وطن کی سلامتی اور داخلی استحکام کے لیے اتحاد ویک جہتی کی فضا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ سید جواد نقوی نے وحدت امت کانفرنس منعقدہ جنوری 2021 کے صدارتی خطبہ میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا ۔
’’اصلی شیعہ وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کے قدم پر قدم رکھے جس کا راستہ علی سے جدا ہو وہ اصلی شیعہ نہیں ، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس پر خود عمل نہ کیا ہو اور کسی کو ایسے کام سے نہیں روکا جس سے خود نہ رکا ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ جانتے تھے کہ خلافت پر میراحق ہے لیکن انہوں نے وحدت امت کی خاطر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اپنا حق چھوڑ دیا ، روٹھ کر بیٹھ نہ گئے بلکہ امور حکومت میں ساتھ دیا۔ ‘‘ ( ماخوذ سوشل میڈیا)
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ظاہر اور باطن میں تضاد ہرگز نہ تھا آپ کی زبان سے نکلا ہوا قول، ہاتھ سے کیا ہوا فعل، اُن کے دل کا ترجمان تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ ضرور کیا تو سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے سقیفہ بنی ساعدہ کے نازک حالات کا تذکرہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو دل کی اتھاہ گہرائی سے کی ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مرتبہ ومقام اور فضیلت پر شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے چنانچہ وحدت امت کے لیے آپ کے عمل وکردار کو راہنما اصول تسلیم کر لیا جائے تو شیعہ اور اہل سنت کے نظریاتی اختلاف کا پائیدار حل ممکن ہوسکتاہے یعنی جو کام آپ نے سرانجام دیا اس پر عمل کیا جائے اور جو کام آپ نے نہیں کیا یا آپ نے روکا اُس کام کو ترک کیا جائے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد نکاح کیے جن سے اولاد ہوئی آپ نے اُن کے نام محمد،ابو بکر، عمر،عثمان، عباس وغیرہ رکھے جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا۔
شیعہ مجتہد محمد حسین النجفی نے اعتراف کیا ہے کہ ابو بکر بن علی، عثمان بن علی اور ابو بکر بن حسن کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قافلہ میں شریک تھے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔(سعادۃ الدارین فی قتل الحسین ، ص446 تا 449)
کربلا میں ابو بکر بن علی کا مقبرہ آج بھی موجود ہے، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھنا اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ انہوں نے دل کی اتھاہ گہرائی سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔
اگر آپ اصرار کریں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہ چاہتے ہوئے بیعت کی اسی طرح بادل نخواستہ اپنے بیٹے کا نام بھی ابو بکر رکھا تو جناب سید جواد نقوی سے گزارش ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اعلان کریں۔
اصل شیعہ وہ ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہوئے بادل نخواستہ وحدت امت کی خاطر خاندان کے نومولود بیٹوں کے نام ابو بکر، عمر،عثمان رکھے جو پیروی نہ کرے گا وہ اصل شیعہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اہل سنت قائدین سوشل میڈیا پر پیروکاروں کو ہدایت کریں کہ وہ اپنے خاندان کے نومولود بچوں کے نام حیدر کرار کے بیٹوں کے نام پر رکہیں۔ وحدت امت کی طرف عوامی سطح پر نہایت مؤثر قدم ثابت ہوگا۔
سید جواد نقوی کا یہ کہنا کہ جس کا راستہ علی رضی اللہ عنہ سے جدا ہے وہ اصل شیعہ نہیں اس بیان کی روسے وہ اپنے عمل کا جائزہ لیں۔
نامور شیعہ اردو مفسر مولوی مقبول احمد دہلوی نے فتح خیبر کے ذکر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے۔
’’آپ نے تمام اہل قلعہ کو داخل دائر اسلام کیا۔ مرحب کی بہن کو جو آئندہ زوجہ رسول ہونے والی تہیں عزت واحترام سے خدمت رسول میں بھجوادیا اور حکم جناب رسول خدا کی اس طرح تعمیل کی کہ
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلا اللهُ وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ
نه فقط اهل قلعه سے کہلوادیا بلکہ آج تک صولت حیدری کے خوف سے پانچوں وقت مسلمان ہر جگہ پکارتے ہیں۔(ضمیمہ نوٹ نمبر 3 متعلق ص:185 برتفسیری حواشی مطبوعہ مقبول پریس دہلی، ص:95)
روزِ محشر اعمال کی بنیاد توحید ورسالت کی شہادتین پر ہے ۔
شیخ سید شریف رضی نے نقل کیا ہے:
ومن خطبة له عليه السلام …. وَنَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، شَهَادَتَيْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ، وَتَرْفَعَانِ الْعَمَلَ، لاَ يَخِفُّ مِيزَانٌ تُوضَعَانِ فِيهِ، وَلا يَثْقُلُ مِيزَانٌ تُرْفَعَانِ مِنْهُ.
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: …. اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں(اچھی) باتوں کو اونچا اور(نیک) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہوگا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہوسکتا…۔‘‘ (نہج البلاغہ مترجم اردو:324، خطبہ نمبر 112، از مفتی جعفر حسین مطبوعہ لاہور)
مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ توحید ورسالت کی دو شہادتوں کے قائل تھے جبکہ موجودہ دور کے اہل تشیع کلمہ واذان میں توحید ورسالت کی شہادت کے ساتھ امامت وخلافت کی شہادت کا اضافہ کرتے ہیں۔
قابل غور پہلو ہےکہ وہ ایسےفعل کا اضافہ کیوں کرتے ہیں؟ جن کو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے سرانجام نہیں دیا، چنانچہ سیدجواد نقوی سوشل میڈیا پر اعلان عام کریں کہ کلمہ واذان میں صرف توحید ورسالت کی شہادت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے امامت وخلافت کی شرط کا سیدنا علی المرتضیٰ نے حکم نہیں دیا اور وحدت امت کانفرنس میں اعلامیہ کے مطابق اس کا برملا اظہار کریں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طریقہ پر چلنے والے ہی شیعہ ہیں اور جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے راستہ سے جدا ہوکر توحید ورسالت کے ساتھ تیسری کا شہادت کا اضافہ کرنے والے اصلی شیعہ نہیں ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کے اختلاف میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ثالثی فیصلہ کو معیار بنالینا وحدت امت کی طرف عملی پیش رفت ثابت ہوگا۔