دنیاوی کر و فر سے بیگانہ،صوفی عائش محمد  بارہ (12)سالہ رفاقت

صاحب کرامات ،مستجاب الدعوات ،جبل استقامت ، متوکل علی اللہ،قرون اولی کی نشانی،کتاب وسنت کی چلتی پھرتی تصویر،انتہائی سادہ طرز زندگی،نورانی چہرہ،صائم الدھر،قائم اللیل،ذکروفکر میں ڈوبے ہوئے،متوجہ الی اللہ،ادب واحترام میں بیمثال،تواضع کے پیکر،دنیا سے بے رغبت،عمل پیہم کا مجسمہ،عزم واستقلال کا کوہ گراں،برائی سے نفور،تقوی وخشیت الہی سے معمور،معرفت ربانی کے سمندر میں غوطہ زن،سیرت طیبہ کے فدائی،تحریک سیدین شہیدین کے داعی،روئے زمین پر طاغوت کے بڑے دشمن،جہاد فی سبیل اللہ کے علمبرداد،تحریک سیدین شہیدین کے امیر،حضرت صوفی عائش محمد رحمہ اللہ رحمة واسعة.

آپ 1940 میں ضلع فیروز پور کے مشہور گاوں بڈھیمال میں پیدا ہوئے،اور 7 جون 2022 کو دن 11 بج کر 20 منٹ پر دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

مجھے 12سال ان کی رفاقت اور مل کر کام کرنے کا شرف حاصل رہا،لیکن اس سے پہلے تعارف کیسے ہوا اس کا ذکر بھی مناسب سمجھتا ہوں۔

1974 میں جب میں نے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں دوسری کلاس میں داخلہ لیا،تب امیر المجاھدین ،ابو المساکین ،حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ رحمة واسعة زندہ تھے، ملک کے اطراف واکناف سے لوگ ان کی زیارت اور دعا کے لیے آیا کرتے تھے،ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں سب سے نمایاں صوفی عائش محمد تھے،اس وقت ان کی داڑھی سیاہ تھی،چہرہ پر رونق اور نیچے نگاہیں رکھے ہوئے خاموشی سے چلتے اور ہر ایک سے بڑی محبت سے گلے ملتے،ان کی شہرت اس وقت یہ تھی کہ ہر سال حج پر جاتے ہیں،جاتے یا آتے وقت کسی کو خبر نہیں کرتے،اکثر آنکھوں میں خشیت الہی کے آنسو تیرتے رہتے ہیں،اور ذکروفکر کی گہرائیوں میں اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں،کثرت سے دعائیں مانگتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ طاغوت کے سب سے بڑے دشمن اور روئے زمین پر توحید کا علم بلند دیکھنا چاہتے ہیں،وہ چاہتے تھے جامعہ تعلیم الاسلام کے طلبہ میں ایسی صلاحتیں پیدا ہوں کہ ملک کے ہر شعبے میں ان کا ہولڈ نظر آئے جو اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کر سکیں،اس کے لیے وہ تقوی پر زیادہ زور دیتے اور جامعہ میں سوموار وجمعرات کے روزے رکھنے کی طرح ڈالی،کہ تقوی کے بغیر کوئی انقلاب نہیں لایا جاسکتا،ایک دن سرسوں کے تیل کا بڑا کنستر لے کر آئے جو مولانا رضی اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ کے کمرے میں لا کر رکھا، کہ طلبہ جسم پر تیل کی مالش کریں اور ورزش کر کے جسمانی صلاحیتوں کو توانا رکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خدمت دین سر انجام دے سکیں۔

اس وقت ان کی رئش 36 چک میں تھی ،صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی زیارت کے لیے تشریف لاتے اور درس کی صورت میں طلبہ کو نصیحت فرماتے،رمضان کے مہینے میں اعتکاف کے علاوہ بعض دفعہ شوال کے مہینے میں بھی اعتکاف بیٹھ جاتے،ایک سال شوال کے مہینے میں ہمارے سابقہ گاوں گیانہ میں اعتکاف کیا،ان دنوں چونکہ آواز بڑی صاف تھی تو اکثر سورہ یوسف میں سے درس دیتے،درس کیا ہوتا گویا روحانیت کا دریا بہہ رہا ہے،وعظ میں بڑی تاثیر تھی اور ایسے نکات بیان فرماتے کہ سامعین پر رقت طاری ہو جاتی،ان دنوں کے دروس بڑے سحر انگیز تھے،میں خود بڑا محظوظ اور متاثر ہوتا،نماز کی امامت کے لیے کہا جاتا تو اکثر سورہ یوسف سے تلاوت کرتے اور یہ رکوع پڑھتے:

فَلَمَّا اسْتَيْـَٔسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا (یوسف:80)

جيسے جیسے پڑھتے جاتے رقت طاری ہو جاتی ایسے لگتا جیسے کسی کنویں کی گہرائی سے آواز ٹکرا کر آرہی ہے،ان آیات پر ان کا عمل بھی اس قدر تھا کہ اپنے ارادوں میں کبھی انہوں نے مایوسی کو داخل نہیں ہونے دیا، جامعہ کے طلبہ شیخ صاحب کی آمد کا انتظار کرتے جو روحانی غذا کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے کچھ نہ کچھ خوشخبری بھی لے کر آتے،ان کو جو میسر آتا وہ طلبہ اور اساتذہ کی خدمت میں پیش کر دیتے۔

80 کی دہائی میں حضرت صاحب جامعہ ابوبکر الاسلامیہ کراچی میں اپنے دیرینہ دوست اور تحریک کے ساتھی پروفیسر محمدظفراللہ رحمہ اللہ کے پاس چلے گئے،ایک عرصہ جامعہ ابوبکر میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے،اسی اثناء میں پروفیسر صاحب نے مکہ مکرمہ میں حرم کے بالکل قریب ہوٹل الیرموک کا آغاز کیا تاکہ اس کی آمدن دینی کاموں پر صرف ہو اور دینی کام زیادہ سے زیادہ کیا جا سکے تو پروفیسر صاحب کے سب سے زیادہ معتمد علیہ صوفی صاحب تھے،ان کو نگران مقرر کیا گیا،ہوٹل کچھ عرصہ بعد بند ہوا تو واپس کراچی تشریف لے آئے، زندگی کے آخری لمحات تک جامعہ ابوبکر کے نائب رئیس رہے،وہاں مکان اور دیگر سہولیات میسر تھیں مگر ان کا دل نہیں لگتا تھا، مامونکانجن کو ایسے یاد کرتے جیسے کوئی بچہ گھر سے اداس ہو،پاکستان میں تحریک سیدین شہیدین کا اصل مرکز وہ جامعہ تعلیم الاسلام کو سمجھتے تھے،اور تحریک ان کے رگ و ریشے میں تحلیل ہو چکی تھی،جس طرح مچھلی بغیر پانی کے نہیں رہ سکتی یہی حالت ان کی تھی،کوئی درس ہو،کوئی محفل اور نشست ہو وہاں تحریک کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا،ایک دفعہ راولپنڈی میں بھائی زاہد بن مولانا محمد سلیمان رحمہ اللہ بن مولانا فضل الہی رحمہ اللہ کے بیٹے کا نکاح پڑھانا تھا تو خطبہ نکاح میں تقریر فرمائی، اس میں بھی تحریک کا تذکرہ کیے بغیر نہ رہ سکے،خطبے کا رخ بالا کوٹ کی طرف موڑ دیا،پروفیسر ظفراللہ رحمہ اللہ سے اجازت لے کر غالبا 1994 میں ماموں کانجن جامع مسجد صوفی عبداللہ کے عقب میں مکان تعمیر کیا اور مستقل رہائش پذیر ہو گئے،میں 1991 میں سعودی ایمبیسی میں ملازمت کی بنا پر مستقل اسلام اباد میں مقیم ہو چکا تھا۔

باہمی رفاقت کا دور

2010 میں جامعہ تعلیم الاسلام کے مہتمم اور صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے معتمد خاص مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ نے اپنی صحت کی وجہ سے جامعہ کی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونا چاہا تو میاں غلام محمد رحمہ اللہ جو صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے عقیدت مند تھے اور 2002 سے 2006 تک جامعہ کے مہتمم بھی رہے اور اپنے دور میں جامعہ کا تمام بجٹ اپنی جیب خاص سے ادا کرتے رہے،ان کے بیٹے میاں اکرام صاحب نے حضرت ندوی صاحب کی مشاورت سے مجھ سے رابطہ کیا کہ جامعہ کا نظام شورائی ہے،حضرت صوفی صاحب نے اپنی زندگی میں اس کی انجمن تشکیل دی تھی جو اس وقت سے صدر انجمن کا انتخاب کرتی اور تمام فیصلے کرتی ہے،اس کے صدر کے انتخاب کے لیے جب مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے بعد مسافت کی وجہ سے عذر پیش کیا مگر ان کے اصرار پر اور جامعہ سے تعلق کی بنا پر مجھے ذمہ داری قبول کرنا پڑی،اس وقت صوفی صاحب کی زندگی کے نامزد کردہ اراکین بھی کچھ موجود تھے،جامع مسجد صادقین فیصل آباد میں مجھے رکن انجمن بنا کر صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی تو اب ہر ماہ میرا آنا جانا اور اراکین سے مشاورت کرنا ضروری امر تھا،صوفی عائش محمد بھی انجمن کے رکن تھے،اب سب سے زیادہ مجھ سے وہی رابطہ رکھتے،2011 میں حضرت مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ بھی انتقال فرما گئے،اب سب سے سینئر صوفی عائش محمد رحمہ اللہ ہی تھے۔

صوفی صاحب کا مزاج

ان کا اپنا مزاج خاص تھا،انہوں نے ساری زندگی تحریک سیدین شہیدین کی آبیاری میں بسر کی تھی وہ صرف اور صرف امارت کے قائل تھے،ان کے ہاں جامعہ کی انجمن کا صدر امیر کا درجہ رکھتا تھا اور وہ سمع و اطاعت کو شرعی فرض سمجھتے تھے،کیا پاکستان میں کوئی ایسا شخص مل سکتا ہے جو کسی بھی دینی ادارے یا جماعت میں شرح صدر کے ساتھ امیر کے ہر فیصلے کو بسر و چشم تسلیم کرے اور ادارے کے سربراہ کو شرعی امیر کا مقام دے،مجھے کہیں ایسی شخصیت نظر نہیں آتی،لیکن حضرت صوفی عائش محمد یاد گار سلف تھے،کوئی کام کرنا ہوتا تو عمر اور مقام کے تفاوت کے باوجود بڑے مودبانہ انداز میں اجازت طلب فرماتے، دوسری طرف دینی جماعتوں میں بطور عہدہ سربراہ کو امیر کا لقب دیا جاتا ہے مگر اجلاسوں میں امیر کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اراکین کا محکوم سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے،امیر کی ٹانگیں کھینچنا گویا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں،جہاں ادب واحترام نہ ہو وہاں روحانیت کی رونق بھی نہیں ہوتی، لیکن حضرت صوفی عائش محمد عجیب مودب انسان تھے، صدر انجمن کو امیر کا درجہ دیتے تھے،کیونکہ لفظ صدر ان کو پسند ہی نہ تھا،پھر امیر کی اطاعت اسی طرح کرتے جو تحریک سیدین شہیدین کا امتیاز تھا،اطاعت امیر کی وہ مثال جو صوفی صاحب پیش کر گئے اگر میں اس کی نظیر ڈھونڈھنے کی کوشش کروں تو کہیں نہیں مل سکتی، ادب و احترام کے اعتبار سے تو لگتا ہے کہ وہ قرون اولی کی شخصیت تھے جو اس دور میں پیدا ہوئے،ہر چھوٹے بڑے کو گلے لگاتے اور اپنائیت کا احساس دلاتے،خصوصا جب علماء و اسلاف کا تذکرہ کرتے توالقاب اور آداب کے بغیر کبھی ان کا نام نہ لیتے۔

تواضع

جوانی میں تہبند کے طور پر سفید چادر پہنتے،ایک سفید چادر کندھوں پر رکھتے،بالکل سادہ لباس زیب تن ہوتا،وقت کے تقاضوں کے ساتھ بعد میں شلوار پہنے نظر آئے،اپنی ذات کو مٹایا ہوا تھا،وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دین اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے تھے،نمود ونمائش اور عہدہ طلبی کو مرے ہوئے کتے کی ٹانگ کہا کرتے تھے۔

حرمین سے تعلق

کثرت اسفار کے باوجود جیب میں بہت کم پیسے رکھتے،ظاہری وسائل نہ ہونے کے برابر تھے،مگر ہر سال حج کے لیے جاتے،سال میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور جاتے،حرمین کی زیارت کا بے پناہ شوق تھا،پہلی مرتبہ حج کیا تو ایک دوست کو بحری جہاز پر کراچی الوداع کہنے گئے،نہ رقم پاس نہ پاسپورٹ،وہ ساتھی ابھی کراچی ہی تھے کہ صوفی صاحب حج کے سفر پر روانہ ہو گئے،ایک سال میرے پاس اسلام اباد آئے،تب میں سعودی ایمبیسی میں ملازم تھا،حج کے ویزے بند ہو رہے تھے،پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا کہ میں نے بھی جانا ہے،میں نے کہا ایمبیسی کا عملہ اپنا کوٹہ لے چکا ہے اور سسٹم بھی کلوز ہو چکا ہے،دو دن کے بعد آخری فلائٹ ہے،آپ اگلے سال کی نیت کر لیں،واپس جانے لگے تو ظہر کا وقت تھا میں جامعہ سلفیہ میں لے گیا،ڈاکٹر طاھر محمود صاحب نے درس اور دعا کے لیے کہا،درس کے دعا مانگ رہے ہیں:

( اگر میں نے منی اور عرفات میں لبیک کہنا ہے تو امریکہ ٹانگیں بھی کھڑی کر لے وہ مجھے نہیں روک سکتا)یہ وارفتگی کا عالم تھا،میں سوچ میں پڑ گیا کہ حج کا امریکہ سے کیا تعلق؟ عرض کی کہ پاسپورٹ دیں صبح کونسلر سے ویزے کے لیے جھگڑنا پڑے گا،لیکن پاسپورٹ دیکھتے ہی قونصلر نے ویزا لگا دیا اور اگلے دن صوفی صاحب لبیک پکار رہے تھے۔

وفات سے دو ماہ قبل رمضان میں جبکہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا اور اوکاڑہ میں ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی صاحب کے ہاں مہمان اور زیر علاج تھے ،مجھ سے عمرے کی اجازت لینے لگے،میں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے منع کر رکھا ہے تو فرمایا اگر میں وہاں فوت ہو گیا تو خوش قسمتی کہ مقدس سر زمیں میں دفن ہو جاوں گا،اگر زندہ رہا تو واپس آجاوں گا، میں نے کہا ڈاکٹر زعیم الدین صاحب سے اجازت لیں،فرمایا وہ میرے ساتھ ہوں گے،میں نے کہا آپ کو کون سنبھالے گا؟فرمایا:میرا بیٹا،بیوی،بیٹیاں سب میرے ساتھ ہوں گے،میں نےکہا ٹھیک ہے تشریف لے جائیں،انہوں نے پاسپورٹ کراچی بھجوا دیے،مگر اللہ کی تقدیر کہ بھائی ضیاءالرحمن صاحب مدیر جامعہ ابوبکر نے کوشش کی مگر ویزے نہ لگ سکے،حرمین شریفین سے ان کی محبت اور عقیدت بے اندازہ تھی،فرماتے میں بیمار بھی ہوں تو وہاں جا کر صحت مند ہو جاتا ہوں۔

مستجاب الدعوات

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں،دعا بھی ہتھیار کی طرح ہے،اس کے لیے مہارت کی ضرورت ہے،مانگنے کا طریقہ آنا چاہیے۔توکل،انابت، تضرع،خشوع وخضوع دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں،حضرت صاحب میں یہ اوصاف پائے جاتے تھے،دعا مانگنے کا ان کا اپنا ہی انداز تھا، ان سے کوئی شخص کسی قسم کی دعا کروانے کے لیے آتااور وہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تو پہلے طاغوتی طاقتوں کی تباہی کا ذکر کرتے،بعض دفعہ سائل کی دعا بھول ہی جاتے،صرف طاغوت کی تباہی اور اللہ تعالی کی قدرت کے معجزات والی آیات پر دعا ختم ہو جاتی اور سائل کی حاجت بھی اللہ تعالی پوری فرما دیتے ،وہ ہمہ وقت ذکر وفکر میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہتے۔

حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے بعد لوگ دور دور سے حضرت صاحب کے پاس دعائیں کروانے کے لیے آتے ،صوفی صاحب متوجہ الی اللہ ہوکر قران مجید کی وہ آیات تلاوت فرماتے جن میں انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا ذکر ہے،پھر فرعون کے غرق ہونے والی آیات پڑھتے،پھر طاغوتی طاقتوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا مانگتے،بعض دفعہ قران مجید کی آیات تلاوت کر کے ہی دعا ختم کر دیتے،میں نے بعض دفعہ دعا کے لیے متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ حضرت صاحب فلاں چیز یا فلاں آدمی یا فلاں ضرورت کا نام لے کر دعا کریں بھولیں نہیں،لیکن صوفی صاحب کی سوئی طاغوت کی تباہی پر ہی اٹکی رہتی،فرعون کی تباہی کی آیات پڑھتے،کبھی حضرت یعقوب اور حضرت ایوب علیہما السلام کی شفا کی آیات پڑھتے اور منہ پر ہاتھ پھیر دیتے، ہم آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے کہ صوفی صاحب وہ دعا بھول ہی گئے جو ہم نے کہی تھی، لیکن ایسا نہیں ہے ،بلکہ ان کے دعا مانگنے کا ایک خاص انداز ہے،وہ فرعون کے غرق کی آیات کے اندر ہی بہت کچھ مانگ چکے ہوتے تھے، جس کا یقین آج 9 مئی 2022 کو ہوا،وہ ایسے کہ میرے خاص دوست کے ہمراہ ایک بڑے افسر مامونکانجن آئے کہ صوفی صاحب سے دعا کروانی ہے ،مگر وہ تو 36 چک ہیں،وہاں جانا پڑے گا،میں ان کے ساتھ ہو لیا،وہاں پہنچے توصوفی صاحب سے عرض کی گئی کہ ان کے لیے اولاد کی دعا فرمائیں ،صوفی صاحب نے حسب عادت ہاتھ اٹھائے اور دعا کا وہی انداز ، پھر ہاتھ منہ پر پھیر لیے، آج میرے دوست نے بتلایا کہ اللہ تعالی نے صوفی صاحب کی دعا قبول فرما لی اور ان صاحب کو کئی سالوں کے بعد اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا ہے،میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ دعا مانگنے کا بھی ایک انداز ہے،وہ انابت الی اللہ میں مشغول رہتے،طاغوت کے خلاف غیرت ایمانی کا اظہار کرنے سے ان کا توکل اور اعتماد بڑھ جاتا، اللہ تعالی کی قدرت کے معجزات چشم تصور سے دیکھ رہے ہوتے اور وہ قرب حاصل ہوتا جو دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے،ان کے مستجاب الدعوات ہونے کے بیسیوں شواہد موجود ہیں،اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔

توکل علی اللہ

صوفی صاحب متوکل علی اللہ تھے،دنیا کی ان کے ہاں کوئی حیثیت نہ تھی،لباس جو میسر آیا پہن لیا،جو ملا کھا لیا،صاحب اولاد تھے مگر جو آیا اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا،36 چک کا مکان بھی غالبا ان کے بھائی کے تصرف میں ہے، اپنا مکان بنانے کی استطاعت کہاں،پیسہ تو ان کے ہاتھ میں ایسے تھا جیسے چھلنی میں پانی،اللہ تعالی ہمارے محسن مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ کو جزائے خیر عطا فرمائے انہوں نے جامعہ کی مسجد کے قریب مکان تعمیر کروا دیا جہاں 1994 سے آخر تک رہے،اگر کسی نے کچھ سوال کیا تو قرض لے کر بھی اسے دینا پڑا تو دیا،اکثر مقروض رہتے،اور قرض ذات کے لیے نہیں بلکہ ضرورت مندوں اور دینی کاموں کے لیے لیتے،ٹرسٹ سیدین شہیدین کی آخری میٹنگ منعقدہ 16 مئی 2022 میں ان کے قرض کا مسئلہ زیر بحث آیا تو ایک کاروباری تاجر نے کہا ان کے تمام قرضوں کی ادائیگی میرے ذمے ہے،ان کے بیٹے ابوبکر نے بوقت جنازہ اعلان کیا کہ جس نے جو لینا ہو وہ ہم سے لے،میرے والد گرامی برئ الذمہ ہیں،اللہ تعالی ان صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے،اور ان کے مال وجان میں برکت پیدا فرمائے۔

ان کے توکل کی بہت سی مثالیں اور واقعات دوست و احباب بیان کرتے ہیں،ایک مثال یہاں ذکر کر رہا ہوں،میرے بھائی حافظ محمد داود بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ غالبا 80 کی دہائی کی بات ہے جدہ کے قدیم ایئر پورٹ پر پاکستان آنے کے لیے پہنچا تو حضرت صاحب وہاں بیٹھے ہوئے ہیں،میں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے فرمایا پاکستان کا،ٹکٹ کا انتظار کر رہا ہوں،میں نے پوچھا آپ ٹکٹ لے کر نہیں آئے،فرمایا ٹکٹ تھا،مگر ایک ضروت مند آیا جس کے پاس ٹکٹ نہیں تھا تو میں نے اپنا ٹکٹ اس کو دے دیا،میرا بندوبست اللہ تعالی فرما دے گا۔

ایک دفعہ اسلام اباد سے حج کاویزا لگوایا،کراچی سے جانا تھا،فرمایا میرے پاس تو کراچی جہاز کا کرایہ نہیں،نہ ہی میں پیسہ اپنی جیب میں رکھتا ہوں،آپ ٹکٹ لے کر دیں واپسی پر قرض ادا کر دوں گا،چوھدری نذیر احمد صاحب میرے ساتھ تھے،میں نے کہا آپ کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو قرض کہاں سے ادا کریں گے،فرمایا اللہ تعالی دے گا،حج بھی کر آئے اور قرض بھی ادا کر دیا۔

تحریک سیدین شہیدین

ان کی زندگی کا محور اس تحریک کا تعارف اور آبیاری تھا جو خالصتا نفاذ اسلام کے لیے ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک تھی،یعنی سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رحمہما اللہ اور ان کے رفقاء کرام رحمہم اللہ کی تحریک،جس کو تحریک بالا کوٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے ان معنوں میں کہ معرکہ بالا کوٹ میں اکثر مجاہدیں بمع سیدین شہیدین جام شہادت نوش کر گئے،وہ اٹھتے بیٹھتے ہر تقریر اور پروگرام میں اس کا تعارف ضرور کرواتے،ان کی وفات کے دوسرے دن سید جنید غزنوی بن حضرت سید ابوبکر غزنوی (رحمہ اللہ) تعزیت کے لیے تشریف لائے تو میں نے گذارش کی کہ صوفی عائش محمد تو چلتے پھرتے اس عظیم تحریک کا تعارف تھے،علمبردار تھے،ان کے بعد اس تحریک کے نام کو زندہ رکھنا اب ہم سب کی ذمہ داری ہے،تو انہوں نے موافقت فرمائی کہ اس سلسلہ میں پروفیسر حافظ محمد ایوب صاحب کے ہاں کوئی پروگرام رکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر لیا جائے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت پروفیسر سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ جو نابغہ روزگار شخصیت تھے،اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لیے ان کی آفاقی سوچ اور عقابی نگاہیں سیدین شہیدین کی تحریک کے احیاء پر مرکوز تھیں،وہ امیر المجاہدین حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت تھے،اس تعارف اور سلسلہ مبارکہ سے وابستگی کا سبب بھی صوفی عائش محمد تھے،حضرت غزنوی رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا تھا مگر صوفی عائش محمد حضرت غزنوی کے محب بھی تھے اور ممدوح بھی،سید صاحب سے انتہا درجے کی عقیدت رکھتے اور بڑے ادب واحترام سے ان کا نام لیتے،ان کی تالیفات طلبہ میں تقسیم کرتے،اور جب حضرت الامیر امام العصر سید داود غزنوی رحمہ اللہ کے حالات زندگی پر کتاب (سیدی وابی) طبع ہو کر آئی تو طلبہ میں تقسیم کی،تحریک سیدین شہیدین کے احیاء کے لیے جو خاکہ حضرت سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کے ذہن میں تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ جوانی میں ہی سید صاحب ایک المناک حادثہ میں لندن میں دنیا فانی کو خیر باد کہہ گئے۔غفر اللہ له ورحمه وأسکنه الجنة

صوفی صاحب نے تحریک کو کیسے زندہ رکھا؟ یہ بڑا طویل موضوع ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنی کتابیں ان کو میسر آئیں انہوں نے خریدیں یا طبع کروا کر مفت تقسیم کیں،ایک ایک کتاب کئی مرتبہ تقسیم کی،مجھے بار بار کتب بھیجتے،حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں شدید تکلیف کا باوجود جس میں انسان تمام کاموں سے دستبردار ہو جاتا ہے انہوں نے 3کتابیں اس موضوع پر دیں،جن میں حضرت مولانا فضل الہی وزیر آبادی رحمہ اللہ کے حالات زندگی پر ایک پرانی کتاب ڈھونڈھ کر دی،تحریک سے وفاداری کو جس طرح انہوں نے نبھایا یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔

عملی جد و جہد

تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے سیدین شہیدین کے نام سے 36 چک میں دینی مدرسے کا قیام کیا،جامعہ تعلیم الاسلام کے گیٹ پر ایک دکان مکتبہ کی غرض سے لی،اس کا نام بھی مکتبہ سیدین شہیدین رکھا،سیدین شہیدین کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کیا جس کے لیے جامعہ سے تقریبا ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ڈیڑھ ایکڑ رقبہ خریدا جہاں سید احمد شہید کے نام سے مسجد تعمیر کروائی، کہ یہاں عظیم الشان یونیورسٹی تعمیر کی جائے جس کے فارغ التحصیل بڑے بڑے حکومتی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہوں اور ملک کے نظام کو اسلام کے ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں،کام ہو یا نہ ہو وہ ایک لمحے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوتے تھے،اسلام کے روشن مستقبل اور طاغوت کے خاتمے کی قسمیں اٹھا اٹھا کر نوید سنایا کرتے تھے،اس ملک میں جو بھی مثبت تبدیلی آئے گی اس کے پیچھے حضرت صاحب کی دعائیں ہوں گی،آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے طاغوت کے خاتمے کا تو مجھے یقین ہے مگر لگتا ہے یہ میرے بعد ہو گا،وہ در حقیقت امام مہدی والے اسلام کی سر بلندی کے احوال اپنی زندگی میں دیکھنے کے خواہشمند تھے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے مریدین اور محبین تو بہت ہیں مگر کوئی ان کے پیغام اور جذبات کو سمجھ نہیں پایا،سب یہی سمجھتے تھے کہ یہ ان کے محض خیالات ہیں،دوسرا یہ کہ وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے کہ میری زندگی غیر منظم ہے،کسی منظم طریقے سے کام نہیں کر سکا،ان کے عزائم کو پروان چڑھانا ان کے محبین اور معتقدین و معاونین پر ایک قرض ہے،ان کے جانے کے بعد اس کام کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ان کا مشن بڑا عظیم اور آفاقی تھا،اس کو آگے بڑھانے کے لیے ان کے قائم کردہ ٹرسٹ سیدین شہیدین کے کام کو جاری و ساری رکھنے کے لیے بھر پور محنت کی ضرورت ہے، ان کے معتقدین میں سے چند احباب اگر مل بیٹھ کر پلاننگ کریں اور ان کے چھوڑے ہوئے کاموں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں تو یہ ایسا کام ہو گا جس سے ہماری آنے والی نسلیں مستفید ہو سکتی ہیں،یہ خدمت دین کا عظیم کارنامہ ہو گا اور ذمہ داری نبھانے والوں کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ،جس کے لیے پلاننگ کے ساتھ ساتھ مادی وسائل کی بھی ضرورت ہے جو ان کے رفقاء اور معتقدین کے لیے کوئی بڑا اور مشکل کام نہیں ،وہ پاکستان میں ایسا نظام دیکھنا چاہتے تھے جس میں خلافت راشدہ علی منھاج النبوہ کی جھلک نظر آئے،اداروں میں دینی وعصری تعلیم کے حاملین کو بڑے بڑے عہدوں پر براجماں دیکھنے کی حسرت رکھتے تھے،اس مقصد کے لیے ڈیڑھ ایکڑ زمیں مامونکانجن میں انہوں نے خرید رکھی تھی جو ٹرسٹ سیدین شہیدین کے نام رجسٹرد ہے اور گذشتہ سال وہاں مسجد سید احمد شہید تعمیر ہو چکی ہے،زندگی کے آخری ایام میں باوجود شدید تکلیف کے ہر روز دفتر کی تعمیر کے لیے رابطہ کرتے،فروری 2022 میں وہاں ابتدائی طور پر سکول یا کالج کا آغاز کرنے کے لیے اپنے خاص دوست جناب خالد صاحب سے لاہور میٹنگ طے کی،چونکہ ڈاکٹروں نے سفر سے منع کر رکھا تھا اس لیے خالد صاحب کے اصرار پر راستے سے واپس لوٹ گئے،ان کی جگہ میں لاہور جناب پروفیسر حافظ محمد ایوب صاحب کے گھر حاضر ہوا اور وہاں اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب اور خالد صاحب سے نشست ہوئی،یہ بہت عظیم منصوبہ ہے لہذا اس پر بہت زیادہ غور وخوض اور پلاننگ کی ضرورت ہے،سید احمد شہید یونیورسٹی ( حکومت سے منظور شدہ) کا قیام ان کی زندگی کی اول و آخر ،دیرینہ اور آخری خواہش تھی،ان کے بیٹے جناب ابوبکر صاحب اس منصوبے کے عینی گواہ ہیں،پروفیسر حافظ محمد ایوب صاحب تو رفیق کار ہیں، انہیں باقی کاموں سے پہلے اس عظیم منصوبے پر توجہ دینی چاہیے۔

ان کی تحریک در اصل طاغوت کے خلاف اعلائے کلمة اللہ اور احیائے دین کی تحریک تھی،وہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اس روئے زمین پر طاغوت کے سب سے بڑے دشمن تھے،وہ دنیا کی طاقتوں کو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور گردانتے تھے،اور ہر روز ،ہر مجلس اور ہر پروگرام میں طاغوت کو چیلنج کرتے اور اس کے خاتمے پر قسمیں اٹھا اٹھا کر یقین دہانی کرواتے،وہ اس پر فتن دور میں رہتے ہوئے بھی وہی جذبات رکھتے تھے جو خیر القرون کے مسلمانوں کے تھے،کہ اسلام کی سربلندی کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوت کوئی حیثیت نہیں رکھتی،ان کو سمجھانا بہت مشکل تھا کہ حضرت جی: آج کا دور خیر القرون کا دور نہیں یہ پندرھویں صدی اور مسلمانوں کے تنزل کا زمانہ ہے،وہ اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے،پتہ نہیں یہ عزم اور استقامت کا سبق انہوں نے کہاں سے سیکھا تھا،شاید یہ نتیجہ تھا ان کتابوں کے بغور اور روزانہ مطالعہ کا جو سیدین شہیدین پر لکھی گئیں اور وہ اکثر ان کی صحبت میں رہا کرتے تھے۔

سالانہ کانفرنس

36 چک جو ان کا آبائی گاوں تھا وہاں انہوں نے سیدین شہیدین کے نام سے جو ادارہ قائم کیا اس میں سالانہ سیرت النبی ﷺکانفرنس منعقد کرواتے،جس میں تحریک کا ذکر اور تعادف بھی بھر پور طریقے سے کرواتے،خطبہ جمعہ کے لیے ہر سال مجھے دعوت دیتے،صرف ایک سال اپنی علالت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا وگرنہ ہر سال ان کے حکم کی تعمیل کرتا،اس سال بھی اسی آب و تاب سے کانفرنس کا اہتمام کیا،لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری کانفرنس ہو گی۔

تحریک کے تذکرے پر انعام

جامعہ تعلیم الاسلام میں بھی طلبہ کے مابین تقریری مقابلوں میں تحریک بالاکوٹ کے موضوع پر مقابلے کی نصیحت کرتے اور طلبہ کو تحریک کی کتابوں کے مطالعے کی رغبت دلاتے،80 کی دہائی کا ذکر ہے جب میں پہلی کلاس کا انچارچ تھا،ایک رات طلبہ تقریریں کر رہے تھے تو تشریف لائے،ایک طالبعلم غالبا مولانا محمد اسلم شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ خان پور نے تحریک بالا کوٹ پر تقریر کی تو بڑے خوش ہوئے اور کہا کہ میں اس طالبعلم کو انعام دوں گا،ہم نے سوچا حضرت صاحب اکثر بھول جاتے ہیں یہ بھی بھول جائیں گے مگر کچھ دنوں کے بعد انعام کی رقم بھجوائی،جس سے اندازہ ہوا کہ صوفی صاحب بھولنے والے نہیں تھے خصوصا تحریک سیدین شہیدین تو ان کے دل ودماغ پر نقش تھی۔ ان دنوں ان کی رہائش تو گاوں میں تھی مگر جامعہ میں ایک کمرہ کتابوں سے بھرا رہتا جو فری تقسیم کے لیے رکھی ہوتیں۔

کتابوں سے محبت

تحریک بالا کوٹ سے متعلق ہر میسر آنے والی کتاب زیادہ سے زیادہ خرید کر تقسیم فرماتے،اس کے علاوہ حضرت ڈاکٹر فضل الہی حفظہ اللہ سے بڑی محبت رکھتے تھے،اور ڈاکٹر صاحب بھی ان کا بہت اکرام فرماتے،ان کی تالیفات اکثر منگوا کر تقسیم کرتے،آخری دنوں میں رمضان کے قریب فرمانے لگے میں ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کر رہا ہوں مگر ہو نہیں رہا،ان سے کتابوں کا سیٹ منگوا کر تقسیم کرنا چاہتا ہوں،جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں ڈھیر ساری کتابیں ہر سال تقسیم کرتے،حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے حالات زندگی پر مشہور مورخ اور ادیب حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے کتاب لکھوائی اور کئی بار اسے مفت تقسیم کیا،ایام خلافت راشدہ مولانا عبدالروف جھنڈا نگری رحمہ اللہ کی کتاب طبع کروا کر تقسیم کی،لکھوی خاندان کے جد امجد حضرت حافظ محمد بن بارک اللہ رحمہ اللہ کی تفسیر محمدی سے بڑا شغف تھا،اس کے بہت سارے اشعار یاد تھے،اسے طبع کروا کر تقسیم کیا،کتابوں سے جنون کی حد تک محبت تھی،جامعہ میں چل کر آتے تو ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں کتاب،یہ ان کا زندگی بھر کا معمول تھا۔

لطیفہ

ان کا اپنا مزاج تھا،اس سے ادھر ادھر ہونا ان کے لیے ممکن نہ تھا،انہوں نہ کبھی ملازمت کی نہ شرعی پابندی کے علاوہ کسی کے زیر بار رہے،آزاد طبیعت رکھتے تھے،اور اپنے موقف سے ذرہ برابر بھی نہیں ہلتے تھے،جتنی مرضی بحث کر لیں،اگر کہیں موافقت کر بھی لی تو پھر اپنے موقف پر آجاتے،2018 کے الیکشن کے موقع پر جامعہ کے ناظم اعلی اور مرکزی جمعیت اھل حدیث پنجاب کے امیر مولانا عبدالرشید حجازی اپنے علاقے میں ایم پی اے کی سیٹ پر کھڑے ہو گئے،مجھ سے کہا کہ صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے مریدوں کے دو دیہات ہیں ،جہاں اب صوفی صاحب کی جگہ صوفی عائش صاحب جاتے ہیں،ان سے کہیں کہ اپنے مریدوں کو حکم کریں کہ الیکشن میں ہمیں ووٹ دیں،میں خود بھی بعض دیہاتوں میں حجازی صاحب کی کمپین میں شریک ہوا،ان دو دیہاتوں کے لیے صوفی صاحب سے کہا کہ آپ حجازی صاحب کے لیے مریدوں کو نصیحت فرمائیں،فورا تیار ہو گئے،وھاں پہنچے ،عصر کی نماز پڑھی اور حجازی صاحب کے حق میں اپنےمریدوں کو یوں نصیحت کرنے لگے:

( میرے بھائی: میں تو جمہوریت کو کفر سمجھتا ہوں،جمہوری نظام سے مجھے نفرت ہے،مجھے حضرت حافظ مقصود احمد مہتمم جامعہ تعلیم الاسلام نے بھیجا کہ آپ حجازی صاحب کو ووٹ دیں)

حجازی صاحب کو اطلاع ملی تو مجھے فون کیا کہ میرے جو کچھ ووٹ تھے وہ بھی صوفی صاحب نے ضائع کر دئے،اس سے ہم نے اندازہ کیا کہ جو چیز ان کے ذھن میں راسخ ہو گئی وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے تھے۔

جفا کشی

حضرت صاحب جفا کش تھے،سردی، گرمی ،بیماری،بڑھاپا،دن رات،کوئی چیز ان کو سر گرم عمل رہنے سے روک نہیں سکتی تھی،مسلسل سفر میں رہتے،سفر اور حضر ان کے لیے برابر تھا،اپنے معمولات جاری و ساری رکھتے،مضبوط اعصاب کے مالک تھے،مشہور یہی تھا کہ بہت زیادہ بھول جاتے ہیں مگر ایسا نہیں بڑے ذہین اور مضبوط حافظہ رکھتے تھے،سب باتیں ان کو یاد تھیں،بس اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے،جو کام کرنا ہوتا وہ کر گزرتے،جو نہ کرنا ہوتا اسے بھلا دیتے،ہر سال سفر حج کے لیے رخت سفر باندھتے،کبھی ویزا نہ لگا تو رہ جاتے،وگرنہ حج کے لیے ضرور جاتے،عمرہ کے لیے تو بار بار ارادہ کرتے،سال میں ایک مرتبہ تو ضرورعمرہ کرتے،حج و عمرہ کے لیے ان کے پاس رقم کہاں سے آتی،آج تک یہ عقدہ حل نہیں ہو سکا،جو بات ان کے ذھن میں آگئی،اسے کر کے رہتے،شدید علالت کے ایام میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی میں تقریب بخاری کا پروگرام تھا،میں نے سفر سے روکنے کی بڑی کوشش کی مگر اصرار کرتے رہے کہ میں جانا چاہتا ہوں،شاید ان کو اندازہ ہو کہ یہ سفر آخری ہو سکتا ہے،تکلیف اور مشقت کے باوجود کراچی کا سفر کیا،بلکہ رمضان میں پھر عمرہ کے لیے تیار تھے مگر ویزا نہ لگ سکا، آخری سال جامعہ کے قریب ہم نے مسجد سید احمد شہید کی تعمیر شروع کی،تو وہاں تکلیف کے باوجود مسلسل ڈیوٹی دیتے رہے،وفات سے چند دن قبل اس سے ملحق دفتر کی تعمیر کے لیے بنیادیں کھود لی گئیں،مسلسل مجھ سے رابطہ رکھتے،اور کاموں کے بارہ میں مشاورت کرتے،آخری تین دن زیادہ طبیعت خراب ہوئی تو رابطہ منقطع ہوا وگرنہ ہر روز ان کی کال آتی،اور کسی نہ کسی کام پر مشاورت کرتے۔

جامعہ تعلیم الاسلام سے تعلق

پاکستان میں تحریک سیدین شہیدین کا مرکز صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی وجہ سے جامعہ تھا،اس لیے جامعہ سے بے پناہ محبت تھی،جامعہ ابی بکر کراچی میں بڑی سہولتیں میسر تھیں مگر سب چھوڑ کر مامونکانجن آگئے،جامعہ کی انجمن کے رکن تھے،بلکہ عوام الناس میں صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے جانشین کے طور جانے جاتے تھے،سیرت کا ایک پیریڈ پڑھاتے،مدرسین کی فہرست میں ان کا نام بھی لکھا ہوا تھا،ظہر تک جامعہ میں بیٹھتے،جامعہ کے تعاون کے لیے بڑی خوشی سے سفر کرتے،اکثر کہتے کہ مجھے مکہ و مدینہ کے بعد مامونکانجن سب سے عزیز ہے،چھوٹے بڑے تمام پروگرامز میں شرکت کرتے،ستیانہ بنگلہ کے نزدیک 36 چک میں ان کا اپنا ادارہ تھا مگر اس کے باوجود صرف بوقت ضرورت وہاں جاتے اور واپس مامونکانجن پہنچ جاتے۔

تحریک احیاء دین کی امارت

غازی عبدالکریم رحمہ اللہ کے بعد تحریک سیدین شہیدین کے امیر حضرت ڈاکٹر راشد رندھاوا رحمہ اللہ نامزد ہوئے،ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں صوفی عائش محمد کو امارت کے لیے نامزد کیا،ان کی وفات کے 3 دن بعد جامع مسجد سید احمد شہید ایچی سن سوسائٹی لاہور میں صوفی صاحب کی امارت کا اعلان کر دیا گیا،علاوہ ازیں اس تحریک کے روح رواں ایک عرصہ سے صوفی صاحب ہی تھے،گذشتہ رمضان کے مہینہ میں جب صوفی صاحب اوکاڑہ میں ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی صاحب کے ہاں زیر علاج تھے تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے قلم سے وصیت نامہ تحریر کیا جس میں اپنے بعد محترم زاھد الرحمن بن مولانا محمد سلیمان وزیر آبادی بن مولانا فضل الہی وزیر آبادی کو تحریک کا امیر نامزد کیا،16 مئی 2022ءکو جامعہ تعلیم الاسلام میں منعقدہ میٹنگ میں اس وصیت کا انکشاف ہوا،جس میں فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ حافظ پروفیسر محمد ایوب حفظہ اللہ اور دیگر ارکان ٹرسٹ موجود تھے،صوفی صاحب تو چلتے پھرتے تحریک تھے،تحریک سیدین شہیدین کا تذکرہ ہر مجلس اور اجتماع میں کرتے،مگر اب اس تحریک کو زندہ رکھنا ٹرسٹ کے تمام ارکان کی ذمہ داری ہے،اس سلسلہ میں 7 اگست 2022ء کو مسجد سید احمد شہید ایچی سن سوسائٹی لاہور میں پروفیسر حافظ محمد ایوب کی سرپرستی میں علماء کی ایک نشست منعقد ہو چکی ہے جس میں حضرت حافظ مسعود عالم،حضرت حافط عبدالعزیز علوی ،حضرت ہروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی،حضرت ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی،جناب ابوبکر بن صوفی عائش محمد ،جناب انجم وحید صاحب،راقم الحروف اور بعض دیگر احباب نے شرکت کی،اور حسب وصیت صوفی صاحب محترم زاھد الرحمن صاحب کی امارت کی توثیق کی،دعا ہے کہ بھائی زاھد الرحمن کی امارت میں اللہ تعالی اس تحریک کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔

تدفین کی وصیت

رمضان کے بعد ان کی طبیعت مسلسل گرتی گئی،اور انہیں فیصل آباد سول ہسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا،مگر پیغام اجل آپہنچا تھا،7 جون کو دن 11 بج کر 20 منٹ پر دنیا فانی کو خیر باد کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان کی وفات کی خبر آنا فانا پورے ملک میں پھیل گئی،مغرب کی نماز کے بعد فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی،گرمی کی شدت کے باوجود لوگ اتنی کثیر تعداد میں مامونکانجن پہنچے کہ جامعہ کی وسیع وعریض مسجد،برآمدہ ،بیرونی راستے اور گراونڈ تنگ دامانی کا شکوہ کر رہے تھے،مامون کانجن کی تاریخ میں اس سے قبل اتنا بڑا جنازہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

انہوں نے اپنی تدفین کے لیے وصیت کی کہ مجھے بالا کوٹ میں دفن کیا جائے،احباب نے جب اس وصیت پر نظر ثانی کی درخواست کی کہ اس پر عمل کرنا مشکل ہو گا،خصوصا گرمی کے موسم میں،تو انہوں نے کہا کہ اگر بالا کوٹ نہیں تو مامونکانجن کے قبرستان میں جو جامعہ سے ملحق ہے وہاں دفن کیا جائے،ان کی وصیت کے مطابق انہیں حضرت مولانا عبدالرشید اٹاروی رحمہ اللہ اور مورخ اسلام مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری رحمہ اللہ کی قبروں کے قریب آسودہ خاک کیا گیا۔

اللهم اغفر له وارحمه وادخله جنة الفردوس وارفع درجته في المهديين والحقه بعبادك الصالحين.

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے