اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ١ؕ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ۠۰۰۳۶﴾ (النحل: ۳۶)

’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ’’اللہ ‘‘ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں ’’اللہ‘‘ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی مسلط رہی۔پس زمین میں چل ، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوںکا کیا انجام ہوا۔‘‘

قرآن مجید بڑی تفصیل کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کرتا ہے کہ تمام انبیاء oکی دعوت خالقِ کائنات کی توحید کا پرچار اور شرک کی نفی کرنا تھا۔ چنانچہ ہر نبی نے دعوت کا آغاز اور اپنی جدوجہد کی ابتداء کلمہ توحید سے فرمائی۔ توحید کی دعوت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک شرک کی نفی نہ کی جائے۔ اس لیے ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو سمجھایا کہ شرک چھوڑ و اور صرف ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو:۔

﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا١ؕ ﴾ ( العنکبوت: ۱۴)

’’ہم نے نوحu کو اس کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے۔‘‘

﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۰۰۵۹﴾

’’بلاشبہ ہم نے نوح uکو اس کی قوم کی طرف بھیجا، اس نے فرمایا اے میری قوم! ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یقیناً میں تمہیں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈراتاہوں۔‘‘( الاعراف :۵۹)

﴿وَ يٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا١ؕ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’

’اے میر ی قوم! میںتم سے اس کام پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا ۔میرا اجر ’’اللہ‘‘ کے سوا کسی کے ذمہ نہیں ۔‘‘(ھود: ۲۹)

سیدنا نوحu کی عظیم اور طویل ترین جدوجہد کے باوجود چند لوگ ایمان لائے اور باقی غرق آب کر دیئے گئے۔ جن میں سیدنا نوحu کا بیٹا بھی شامل تھا۔( ہود: ۴۰، ہود: ۴۳)

سیدنا نوحu کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہا، ان کے بعد جو بڑے پیغمبر مبعوث فرمائے گئے وہ سیدنا ہودuتھے۔موجودہ جغرافیےکے مطابق ان کی قوم عمان اور یمن کے علاقے حضر موت کے درمیان آباد تھی۔ (الفجر: ۶ تا ۹)

سیدنا ہودuنے اپنی قوم سے جو پہلا خطاب فرمایا وہ یہ تھا:۔

﴿وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۰۰۶۵﴾ (الاعراف: ۶۵)

’’اورعاد کی طرف ان کے بھائی ہودu کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم! ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔‘‘

لیکن قومِ عاد نے اپنے نبی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ان پر سات راتیں اور آٹھ دن آندھی کا طوفان آیا اور ان لوگوں کو زمین پر پھٹک پھٹک کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ (الحاقہ: ۶ تا ۸)

قومِ ہود کے بعد جو قوم کفر وشرک میں سب سے زیادہ مبتلا ہوئی وہ قومِ ثمود تھی، ان کی طرف انہی میں سے سیدنا صالحu کو نبی منتخب کیا گیا۔ انہوں نے دیگر جرائم سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا۔ وہ یہ تھی کہ ایک ’’اللہ‘‘ کی بندگی کرو اور شرک چھوڑ دو۔

﴿وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۷۳﴾ (الأعراف: ۷۳)

’’اورثمود کی طر ف ان کے بھائی صالحu کوبھیجا اس نے کہا اے میری قوم! ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ یہ اونٹنی تمہارے لئے ’’اللہ‘‘کی نشانی ہے۔اسے چھوڑدو تاکہ ’’اللہ ‘‘کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے ہاتھ نہ لگانا ، ورنہ تمہیں دردناک عذاب آ لے گا۔‘‘

قوم نے سیدنا صالحu کی بات ماننے کی بجائے مطالبہ کیا کہ اس پہاڑ سے اس طرح کی اونٹنی نکلے، تب ہم آپ کی دعوت قبول کریں گے۔ اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ کفر و شرک چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئے جس کے نتیجے میں انہیں تہس نہس کر دیا گیا۔ (الشمس: ۱۴)

