میاں محمد جمیل

انسان اُنس سے ہے۔ اس لیے انسان درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں اور کرنی چاہئے۔ دینِ اسلام انسانی فطرت کا ترجمان ہے۔ اس نے کسی سے جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا، مطالبہ بس یہ ہے کہ کسی کی محبّت میں حد سے نہیں بڑھنا۔ ربِ کریم کی طرف سے جو درجہ بندی کی گئی ہے، اس کا ہر صورت خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے دنیا وما فیہا سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرنی ہے ۔ نبی کریمe،  اہلِ بیت، صحابہ کرام y  اور اولیائے عظام s  غرضیکہ تمام محبتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہونی چاہئیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو تمام عقیدتوں اور محبتوں میں سب سے پہلے رکھا ہے۔

اسی لئے سرورِ دو عالم e کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ واشگاف الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! ’’اگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان اور جو اموال تم کماتے ہو، تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو۔اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توانتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(التوبہ: ۲۴)

یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور ہر جاندار میں پایا جاتاہے۔ اس لئے جائز محبت سے منع نہیں کیا گیا۔ تاہم محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں۔ جن وجوہات سے دوسروں کے ساتھ جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ تقاضا یہ ہے کہ تم ’’رب کی ذات‘‘ اور اسکی بات کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو ۔

اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا سب سے زیادہ محسن ہے، کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے ،اگر تم کسی سے اس کے جمال وکمال کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور وہ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔اگر کسی کے اقتدار اور اختیار کی بناپر اس سے تعلق رکھتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اوراقتدار نہیں۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اوراسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، پھر اس کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟

اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ eکے ساتھ پوری مخلوق سے بڑھ کر محبت ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔

البتہ قرآن مجید کے ارشاد اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سچی اور حقیقی محبّت کا معیار اور مدار ’’اللہ‘‘ کی محبت ہے۔ باوجود اس کے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دوسروں بالخصوص اپنے معبودوں اور بزرگوں سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ  وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِذْيَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ(البقرۃ: 165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ دیکھ لیں جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ ساری ، ساری قوت ’’اللہ‘‘ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

قیامت کے دن رب ذوالجلال کا عذاب دیکھ کر غلط پیروںاوران کے مریدوں، لیڈروں اور ان کے ورکروں، علمائے سُو اور ان کے عقدت مندوں کے درمیان بحث و تکرار بلکہ جھگڑا ہو گا اور جہنم میں جانے کے بعد ایک دوسرے پر لعنت ، پھٹکار کریں گے ۔مرید اپنے پیروں، ورکرز اپنے لیڈروں اور گمراہ مقتدی علمائے سوء کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مطالبے پر مطالبہ کریں گے کہ اے ہمارے رب ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا اس لئے انہیں ہم سے د گنا عذاب دیں اور ہمیں اختیار دیں کہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روند یں اس لئے کہ ان کی وجہ سے آج ہم اس حال میں پہنچیں ہیں۔

اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَآءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا وَكُلٌّ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ (الانبیاء: 98تا 100)

’’(اے مشرکو) تم اور جن بتوں کی تم عبادت کیا کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سب جہنم کا ایندہن ہوں گے۔ تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ (سوچو!) اگر یہ خدا ہوتے تو نہ داخل ہوتے جہنم میں، اور(جھوٹے خدا اور ان کے پجاری) سب اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ جہنم میں (شدتِ عذاب سے) چیخیں گے اور وہ اس میں اور کچھ نہ سُن سکیں گے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبت عارضی ہے اور اللہ اور اس کے حکم کے مطابق کی گئی محبت سچی اور دائمی ہے اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے سیدنا ابراہیمu جب مشرکین کی آگ سے باہر نکلے تو انہوں نے عراق کی زمین پر اپنی قوم کو آخری خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تمہاری آپس کی محبتیں ختم ہو جائیں گی اور تم ایک دوسرے پر لعنتیں برسائو گے اور اس دن صرف متقین کے درمیان سچی اور دائمی محبت ہو گی۔

اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ

’’گہرے دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے بجز ان کے جو متقی اور پرہیزگار ہیں۔‘‘(الزخرف: ۶۷)

عقیدے کے حوالے سے عقیدت رکھنے والے حضرات اپنے معبودوں اور بزرگوں کے ساتھ محبت کرنے میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے بزرگوں اور علماء کے سِوا کسی کی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے یقین اور خیر خواہی کے لئے ہم انہیں کے مکتبہ فکر کے عالم دین پیر کرم شاہ صاحب کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تاکہ بھائی اس بات پر غور فرمائیں! عقیدے اور عقیدت میں فرق نہ کرنے کا کیا انجام ہو گا۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّاكَذٰلِكَ يُرِيْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (البقرۃ: 166۔167)

’’(خیال کرو) جب بیزار ہو جائیں گے وہ جن کی تابعداری کی گئی ان سے جو تابعداری کرتے رہے اور دیکھ لیں گے عذاب کو اور ٹوٹ جائیں گے ان کے تعلقات۔ اور کہیں گے تابعداری کرنے والے کاش! ہمیں لَوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں) تو ہم بھی بیزار ہو جاتے ان سے جیسے وہ (آج) بیزار ہو گئے ہم سے۔ یونہی دکھائے گا انہیں اللہ تعالیٰ ان کے (بُرے) اعمال کہ باعثِ پیشمانی ہوں گے ان کے لئےاور وہ (کسی صورت میں) نہ نکل پائیں گے آگ (کے عذاب ) سے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے اوروہی کائنات کا خالق ومالک اورکائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔ اس کے نظام میں کوئی ذرّہ برابر بھی دخل انداز ہونے کی طاقت نہیں رکھتا ۔اس نے نظامِ کائنات میں کسی کو اپناہمسر اورشریک ِکار نہیں بنایا اورآخرت میں بھی کوئی اس کے اختیارات اورنظام میں دم مارنے کی ہمت نہیں پائے گا ۔ جو لوگ دنیا میں پیروں، فقیروں ، حکمرانوں اورباطل معبودوں کے ساتھ دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اوراس کی بات سے بڑھ کر ان سے محبت کرتے اور تعلق جوڑتے ہیں قیامت کے دن ربِ ذوالجلال کی جلالت وجبروت اورعذاب کودیکھیں گے تو ان کے تمام واسطے اور رابطے کٹ جائیں گے۔ یہاں تک کہ پیرمُرید سے ،طالب مطلوب سے ،حاکم محکوم سے بیزاری کا اظہار کریں گے ۔جو مذہبی پیشوا اورسیاسی رہنما اپنی ذات اورمفاد کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان سے دور رکھتے تھے جب وہ پوری طرح جان جائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ کی قوت وطاقت کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں اور نہ کوئی وسیلہ کار گر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیںگے۔متبوع لوگ اللہ تعالیٰ سے آرزو کریں گے کہ اِلٰہی! ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دے تاکہ ہم ان ظالم رہنمائوں اور مشرک پیروں اور علماء سو سے اسی طرح نفرت کااظہار کریں جس طرح آج وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ حکم ہو گا کہ اب تم نے ہمیشہ یہیںرہنا ہے۔اس دن سے ان کی پریشانیوں اورحسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اوران کو عذاب سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا ۔دنیا کے تما م اعمال ضائع اور رہنمائوںکے وعدے اورسہارے جھوٹے ثابت ہوں گے۔ واپسی کے تمام راستے بند اورہر قسم کی آہ و زاریاں بے کارثابت ہوں گی، یہ لوگ مایوس ہو کر دوسری درخواست پیش کریں گے کہ اے ربِ ذوالجلال! تو پھر ان ظالم اور جھوٹے سیاسی اورمذہبی رہنمائوں کودُگنے عذاب میں مبتلا کیجیے ۔

قَالَ ادْخُلُوْا فِيْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ (الاعراف: 38۔39)

’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا داخل ہو جائو ان امتوں میں جو گزر چکی ہیں تم سے پہلے جِنّوں اور انسانوں سے (ان کے پاس) دوزخ میں (داخل ہو جائو) جب بھی داخل ہو گی کوئی امت تو وہ لعنت بھیجے گی دوسری امت پر یہاں تک کہ جب جمع ہو جائیں گی اس میں سب امتیں تو کہے گی آخری امت پہلی امتوں کے متعلق اسے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا پس دے ان کو دگنا عذاب آگ سے اللہ تعالی فرمائے گا ہر ایک کے لئے دُگنا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے۔اور کہیں گی پہلی امتیں پچھلی امتوں سے کہ نہیں ہے تمہیں ہم پر کوئی فضیلت پس چکھو عذاب بوجہ اس کے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘

’’قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین الرازی اپنی تفسیر اور علامہ سید محمود آلوسیS تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں:

’’اخری‘‘ سے مراد کم درجے والے لوگ ہوں گے اور یہ پیروکار اور معاشرہ کے نچلے درجے کے لوگ ہوں گے۔ ’’اولیٰ‘‘ سے مراد اونچے درجہ والے لوگ یہ قائدین اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔‘‘

متکبرین اور مکذبین گروہ درگروہ جہنم میںپھینکے جائیں گے۔ جہنم میں ڈالا جانے والا ہرگروہ اپنے سے پہلے گروہ پر لعنت اور پھٹکار بھیجتے ہوئے کہے گا کہ ہم تمہاری وجہ سے اس انجام کو پہنچے ہیں اگر تم ہدایت کا راستہ اختیار کرتے تو ہم تمہارے بعد کبھی گمراہ نہ ہوتے۔ وہ جواب دیں گے کہ تم نے خود ہی ایمان کا راستہ اختیار نہیں کیا جبکہ ہم نے تم پر کوئی جبر نہیں کیا تھا۔ جب جہنمی جہنم کی آگ سے منہ باہر نکالیں گے تو اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری کرتے ہوئے فریاد کریں گے اے ہمارے رب !ہمیں ہمارے بُرے رہنمائوں اور بڑوں نے گمراہ کیا اس لیے انہیں دوگناعذاب دے  اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار ڈال  یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ جب گروہ در گروہ جہنم میں جمع ہوں گے تو بعد میں آنے والے پہلوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ کادگنا عذاب دیجیے۔حکم ہوگا تم میں سے ہر ایک دوگنے عذاب میں مبتلا ہے جس کا تمہیں علم نہیں۔ پیچھے آنے والوں کی بددعائوں کے جواب میں پہلے والے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر برتری حاصل نہیں لہٰذا تم بھی اپنے کیے کے بدلہ میں عذاب پاتے رہو یہاں جہنمیوں کے عذاب کے بارے میں ’’ضِعْف‘‘ کالفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنیٰ دگنا ہے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ برے کی سزا اس کی برائی کے برابر ہوگی ۔

لیکن یہاں دگنا عذاب بیان کیا جا رہا ہے اس کا مفہوم حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے جوگناہ پہلے لوگوں کی وجہ سے دوسری نسل میں منتقل ہوں گے گناہ ایجاد کرنے والوں کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے گناہوں کاحصہ بھی ملے گا۔ اکثر یہی ہوتا آرہا ہے کہ نہ صرف ایک نسل کے گناہ کسی نہ کسی صورت میں دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں بلکہ پہلے لوگوں کے گناہوں کے نتیجہ میں نئی نسل اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح ہر نسل اپنے بعد آنے والی نسل کے لیے پہلے سے زیادہ گناہ چھوڑتی ہے۔ نتیجتاً مجرموں کی غالب اکثریت اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار بنتے ہیں ۔اسی بناء پر انہیں دگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت بھی دوگنی ہو گی۔ جہنمیوں کا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا لہٰذا جہنمیوں کے پیشوا اپنے سے پیچھے آنے والوں کو کہیں گے تمہارا اپنے گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرانا تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا اور تم سزا کے حوالے سے ہم پر کوئی امتیاز نہیں رکھتے لہٰذا اپنے کیے کی سزا بھگتتے رہو ۔ اس طرح جہنمی عذاب میں مبتلا رہ کر ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجتے رہیں گے ۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّا اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (یونس: 28 تا 30)

’’اور (ان کی پشیمانی کا تصور کرو) جس روز ہم جمع کریں گے ان سب کو (میدانِ حشر میں) پھر ہم حکم دینگے مشرکوں کو اپنی اپنی جگہ پر ٹھیر جائو تم اور تمہارے جھوٹے معبود پھر ہم منقطع کر دینگے ان کے باہمی تعلقات اور کہیں گے ان کے معبود (اے مشرکو!) تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتےتھے۔ پس کافی ہے اللہ تعالیٰ گواہ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کہ ہم تمہاری پرستش سے بالکل بے خبر تھے۔وہاں آزما لے گا ہر شخص جو اس نے آگے بھیجا تھا اور انہیں لوٹا دیا جائے گا اللہ تعالیٰ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے اور گم ہو جائے گا ان سے جو وہ افترا باندھا کرتے تھے۔‘‘

شرکاء کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں:

والمراد بالشرکاء ھنا الملائکۃ وقیل الشیاطین وقیل الاصنام وان اللہ سبحانہ ینطقہا فی ھذا الوقت، وقیل المسیح وعزیر، والظاھر انہ کل معبود للمشرکین کائناً ماکان (تفسیر فتح القدیر)

’’شرکاء سے یہاں مراد فرشتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شیاطین مراد ہیں اور بعض کا خیال ہے اس سے بت مراد ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو بلوائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے معبود مراد ہیں خواہ کوئی بھی ہوں۔‘‘

لوگوں کے درمیان جب عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر ہوجائے گا تو جنتیوں کو جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ وہ شاداں و فرحاں اور خراماں خراماں جنت میں داخل ہوں گے اور ملائکہ انہیں ہر مقام پرسلام کریں گے۔ ان کے مقابلے میں جب جہنمیوں کو جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا تو لمحہ لمحہ اور قد م قدم پر ان پر اللہ کی پھٹکار اور ملائکہ کی جھڑکیاں ہوں گی۔ جہنم کے کنارے کھڑا کرکے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے؟ جہنم کی ہولناکیاں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھتے ہوئے مشرکین کے معبود واشگاف الفاظ میں انکار کرتے ہوئے مریدوں سے کہیں گے تم کب ہماری عبادت کرتے تھے؟

جہنمی بتوں کے علاوہ جن کی عبادت کیا کرتے تھے وہ تین قسم کے معبود ہوں گے۔

انبیاء عظامo، اولیاء کرامS، ملائکہ اور نیک جنات اور یہ سب کے سب مشرکین کی عبادت اوراپنی طرف منسوب شرکیہ اعمال کا انکار کریں گے۔ جب مشرکین اپنی جان بچانے کی خاطر بار بار اصرار کریں گے تو صالح لوگ کہیں گے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ ہے۔ ہمیں تو کوئی خبر نہیں کہ تم مارے بعد ہماری عبادت کرتے تھے۔

اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ قَالُوْا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَ فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا اِنَّا لَذَآىِٕقُوْنَ فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ فَاِنَّهُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ (الصافات: 22 تا 34)

’’( اے فرشتو! ) جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا تھا اور ان کے ساتھیوں کو اور جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پس سیدھا لے چلو انہیں جہنم کی راہ کی طرف۔ اور (اب ذرا) روک لو انہیں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ تمہیں کیا ہو گیا تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ بلکہ آج تو وہ سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ اور متوجہ ہوں گے ایک دوسرے کی طرف (اور) سوال جواب کریں گے۔ (پیروکار سرداروں سے) کہیں گے کہ تم آیا کرتے تھے ہمارے پاس بڑے کرّدفر سے (اور ہمیں کفر پر مجبور کرتے تھے) وہ جواب دینگے بلکہ تم ایمان ہی کب لائے تھے (کہ ہم نے تم کو گمراہ کر دیا) اور نہ ہمیں تم پر کوئی غلبہ حاصل تھا۔بلکہ تم بذات خود سرکش لوگ تھے۔ پس لازم ہو گیا ہم سب پر اپنے رب کا حکم۔ اب (خواہ مخواہ) ہم اس عذاب کو چکھنے والے ہیں پس ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ہم خود بھی گمراہ تھے۔ پس وہ (سب) اس روز عذاب میں حصہ دار ہوں گے۔ ہم اسی طرح سلوک کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ۔‘‘

وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرٰى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِ ا۟لْقَوْلَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْ لَا اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَا اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗ اَنْدَادًا وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (سبا: 31 تا 33)

’’کفار (اب تو) کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اس قرآن پر اور نہ ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل ہوئیں۔ کاش! تم (وہ منظر) دیکھو جب یہ ظالم کھڑے کیے جائیں گے اپنے رب کے روبرو اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ کہیں گے وہ لوگ جو (دنیا میں) کمزور سمجھے جاتے تھے ان سے جو بڑے بنا کرتے تھے۔  اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایماندار ہوتے۔جواب دینگے متکبر ان کمزوروں کو کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ہدایت (قبول کرنے) سے جب (نورِ ہدایت) تمہارے پاس آیا تھا، درحقیقت تم خود مجرم تھے۔ کہیں گے وہ کمزور لوگ ان مغروروں سے (یوں نہیں) بلکہ تمہارے شب و روز کے مکرو فریب نے ہمیں ہدایت سے باز رکھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کو ماننے سے انکار کر دیں اور (بتوں کو) اس کا ہمسر بنائیں۔ اور دل ہی دل میں پچھتائیں گے جب دیکھیں گےعذاب کو اور ہم ڈال دیں گے طوق ان لوگوں کی گردنوں میں جنہوں نے کفر کیا (خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے) کیا انہیں بدلہ دیا جائے گا بجزا اس کے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْ اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ لَنَا فَبِئْسَ الْقَرَارُ قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِوَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ (ص: 59 تا 64)

’’یہ (لو) دوسری فوج گُھسنا چاہتی ہے تمہارے ساتھ کوئی خوش آمدید نہیں انہیں یہ ضرور آگ تاپنے والے ہیں۔ وہ کہیں گے (ظالمو!) تمہیں کوئی خوش آمدید نہ ہو تم نے ہی آگے کیا اس عذاب کو ہمارے لئے سو بہت بُرا ٹھکانا ہے کہیں گے اے ہمارے رب! جس (بدبخت) نے آگے کیا ہے ہمارے لیے یہ عذاب پس بڑھا دے اس کا عذاب د گنا آگ میں۔ اور کہیں گے کیا وجہ ہے کہ ہمیں نظر نہیں آرہے (یہاں) وہ لوگ جنہیں ہم شمار کرتے تھے بُرے لوگوں میں ہم جن کا تمسخر اڑایا کرتے تھے یا پھر گئی ہیں ان کی طرف سے ہماری آنکھیں۔ یقیناً یہ سچ ہے۔ دوزخی آپس میں جھگڑیں گے۔ ‘‘

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَا اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَا اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْۂنًا كَبِيْرًا

’’جس روز وہ منہ کے بل آگ میں پھینکے جائیں گے تو (بصدیاس) کہیں گے اے کاش! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ تعالیٰ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول اکرم کی اور عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم نے پیروی کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑے لوگوں کی پس ان (ظالموں نے )ہمیں بہکا دیا سیدھی راہ سے ۔ اے ہمارے رب! ان کو دگنا عذاب دے اور لعنت بھیج ان پر بہت بڑی لعنت۔‘‘ (الاحزاب: 66 تا 68)

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَا اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ (حٰم السجدۃ: 29)

اور کافر کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں دکھا وہ دونوں (شیطان) جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا جنوں اور انسان سے ہم انہیں روند ڈالیں گے اپنے قدموں کے نیچے تاکہ وہ ہو جائیں پست ترین لوگوں سے۔‘‘

وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ سَوَآءٌ عَلَيْنَا اَجَزِعْنَا اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ

’’اور (روزِ حشر) اللہ تعالیٰ کے سامنے (سب چھوٹے بڑے)حاضر ہوں گے تو کہیں گے کمزور (پیروکار) ان (سرداروں) سے جو متکبر تھے (اے سردارو!) ہم تو (ساری عمر) تمہارے فرمانبردار رہے پس کیا (آج) تم ہمیں بچا سکتے ہو عذابِ الٰہی سے وہ کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہاری رہنمائی کرتے، یکساں ہے ہمارے لیے خواہ ہم گھبرائیں یا صبر کریں۔ ہمارے لئے آج کوئی راہِ فرار نہیں ہے۔‘‘ (ابراھیم: 21)

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے