تحقیق و تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر فرد میں تحققِ ذات(Self-Realization) کی صلاحیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔تحقق کو رہنما اصولوں کا ایک نظام یا وہ بیج کہا جاسکتا ہے جو پیدائش کے وقت ہر فرد میں بالقوہ موجود ہوتا ہےاور سازگار حالات میں تناور درخت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہر فرد فطری طور پر ان رہنما اصولوں کی نشو ونما،فروغ اور استحکام کے لیے کوشاں رہتا ہے۔انسان کا ہر قسم کا کردار ،خواہ اس کا تعلق جسمانی ضرورتوں کی تسکین سے ہو یا تخلیقی عمل سے، انہی اصولوں کے حوالے سے سر انجام پاتا ہے۔
کارل روجرز(Carl Ransom Rogers) ایک امریکی نفسیات داں ہے۔اس کا خیال ہے کہ ہر فرد اپنی تمامترصلاحیتوں کا اظہار ،ان کی نشو ونما اور تکمیل چاہتا ہے ۔جب فرد اپنی پیدائشی صلاحیت کو فروغ دے لیتا ہے تو وہ ایک بھر پور اورصحت مند شخصیت کا مالک بن جاتا ہے۔چوں کہ ہر فرد اپنے مخصوص حالات میں نشو ونما پاتا ہے اور مخصوص تجربات سے گزر تا ہے لہٰذا تحققِ ذات کا عمل انہی مخصوص حالات اور مخصوص تجربات کی بنیاد پر سر انجام پاتا ہے۔ایسی شخصیت کا مالک فرد اپنی ذات اور انفرادیت کو مکمل طور پر ختم کردیتاہے اور بلا چوں چرا وہی کچھ کرنا شروع کردیتا ہے جوگرد وپیش میں باقی لوگ کرتے ہیں۔دراصل ہمارے معاشرے میں لوگوں کی کثیر تعداد تقلیدی ذہن لے کر پیدا ہوتی ہے اس لیے جو کچھ معاشرے میں ہورہا ہے وہی کرنے لگتی ہے ،جو کچھ مانا جارہا ہوتا ہے اسی کو ماننا شروع کر دیا جاتا ہے یہ سوچے بنا کہ جسے وہ مان رہا ہے یا جو کچھ کر رہا ہے معاشرے کی بقا و سلامتی کے لیے اور اس کی اپنی ذات پر مرتب ہونے والے منفی یا مثبت اثرات اس کی شخصیت کو کون سا رنگ دیں گے ، اس کا شعور اس کو نہیں ہوتا ۔کیوں کہ ماحول کا اثر اس کی فہم و فکر پر ایک دھند سی طاری کردیتا ہے۔جس طرح عینک کے شیشوں پر نمی آجا ئےتو قریب دور کا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اکثر اوقات ہم فطرت کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے اپنی کسی خواہش کی تسکین سے قاصر رہ جاتے ہیں اور یوں ہم مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔فطری حوادث مثلاً سیلاب ، زلزلہ،طوفان یا آسمانی بجلی کے گرنے سے انسانی زندگی میں جو خلل،دکھ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔اس کے برعکس ہماری زیادہ تر مایوسی یا خَیبت ایسی ہے جو ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے باہمی تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے اس کو ہم انسانی یا معاشرتی وجوہات کی بنا پر پیدا شدہ مایوسی یا خیبت کہیں گے۔انسان کے انسان پر جبر سے پیدا شدہ خیبت(مایوسی) بھی نوع انسانی کے مقدر کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ ایک اہم ترین مسئلہ انسان کے اس ماحول کا ہے جس میں وہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔اس میں داخلی و خارجی دونوں عوامل شامل ہوتے ہیں۔داخلی عوامل میں گھر اور خاندان کی وہ تربیت ہے جو بچے کےاخلاق و کردار پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔عہدِ طفولیت میں ہوئی اچھی یا بری تربیت انسان کے عمر کے آخری حصے تک اس کی ذات سے چمٹی رہتی ہے۔عام طور سے بچے کی بری تربیت اس کے بے جا لاڈ وپیار کا نتیجہ ہوتی ہے۔بچے کی جائز اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا یقیناً والدین کا فرض ہےکیوں کہ اس عمر میں بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے والدین کا ہی محتاج ہوتاہے۔لیکن خواہش اور ضرورت میں بہت بڑا فرق ہے۔انسان کی بنیادی حاجات تو اللہ پوری کر ہی دیتاہے لیکن خواہشات کی تو کوئی آخری حد ہی نہیں ہوتی۔وہ تو اس دنیا میں نہ کسی کی پوری ہوئیں ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں۔یہ خیال ہے جو محال ہے!
یہ تو انسانی زندگی کے داخلی معاملات تھے ،مگر اس دنیا میں انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے خارجی معاملات اور اس کےبھیانک نتائج، اصل تشویش کا مقام ہے۔اور یہی وہ گھمبیر مسائل ہیں جنہوں نے انسانی معاشرت سے اخلاق و اعلیٰ کردار کے جوہر خالص کا جنازہ نکال دیا ہے۔خاص طور پر مسلمان معاشرہ تو اس کے فریب زدہ گرداب میں پھنس کے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ایک طرف باہمی حقوق کی حق تلفی، آپس کی رنجشیں جو اکثر قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہیں، پُر تعیش زندگی کے لیے جال سا زیاں، مکاریاں ، دغابازیاں ، نام نہاد غیرت کے نام پر لڑکے اور لڑکیوں کا قتل،عصمت دری، کمسن بچیوں اور بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانا، جیتے جاگتے انسانوں کو معمولی باتوں پر جان سے مار دینا اور انہیں زندہ جلا دینا۔یہ وحشیانہ اورانسانیت سوزطرزِ عمل معاشرے کا امن و سکون غارت کر دینے کا باعث ہے۔انسان کا خون پانی سے بھی ارزاں ہو چکا ہے۔یہاں انسانوں سے زیادہ حفاظت کتے بلیوں کی جان کی ہوتی ہے۔انسانی جانوں کو اس بے د ردی اور بہیمانہ طریقے سے اپنے انتقام کا نشانہ بنانا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔
اقوامِ عالم کے اپنے معیارِ زندگی ہیں، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو انہوں نے بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ان کی زندگی و موت، خوشی وغمی کے رواج اور ہیں اور معاشرتی زندگی کی روایات کچھ اور ،لیکن اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے انسانی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کو ابتدا سے تکمیل تک کے سارے مراحل واضح طور پر کتاب اللہ میں بیان کر دیے گئے ہیں۔اور اس کو عملی صورت دینے کے لیے اللہ نے اپنے رسول محمد ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔تاکہ بندہ یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو علم ہی نہیں تھا کہ تیرے احکام کی تعمیل کیسے کریں؟ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًاؕ۰۰۲۱
«بے شک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اورقیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔(الاحزاب 21)
آج سب سے زیادہ گہری ضرب انسان کے اخلاق اس کی عصمت و پاکیزگی اور صالح کردار پر ہی لگائی گئی ہے۔اخلاق کی رفعت و عظمت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔اور اس عمل قبیح میں اپنے پرائے سب شریک ہیں اور قدم سے قدم ملا کر اسلامی معاشرے میں چل رہے ہیں۔اس «کارِخیر» میں ہمارا میڈیا ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔کیوں کہ اخلاق و کردار کی پاکیزگی کو ملیا میٹ کرنے کا اسکرپٹ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے آتا ہے۔انسان کے اخلاق و کردار کے بگاڑ اور نسلوں کی تباہی و بربادی کا بہت بڑا مرکز یہ شرم و حیا سے عاری میڈیا ہی ہے۔جو انسان کے اندر چھپی شیطنت کو ابھارنے اور ان کے نفس امارہ میں انتشار و ہیجان پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔پرنٹ اور خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا جو اس وقت عالمی استعماری قوتوں کا آلہ کار بن کر پوری دنیاکے سامنے آیا ہے۔جس میں ہمارا»اسلامی جمہوریہ پاکستان» بھی اس عالمی میڈیا کی یلغار کا شکار ہے۔وہ نہ صرف استعماری،خصوصاً اسلام دشمن ملٹی نیشنل کمپنیوں کو معاشی سپورٹ فراہم کر رہا ہے، ان کی اخلاق باختہ ثقافت کو فروغ دے رہا ہے۔اور حوا کی بیٹیوں کو اپنے فریب حسن اور کشش(glamour) سے سحر زدہ کر کے نہ صرف تشہیر کا ذریعہ بنا کر پیش کرتا ہے بلکہ اسے تجارتی جنس (commodity ) یعنی بیچنے والی چیز کی حیثیت دے رکھی ہے اور جس انداز سے میڈیا کے ذریعے سے عورت کی تذلیل کی جارہی ہے وہ اسلامی معاشرے کے لیے خاص طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔
دوسری جانب کیبل اور نیٹ نے ہماری غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے اور اس میں ریاستی میڈیا بھی حصہ بقدر جثہ شامل ہے۔ٹی وی ڈراموں، فلموں، ناچ گانوں کے واہیات پروگرامز اور ان پروگراموں کے درمیان چلنے والے اشتہارات میں عورت کو نیم عریاں حالت میں دکھایا جاتا ہے ۔ایسی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے کہ جسے فیملی کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتے۔حد تو یہ ہے کہ کوئی شے(product) مَردانہ استعمال کی بھی ایسی نہیں جس میں عورت جلوہ گر نہ ہو۔بلیڈ، شیونگ کریم اور لوشن جیسی پروڈکس میں بھی کوئی نہ کوئی خوبروعورت اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔اس سارے اخلاقی گراوٹ میں لتھڑے کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔
صنفِ نازک کو بطورِ جنس پیش کرنے کا نتیجہ نوجوان نسل میں جنسی ہیجان ابھارنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔عورتوں اور خاص طور پر کمسن بچیوں پر جنسی زیادتی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ اسی ترغیب و تشویق کا منطقی نتیجہ ہے۔جو مادر پدر آزاد میڈیا کی طرف سے دی جارہی ہے اور کچے ذہنوں میں زہر انڈیلا جارہا ہے۔
ابلاغ(communication) خواہ قلم و قرطاس کے ذریعہ سے ہو یا کیمرے اور سکرین کے توسط سے اس کی حرمت اور تہذیب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا صحت افزا ،مثبت سوچ اور تہذیبی اقدار کے معیار کو پست نہ ہونے دینا ابلاغ کے اربابِ بست و کشاد کی اہم ذمہ داری ہے۔اور اس سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔قوموں اور نسلوں خاص طور پر قوم کے نو نہالوں کے ذہنوں میں اخلاقی کجروی اور حیوانیت کے شجرِ خبیثہ کا بیج ڈال دینا شیطنت کا کھلا ثبوت ہےجو فحاشی، عریانیت ، انسانی اعلیٰ قدروں کی پامالی ، خباثت و نجاستوں کو فروغ دے کر ایک صالح معاشرے کو کچرے کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔اور ایسے معاشروں سے امن و سکون ختم ہوجاتاہے۔پھر نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ جان و مال۔پھر دولت کمانےکے لیے عصمت فر وشی، دلالی ، نوخیز لڑکیوں اور لڑکوں کی خرید و فرخت (human trafficking) جیسے راستے کھل جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کو عالم اقوام ، جن میں ترجیحاً امت مسلمہ ہے کو اپنا محکوم بنانے اور ان پر اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے ہر زاویے سے استعمال کیا جارہاہے۔کیوں کہ مغربی طاقتوں نے دیگر اقوام کو اپنا غلام بنانے کی حکمتِ عملی(strategy) تبدیل کر دی ہے۔اس نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔کیوں کہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ انتہائی مؤثر اور دو دھاری تلوار ہے۔
طاغوتی طاقتوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں لادینیت کاایک ایسا جال بچھایا جائے جس میں ان دانشوروں، مفکرین اور دینی اسکالرز کو بھی شامل کیا جائے جو اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرنے کے خواہاں ہیں جو روشن خیالی اور شرم و حیا سے عاری نسل تیار کرنا چاہتے ہیں۔اسلام دشمن قوموں نے اپنے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کےلیے ہمارے اندر ہی سے مہرے ڈھونڈ لیے ہیں۔اور اس کے عوض انہیں وہ سب کچھ حاصل ہورہا ہے جو ایک پُر تعیش زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ان کے ان مذموم ارادوں میں سہولت کار کے طور پر مسلمان ملکوں کی حکومتیں ان کی پشتی بان ہیں۔جس کی آنکھوں میں اسلام اور اس کی اقدار کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں وہی ان کا چہیتا ہے۔ اور اسے اربابِ اقتدار کی حمایت اور آشیرباد حاصل ہے ،کیوں کہ حکومت کی کرسیوں پر قابض ارکان کے تانے بانے بھی مغربی قوتوں سے ملتے ہیں۔ہمارے حکمراں مغرب کے دیے ہوئے ٹکڑوں پر ہی تو پل رہے ہیں۔ان کی شاہ خرچیاں اور عیاشاں مغر ب کی ہی عطا ہے۔
اخلاقی نظام بدلتے رہتے ہیں، وہ کون سی طاقت ہے جو انہیں بدلتی رہتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ اعمال جنہیں کسی ایک زمانہ یا جگہ میں اچھا سمجھا جاتا ہے ، کسی دوسرےعہد یا مقام پر برا خیال کیا جاتا ہے؟غالباً زندگی کی اقتصادی بنیادوں کی تبدیلی سے اخلاقی تصورات میں تبدیلی آتی ہے۔کبھی خاندان ایک اخلاقی اور اجتماعی مرکز اس لئے بنا کہ وہ اپنے مزاج اور ہئیت ترکیبی میں افراد کی بقا و سلامتی کی علامت تھا۔اور اب دنیا جانتی ہے کہ خاندان کی یہ مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔اور ہماری صنعتی آبادیاں اس غیر مامون دور سے گزر رہی ہیں جو اخلاقی بنیادوں کو خاندان سے جدا کر رہی ہیں۔کیوں کہ وہ اپنا سیاسی اور اقتصادی مقام کھو بیٹھا ہے۔خاندانی وفا اور محبت کے سر چشمے خشک ہو رہے ہیں اور ان کی جذباتی دولت وطن پرستی میں سما رہی ہے۔
شرم و حیا ، عفت و پاکیزگی تو ہمارے میڈیا کے اخلاق سے عاری ڈراموں ،واہیات فلموں اور گلیمر سے سجے فیشن شوز نے ختم کردی ہے۔عورتوں کے جسم رفتہ رفتہ بے لباس ہوتے جارہے ہیں اور اگر جسم پر کچھ لباس باقی بچا ہے تو اس کی حالت ایسی ہی ہے کہ ع
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
عورت جتنی بے لباس ہوتی جائے گی ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی مارکیٹ میں مانگ بڑھتی جائے گی، اور دوسری طرف میڈیا کی ریٹنگ میں بھی کروڑوں کااضافہ ہوتا رہے گا۔ان سب بے حیائی کے نظارے تو برسوں سے ہمارے وطن عزیز میں نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنے کو مل ہی رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے ایک اور فحش اور حیا باختہ قانون’’ٹرانس جینڈرایکٹ ‘‘بل اسمبلی میں پاس کر لیا گیا۔جس میں خنثیٰ کے حقوق کی آڑ میں جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں ایک اور سہولت مہیا کر دی گئی ہے۔اب مَرد سے مَر د کا اختلاط(Gay) اور عورت کا عورت سے اختلاط(Lesbian) کا آزادانہ طور پر راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔یہ وہ عملِ قبیح ہے جس پر عمل کرنے والی قوم پر اللہ کا قہر و غضب نازل ہوا تھا۔انہیں زمین سے اوپر اٹھا کر دوبارہ زمین پر پٹخا گیا، پھر ان پر آسمان سے پتھروں کی بارش کی گئی ، اور وہ بد بخت اور غلیظ قوم دنیا سے ملیا میٹ کر دی گئی۔ان کے علاقے میں رواں دواں سمندر ان کی گھناؤنے گناہ کے سبب منجمد کر دیا گیا ، جو بحرِ مردار(Dead Sea) کہلاتا ہے۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے تو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے عذاب سے بھی کوئی سبق سیکھنا ہی نہیں ہے۔ان کی آنکھوں پر حرص و ہوس اور لالچ و مفاد پرستی کی ایسی پٹی بندھی ہوئی ہے جو انہیں کچھ دیکھنے ہی نہیں دیتی۔ایسے لوگوں کے لیے قرآن حکیم میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے:
لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا١ٞ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا١ٞ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۰۰۱۷۹
’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں،ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو چوپایوں کی مانند ہیں ،بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے، یہی لوگ ہیں کو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘(الاعراف 179)
اسی سورۃ مبارکہ میں ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ
«کہہ دو کہ: میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔»(آیت33)
فواحش کی یہ کثرت اور مقبولیت شہوانی جذبات کے جس اشتعال کا نتیجہ ہیں وہ لٹریچرمتصاویر، سینما،تھیٹر ، رقص اور بر ہنگی و بے حیائی کے عام مظاہروں سے رونما ہوتا ہے۔خودغرض سرمایہ داروں کا ایک پورا لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے۔اور اس ذریعے سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات ،مصور جرائد اور نصف ماہی اور ماہ وار رسالے انتہا درجہ کے فحش مضامین اور شرم ناک تصویریں شائع کرتے ہیں۔کیوں کہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ صنفی مسائل پر حد درجہ ناپاک لٹریچر پمفلٹوں اور کتابوں کی شکل میں نکلتا رہتا ہے،جہاں بد اخلاقی ، نفس پرستی اور لذاتِ جسمانی کی بندگی اس حد کو پہنچ چکی ہو، جہاں عورت، مَرد،جوان ،بوڑھے سب کے سب عیش کوشی میں اس قدر منہمک ہوں اورجہاں انسان کو شہوانیت کے انتہائی اشتعال نے یوں آپے سے باہر کردیا ہوایسی جگہ ان تمام اسباب کا بروئے کار آجانا بالکل ایک طبعی امر ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی،علمی ، سیاسی اور جدید ذرائع ابلاغ سے کما حقہ واقفیت کا فقدان اور اس سے بھی بڑھ کر دین سے دوری مسلمانوں کے اخلاقی زوال اور نکبت و ادبار کا اصل سبب ہے۔اسلام ایک مکمل دستورِ حیات ہے ، اس کی بے مثال تعلیمات میں انسان کے ہر مسئلے کا اور اشکالات کا حل موجود ہے۔اس کی تعلیمات میں مجرموں، بدکرداروں، ملک و قوم کے باغیوں ، اخلاق و انسانیت کے دشمنوں ،معاشرے میں عزت و عصمت اور پاکیزگی اور حیا کی چادر تار تارکرنے والوں کی بیخ کنی کا پورانظام موجود ہے۔ایک نیک اور صالح معاشرے کے قیام کے لیے واضح ہدایات پیش کی گئی ہیں۔بات صرف اپنا قبلہ درست کر لینے کی ہے۔اور اپنے اور اپنی نسلوں کے دشمنوں کو پہچان کر ان کے آلہ کار بننے سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔ارشاد ربانی ہے: اِنَّ
الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹
«جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہوں میں فحاشی پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میںدردناک سزا کے مستحق ہیں، اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔»(النور 19)
اصلاحِ حال کے لیے کوئی مثبت اور نتیجہ خیز قدم اٹھانا ہماری قومی، نسلی، اخلاق ،اپنی اور اپنی نوخیز نسلوں کی سلامتی و بقا کے لیے از بس ضروری ہے۔لیکن اس جانب قدم بڑھاتے ہوئے یہ حقیقت مستحضر رہے کہ معاشرے میں پھیلتی کسی بھی برائی اور گندگی کو صاف کرنےاور ماحول کو جنس زدہ اور حرص و ہوس میں ڈوبے لوگوں کی جڑ کاٹنے کے لیے اور معاشرے کو نفیس وستھرا کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمیں پورا معاشرہ نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوگا اور یہ کام اجتماعی سطح پر مضبوط اخلاقیات اور ضمیر کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ہرایک صرف اپنے دروازے کی صفائی کو ہی مد نظر رکھے اور محلے میں پھینکے جانے والے کچرے کی فکر نہ کرے تو ایک دن پوری گلی اور محلہ غلاظت کا ڈھیر بن جائے گا۔جس کے تعفن اور مضر اثرات سے محلے کا کوئی فرد بھی نہیں بچ سکے گا۔غلاظت اور برائی اتنی تیزی سے پھیلتی ہے کہ اس پر قابو پانا دشوار ہوجاتا ہے۔سیلاب کا ریلا آنے سے پہلے بند نہ باندھا جائے تو پانی تباہی پھیلا دیتا ہے اور اپنی زد میں آنے والے کھیتوں ، کھلیانوں ، میدانوں کے ساتھ انسانوں کو بھی زندگی سے محروم کر دیتا ہے۔زندگی کا حسن ہی یہ ہے کہ خود بھی مصائب و آلام، معائب و رذائل سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کی اپنی امکانی حد تک جدوجہد کریں۔یہی امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا فلسفہ ہے۔ورنہ زندگی توحشرات الارض کی بھی گزر ہی جاتی ہے۔
مآخذ
1۔شخصیت کی نشوو نما از عبد الحمید
2۔پردہ از سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ 3۔شخصیت کے نفسیاتی تعقلات از لارنس ایف شیفر/مترجم ہلال احمد زبیری