ننھے قارئین کیسے ہیں آپ سب امید ہے خیریت سے ہوں گے،اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔

پیارے بچو !جیسا کہ پچھلی دفعہ آپ نے پڑھا تھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑ کر شرک سے بیزاری کا اظہار کردیا تھا اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ اس دنیا کے خالق اور مالک صرف اللہ تعالی ہی ہیں ۔

ننھے قارئین!جیسا کہ پچھلی دفعہ ہم نے پڑھا کہ جب قوم کو بتوں کے ٹوٹنے کا پتہ چلا تو وہ بہت غصہ ہوئے اور شکایت لے کر نمرود کے پاس پہنچے ۔

پیارے بچو!نمرود اس وقت کا بادشاہ تھا اور بہت ظلم کیا کرتا تھا وہ اپنی بادشاہت کے نشے میں بھول چکا تھا کہ اس دنیا کا اصلی بادشاہ اور شہنشاہ کون ہے ۔وہ نعوذباللہ خدائی کا دعوی کرتا تھا ۔

اور اس نے اللہ تعالی کی طرف سے عطا کی گئی بادشاہت پر شکر ادا کرنے کے بجائے تکبر کرنا شروع کردیا ۔

اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مناظرہ کیلئے بلایا کہ مجھ سے آکر مناظرہ کرو کہ نعوذباللہ خدا تو میں ہوں تم کس کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہو ۔ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے ۔

نمرود نے جواب میں کہا:میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں اور اپنی دانست میں اس نے ایک ایسا مجرم جس کو سزائے موت سنائی گئی تھی اس کو چھوڑ دیا اور ایک بے گناہ کو مروادیا ۔

اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :میرا رب مشرق سے سورج کو نکالتا ہے پس تو سورج کو مغرب سے نکال کردکھا ۔

اس منطقی سوال پر نمرود ہکابکا رہ گیا اور اس نے مزید ذلت سے بچنے کیلئے حکم جاری کیا کہ نعوذباللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایک بڑی آگ جلا کر اس میں ڈالا گیا مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی ہونے کے ساتھ سلامتی اور آرام کی چیز بن گئی، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:

قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۰۰۶۸ قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَۙ۰۰۶۹ (الأنبیاء ۶۸- ۶۹)

’’وہ (ایک دوسرے سے) کہنے لگے: آگ میں جلا ڈالو اس شخص کو، اور اپنے خداؤں کی مدد کرو، اگر تم میں کچھ کرنے کا دم خم ہے۔ (چنانچہ انہوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا اور) ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہوجا، اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔‘‘ 

پیارے بچو!اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ آگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکی۔ مگر اس قوم کی بدنصیبی کی حد یہ تھی کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ایک آدمی بھی ایمان نہیں لایا، چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام عراق چھوڑکر ملکِ شام تشریف لے گئےاور پھر وہاں سے فلسطین چلے گئے اور وہیں مستقل قیام فرماکر اسی کو دعوت کا مرکز بنایا۔

آگے کیا ہوا یہ ہم اگلی بار پڑھیں گے۔ ان شاءاللہ

سوالات

نمرود کون تھا اور اسے کیا سزا ملی؟

اس دنیا کا اصلی بادشاہ کون ہے؟

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ نقصان کیوں نہ پہنچا سکی؟

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے عراق کیوں چھوڑا؟

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو کیسے لاجواب کیا؟

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے