خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے

بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے

ہمارے معاشرے میں اکثر بیشتر لوگ علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں حالانکہ علماء کرام کی شان و شوکت بیان کی جائے تو ایک طویل مضمون تحریر میں لایا جاسکتا ہے علماء کرام کی گستاخی کرنے کو انتہائی معمولی بات سمجھی جاتی ہے جبکہ اگر غور وفکر کیا جائے تو اکثر لوگوں کی گرفت ہوتی ہی علماء کرام کی گستاخی کی بنا پر ہے یہ ہی سبب ہے کہ رسول اللہ نے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ کا فرمان ہے کہ ؛

اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )

’’عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘

یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیںبلكه محبت كرنے والے بنیں۔

امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب .

 اہل علم کی مذمت و توہین کرنا ، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )

علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘

علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)

’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘

ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور انہیں ذلیل رسوا کرتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیںجیسا کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا أُصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَعْدٌ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ وَأَطِلْ فَقْرَهُ وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ:‏‏‏‏ فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ (صحیح البخاری:755)

اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے سیدناعمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قراءت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو ( سنیے کہ ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتاتھا۔

صحابه كرام رضي الله عنهم کے زمانہ میں بھی ایسے شقی لوگ موجود تھے جو علماء کرام کی گستاخی وتبرأ بازی کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیا۔

 اور اسی طرح محمد بن علی طوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

کتب خالد بن خداش الی ابی فی الیوم الذی ضرب فیہ احمد بن حنبل : واخبرک ان رجلا بلغہ ماصنع باحمد ، فدخل المسجد لیصلی شکرا ، فخسف بہ الی صدرہ ، فاستغاث الناس ، فاغاثوہ (مناقب احمد : 654 )

خالد بن خداش نے میرے والد کو ایک خط کے ذریعے اس دن کے واقعے کی خبر دی ، جس دن امام احمد کو درے مارے گئے تھے ، یہ سن کر ایک شخص شکرانے کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اللہ تعالی نے اسے سینے تک زمین میں دھنسا دیا ، اس کی چیخ پکار پر لوگ جمع ہوئے تو اسے کھینچ کر باہر نکالا ۔

اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا:

بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ

 قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدرک حاکم 4؍361وقال الذھبی:منکر منقطع)

 اور اللہ عزوجل ان لوگوں کو دنیا میں عبرت کا نشانہ بناتا ہے جو لوگ علماء کرام کی بے آبرو کرتے ہیں۔

 عمران بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

دخلت عن ابی العروق الجلاد الذی ضرب احمد لانظر الیہ فمکث خمسة واربعین ینبح کما ینبح الکلب

میں ابوالعروق کے پاس گیا ، یہ وہ شخص تھا جس نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارے تھے ، میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مرگیا ۔( مناقب احمد : 424 )

کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ : ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا ہے، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص سیدناابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تو اس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھود ڈالا، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا۔ (الزواجر: ۲/۳۸۳

عمر بن محمد کے والد ( محمد بن زید ) نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ :

أَنَّ أَرْوَى خَاصَمَتْهُ فِي بَعْضِ دَارِهِ، فَقَالَ: دَعُوهَا وَإِيَّاهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، طُوِّقَهُ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا، وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا، قَالَ: فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا (صحیح البخاری : 4133 )

ارویٰ نے ان کے ساتھ گھر کے کسی حصے کے بارے میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا : اسے اور گھر کو چھوڑ دو ، (جو چاہے کرتی رہے ) میں نے رسول اللہ سے سنا تھا، آپ فرما رہے تھے : جس نے حق کے بغیر ایک بالشت زمین بھی حاصل کی ، قیامت کے دن وہ سات زمینوں (تک ) اس کی گردن کا طوق بنا دی جائے گی ۔ (پھر اس کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر انہوں نے بددعا کی) اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کے گھر ہی میں اس کی قبر بنا دے ۔

 ( محمد بن زید نے ) کہا : میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی ، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے ۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی ، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گرگئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا ۔

مولانا احمد رضاخان صاحب اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمد کا نائب ہے، اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمد کی توہین ہے اورمحمد کی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹)

عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ ومن استخف بالامراء ذھبت دنیاہ ، ومن استخف بالاخوان ذھبت مروءتہ

جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکمرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا –(الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١)

کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے ۔

اللہ تعالی ہمیں علماء حق سے محبت کرنے اور ان کے نقش قدم پہ عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین یا مجیب السائلین

۔۔۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے