئے ہیں ان میں سے سب سے پہلے جس شخص پر آپ کا گزر ہوا اور اس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھیں گدی تک لوہے کے آلے سے چیری جارہی تھیں‘ یہ وہ شخص تھا جو صبح کے وقت گھر سے نکلتا تھا تو جھوٹی خبریں گھڑتا تھا‘ جو ساری دنیا میں پھیل جاتی تھیں اور دوسرے برہنہ مرد اور عورتیں جو آپ نے تنور میں جلتے ہوئے دیکھے وہ زانی مرد اور عورتیں تھیں اور تیسرا وہ شخص جو خون کی ندی میں غوطے کھارہا تھا اور جس کے منہ میں بار بار پتھر ڈالے جارہے تھے یہ وہ شخص تھا جو دنیا میں سود خور تھا۔‘‘ (صحیح بخاری: الجنائز، باب ماقیل فی اولاد المشرکین)
نبی مکرم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ’’(قیامت کے دن)آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ (دنیا میں) محبت کی ہوگی۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الادب، باب علامۃ حب اﷲ عزوجل)
مذکورہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کاانجام اس کی دنیوی دوستی، محبت اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا اور ہر ایک اپنے ہی قبیلے کے فرد کے ساتھ یاتو سخت ترین عذاب دیاجائے گا یا پھر بہترین نعمتوں میں ہوگا۔
پاکیزہ محبت کے مستحق کون؟
اسلامی اعتبار سے پاکیزہ محبت کی سب سے زیادہ حقدار اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، پھر اللہ کے حبیب جنابِ محمد رسول اللہ ﷺکی ذاتِ اقدس اور اس کے بعد تمام اہل ایمان۔ ان محبتوں کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَوَهُمْ رٰكِعُوْنَ۰۰۵۵ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَؒ۰۰۵۶ (المائدۃ:55۔56)
’’بے شک تمہارے دوست تو صرف اللہ، اسکا رسولﷺ اور وہ اہل ایمان ہیں‘ جو نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اور جو شخص اللہ، اس کے رسولﷺ اور اہل ایمان کو اپنا دوست بنالے‘ وہ یقین مانے کہ اللہ کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے۔ ‘‘
نبی ٔ رحمت ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے:’’تم مومن کے علاوہ کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ ‘‘(ابو داؤد: کتاب الادب، باب من یؤمران یجالس)
’’آدمی اپنے دوست(محبوب) کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر آدمی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے؟‘‘ (حوالہ مذکورہ بالا)
دین اسلام ہر معاملہ میں اُخروی کامیابی کو اہمیت دیتا ہے، اس لحاظ سے ہر مسلمان کو کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے اسکے اُخروی انجام پر غور کرنا ضروری ہے۔
پاکیزہ محبت ہی ذریعہ نجات ہے !
اصل محبت وہی ہے جو بے غرض ہو،پرخلوص ہو اور ہمیشہ سلامت رہے۔ اور اس سے زیادہ پائیدار اور دائمی محبت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو نہ صرف دنیا، بلکہ آخرت میں بھی کارآمد ہو اور نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَۚۖ۰۰۶۲ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَؕ۰۰۶۳ لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ؕ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُؕ۰۰۶۴
’’خبردار! اللہ کے وہ دوست جو اللہ پر ایمان لائے اور پرہیزگار بن کر رہے ، ان کیلئے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوگا، ان کیلئے دنیا اور آخرت میں بھی بشارتیں ہی ہیں۔ اللہ کی باتیں کبھی نہیں بدلتیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (یونس :62تا64)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں‘ جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء، لیکن قیامت کے روز اللہ تعالیٰ انہیں ایسے درجات سے نوازے گا جن پر انبیاء اور شہداء بھی فخر کریں گے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ‘ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ کون لوگ ہونگے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہونگے جو بغیر کسی رشتہ یا مالی لین دین کے محض اللہ کی رحمت(رضا) کے حصول کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انکے چہرے نورانی ہونگے اور وہ نور کے منبروں پر ہونگے۔ جب لوگ خوف زدہ ہونگے تو انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ جب لوگ غم زدہ ہونگے تو یہ بے غم ہونگے۔ اسکے بعد رسولِ اکرمﷺنے یہ (مذکورہ، یونس:62تا64) آیت تلاوت فرمائی۔‘‘ (سنن ابی داؤد: کتاب البیوع، باب فی الرھن)
ناپاک محبت کا بدترین انجام
دنیا میں اپنی خودساختہ دوستیوںپر فخر کرنے والے ، اپنے محبوبوں کی قربت کی چاہت میں اپنی آخرت برباد کرنے والے اور انکے اشارۂ ابرو پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے دعویدار قیامت کے دن آپس میں بدترین دشمن بن جائینگے ، اپنی محبت کے اس بدترین انجام پر ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھہرائینگے اور اپنی حرکتوں پر شرمندگی و پشیمانی کا اظہار کرینگے۔
ذرا پڑھئے کہ اللہ کا سچا کلام قیامت کے دن کا کیا نقشہ کھینچتاہے:
اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَؕؒ۰۰۶۷
’’بہت ہی گہرے دوست اس (قیامت کے) دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے پرہیزگاروں کے۔‘‘(الزخرف:67)
وَ يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۰۰۲۷ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۰۰۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ١ؕ وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۰۰۲۹
’’اس (قیامت کے) دن ظالم اپنے ہاتھوں کو (احساسِ ندامت سے) چبا چبا کر کہے گا ‘ ہائے کاش! میں نے رسول(ﷺ) کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس‘ کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد بھی مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘(الفرقان :27تا29)
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ویلنٹائین ڈے کے متعلق کئی متضاد روایات تاریخی کتب میں موجود ہیں، مگر ان میں سے اکثر سے زیادہ من گھڑت قصہ کہانیوں پر مشتمل ہیں۔
بعض روایات معروف تحقیقی ادارے ’’Britannica Encyclopedia ‘‘ کے حوالے سے ملتی ہیں، جنہیں پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دن عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کی مذہبی رسومات کا ایک خاص دن ہے۔ اصل لفظ ’’Valentine Saint‘‘ہے۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ ’’Saint ‘‘کاترجمہ ’’بزرگ‘‘ہے، جو پادریوںکیلئے بولا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر سال 14، فروری کو ’’Valentine ‘‘ نامی پادریوں کی روحیں دنیا میں آتی ہیں، اس لئے وہ اس دن کے تمام معمولات‘ بشمول عبادات و نذر و نیاز انہی کے نام سے سرانجام دیتے ہیں۔ اس عقیدے کی ابتداء رومیوں سے ہوئی۔ پھریہ دن فرانس اور انگلینڈ میں بھی بطورِ خاص منایا جانے لگا اور اس دن فرانس، انگلینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں تعطیل ہوتی ہے اور وہ اس دن اپنی عبادت گاہوں میں خاص قسم کی عبادات سرانجام دیتے ہیں۔ اس رسم کے غیر معقول ہونے اور دنیائے عیسائیت کے معتبر پادریوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ دن بالکل معدوم ہوچکا تھا، چودھویں صدی عیسویں کے ایک متعصب عیسائی اسکالر ’’Henry Ansgar Kelly ‘‘نے اپنی ایک کتاب (انٹرنیٹ پر دستیاب ہے) ’’Chaucer and the Cult of Saint Valentine ‘‘ کے نام سے خاص اسی موضوع پر لکھی اور عشق و محبت کی خودساختہ کہانیوں کے ذریعے اسے محبت کے دن کے نام سے دوبارہ دنیا میں روشناس کروایا۔ اٹھارھویں صدی میں اسے فرانس اور انگلینڈ میں سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ عشق و محبت کا یہ خودساختہ دن دنیا بھر میں ہر سال مزید جدت اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا ۔
(مزید تفصیل کیلئے دیکھئے: http://en.wikipedia.org/wiki/Saint_Valentine وغیرہ)
پس پردہ حقائق
اس دن کی تاریخی حیثیت اور اسے منانے کا موجودہ طریقہ ہمیں اس کے جن مضمرات اور پس پردہ حقائق کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘ وہ یہ ہیں:
یہ دن عیسائیوں کی ایجاد ہے جوکہ ان کی مشرکانہ عبادت کا دن ہے خود عیسائی پادری بھی اسکے مخالف ہیں ڈاس کے معدوم ہونے کے بعد ایک متعصب عیسائی اسکالر نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ اوراسے عیسائی ممالک میں سرکاری سرپرستی میںمنایا جاتا ہے۔ ‘اس دن کی اہمیت میں بیان کی جانے والی عشق و محبت کی تمام داستانیں جھوٹی ہیں۔
موجودہ دور میں اس کو منانے والا عموماً ہم جنس پرست، زانی ، فحاشی پسند اور مغرب نواز طبقہ ہی ہے اور ایسے ہی لوگوںمیں اس دن کو بطورِ خاص اہمیت حاصل ہے، یعنی یہ ناپاک لوگوں کا تہوار ہے۔
یہودی، عیسائی اور تمام کفار و مشرکین اسلام اور مسلمانوں کے ازلی و ابدی دشمن ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے معاملے پر یہ تمام قولی و عملی طور پر متفق و متحد ہیں۔ ایک طرف مسلمان ملکوں پر ناجائز قبضے اور ان پر تباہ کن بم برساکر ان کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہواہے، دوسری طرف ان کی عورتیں اور بچے اغوا کر کے ان سے جبراً حرام کاری کروائی جارہی اور ُپر مشقت کام لئے جارہے ہیں اور تیسری طرف اسلام کو غیرمہذب، قدامت پسند اور بنیاد پرست مذہب قرار دیکر اپنی غلیظ اور ناپاک تہذیب کو جدید اور اعتدال پسند ظاہر کیا جارہا اور اسے مسلمانوں میں فروغ دے کر ان کی ایمانی غیرت و حمیت کو ختم کر کے نوجوان مسلمان مردوں اور عورتوں میں جنسی بے راہ روی کو عام کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان تمام باتوں کی صداقت ان کی کتابوں اور روزمرہ کے بیانات میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
پس اے مسلمانو! کفار کی ان سازشوں کا مقابلہ اسلام سے محبت کی صورت میں کرو، تمہارا اپنے دین سے محبت، اس پر ایمان اور عمل انکی سازشوں کوانکے اپنے خلاف پھیر سکتا ہے، لہٰذا آج سے ہی ہر معاملے میں کفار سے مشابہت اور انکی رسومات میں شرکت اپنے اوپر حرام کر دو۔ اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ وما علینا الا البلاغ المبین
قوم یہودچالبازیوں، مکاریوں ، ریشہ دوانیوں اور ظلم و بربریت کا وہ عفریت ہے جس نے پوری دنیا اور خصوصاً عالم اسلام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔درندگی، سفا کیت اور غیر انسانی سلوک اس قوم کی فطرتِ ثانیہ ہے۔مسلمانوں کے خون کا پیاسا اسرائیل اپنی دفاعی قوت اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے بل پر گھمنڈ، تکبراور حیوانیت کی تمام حدیں پھلانگ گیا ہے۔
اگر قوم یہود کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والی ایک منظم اور مربوط تحریک ’’ زاؤ نسٹ تحریک ‘‘ تھی۔جس کا بانی مشہور یہودی لیڈر تھیوڈور ہر تزل (Hartzl )تھا۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے تہذیب و شا ئستگی اور اعلیٰ انسانیت کے معیارات اور تقاضوں کو یکسر بدل دیا۔اور اس میں یہ طے کیا گیا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی کہ فلسطین منتقل ہونے والے یہودی خاندان وہاں زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔پھر 1901ء میں ہر تزل نے سلطان عبد الحمید خان (سلطان ترکی) کو باقاعدہ پیغام بھیجا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ مگر سلطان نے اس پیغام پرکسی ڈر اور خوف کے بغیر صاف کہہ دیا کہ ’’ جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے۔تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں۔‘‘ چناں چہ اس واقعہ کے فوراً ہی بعد سلطان عبد الحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں ۔ اس سازش میں فری میسن اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آکر ترکی قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ان لوگوں نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا گیا۔در اصل ہر وہ چیز اور اصول جو یہودی قوم کے مفاد میں ہو، وہ جائز اور اچھائی کی سند رکھتی ہے۔خواہ انہیں اس کے حصول کے لیے پوری عالم انسا نیت کو تہہ تیخ کرنا پڑے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔
14 مئی 1948 ء کوعین اس وقت جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی ، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔جس میں اندرونی طور پر برطانیہ اور امریکا کی پوری سرپرستی اسرائیل کو حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے امریکا اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوامِ متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے، اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یرو شلم (بیت المقدس) کے آدھے حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ اسرائیل کے قیام کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’Israel is an illegitimate child of the west‘‘ یعنی اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے!پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے دورۂ امریکا کے دوران یہودیوں کی طرف سے متعدد مالی مراعات کی پیش کش کے جواب میں فرمایا تھا: «Gentlemen!our souls are not for sale» (ہماری روحیں بکاؤ مال نہیں ہیں)
غور طلب بات یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکا دونوں عیسائی قومیں ہیں جن کا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے لے کر برسوں یہودیوں سے شدید اختلاف رہا ہے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔یہاںتک کہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر عیسائیوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے درخواست کی تھی کہ آپ یہودیوں کو ہر گز یہاں آباد نہ ہونے دیں، سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست کے مطابق یہودیوں کو بیت المقدس میں رہائش اختیار کرنے کی تو اجازت نہیں دی البتہ ان کے ساتھ یہ رعایت برتی کہ وہ خرید و فروخت کے لیے یہاں آ جا سکتے ہیں۔اس واقعہ سے عیسائیوں کی یہود دشمنی اور مسلمانوںکی اعلیٰ ظرفی اور نرمی کا ثبوت ملتا ہے ۔جنگ عظیم سے پہلے جب یہودی جرمن میں آباد تھے تو برلن کے ہوٹلوں میں بورڈ آویزاں تھے جن پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا ’’ کتا اور یہودی اس ہوٹل میں داخل نہیںہو سکتا‘‘۔ جرمنوں نے ان یہودیوں کو ’’ دنیا کی قوموں کا خون چوسنے والی قوم‘‘ قرار دیا تھا ۔اور اس سے انگلستان کے باشندوں کو بھی کوئی انکار نہیں تھا۔ لیکن عیسائی اور یہود کے شدید اختلاف کے باوجود آج مسلمانوں کی نسل کشی اور سفاکیت میں دونوں قومیںاپنے اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں۔ازروئے قرآن حکیم:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ؕوَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۵۱
’’ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں،اور جو کو ئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انہیں میں سے ہے۔ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (المائدہ51)
یہودی مملکت کے قیام سے لے کر آج تک اسرائیل کا وجود عالم انسانیت پر سرطان کے پھوڑے کی مانندپھیلتا جارہا ہے اور اس کی زہر آمیزی دنیا کی ہر قوم اور خاص طور پر امت مسلمہ کے لیے انتہائی ہلاکت خیز بنی ہوئی ہے۔اور امن عالم کا بہت بڑا ٹھیکے دار امریکا انسانی حقوق کی پا مالی اور ظلم و دہشت گردی پر خا موش تماشائی بنا ہوا ہے اور صیہونیوں کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کی بنیادی وجہ بھی یہودی حکومت کا با لفعل قیام تھا۔تاہم فلسطین کا قیام ہی ان کی اصل غرض و غایت نہیں تھی بلکہ یہودیت کے علاوہ تما م مذاہب کا خاتمہ، تمام غیر یہودی اقوام کو اپنا غلام اور اپنا دست نگر رکھنا ان کے ایجنڈے کا اصل منشور تھا اورہے۔ اپنے نسلی تفاخر کے سبب وہ جینے کا حقدار صرف یہودی قوم کو سمجھتے ہیں۔نزولِ قرآن کے وقت بھی وہ اللہ کی چہیتی قوم ہونے کے دعوے کر تے تھے۔ جس پر قرآن نے ان کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یوں تبصرہ کیا:
وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۸۰
اور یہ کہتے ہیں (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیںسکے گی۔ان سے پوچھو کیا تم نےاللہ سے اقرا ر لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا۔(نہیں) بلکہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو، جن کا تمہیں مطلق علم نہیں ۔( البقرہ 80)
آگے چل کر سورۃ البقرہ ہی کی آیت 94 میں ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۹۴
’’ (اے نبیﷺ) کہہ دو اگرآخرت کا گھر اور لوگوں (مسلمانوں) کے لیے نہیں ہے اور اللہ کے نزدیک تمہارے لیے ہی مخصوص ہے تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو۔‘‘
انسانی تاریخ میںدوسری جنگ عظیم کا ذمہ دار عام طور پر پر جرمن کے ڈکٹیٹر ہٹلر کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن جنگ کے پس منظر میں بھی یہودی سوچ کار فرما تھی ۔وہ سمجھتے تھے کہ جرمن قوم کی مکمل تباہی دنیا میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔ امریکا میں ان کا اثر و رسوخ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکا ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دن میں پورے واشنگٹن کو نذر آتش کر سکتے ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ فرہنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے‘‘۔یہودی اپنی مکاری اور عیاری کے سبب امریکا میں اپنے ہاتھ اتنے مضبوط کر چکے ہیں کہ وہاں کے ریاستی ڈھانچے میں عزل و نصب کے تمام فیصلوں میں کلیدی مقام رکھتے ہیں۔
کسی کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا اور کسی کو اس آگ میں سے بحفاظت نکال لینا قوم یہود کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔در حقیقت یہ صرف اسلام ہی کے نہیں بلکہ عیسائیت، بدھ مت ،ہندو مت ہر غیر یہودی مذہب کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھتے ہیں۔ اپنی طویل تاریخ اور حکمرانی کے باوجود دنیا میں یہودیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، اور ہمیشہ تھوڑی ہی رہی ہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جو ان کے شان و شوکت اور عروج کا زمانہ تھا ، اس وقت بھی ان کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ نہیںتھی۔ عددی اعتبار سے وہ سب سے زیادہ عروج پر جنگِ عظیم دوئم سے قبل تھے۔ اس وقت ا ن کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی ، یہودیوں کے دعوے کے مطابق اب ان کی تعداد دو کروڑ ہے۔گویا دنیا کی دیگرا قوام کے مقابلے میں وہ مٹھی برابر ہیں۔مگر اپنی عیاریوں، فتنہ انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے انہوں نے ہر قوم کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔اوریہ غلام انہیں ان قوموں کے اندر ہی سے مل جاتے ہیں جنہیں وہ غلام بنانا چاہتے ہیں۔ جنگ عظیم میں جاپان جرمن کا اتحادی تھا ، امریکا سے اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا، مگر یہود کی مکاری اور روباہی فطرت نے وہاں بھی کام دکھایا اور جاپان کی سپلائی لائن کاٹ کر حالات کا رخ کچھ اس طرح موڑا کہ وہ ’’پرل ہاربر‘‘ پر حملہ کرے اور امریکا اس جنگ میں کود پڑنے پر مجبور ہوجائے۔1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی گن بوٹس نے امریکی جہاز یو ایس لبرٹی کو ڈبو کر الزام عربوں پر لگا دیا ۔ 9/11 کاڈرامہ بھی در اصل یہودیوں کے مکارانہ ذہن کی پیدا وار ہے۔جس کو جواز بنا کر افغانستان کی تباہی کے ذریعے سے عالم اسلام کی مجموعی حیثیت کے مکمل خاتمے کا آغاز کر دیا۔
یہ دنیا اسباب و علل کی دنیا ہے، مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی وجہ ترک اجتہاد ہے۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پیروانِ مقلد رہیں۔جب وہ اکتسابِ عمل اور اجتہاد و فکر کی راہ سے تھک کر بیٹھ گئے ، تو گویا انہوں نے خود ہی د نیا کی راہ نمائی سے استعفا دے دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ، مسلمان تو رہنا چاہتے ہیں مگر ان کے دماغ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں ۔اجتہاد کی مشکل جب تک حل نہیں ہوگی ، اس وقت تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوںگے۔ کیوں کہ اپنے عقائد و نظریات کی مضبوطی اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے انسان کے جسم سے زیادہ اس کی فکر ی آزادی ضروری ہے۔ ورنہ تو اس وقت کم و بیش ساٹھ فیصد مما لک جسمانی طور پر کسی قید و بند کے پابند نہیں ہیں۔لیکن فکری، ذہنی اور قلبی طور پر آج بھی انہیں قوموں کے غلام ہیں جن سے انہوں نے آ زادی حاصل کی تھی۔
دین و اخلاق اور تہذیب و تمدن بلند تر انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔اور ان کی قدر و منزلت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو حیوانیت سے بالا تر ہوں ۔پیٹ ، روٹی ، کپڑا، آسائش بدن اور لذّاتِ نفس وہ چیزیں ہیں جو انسان کی حیوانی ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں ، اور جب انسان مقام حیوان سے قریب تر ہوتا ہے تو اس کی نگاہ میں یہی چیزیں زیادہ اہم ہوتی ہیں، حتیٰ کہ وہ ان کی خاطر بلند تر انسانیت کی ہر متاع ِ گراں مایہ کو نہ صرف قربان کر دیتا ہے بلکہ حیوانی زندگی کی آخری حدوں پر پہنچ کر اس میں یہ احساس باقی نہیں رہتاکہ میرے لیے کوئی چیز ، ان چیزوں سے اعلیٰ اور ارفع ہوسکتی ہے۔کہا وت ہے کہ ’’ جانور بھوکا ہو تو خطرناک ہوتا ہے ، مگر انسان کا پیٹ بھر جائے تو وہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے‘‘۔
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن اس کی معیشت کو قرار دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے دنیا کے معاشی نظام میں یہود کو مکمل بالا دستی حاصل ہے۔کیوں کہ ان کے نزدیک جائز اور نا جائز کا تو کوئی تصور ہی نہیںہے۔جو کچھ یہود کے عظیم تر مفاد میں ہے وہ ہر طرح سے جائز اور حلال ہے۔بینکوں کا سارا نظام پھر اس میں سودی لین دین کا پورا جال اسی قوم کا بچھایا ہوا ہے۔یہود کی چالبازیوں اور تزویراتی ہتھکنڈوں کے سبب امریکا جیساا میر ترین اور سوپر پاور قرضوں کے جال میں بری طرح جکڑا ہو ہے۔
یہود کا ایک موثر ہتھیار عالمی میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے۔گزشتہ صدی میں بھی ذرائع ابلاغ پر ان کا اتنا مضبوط کنٹرول تھا کہ اس نے جرمن قوم کو دنیا کے سامنے ظلم و بربریت کی علامت بنا کر پیش کیا۔جھوٹ گھڑنا،الزام تراشی، افواہیں پھیلانا اور اپنی مخالف قوموں کے خلاف پروپیگنڈا کر نا اس قوم کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔اور انہیں ہتھکنڈوں سے یہ دنیا میں اپنے وجودکو قائم رکھے ہوئے ہے۔
قومِ یہود کی اسلام دشمنی،بغض و عداوت اور کینہ پروری کی شروعات نبی پاک ﷺ کی بعثت کے وقت سے ہی ہوگئی تھی جس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری اور پھر وہاں ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام نے ان کے روح و بدن میںنفرت و انتقام کی کبھی نہ بجھنے والی آگ لگا دی تھی جس کی تپش اور جلن آج تک ان کے وجود کو سوختہ کرتی رہتی ہے۔اور اس جلن اور تپش کو یہ مسلمانوں کا خون بہا کر کم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور امت مسلمہ کوسیا سی، معاشی اور سماجی سطح پر کمزور کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے دور رس منصوبے بنا تے رہتے ہیں۔اور اپنے ان ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے امت مسلمہ کے اندر سے ہی انہیں دست و بازو مہیا ہوجاتے ہیں۔حبّ جاہ اور حبّ مال نے مسلم اقوام کی اکثریت کو ان کے در کا بھکاری بنایا ہوا ہے۔عالم اسلام میں جو طبقہ جتنا با اثر ہے اتنا ہی وہ عملی اور فکری طور پر مغرب کا غلام ہے۔بقول شاعر:
وہ دن بھی خوب تھے ملائکہ میرے سامنے تھے جو سرنگوں
وہ میرا عروج کمال تھا ، یہ زوال کتنا عجیب ہے
اس صورت حال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے دنیا ئے اسلام میں عام طور سے معاملات ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو اپنے مغربی آقاؤں کے سبق کو دہرانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔لیکن یہ صریح دھوکہ اور فریب ہے، یہود و نصاریٰ کو اپنا آقا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر مسلمان خوش فہمی اور خود فریبی کے حصار میں پھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔جس سے باہر نکلنا اب ان کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل تر ہو گیا ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر مغرب کی فریب کاریوں اور اس کا اثر و رسوخ کی سنگینی کو ختم کر نے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، مگر بے سود ر ہیں۔
1970 ء کی دہا ئی میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کی مدبرانہ اور حکیمانہ قیادت، لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی اور پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منصوبہ بندی کے باعث مشرق وسطیٰ سمیت جملہ اسلامی ممالک کو اغیار کی لوٹ مار سے نجات حاصل کرنے کا خیال آیا۔چناں چہ 1973 ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اہل عرب نے تیل کو پہلی مرتبہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو یورپ اور امریکا میں گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگ گئیں۔یورپ اور امریکا کو عربوں سے ایسے حربے کی ہر گز توقع نہیں تھی۔لہٰذا جب بھٹو کے مشورے پر یورپ اور امریکا کو مشرق وسطیٰ سے تیل کی ترسیل بند ہوئی تو طاغوتی طاقتیں بلبلا اٹھیں، اور امریکا اور یورپ کی صنعت و معیشت کو بہت بڑا دھچکا پہنچا۔
فروری 1974 ء میں بھٹو کی میزبانی میں لاہور میں اسلامی سر براہی کانفرنس منعقد ہوئی تو عالم اسلام کے اس مثالی اتحا د پردشمنان مسلم انگشت بدنداں رہ گئے اور ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔یہ سوچ کر کہ آپس میں شدید ترین شخصی و نظریاتی اختلاف رکھنے والے مسلم مما لک اور حکمران بھی غیر مشروط طور پر اس کانفرنس میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی سربرہی کانفرنس کا چیئرمین چنا گیا۔اور ان کی مرتب کر دہ سفارشات کی روشنی میں درج ذیل نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔
1۔ تمام اسلامی ممالک یورپی اور امریکی بنکوں سے اپنا سرمایہ نکال کر مجوزہ ’’ اسلامی ترقیاتی بنک‘‘ میں جمع کرا ئیں گے۔جس کا ہیڈ کواٹر پاکستان میں ہوگا۔
2۔ تمام اسلامی ممالک اپنے باہمی تنازعات اقوام متحدہ میں لے جانے کے بجائے اسلامی سربراہی کانفرنس کی تنظیم میں طے کریں گے۔
3۔ عالم اسلام کو علوم و ہنر سے بہرہ مند کرنے کے لیے امریکا پر انحصار ختم کرکے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خود کفیل بنائیں گے۔
4۔ بھاری اور جنگی صنعتوں کے شعبہ میں اسلام دشمن طاقتوں پر انحصار ختم کر دیا جائے گا۔اس کے لیے ملت اسلامیہ کا ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا جائے گا۔
5۔ عالم اسلام کے تمام ممالک بیرونی تجارت کے لیے ایک مشترکہ کمیشن قائم کریں گے جو ملت اسلامیہ کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے بیرونی تجارت کے ایسے مشترکہ رہنما اصول وضح کر ے گا جس کی پابندی تمام اسلامی ممالک پر لازمی ہوگی۔
لیکن اسلام دشمن طاقتوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں ہونے والے انقلابی اقدام پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا عمل سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے اور اسلامی ممالک کو اپنا محتاج بنائے رکھنے کے لیے ’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے ایک طویل المیعاد اور کثیر الجہتی منصوبہ تیا رکیا۔اسی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ہی اسرائیل کی سرحدوں میں مسلسل توسیع کا عمل جاری ہے۔
یہ ہے یورپ و امریکا اور اسرائیل کا وہ گٹھ جوڑ جس کے تحت وہ عالمی سطح پر اور خاص طور پر اسلامی ممالک پر جس میں ان کا خاص ہدف اور ان کی آنکھ کا کانٹا پاکستان ہے، مسلسل اسرائیل کو تسلیم کر لینے پر دباؤ ڈال رہے ہیں جس کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔عرب ممالک مخمصہ کا شکار ہیں۔ ترقی پزیر اسلامی حکومتیں لرزہ بر اندام ہیں کہ کیا فیصلہ کریں۔پاکستان کے بارے میں تو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریان نے پیرس میں 1967 ء کی جنگ میں فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا تھا، ’’یہ عرب ہر گز ہمارے مقابل نہیں آسکتے۔ ہمارا اصل دشمن اور حریف پاکستان ہے،کیوں کہ پاکستان واحد اسلامی نظریاتی ملک ہے۔‘‘
مسلمانوں نے یہودیوں کو بد عہدی کی بنیا د پرپہلے مدینہ اور اس کے انواح و اطراف سے نکالااور بعد ازاں خیبر سے ان کو نکال باہر کیا گیا۔سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو ہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت نہ دی گئی اور یہ پابندی خلافت اسلامیہ کے خاتمہ تک قائم رہی۔اسی لیے یہودیوں کی دشمنی امت مسلمہ سے دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہے۔
قرآن حکیم نے یہود کے بارے میں اصولی طور پر تنبیہی یا تعزیری قسم کے تین ہی اعلانات تصریحاً بیان کیے ہیں:
۱۔ ذلت و مسکنت
۲۔ان پر بے چینیوں کا تسلسل
۳۔دینی حجت و برہان میں ان کی دوامی مغلوبیت ، علم الٰہی اور ہدایت ربانی سے محرومی۔
دنیا کی کسی قوم کی طرف سے عائد کر دہ ذلت و حقارت نہ حقیقی ہوتی ہے اور ہمہ جہتی۔ لیکن اللہ کی طرف سے اگر کسی پر پھٹکا ر پڑجائے تو پھر اس کو دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ازروئے قرآن حکیم:
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُٞ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِيَدِكَ الْخَيْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۲۶
کہو کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے
اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ( آلِ عمران :26)
اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی پھٹکار نہ وقتی ہوتی ہے نہ مقامی بلکہ یہ تو ہمہ گیریت اختیار کر لیتی ہے۔با لخصوص جب کہ اس مذِلّ حقیقی نے خود یہ فرمایا ہو:
مَّلْعُوْنِيْنَ١ۛۚ اَيْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا۰۰۶۱
’’(وہ بھی) پھٹکارے ہوئے ، جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور جان سے مار ڈالے گئے‘‘ ( الاحزاب 61)
ظاہر ہے ایسی ذلت و مسکنت شعار اور محتاج و مقہور قوم طبعاً کبھی سکھ اور چین نہیں پاسکتی، کیوں کہ اپنی اندرونی خرابیوںاور پھر پے بہ پے تذلیلوں اور بے اعتنایوں سے اس قوم کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔اور وہ مایوسی کی اندرونی کوفت اور قلق و اضطراب سے کسی وقت بھی اطمینان اور سکون کا سانس نہیں لے سکتی۔
تیسرا قرآنی دعویٰ یہ ہے کہ یہود دینی حجت اور علم حق سے یکسر محروم ہو چکے ہیں، اور اپنی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے ان کے قلوب اور فطرتیں اس حد تک مسخ ہوچکی ہیں کہ قبولیت حق کی استعداد ہی من حیث القوم ان سے رخصت ہوچکی ہے۔جس سے وہ کبھی دینی حجت میں اپنے حریفوں پر غالب نہیں آسکتے۔
یہودی قوم شروع سے ہی پروپیگنڈا کرنا خوب جانتی ہے۔ افواہیں پھیلانا ، کسی مخالف کے خلاف اسکینڈلز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنے کا فن بھی انہیں خوب آتا ہے۔جس کی وجہ سے بڑی بڑی قد آور شخصیات ان کی مٹھی میں رہتی ہیں۔یہی لوگ برطانیہ اور امریکا میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور عوام کے ذہنوں اور خیالات کو اپنی مرضی سے کوئی بھی رخ دینے کی پوری قوت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے کسی بھی گاؤں میں ہونے والی کسی چھوٹی سی واردات کو چاہیں تو بین الاقوامی تشہیر کے ذریعے سے پاکستان کو بدنام کر دیں اور چاہیں تو لاکھوں مسلمانوں کی اجتماعی قبروں سے نگاہیں پھیر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔لومڑی جیسی مکار اور چیرہ دست یہودی قوم کی یہ ایک ہلکی سی تصویر ہے۔ ورنہ اس کے بہیمانہ اور سفاکانہ کارناموں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
یہودی قوم کی اس کینہ فطرت روش کے پیش نظر کیا پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔جب کہ اسرائیل کا اصل ہدف پاکستان ہی ہے ،وہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو جڑ سے اکھیڑنے کے لیے ہمہ جہت سے حملہ آور ہے۔کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے بعد پاکستان کی سلامتی اور اس کی بقا کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ہے۔یہ خیال ہے جو محال ہے۔پاکستان کی ایک مخصوص لابی ماضی کی طرح ایک بار پھر سرگرم ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے۔اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے بے شمار مالی فوائد بھی گنوائے جارہے ہیں۔کیوں کہ ابن الوقت قسم کے لوگوں کی سوچ اپنے وجود کی سیوا تک ہی محدود رہتی ہے، انہیں اس بات کا کوئی ادرا ک ہی نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان کی عزت نفس اور اس کی دینی غیرت و حمیت کاکیا مقام ہے۔بطن و فرج کے رسیا اس پہلو سے کبھی سوچ ہی نہیں سکتے۔اور ان کی اسی کمزوری نے دشمن اقوام کے حوصلے بلند کیے ہیںاور ان کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔
آج اسرائیل کے عالمی ایجنڈے کے تحت ہر مسلم ملک کا حکمراں ان کا ہدف ہے۔سوڈان کو مراعات دینے کا اعلان بھی ہوچکا ہے،
پاکستان بھی اس اہم ممالک میں شامل ہے جن کو دباؤ میں لاکر اسرائیل کو تسلیم کر والیا جائے گا۔(خاکم بدہن)جو قومیں اپنے نظریے کو پس پشت ڈال کر زمانہ کے ڈھب پر خود کو ڈھال لیتی ہیں ان کے ساتھ دنیا اسی طرح کھلواڑ کرتی ہے۔تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور جو قوم اپنی تاریخ بھلادیتی ہے تو گویا وہ اپنا حافظہ کھو دیتی ہے ۔جو قوم اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے ، اس کا جغرافیہ اسے فراموش کردیتا ہے۔پھر وہ دوسروں کی حریت و مفادات تو کیا خود اپنی راہ بھی کھوٹی بیٹھتی ہے۔ ماضی کا مطالعہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کو بہتر بنانے میں بڑی مدد دیتا ہے۔گزرے ہوئے زمانے کو فراموش کر کے حال اور مستقبل کو سازگار بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔
اگرآج پاکستان اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حیثیت کو فراموش کر کے بڑی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے زہر آلود خنجر کی نوک ہمیشہ اس کی رگ جاں پر ٹکی رہے گی، بلکہ وہ کشمیر کے معاملہ پر بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔کشمیر کی حمایت سے بھی اسے دستبردار ہونا پڑے گا۔اور کسی بھی مظلوم کے لیے آواز اٹھانا صدا بصحرا ثابت ہوگا،کیوں کہ کسی مظلوم کی داد رسی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے قدم مضبوط ہوں ااور آہنی دیوار بن کر باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت اور پہاڑ جیسی استقامت موجود ہو ورنہ ریت کی دیوار کو تو تیز ہواؤں کے جھکڑ بھی گرادیتے ہیں۔اپنے مقام اور حیثیت سے گری ہوئی قوم اس گرے ہوئے مکان کی طرح ہوتی ہے جس کی لوگ اینٹیں بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اورپھر اسے آنے جانے کا راستہ بنا لیتے ہیں۔اور وہ گھر شارع عام بن جاتا ہے۔
کتابیات
۱۔ترجمہ قرآن حکیم ، مولانا فتح محمد جالندھری
۲۔اسرائیل کتاب و سنت کی روشنی میںاز مولانا قاری محمد طیب
۳۔یہودیت قرآن کی روشنی میں ازسید ابو الاعلیٰ مودودی
۴۔ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام از پیر محمد فضل حق
۵۔ تاریخ فرشتہ از محمد قاسم فرشتہ