سیدنا صالحu کے بعد بہت سے نبی مبعوث کیے گئے جو اپنے اپنے علاقے اور حلقے میں اپنی اپنی قوم کو دیگر جرائم سے روکنے کے ساتھ شرک کے گناہ اور نقصانات بتلاتے اور ’’اللہ ‘‘ کی توحید کا پیغام دیتے رہے۔

قوم ثمود کے بعد جس قوم پر عذاب آیا وہ قومِ مدین ہے یہ بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔

مؤرخین نے اس قوم کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ سیدنا ابراہیمu کے بیٹے مدین کی اولاد میں سے ہیں۔ اس لیے ان کی قوم کو اہل مدین کہا گیا ہے۔ قرآن مجید نے انہیں اصحاب الایکہ بھی کہا ہے۔ کیونکہ ان کا علاقہ نہایت ہی سر سبز و شاداب تھا۔ جو دور سے دیکھنے والے کو درختوں کا ایک جُھنڈ دکھائی دیتا تھا۔ اس بنا پر انہیں اصحاب الایکہ کے نام سے بھی پکارا گیا۔ (الشعراء: ۱۷۴)

﴿وَ اِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا١ؕ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ (الاعراف: ۸۵)

’’اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب uکو بھیجا اس نے فرمایا: اے میری قوم!’’اللہ‘‘ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے ۔‘‘

لیکن انہیں بھی ان کی قوم نے جھٹلا دیا جس کے نتیجہ میں ان پر اوپر سے آگ اور نیچے سے شدید زلزلوں نے آ لیا اور انہیں تباہ کر دیا گیا۔(العنکبوت: ۳۷۔ہود: ۹۴)

سیدنا ابراہیم

سیدنا نوح، سیدنا ہود اور سیدنا صالح کے بعد بہت سے انبیاءکراo تشریف لائے تاآنکہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہu مبعوث کیے گئے۔ آپ ایسے گھرانے اور معاشرے میں مبعوث فرمائے گئے کہ جن کا سرکاری مذہب، سورج، چاند، ستارہ اور بت پرستی تھا۔ مشرکانہ ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وقت کے حکمران نمرود نے اپنے آپ کو خدا کے طور پیش کیا اور لوگوں سے اپنی خدائی منوانے لگا۔ سیدنا ابراہیمu نے اپنے باپ، قوم اور بادشاہ کو بار، بار سمجھایا کہ صرف زمینوں ، آسمانوں کے خالق کو ’’رب‘‘مانو اور اسی کی عبادت کرو۔ سیدنا ابراہیمu کی بے پناہ جدوجہد کے باوجود ان کے باپ، قوم اور حکمران نے نہ صرف ان کی دعوت کا انکار کیا بلکہ انہیں آگ میں پھینک دیا گیا۔ سیدنا خلیلu نے سب کچھ برداشت کر لیا لیکن کفر وشرک کو گورا نہ کیا۔قرآن مجید ان کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے۔

﴿وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۰۰۴۱ ﴾ (مریم: ۴۱)

’’اور اس کتاب میں ابراہیم کا واقعہ بیان کریں یقیناً وہ سچے نبی تھے۔ ‘‘

سیدنا ابراہیمu کی پوری زندگی عقیدۂ توحید سے عبارت اور نمونہ ہے۔ باپ، قوم اور حکمران کو ’’رب تعالیٰ‘‘ کی توحید بتلانے کے نتیجہ میں آگ میں ڈالا جانا، گھر اور وطن کو چھوڑنا، زوجہ حیات اور نونہال کو عرب کے بیابان میں بسانا، اپنے بیٹے سیدنا اسماعیلu کی قربانی دینا، بیت اللہ کی تعمیر اور مناسک حج ادا کرنا، گویا کہ ان کی حیاتِ مبارکہ کا ہرلمحہ خالقِ کائنات کی توحید کے لیے تھا۔ جس کے لیے انہیں ان القابات سے نوازا گیا۔

’’یقیناًابراہیمu ایک پیشوا تھے ، ’’اللہ‘‘ کے تابعدار ، صرف ’’اللہ‘‘ کے ہوجانے والے ، وہ مشرکوں سے نہ تھے ۔ ‘‘(النحل: ۱۲۰)

’’ابراہیم uکو ’’اللہ ‘‘نے اپنا دوست بنا لیاتھا۔ ‘‘(النساء: ۱۲۵)

خلیل اللہ سے محبت اور عقیدۂ توحید کی تقویت کے لیے، ان کے اندازِ خطاب اور جدوجہد کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

﴿اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا۰۰۴۲﴾ ( مریم: ۴۲)

’’ جب اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اے ابا جان آپ ان چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کوئی کام آسکتی ہیں؟‘‘

﴿وَ لَقَدْ اٰتَيْنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَۚ۰۰۵۱ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ۰۰۵۲ قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِيْنَ۰۰۵۳﴾ (الأنبیاء: ۵۱ تا ۵۳)

’’ہم نے پہلے سے ہی ابراہیمu کو ہدایت بخشی اور ہم اس کو خوب جاننے والے تھے،جب ابراہیمu نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن کا تم اعتکاف کرتے ہو ؟انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔‘‘

باپ ، قوم کے بعد حکمران سے خطاب

سیدنا ابراہیمu کا نمرود سے واسطہ پڑا جو کہ نبوت کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے انبیائِ کرامo عوام اور ان کے سرداروں کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور دین کے حوالے سے انہیں کسی حکمران کے ساتھ بالمشافہ گفتگو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ جونہی سیدنا ابراہیمu نے نمرود کو ’’اللہ ‘‘کی توحید سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے اپنے سیاسی تحفظات کی بنا پر ربِ کائنات کی ہستی کا انکار کیااور اپنے مؤقف کے بارے میں باطل اور فرسودہ دلائل دینے لگا۔

﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِيْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَ اُمِيْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۚ۰۰۲۵۸﴾ ( البقرۃ: ۲۵۸)

’’کیا آپ نے اسے نہیں دیکھا جس نے ابراہیمu سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تھا، جب کہ ’’اللہ‘‘ نے اسے حکومت عطا فرمائی تھی۔ جب ابراہیمu نے فرمایا۔ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ کہنے لگا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ ابراہیمu نے فرمایا۔ ’’اللہ ‘‘سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال دے ۔ تو کافر ششدر رہ گیا اور ’’اللہ ‘‘ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

سیدنا اسماعیل

سیدنا اسماعیل u کو ابراہیمu کا بیٹا اور سیدنا ہاجرہ کے لخت جگر ہونے کی سعادت، خلیل اللہ کی دعائیں، آنکھ کھولی تو بیت اللہ کا پڑوس، صابرہ شاکرہ والدہ کی گود میں پرورش پانا ، بچپن میں ’’اللہ‘‘ کے حضور بے مثال قربانی پیش کرنا ، بڑے ہو کر مرکز توحید بیت اللہ کی تعمیر میں اپنے باپ کے ساتھ برابر شامل رہنا، سر زمین حجاز میں دعوتِ توحید کے بانی۔ بالفاظِ مبارک انہوں نے اپنے والد گرامی کی طرح اپنی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ عقیدۂ توحید اور اللہ کی رضا کے لیے وقف رکھا تبھی تو سرورِ دو عالمe کو حکم ہوا۔

﴿وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّاۚ۰۰۵۴﴾ ( مریم: ۵۴)

’’اور قرآن مجید میں اسماعیلu کاتذکرہ کریں وہ وعدے کے سچے نبی اور رسول تھے۔‘‘

سیدنا لوط اور سیدنا اسحاق i

عراق کی سر زمین میں صرف سیدنا لوطuابراہیمuپر ایمان لائے تھے۔ (العنکبوت: ۲۶)

وہ بھی ہجرت کر کے فلسطین پہنچے۔ آپ سیدنا ابراہیمu کے بھتیجے اور ان کے تابع نبی تھے۔ سیدناابراہیمu نے ان کی اُردن میں تعیناتی فرمائی ، فلسطین اور اس کے ملحقہ علاقے میں سیدناابراہیمu کے ساتھ ان کے چھوٹے بیٹے سیدنااسحاقu ،ان کے بعد ان کے صاحبزادے سیدنا یعقوبu عقیدۂ توحید اور کارِ نبوت میں مصروف کار رہے۔ اس لیے قرآن مجید نے سیدنا لوط اور سیدنا اسحاق کا ذکر ابراہیمo سے علیحدہ نہیں بہت کم کیا ہے۔

سیدنا یعقوب

﴿اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۰۰۱۳۳﴾ ( البقرۃ: ۱۳۳)

’’کیا تم یعقوبu کی موت کے وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنی اولاد سے پوچھا میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباء ابراہیم،اسماعیل، اور اسحاقo کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ ‘‘

سیدنا یعقوبu کا لقب اسرائیل تھا۔ جس کا معنٰی ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہے۔ سیدنا اسماعیلu کے سِوا جتنے انبیاء آئے وہ انہی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ قرآن مجید سیدنا یعقوبu کی اولاد کو بنی اسرائیل کے لقب سے پکارتا ہے۔

سیدنا یوسف

﴿قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا١ؕ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ١ؕ اِنِّيْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ۰۰۳۷ وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ١ؕ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۰۰۳۸ يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ۠ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُؕ۰۰۳۹ ﴾ (یوسف: ۳۷تا۳۹)

’’یوسفuنے فرمایا تمہارے پاس کھانا آنے سے پہلے میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاؤں گا ۔ یہ وہ علم ہے جو میرے رب نے مجھے سکھلایا ہے۔ یقیناً میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا ہے جو ’’اللہ‘‘ پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں، میں نے اپنے آباءابراہیم ،اسحاق اور یعقوبo کے دین کی پیروی کی ہے ہمارے لیے کسی کو ’’اللہ‘‘ کے ساتھ شریک ٹھہرانا جائز نہیںیہ ہم پر اور لوگوں پر ’’اللہ‘‘ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ اے جیل کے ساتھیو! کیا مختلف ’’رب‘‘ بہتر ہیں یاایک ’’اللہ‘‘ بہتر ہے؟جو اکیلا ہی ہر چیز پر غالب ہے۔‘‘

سیدنا یوسفu نے اپنے آباء سیدنا ابراہیم، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب o کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا: ہم بالکل جائز نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، بے شک وہ کوئی بھی ہو۔

اسی لیے میں نے مشرکانہ طریقہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ سیدنا یوسف uپہلے شرک کرتے تھے بعد میں اسے چھوڑ دیا۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے اسے قبول ہی نہیں کیا۔عقیدہ ٔتوحید کی فضیلت اور فرضیت کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ ہمارے اوپر اور دوسرے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ اس نے عقیدۂ توحید کی تعلیم دے کر لوگوںکو اپنی چوکھٹ کے سوا ہر چوکھٹ اوردرگاہ کے سامنے جھکنے سے منع کر دیا ہے۔ سیدنا یوسفu نہایت سمجھ داری اور درد مندی کے ساتھ عقیدۂ توحید سمجھانے اور اس کے دنیوی اور اخروی فوائد بتلانے کے بعد ان سے سوال کرتے ہیں کہ میرے قیدی ساتھیو! بتلائو کہ مختلف خدائوں کو ماننا بہتر ہے یا ایک ’’اللہ‘‘ پر ایمان لانا بہتر ہے جو ہر قسم کے اقتدار، اختیار اور زبردست جلالت و جبروت کا مالک ہے۔ سیدنا یوسفu کی دانائی اور سمجھداری کا اندازہ فرمائیں کہ انہوں  نے اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے قہار ہونے کی صفت کا ذکر فرما کر قیدی ساتھیوں کو تسلی دی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا ظالموں کے دل موڑ دے گا اور ہماری رہائی عمل میں آجائے گی۔ اس کے سامنے کسی جابر کا جبر اور ظالم کا ظلم نہیں ٹھہر سکتا۔

سیدنا ہارون و موسیٰ

نبوت ملنے کے بعد سیدنا موسیٰu نے اپنے رب کے حضور دعائیں کی۔ اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا جائے اور میری معاونت کے لیے میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا کی جائے تاکہ وہ میرے کام میں میری معاونت کرتے رہیں۔ سیدناموسیٰu کی دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انشراح صدر اور بیان کرنے کا ملکہ عطا فرمایا اور سیدنا ہارونu کو ان کا معاون نبی بنا دیا۔ وہ موسیٰu کی غیر حاضری میں ان کے مشن کو جاری رکھتے اور ہر اہم موقعہ پر ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ گو سیدنا موسیٰu عمر میں سیدنا ہارونu سے چھوٹے تھے لیکن نبوت کے مرتبے کے لحاظ سے ان سے بڑے تھے۔ اس لیے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صرف سیدنا موسیٰu کا ذکر ہے۔ حقیقتاً دونوں بھائی مل کر توحید کی دعوت دیتے اور مشکلات برداشت کیا کرتے تھے۔ سیدنا موسیٰu اور سیدنا ہارونu نے فرعون کو دعوت دی تو :

﴿قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى۰۰۴۹ قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى۰۰۵۰ قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى ۰۰۵۱ قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ١ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَ لَا يَنْسَىٞ۰۰۵۲﴾ (طٰہٰ: ۴۹ تا ۵۲)

’’فرعون نے کہا اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟موسیٰu نے جواب دیا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت دی پھر اس کی راہنمائی فرمائی۔ فرعون نے کہا جولوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کا کیابنے گا ؟موسیٰu نے فرمایا: اس کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے میرا رب نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ ‘‘

سیدنا موسیٰu نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے اور آل فرعون کو کئی قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرعون کا ساتھ دیا۔جو کہتا تھا کہ میں ہی سب سے بڑا رب ہوں۔اس جرم کے بدلے اسے اور اس کے ساتھیوں کو غوطے دے دے کر موت کے منہ میں دھکیل کر ،دنیا اور آخرت میں نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔

﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ٞۖ۰۰۲۴فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰىؕ۰۰۲۵ ﴾ (النازعات: ۲۴ تا۲۵)

’’فرعون نے کہا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ آخر کار ’’اللہ‘‘ نے اسے آخرت اور دنیا کے عبرتناک عذاب میں پکڑ لیا۔ ‘‘

﴿فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَؒ۰۰۹۲﴾ ( یونس: ۹۰)

’’پس آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے، تا کہ تو ان کے لیے عبرت بنے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں اور یقیناً بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتنے والے ہیں ۔‘‘

سیدنا عزیر

اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ u کے دین موسوی کے احیاء کے لیے سیدنا عزیر uکو مبعوث فرمایا۔ تورات میں ان کے ارشادات جا بجا پائے جاتے ہیں لیکن قرآن مجید میں ان کے خطابات کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ البتہ ان سے متعلقہ عقیدۂ توحید کا ثبوت اور بعث بعد الموت کا واقعہ موجود ہے۔

﴿اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى يُحْيٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۲۵۹﴾ (البقرۃ: ۲۵۹)

’’یا اس شخص کی طرح کہ جس کا ایک بستی سے گزر ہواجو اپنی چھتوں کے بل گری پڑی تھی، وہ کہنے لگا، اس کے گر جانے کے بعد ’’اللہ ‘‘ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟ ’’اللہ‘‘ نے اسے سو سال کے لیے موت دی۔ پھر اسے اٹھا کر پوچھا تو کتنی مدت ٹھہرا رہا؟ عزیرuکہنے لگے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ فرمایا بلکہ تو سو سال اسی حالت میں رہاہے۔ اپنے کھانے پینے کو دیکھ جو بالکل خراب نہیں ہوا، اپنے گدھے کو بھی دیکھ تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں۔ دیکھ ہم اس کی ہڈیوں کو جوڑ کر کس طرح ان پر گوشت چڑھاتے ہیں؟ جب اس کے سامنے سب کچھ واضح ہوگیا تو وہ کہنے لگے میں اچھی طرح جان گیا کہ ’’اللہ‘‘ہر چیز پرپوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

سیدنا سلیمانuکا شاہانہ اور حکیمانہ انداز

سیدنا داؤد ، باپ اور جناب سلیمان o بیٹے، دونوں یکے بعد دیگر نبی اور حکمران بنے۔ سیدنا سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔ میرے’’ رب ‘‘مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد اتنی بڑی اور اس طرح کی حکمرانی کسی کو نصیب نہ ہو۔( ص ، ۳۵ تا ۳۷)

ان کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جن و انس کے علاوہ ہوائوں پر کنٹرول دیا اور انہیں پرندوں کی بولیاں سمجھائیں اور وہ انسانوں کے علاوہ جِنّوں اور پرندوں سے کام لیتے تھے۔ ایک موقعہ پر ہدہد پرندے نے انہیں اطلاع دی۔

﴿ اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ۰۰۲۳وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَۙ۰۰۲۴اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ يَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ۰۰۲۵اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِؑ۰۰۲۶﴾(النمل: ۲۳، ۲۶)

’’مَیں نے سبامیں ایک عورت دیکھی جواس قوم کی حکمران ہے، اس کوہرطرح کا سازوسامان دیا گیاہے، اس کاتخت بڑاعالی شان ہے۔ میں نے دیکھاکہ خود ملکہ اور اس کی قوم ’’اللہ ‘‘کی بجائے سورج کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنادیئے ہیں اورانہیں ہدایت کے راستہ سے روک دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ سیدھاراستہ نہیں پاتے۔یہ کہ وہ ’’اللہ ‘‘کوسجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہرکرتے ہو۔ ’’اللہ‘‘ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو عرشِ عظیم کامالک ہے۔‘‘

ہد ہد نے کہا کتنے نا عاقبت اندیش ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے حالانکہ وہ زمینوں و آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اُسے بھی جانتا ہے۔

سیدنا سلیمانu نے ہدہد کے ذریعے ملکہ سبا کو مراسلہ بھیجا۔ اس کے جواب میں ملکہ شاہانہ انداز میں اپنے وزیروں، مشیروں کے ساتھ سیدناسلیمانu کے پاس حاضر ہوئی۔

سیدنا سلیمانu نے اسے مسلمان کرنے کے لیے جبر کی بجائے انتہائی حکیمانہ انداز اختیار فرمایا۔ اس کے آنے سے پہلے اس کا تخت منگوایا اور اس میں تبدیلیاں کروائیں ، پھر ملکہ سے اس کے تخت کے بارے میں استفسار فرمایا۔ ملکہ نے کسی تامل کے بغیراپنا تخت پہچان لیا۔سیدنا سلیمان uچاہتے تھے اسے کھل کر اس کے سابقہ عقیدہ کے باطل ہونے کا ادراک کروایا جائے۔ اس لیے انھوں نے ملکہ اور اس کے وفد کو ایسے محل میں ٹھہرنے کا حکم دیاکہ جس کے بڑے دروازے کے سامنے شیشے کا فرش لگا ہوا تھا۔ ملکہ نے اسے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے پائنچے اُوپر کر لیے۔ سیدنا سلیمانu نے اسے توجہ دلائی کہ پانی نہیں یہ بلوری فرش ہے۔ اس بات سے اس کے دماغ پر ٹھوکر لگی اور وہ پکار اُٹھی ۔

﴿قَالَتْ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۴۴﴾ (النمل:۴۴)

’’وہ پکار اٹھی میرے ’’رب ‘‘میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی اور میں سلیمان کے ساتھ ’’اللہ ‘‘پر ایمان لاتی ہوں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

 تفصیل کے لیے سورۃ النمل کی ۲۰ تا ۴۴ آیات کی تلاوت کریں۔

سیدنا سلیمان uنے اسے شیشے کے فرش کے ذریعے یہ حقیقت باور کروائی کہ شرک ایک واہمہ اور سراب ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔

سیدنا عیسیٰ بن مریم

عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰu اور ان کی والدہ ماجد ہ کو اللہ تعالیٰ کا جُزو ٹھہرایا ہوا ہے۔ ان کے عقیدے کی تصحیح کے لیے قرآن حکیم نے عیسیٰu اور ان کی والدہ ماجدہ کی پیدائش اور ان کے خاندانی حالات کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور ثابت کیا ہے کہ سیدنا عیسیٰuاور ان کی والدہ مریم کھانے پینے والے انسان تھے۔ اور ان کی دعوت کا مرکزی پیغام شرک کی تردید اور توحید کا پرچار کرنا تھا۔( المائدۃ: ۷۵)

سیدنا عیسیٰu کی دعوت کی وجہ سے یہودیوں نے انہیں تختہ دار پر لٹکانے میں کوئی کسر نہ رہنے دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزاتی طور پر آسمان پر اٹھا لیا۔ جو قیامت کے قریب تشریف لائیں گے اور توحید کا پرچار اور اس کا عملی طور پر نفاذ کریں گے۔

﴿فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ١ؕ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا۰۰۲۹قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۰ وَّ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا۪ۖ۰۰۳۱ وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ١ٞ وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا۰۰۳۲ وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا۰۰۳۳ ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ۰۰۳۴مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُؕ۰۰۳۵وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۰۰۳۶﴾ (مریم: ۲۹تا ۳۶)

’’مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا، لوگوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے ؟عیسیٰu بول اٹھے کہ میں ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے، میںجہاں بھی رہوں مجھے برکت دی گئی ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اورزکوٰۃ کی پابندی کاحکم دیا ہے، مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایاہے، مجھ کو سرکش اور سخت طبیعت نہیں بنایا گیا۔ مجھے سلامتی عطا کی جب میں پیدا ہوا، جب میں مروں گا اورجب زندہ کرکے اٹھا یا جائوں گا۔ یہ عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہ ہے ان کے متعلق حقیقت ، جس میں لوگ شک کر رہے ہیں۔ ’’اللہ‘‘ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ اس سے پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فقط اتنا فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام ہو جاتا ہے۔ اور عیسیٰu نے فرمایا تھایقیناً ’’اللہ ‘‘ہی میرا اور تمہارا ’’رب‘‘ ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ ‘‘

سرورِ دو عالمeکا پیغام اقوام عالم کے نام

﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ ……﴾ (الاعراف: ۱۵۸)

’’اے نبی آپ فرما دیجیے: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،وہ زندہ کرتا اورمارتا ہے پس ’’اللہ‘‘ اور اس کے اُمّی نبی پر ایمان لائو ……‘‘

﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۰۰۲۵﴾ ( الانبیاء: ۲۵)

’’ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی بندگی کرو۔‘‘

یہی دعوت پہلے انبیائے کرام oکی تھی اور اسی سے نبی اکرمe نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا۔ چنانچہ آپ e نے اپنی پوری حیات طیبہ میں لوگوں کویہی بات بتلانے اور سمجھانے کی کوشش فرمائی کہ لوگو! ’’لااِلٰہ الااللہ ‘‘پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو، دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائو گے۔

آپ نے پہلے تین سال انفرادی دعوت پر توجہ فرمائی، پھر برادری اور پھر صفا پہاڑی پر لوگوں کو بلایا اور سمجھایا ۔اس کےبعد مکہ کے چوک وچوراہوں میں کھڑے ہوئے، پھر منڈیوں میں تشریف لے گئے اس کے ساتھ مختلف قبائل کے پاس جا کر دعوت دی اس کے رد عمل میں آپ کو شاعر، دیوانہ، جادوگر اور جادو زدہ اور کذاب کہا گیا اور طعنے دیئے گئے۔

اس دعوت کی خاطر آپ eاور آپ کے ساتھیوں نے مکہ میں بے انتہا مظالم برداشت کیے اور اسی وجہ سے طائف والوں نے آپ کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ اسی بنا پر آپ کو وطن چھوڑنا پڑا۔ اسی بنیاد پر بدر، اُحد ، خندق ، حنین ، تبوک اور مکہ کا معرکہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح یاب فرمایا ۔

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے