کسی بھی شعبے یا فن کو اس کے لیے بنائے گئے مخصوص قواعد و ضوابط کے جانے بغیر اس کی معرفت ممکن نہیں اور ان قواعد کو جاننے، ان سے واقفیت حاصل کرنے کا نام علم ہے ۔ علم ضروریاتِ زندگی میں سے ایک اہم ضرورت ہے ، جیسے کھانا پینا و دیگر اشیاءِ ضرورت گزرانِ زندگی کے لیے ضروری ہیں ، تعلیم و تعلم کی ضرورت اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ قوموں کی ترقی کا ایک ستون ہے۔ حیاتِ انسانی کی نشوونما اور ترقی میں علم کا ہونابےحد ضروری ہے ، شعبہ ہائے زندگی میں علم سے ترقی ، دنیوی منافع اور نقصانات سے بچنا ممکن ہوتا ہے ،اسی لیے دنیا کے تمام علوم و فنون میں سردار علم وہی ہے جس کے ذریعے دنیوی منافع کا حصول ، نقصانات کے اجتناب کے ساتھ ساتھ اخروی نجات بھی ممکن ہو یہی علم ، علم نافع ہے جوکہ شرعی علم ہے۔ اسی لیے اسے انبیاء کی وراثت قرار دیا گیا ہے اور علم سے وابستہ لوگوں یعنی علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے ۔ جہاں تک معاشرے میں علماء کے کردار کا تعلق ہے تو وہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشروں اور تہذیبوں کا عروج علماء ہی سے ہے ۔ معاشرے کے افراد کی تعلیم ، لوازماتِ دین سکھانے اور ان کی اصلاح میں علماء کا بڑا اہم کردار ہے اور یہ کام علماء ہی کرسکتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات (جن کے علم سے علماء بہرہ ور ہیں ) ہی معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی ، معاشرتی برائیوں اور مالی بے ضابطگیوں ، رذائل و قبیح امور سے بچا سکتی ہیں ۔ عالمِ باعمل ان تعلیمات کا صحیح ادراک رکھتا ہے اور انہی تعلیمات کی روشنی میں خود بھی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور معاشرے کو بھی انہی تعلیمات سے منور ہوتا دیکھنا چاہتا ہے ، نتیجتاً وہ تحریکی طور پر نمایاں کردار ادا کرتاہے اسی لیے ماضی ہو یا حال علماء کا کردار محض تعلیم و تعلم یا مساجد و مدارس تک محدود نہیں بلکہ میدان زار اور سیاست و امور ریاست میں نمایاں رہا ہے ، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ملکی تاریخ ہو یا عالمی تاریخ کسی بھی تحریک میں جب تک علماء کا حصہ شامل نہ ہو تو وہ تحریک کی صورت اختیار نہیں کرپاتی۔ یہ الگ بات ہےکہ دین دشمن عناصر کی طرف سے ہر دور میں علماء ربانیین کو بڑی مشکلات و مصائب اور مختلف النوع سازشوں کا سامنا رہا ہے تا حال علماء ربانیین کو دیوار سے لگانے اور ان کی تحریکی کاوشیں دبانے کے لیے نت نئی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ضروری ہے کہ علماء کے مقام ، حیثیت اور معاشرے میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی جائے ، چنانچہ ذیلی سطور میں اسی حوالے سے چند گزارشات کی جائیں گی۔
قیادت کے حقیقی مستحق
عوام کے بارے میں یہ جملہ معروف ہے کہ العوام کالانعام یعنی عوام چوپایوں کی طرح ہیں۔ انہیں جو چاہے جس طرف چاہے ہانک کر لے جائے ، لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوجانے والے عوام بہت دیر بعد اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے عوام کو ایسی شخصیات کی ضرورت رہتی ہے جن سے معاشرتی رہنمائی حاصل کی جائے اور کم علمی و کم فہمی کے باعث عوام کو گزرانِ زندگی کے لیے ایسی شخصیات کی ضرورت رہتی ہے جنہیں عملی میدان میں نمونہ سمجھا جائے ۔بالخصوص دورِ حاضر میں مسلمانوں کو ایک ایسے لیڈر و رہنما کی اشد ضرورت ہے جو فتنوں اور اسلام مخالف تحریکوں سے گھرے، بھرے، پھنسے معاشرے کو راست بازی اور منہج قویم کے اصولوں کے مطابق اس بھنور سے نکالے۔ مسلمان اس رہنما کی بدولت اتحاد و اتفاق کی تصویر بن جائیں اور اسلام مخالف سازشی عناصر کا مقابلہ کرسکیں گوکہ ان دگرگوں حالات میں عالمی طور پر کسی ایسے رہنما یا قائد کا موجود ہونا ایک خواب ہی ہے جسے ابھی شرمندہ ٔتعبیر ہونا ہے ۔ اس کے باوجود قیادت سے محروم اس معاشرے کو علماء ربانیین کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے رہنما میسر ہیں جو عالمی قیادت کی صورت میں نہ سہی لیکن منبر و محراب سے حکمرانوں اور عوام کی اصلاح اور ان کی ذمہ داریوں سے باخبر کرتے رہتے ہیں یہ بھی بہت بڑا انعام ہے۔ جسے رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب علماء نہ ہوں گے یا کم ہوں گے تو لوگ جاہل لوگوں کو علماء کا مقام دے بیٹھیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کی گمراہی کا بھی سبب بن جائیں گے ۔ (صحیح بخاری )علماء کے کردار کی بات کی جائے تو ان کے بڑے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے احوال کی علمی و شرعی طور پر دیکھ بھال کریں، لوگوں کی اخلاقیات ، لین دین کے معاملات ، بیع و شراء پر خصوصی نظر رکھیں تاکہ ان میں جو کمی نظر آئے اس کی طرف توجہ ممکن ہو اور موجود خرابیوں کی اصلاح ممکن ہو ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اخلاقیات کی خرابی ، بے راہ روی اور وہ امور جن سے شریعت نے منع کیا ہے ، معاشرے میں عام ہوچکے ہیں بہت کم ہوگ ہیں جو ان منکرات سے روکنے میں ذاتی کردار ادا کرتے ہیں ۔خود بھی بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔ علماء کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اصلاح کی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح ، برائیوں ، اخلاقی بدعنوانیوں اور روحانی بیماریوں کو دور کرنے اور سچے مذہب کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے اپنا فرض ادا کریں ، تاکہ مسلم کمیونٹی انسانیت کے لیے ایک مثال اور نمونہ بنے۔ قیادت کی محرومی کے اس دور میں علماء کی طرف سے کہیں مصلحانہ ، کہیں قیادت کے لیے مشیرانہ تجاویز ، کہیں منکرات کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے نظر آنا ، کہیں فتنوں کی سرکوبی میں نمایاں کردار ادا کرنا ۔یہ وہ کارنامہ ہائے عزیمت ہیں جن کا کوئی ذی شعور انکاری نہیں ہوسکتا۔ امام مالک رحمہ اللہ کےبارے میں نقل کیا گیا ہے کہ وہ امراء کو حکم دیتے، امراء تاجروں اور بازار میں کام کاج کرنے والے لوگوں کو جمع کرتے اور انہیں امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے پیش کرتے اگر ان میں سے کسی شخص میں یہ کمی نظر آتی کہ وہ شرعی طور پر لین دین کے احکام ، حلال و حرام کو نہیں جانتا تو اسے بازار میں کام کاج کی اس وقت تک اجازت نہ دی جاتی جب تک وہ یہ احکام جان نہ لیتا۔
(حاشية الرهوني على شرح الزرقاني لمختصر خليل ، ج:5 ص: 3)
دلوں کو علماء کی محبت سے سرشار کریں
علم ایک ایسی عظیم دولت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ یہ دولت اور شرف عطا فرمادے اس سے بڑی کوئی دولت اور شرف نہیں ۔دینی مزاج اور دینی ادب کا تقاضہ ہے کہ ہمارے دل علماءکی محبت اور ان کے بارےمیں اچھے تاثرات سے بھرے ہوئے ہوں۔تمام مخلوقات پر انسان کی افضلیت اور برتری کا سبب بھی علم ہے ۔اور پھر انسانوں میں بھی افضلیت کا سبب یہی علم ہے ۔ نبی ﷺ کے بعد امت کے سب سے پہلے خلیفہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور یقینی طور پر امت میں نبی ﷺ کے بعد سب سے اعلم بھی ہیں ۔جیساکہ خود صحابہ کا یہ قول صحیح بخاری میں موجود ہے ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ نفسا نفسی کا عالم ہے اور جس کے پاس دنیا کی آسائشیں اور جاہ و عزت ہے لوگ اس کے گن گائے نہیں تھکتے ۔اور اس سے قربتیں اختیار کرنے کے لئے مختلف جتن کئے جاتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم غیروں کی نقالی کرتے ہوئے انہی کی روش اختیار کرنے کے بجائے دینی مزاج اور ادب کو اپناتے ہوئے یہ حیثیت علماء کو دیتے !! اس لئے کہ یہ وہ طبقہ ہے جسے شریعت نے تمام امت سے بہترین قرار دے دیا ہے۔
علم سیکھنے سکھانے والے شخص کو بہترین قرار دیا گیا
علم سیکھنے سکھانے والا شخص قرآن و سنت کی نصوص میں بہترین قرار دیاگیا ہے، جیسا کہ ہم ذکر کریں گے یاں جس نکتہ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ شریعت نے بہترین قرار دیا ہے تو ہمیں بھی اپنا کردار ،اخلاق اور معاملات وغیرہ بہترین ہی بنانے چاہئیں ورنہ ہم ایسی عظیم فضیلت سے محروم ہوجائیں گے۔شریعت نے کس کس انداز میں اہل علم کو بہترین قرار دیا ملاحظہ فرمائیں:
فرمان باری تعالی: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ (الزمر:9)
’’کیا (ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ آپ ان سے پوچھئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں جو اہل عقل و خرد ہوں ۔
اس آیت میں واضح انداز میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اہل علم اور جہلاء مقام و مرتبہ میں برابر نہیں بلکہ یقیناً علماء بہتر ہیں۔اسی طرح ایک حدیث جس کے راوی سیدنا عقبہ بن عامر ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جبکہ ہم صفہ میں تھے ۔آپﷺنے ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ روزانہ صبح بطحان کی طرف یا عقیق کی طرف جائے اور وہ وہاں سے بغیر کسی گناہ اور بغیر کسی قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہان والی اونٹنیاں لے آئے؟ ہم نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ﷺ!ہم سب اس کو پسند کرتے ہیں تو آپﷺنے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی صبح مسجد کی طرف نہیں جاتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں خود سیکھے یا سکھائے یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین، تین سے بہتر ہے اور چار ،چار سے بہتر ہے ۔اس طرح آیتوں کی تعداد اونٹنیوں کی تعداد سے بہتر ہے۔
(صحیح مسلم :803، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قرآۃ القرآن فی الصلاۃ و تعلمہ ،سنن ابی داؤد: 1456، باب فی ثواب قراءۃ القرآن )
ایک روایت میں قرآن سیکھنے سکھانے والے کو اس انداز سےبہترین قرار دیا گیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ’’ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن سیکھے اور اس کی تعلیم دے۔‘‘(صحیح بخاری : 5027)
اہل علم دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں
عمرو بن الحارث فرماتے ہیں : الشَّرفُ شَرَفَانِ، شَرفُ العِلْمِ، وَشَرفُ السُّلْطَانِ، وَشَرفُ العِلْمِ أَشْرَفُهُمَا.
’’شرف دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علم کی وجہ سے اور دوسرا سلطنت کی وجہ سے لیکن علم والا شرف سلطنت والے شرف سے بھی زیادہ اشرف ہے۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء6/352)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’الحكم بن عبد الرحمن بن محمد المستنصر بالله ‘‘کا ترجمہ قائم کیا اس کےاوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عاكفا على المطالعة ۔جمع من الكتب ما لم يجمعه أحد من الملوك لا قبله ولا بعده وتطلبها وبذل في أثمانها الأموال واشتريت له من البلاد البعيدة بأغلى الأثمان
’’انہوں نے کتب سے وہ علم جمع کیا جو کسی اور بادشاہ نے نہیں کیا ۔نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد اور حصول علم میں بڑا مال خرچ کیا ۔دور دور کے علاقوں سے ان کے لئے مہنگی ترین کتابیں جمع کی جاتیں۔‘‘
پھر آگے جاکر لکھتے ہیں:
ولقد ضاقت خزائنه بالكتب إلى أن صارت إليه وأثرها على لذات الملوك فغزر علمه ودق نظره وكان له يد بيضاء في معرفة الرجال والأنساب والأخبار وقلما تجد له كتابا إلا وله فيه قراءة أو نظر من أي فن كان ويكتب فيه نسب المؤلف ومولده ووفاته ويأتي من ذلك بغرائب لا تكاد توجد
حتی کے کتابوں کے خزانے ان کے پاس تنگ پڑگئے اور انہوں نے بادشاہت کی لذتوں پر علم کو ترجیح دی اور بڑے صاحب غریز العلم اور دقت نظر والے ٹھہرے ۔کسی بھی فن کی کتابیں ہوں بہت ہی کم کتب ہو گی جو ان کے مطالعہ اور نظر سے نہ گزری ہو۔
پھر انہیں کے ترجمے میں لکھتے ہیں: وَكَانَ أَخُوْهُ الأَمِيْرُ عَبْدُ اللهِ المَعْرُوْفُ بِالوَلَدِ، عَلَى أَنْمُوْذَجِهِ فِي مَحَبَّةِ العِلْمِ، فَقُتِلَ فِي أَيَّامِ أَبِيْهِ (سیر أعلام النبلاء8/270)
ان کے بھائی عبداللہ المعروف بالولد بھی محبت علم میں انہی کی طرح تھے۔اپنے والد کے دور امارت میں قتل ہوئے۔
علم سے دوری فتنوں میں مبتلاء ہونے کا بڑا سبب ہے
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ اللهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (صحیح البخاری : 100، صحیح مسلم : 2673)
’’ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی) مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
لہذا ہمیں کما حقہ علماءکی وہ توقیر کرنی چاہئے جس توقیر کے وہ مستحق ہیں ، علماء کی غیبت اور ان کے خلاف مختلف قسم کی میڈیائی سازشوں اور اسلام دشمن سازشوں کا دانستہ نادانستہ قطعاً حصہ نہیں بننا چایئے۔
اور علم کی ضرورت کے حوالے سے کیا ہی عمدہ قول امام احمد رحمہ اللہ کا ہے ،فرماتے ہیں :
النّاس إلى العلم أحوج منهم إلى الطّعام والشّراب. لأنّ الرّجل يحتاج إلى الطّعام والشّراب في اليوم مرّة أو مرّتين، وحاجته إلى العلم بعدد أنفاسه (مدارج السالکین : 470/2)
لوگ کھانے پینے سے زیادہ علم کے محتاج ہیں ۔اس لئے کہ کوئی شخص کھانے پینے کا دن میں ایک یا دو مرتبہ محتاج ہوتا ہے۔اور علم کی ضرورت اسے اس کے ہر سانس کے ساتھ رہتی ہے۔
امام ربیعہ فرماتے ہیں :
العِلْمُ وَسِيْلَةٌ إِلَى كُلِّ فَضِيلَةٍ (سیر أعلام النبلاء)
یعنی علم ہی ہر فضیلت کا سبب ہے۔
جرائم کے خاتمے میں علماء کا کردار
عوام کی راہنمائی اور کردار سازی میں علماء کا کردار کلیدی ہے۔ اگر علماء اپنا کردار کما حقہ ادا نہ کریں تو معاشرہ میں فساد کا پھیلنا یقینی ہے ۔ یہودی تحریف کے شاخصانے معروف ہیں ، جس کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ جب کوئی معزز شخص گناہ کرتا تو علماءِ یہود اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے تورات کے احکام میں تحریف کرتے اور معزز لوگوں سے مالی فوائد سمیٹتے۔ نتیجتاً جرائم میں اضافہ ہوتا۔ اگر علماءِ یہود اپنا صحیح کردار ادا کرتے اور تورات کے احکام کو نافذ کرتے خواہ اس کی زد میں کوئی بھی مجرم آئے تو اصل دین یوں نہ مٹتا اور معاشرے کاامن و سکون برباد نہ ہوتا۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ قیام ِ امن میں بھی علماء سے بہتر کوئی اور طبقہ اتنا مؤثر کردار ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی علماء کو غیر فعال کرکے امن ممکن ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ قیام امن میں علماء اسلام نے اپنا نمایاں کردار ادا کیا ، قرون اولیٰ میں سلف صالحین دین کے علماء تھے اور ریاست و سیاست کے امور شریعت کی روشنی میں ہی دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ امن کے معاملے میں ان ادوار سے زیادہ سنہرا دور دنیا میں کہیں نہ دیکھا گیا۔ دور ِ حاضر کی بات کی جائے تو کچھ سال پہلے تک سعودیہ میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا شعبہ جب تک فعال رہا، جرائم کی روک تھام میں اس شعبے نے بڑا کردار ادا کیا جو ایک بہت بڑی مثال ہے کہ علماء جرائم کو روکنے میں کس قدر مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔پاکستان میں بھی فیصل آباد کے قریب واقع ماموں کانجن کے نواحی گاؤں میں پوری آبادی نمازی اور دین دار ہے ، جرائم کا تصور تک نہیں بلکہ علاقے میں سگریٹ یا اس قسم کی منشیات کے ملنے کا تصور نہیں۔ اس سلسلے میں مولانا محمد امین یعقوب حفظہ اللہ کا یہ کارنامہ اپنی مثال آپ ہے اور ہر ذی شعور کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ معاشرے کے امن کی گنتی یہیں سے شروع ہوگی۔ اس عظیم بطل مولانا محمد امین یعقوب سے اہل علاقہ بہت مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہیں اور یوں موقع بموقع اپنی اصلاح کے موتی ان سے سمیٹتے رہتے ہیں۔ اگر ملکی سطح پر اس قسم کے علماء کو فعال کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے تو بہترین اور مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ لہذا جرائم کی روک تھام میں قابلِ عمل امور میں سے ایک یہ ہے کہ اولاً لوگوں کو دینی شعور دلایا جائے نیکی اور گناہ کی کما حقہ پہچان اور اس حوالےسے خوف آخرت پیدا کیا جائے ۔
ثانیاً علماءِ ربانیین اس معاملے میں لوگوں کی نسل نو کی اسلامی خطوط پر رہنمائی کریں اور ان کے تزکیہ نفس و اصلاح میں نمایاں کردار ادا کریں۔علماء و عوام میں تعلق کی مضبوطی اور علماء سے استفادہ میں سرکاری سطح پر اس قسم کے اقدامات ہی مؤثر نتائج دے سکتے ہیں۔
فتنوں سے
بچانے میں علماء کردار
جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے ، فتنوں کی بھی بھرمار نظر آرہی ہے ، ایسے میں بدعات و خرافات اور فتن سے بچنے کا واحد راستہ علماء ربانیین سے تعلق اور ان کی رہنمائی و سرپرستی میں زندگی گزارنا ہے۔ فتنوں ، بدعات و خرافات سے بچاؤ کے لیے علماء کی مصاحبت و مجالست اور رہنمائی ضروری ہے ۔ باطل پرست اس حقیقت سے واقف ہیں تبھی ان کی زبان درازیوں ، اتہامات کا نشانہ علماء ربانیین ہی رہتے ہیں اور ان کا اس طرز عمل سے حقیقت حال مزید واضح ہوجاتی ہے کیونکہ امام حاکم فرماتے ہیں: ’’ہم نےسفر و حضر میں ملحدین اور بدعتیوں کو طائفہ منصورہ کو نظر حقارت سے ہی دیکھتے پایا ہے۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث)
امام ابوجعفر احمد بن سنان واسطی رحمہ اللہ کا قول ہے : لَیْسَ فِي الدُّنْیَا مُبْتَدِعٌ إِلَّا وَهُوَ یُبْغِضُ أَهْلَ الْحَدِیثِ، فَإِذَا ابْتَدَعَ الرَّجُلُ نُزِعَ حَلَاوَةُ الْحَدِیثِ مِنْ قَلْبِهِ
’’دنیا میں کوئی بدعتی ایسا نہیں،جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو۔جب کوئی بندہ بدعتی بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے حدیث کی حلاوت کھینچ لیتا ہے۔ (شرف أصحاب الحدیث للخطیب)
امام ابوبکرعبد اللہ بن سلیمان ابن ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اہل حدیث پر طعن کرنے والوں اور زبان درازوں کو دین سے کھلواڑ کرنے والے قرار دیا۔
امام ابن قتیبہ دینوری نے ایسے لوگوں کو ظالم تو امام احمد نے زندیق قرار دیا۔
عون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز سے کہا:
يُقال: «إن استطعت أن تكون عالِمًا، فكن عالِمًا، فإن لم تستطع فكن متعلمًا، فإن لم تكن متعلمًا فأحبهم، فإن لم تحبهم فلا تبغضهم، «سبحان الله لقد جعل الله عز وجل له مخرجًا»؛ (كتاب العلم لأبي خيثمة زهير بن حرب:726)
’’ یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر عالم بننے کی طاقت رکھو تو عالم بنو وگرنہ متعلم بنو اور اگر متعلم نہیں بن سکتے تو ان سے محبت کرنے والے بن جاؤ اور اگر ان سے محبت نہیں کرسکتے تو کم از کم ان سے نفرت نہ کرو۔
عمر بن عبدالعزیز فرمانے لگے :’’سبحان اللہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مخرج بنادیا ۔‘‘
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : «الدنيا كلها ظلمة إلا مجالس العلماء» (جامع بيان العلم وفضله: 1/ 236)
’’علماء کی مجالس کے سوا سب اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ‘‘
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد( امام احمد ) سے کہا :
«أي رجل الشافعي فإني سمعتك تكثر من الدعاء له؟
یہ شافعی کون ہیں آپ ان کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں۔
امام احمد نے جواب دیا: يا بني،
كان كالشمس للدنيا، وكالعافية للبدن، فهل لهذين من خلف؟ أو منهما من عوض؟ (سير أعلام النبلاء: 1/ 45)
’’ وہ تو دنیا کے لیے سورج کی طرح جسم کے لیے عافیت کی طرح تھے۔ اب اس کے بعد بھی کوئی چیز ہے یا ان دونوں کا متبادل بھی کوئی ہے؟؟‘‘
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علماء کی قدر کرنے اور ان کے وجود سے خوب استفادہ کرنے کی کماحقہ توفیق عطا فرمائے اور علماء ربانیین کی ہرفتنے و شر سے حفاظت فرمائے۔ آمین