السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ…وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ..انتہائی شستہ شائستہ دھیمے لہجے میں جواب ملا۔

شیخ محترم جامعہ کراچی پاکستان سے فیض الابرار بات کر رہا ہوں آپ کا کچھ وقت درکار ہے۔جی بولیں! ہماری ڈیپارٹمنٹل سٹڈیز نے مجھے ایم فل لیول کے علم المخطوطات پڑھانے کی زمہ داری سونپی ہے۔ میں نے اپنے کورس ورک کے بعد دوبارہ کبھی اس علم کو نہ پڑھا اور نہ ہی پڑھایا۔ لہذا آپ سے کچھ رہنمائی درکار ہے۔شیخ محترم نے پوچھا کہ کس مضمون سے متعلق علم المخطوطات پڑھانا ہے ۔میں نے بتایا کہ عربی زبان و ادب۔پھر شیخ محترم رحمہ اللہ کی گفتگو شروع ہوئی اور میں اس کے نکات نوٹ کرتا گیا تقریبا پندرہ منٹ کی گفتگو تھی ۔ لیکن علم کا سمندر تھا اور میرے لیے حیرانی اس امر میں تھی کہ اس قدر فنی و علمی موضوع پر معلومات کا بحوالہ استحضار ، اللہ اکبر کبیرا۔یوں لگ رہا تھا جیسا کہ سامنے کتاب رکھی ہو اور وہ پڑھ رہے ہوں ۔ اس سے قبل جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے استاذ شیخ محمد عیاض رحمہ اللہ سے علم العروض پر اسی طرح استفادہ کیا تھا شیخ عیاض رحمہ اللہ نے بھی علم العروض پر فی البدیہہ جامع معلومات دی تھیں۔ اس کے بعد بھی شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ سے تین سے چار مرتبہ اسی حوالے سے رابطہ ہوا اور ان کی بیان کردہ معلومات کی روشنی میں میں نے ایم۔فل کے طلباء و طالبات کو یہ مضمون پڑھایا اور آخری رابطہ میں، میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں آپ سے ملاقات کر سکوں اور کچھ عرصہ باقاعدہ استفادہ کر سکوں۔ تو کہنے لگے یہ استفادہ کر تو رہے ہیں آپ اور جہاں تک بات ہے ملاقات کی تو ا جائیں ملاقات ہو جائے گی۔اتنی سادہ طبیعت اور مزاج گفتگو سے کہیں ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی بڑی علمی شخصیت ہیں ظاہر یوں کرتے تھے گویا کہ بس ایک عام سے طالب علم ہیں۔بس میں ارادہ کرتا ہی رہ گیا پروگرام بناتا ہی رہ گیا اوراللہ کا فیصلہ آگیا

، انا للہ وانا الیہ راجعون

یہ تھے ہمارے محبوب شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ…..میں ان کا بے قاعدہ شاگرد ہوں اور اپنے والدین کی طرح اساتذہ کے لیے بھی یہ دعا کرتا رہتا ہوں وہ بھی میرے استاد تھے سو …. رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔(ڈاکٹر فیض الابرار صدیقی)

میرے لیے قلم چلانا اتنا مشکل کبھی نہیں رہا ۔ شیخ کا نام لکھتا ہوں ، دل بے چین ہوجاتا ہے ، آنسو چھلک جاتے ہیں اور آگے کچھ لکھ نہیں پاتا۔ کمپیوٹر کھولتا ہوں ، کئی منٹوں کی جد وجہد کے بعد بند کردینا پڑتا ہے۔ آپ کی اچانک موت نے ہم سب کو سکتے میں ڈال دیا ،عالم اسلام کی پوری علمی دنیا سوگواراور گواہ ہے کہ واقعی موت العالمِ موت العالم کا منظر کیا ہوتا ہے ۔ جہاں جہاں تحریریں شائع ہورہی ہیں ، پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ، محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، آنسو بہتے جاتے ہیں اور دعائیں جاری رہتی ہیں ۔ مستقل اپنے شیخ رحمہ اللہ کے اہل خانہ کے ساتھ ہوں ، انہیں کیا تسلی دے پاؤں ، خود دل کی حالت بیان سے باہر ہے لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول ﷺ نے کہا تھا :

إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما نرضی ربنا، إنا للہ وإنا إلیه راجعون ، وإنا بقراقك یا شیخنا لمحزونون.

ہمارے شیخ حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے دار فانی سے دار بقاء کو کوچ کرگئے ۔ کہا کرتے تھے کہ جب تک مکہ سے نکالا نہ جاؤں ، جاؤں گا نہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے استدلال کرتے کہ مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے کہا تھا کہ اگر میں نکالا نہ جاتا تو نہ نکلتا ۔اللہ نے آپ کی دعا کو اس اندازمیں قبول کیا کہ سدا کے لیے مکہ مکرمہ کو آپ کی آرام گاہ بنادیا ۔

 دار عالم الفوائد کے بند ہونے کے بعد کئی ممالک سے معتبر لوگوں نے رابطہ کرکے بڑی بڑی تنخواہوں اور سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ آپ کو بلانا چاہا لیکن آپ نے یہ طے کیا کہ آپ مکہ مکرمہ نہیں چھوڑیں گے

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے

میں نہ ابھی اس پوزیشن میں ہوں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ میں آپ کی علمی و تحقیقی اور ادبی و فکری حیثیت و بصیرت پر گفتگو کروں ، الحمد للہ پوری دنیا اس سے آگاہ اور معترف ہے ، نہ اس کی ضرورت ہے کہ میں آپ کے اخلاق عالیہ کے بارےمیں کچھ لکھوں کہ الحمد للہ یہاں بھی کیفیت وہی ہے کہ ہر ہر فرد جس نے جہاں سے بھی آپ کو دیکھا ہے ، جانا ہے ، ملاقات کی ہے ، ساتھ گزارا ہے ، کام کیا ہے ،کوئی معاملہ کیا ہے ، وہ آپ کے بلند اخلاق کی گواہی دے رہا ہے ۔

زبان خلق کو نقارہ خدا کہیے

یہاں اس روا روی میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن سے ہمارے شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت پر کچھ روشنی پڑسکتی ہے۔

(1)۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ حقیقی معنوں میں متبحر فی العلم تھے ، آپ کی زندگی میں یہ وقت کبھی نہيں آیا جب حصول علم کے شوق میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو اور نئی چيزیں جاننے کےمعاملے میں وہ کسی طرح کے تکلف کے روادار رہے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جامع العلوم و الفنون تھے ، آپ جس علمی موضوع پر شیخ سے بات کرتے وہ آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ۔ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا کہ کسی آدمی کی ایسی بھی یادداشت اور ایسی بھی ہمہ گير نظر ہوسکتی ہے ۔ پہلی ملاقات ہوئی تو شیخ کی گفتگو کی گہرائی ، علمیت اور پختگی نے حیرت میں ڈالا اور جب اللہ نے مستقل یہ راہ نکال دی کہ آپ سے ملاقاتوں پر ملاقاتیں ہوں تو علم غزیر اور وسیع معلومات کے ساتھ آپ کے اخلاق عالیہ نے نہ صرف حیرت میں ڈالا بلکہ اپنا گرویدہ و اسیر کرلیا ۔ ہم اکثر سوچتے اور باتیں کرتے کہ کیا اس علم و بصیرت اور فکر ونظر کا حامل شخص اس قدر متواضع ، سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے دور بھی ہوسکتا ہے ؟آپ علم وبصیرت اور اخلاق وکردار ہر دواعتبار سے اللہ کی نشانیوں سے میں سےتھے ۔

(2) یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ محقق اور ماہر تراث ابن تیمیہ اور تراث ابن قیم تھے اور اس معاملے میں پوری دنیا نے آپ کی امتیازی حیثیت کو قبول کیا اور بجا طور پر اس کا اعتراف کیا لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ آپ کی علمی حیثیتوں کا یہ ایک جزء تھا ۔ آپ قرآن ، علوم قرآن ، حدیث ، علوم حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، عقیدہ ، سیرت ، تاریخ، لغت ،تہذیب و ثقافت، شعر و ادب ،عروض ، حکمت ، منطق اور فلسفہ وغیرہ تمام علمی سرمایے کے مالہ اور ماعلیہ سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے بلکہ اس معاملے میں حیرت انگيز استحضار رکھتے تھے ۔ زمانی ترتیب کے ساتھ آپ کو مختلف علوم وفنون کی کتابیں مع ان کے مولفین کے ازبر تھیں ، آپ کو یہ تک یاد تھا کہ کون سی کتاب کب ، کہاں سے شائع ہوئی اور کس کا کون سا ایڈیشن کہاں کہاں دستیاب ہے اور کس مولف نے کس مولف سے کس درجے میں کیا کیا استفادہ کیا ہے ۔ جب کبھی کسی عالم یا اسکالر کا نام لیتے تو تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے ساتھ لیتے ۔ ہم حیرت سے منہ تکتے رہ جاتے اور آپ کو دیکھ کر محدثین کے تعجب خيزواقعات پر یقین اور بھی پختہ ہوجاتا۔

(3) آپ کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کو کسی سے کوئی حسد نہیں تھا ، کسی کو اس کی خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے ، کسی پرکوئی ایسی تنقید نہیں کرتے جو اس کے سامنے نہیں کرسکتے ہوں ، مثبت رائے کا اظہار کھل کر کردیتے اور منفی رائے محفوظ رکھتے ۔ہم نے اپنے احباب اور معاصرین کی خوبیوں کا ایسا اعتراف نہ کے برابر کہیں اور پایا ۔ہم اپنے جوش اور کم علمی میں جب کوئی ایسی بات کہتے جس میں نادانی اور خوش فہمی کا عنصر زیادہ ہوتا اور وہ حقائق کی غلطی نہیں ہوتی تو صرف مسکراکر جیسے بتا دیتے کہ ہمارا جوش بول رہا ہے یا کسی شخصیت کے بارے میں کوئی مبالغہ آمیز رویہ ہوتا تو باتوں کو دوسری طرف موڑ کر یہ اشارہ دے دیتے کہ ہم مبالغہ کے شکار ہو رہے ہیں ۔

(4) آپ اسلام کے عالم تھے ، ہر قسم کے تعصبات سے دور ۔ علم کی وسعت فکر و بصیرت میں اور اسلام کی وسعت اخلاق میں واضح نظر آتی تھی ۔مسلک و مشرب ، ملک و علاقہ ، برادری یا زبان کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں تھا۔سلفی تھے تحزب پسند نہيں ، اہل حدیث ہونے میں ٹھوس تھے اور حقیقی معنوں میں اسلاف کی راہ پر گامزن ۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس کے داعی تھے البتہ اس معاملے میں انصاف کی کمی اور اسلوب کی سختی و درشتی کو ناپسند فرماتے تھے ۔اس بات پرزور زیادہ تھا کہ اچھے اسلوب میں حق کی دعوت کو پوری دنیا میں عام کیا جائے، دین کے غلبہ اور اسلام کی سربلندی کی تمنا رکھتے تھے اور پوری امت کا غم ڈھوتے تھے ۔حقیقی معنوں میں ہمارے قائد تھے ۔

(5) علم کے ساتھ اہل علم اور طلبۃ العلم سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ اس راہ میں جب کوئی جس قسم کی مدد چاہتا بغیر کسی تاخیر یا کوتاہی کے اس کی مدد کرتے اور یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ سامنے والا کون ہے ، کہاں کا ہے اور کس مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہر ایک کو اس کے حسب حال علمی مشوروں اور رہنمائیوں سے نوازتے ۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کسی آفس میں اسی انتظار میں مستعد بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی کسی علمی کام کےلیے آئے گا تو اسے جھٹ کرکے دے دیں گے ۔اس معاملے میں ایسی مستعدی تھی کہ ہم صرف حیرت ہی کرسکتے تھے۔ موٹی موٹی کتابوں کا مراجعہ کبھی ایک شب میں تو کبھی ایک دو نشست میں کرکے دے دیتے ، علمی رہنمائی بیٹھے بیٹھے کاغذ پر لکھ کر دے دیتے اور ہم جیسا آدمی بس دیکھتا رہ جاتا۔علمی کاموں کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کا ایسا طریقہ تھا کہ ہر کہ ومہ کو اپنے سلسلے میں خوش فہمی لاحق ہوسکتی تھی ، حوصلہ شکنی جیسے جانتے ہی نہیں تھے ۔

(6) آپ بے ضرر تھے ، کسی کے بارے میں کوئی غلط خیال نہيں پالتے تھے ، ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے ۔ علمی معاملے میں لوگوں کی مدد تو خیر کرتے ہی تھے ، سماجی اورعام زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی ہر ممکن مدد کرتے تھے ۔ آپ اس اعتبار سے بھی حیرت انگيز طور پر نفع بخش سماجی آدمی کی حیثیت رکھتے تھے ۔اللہ نے یہ کمال کی خوبی دی تھی کہ ہر کسی سے اس کی سطح پر اتر کر بات کرتے تھے ۔ اس لیے عام آدمی یہ سوچ بھی نہیں پاتا تھا کہ شیخ کتنے بڑے آدمی ہیں ، اس سلسلے کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ آپ کو کبھی اس کی کوئی طلب بھی نہیں رہی ۔لگتا تھا کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے جیسے آپ نے اپنی علمی،ادبی ، فکری شخصیت کو کہیں اتار کر رکھ دیا ہے اور خالص ایک عام سے انسان ہیں جو راہ چلتے کسی بھی شخص کو سلام کرتاہے اور بغیر کسی تکلف کے اپنا کام کرتاہے۔ہمیں پرانا گھر بدل کر نیا لینا تھا ، آپ کو پتہ چلا تو بغیر کسی تکلف کے ساتھ نکل گئے ، پورے محلے میں گھومے ، کئی گھر دیکھا ، بالآخر دوسرے دن شیخ ہی نے نیا والا گھر دلوایا۔گھر کے عمر رسیدہ محافظ نے شیخ پر بھروسہ ا ور آپ سے محبت کی بنیاد پر یہ گھر دیا ،اس نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ہمیں اس سچائی سے آگاہ کیا ۔لا نعرفك ولکن نثق بالشیخ ونحبه وکانه ابني۔

(7)آپ لوگوں سے تعلقات برابری کی سطح پر رکھتے تھے ۔ ہمیں یہ جان کر تو حیرانی ہوتی ہی کہ بہت سے کمر عمر طلبہ ، علماء اور احباب آپ کو «عزیر بھائی « کہتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھ میں آتا تھا کہ آپ کس درجے میں متواضع انسان تھے ۔ علمی بحث و مباحثہ میں بھی یہی رویہ تھا ، کسی سے بات کرتے ہوئے اسے یہ احساس قطعا نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ ان سے «بڑے « ہیں ۔ خالص دلیل و برہان کی روشنی میں باتیں کرتے ، سنتے اور سناتے ۔بحث برائے بحث نہیں کرتے تھے ، کسی موضوع سے متعلق گفتگو ختم بھی ہوجاتی تو بعد میں کہی ہوئی باتوں کا باضابطہ استناد لکھ کر پیش کردیتے ۔ہماری مکہ آمد کے پہلے ہی سال کی بات ہے ،ہمارے عزیز دوست مولانا نور عالم سلفی کے برادر نسبتی ایک موقع سے مکہ آئے ہوئے تھے ، ہم ، وہ اور شیخ ہم کلام تھے ، تابعین میں سے ایک بزرگ کے کسی واقعے کے بارےمیں بات ہورہی تھی ، میں نے اس واقعے کی توثیق کی ، کچھ ادبی کتابوں کا حوالہ بھی دیا ، شیخ نے واقعے کے ثبوت سے انکار کیا ، ہم نے پھر بھی اصرار کیا ، باتیں پھرکسی اور طرف مڑ گئیں ۔ ہم سمجھے کہ مجلس ختم اور باتیں بھی ختم ۔ دوسرے دن عصر کی نماز کے بعد شیخ نے فون کیااور تشریف لائے ۔ ہاتھ میں ایک ورقہ تھا ، جس میں اس واقعے کے عدم ثبوت کے ناقابل انکار دلائل قلم بند تھے !!!

(8) ہمارے شیخ انتہائی درجے میں بامروت تھے ۔لاکھ کوشش ہوتی کہ شیخ اپنا کوئی سامان اٹھانے کی اجازت دے دیں ، نہیں دیتے ۔ ہاں الٹا مددکرنے کے معاملے میں پیش پیش رہتے ۔ کبھی کبھی اتنی شرمندگی ہوتی کہ کہا نہیں جاسکتا ۔مخدوم ہونا کسی شکل میں گوارا نہیں تھا ۔ کسی قسم کی کوئی مالی مدد کسی سے قبول نہیں کرتے ، کتابیں منگواتے اور اتنے اصرار سےقیمت چکانےکی کوشش کرتے کہ یہ شکایت کرنی پڑتی کہ شیخ ہمیں پرایا کررہے ہیں ۔کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے شیخ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی اتنے ہی اچھے تھے جتنے باہر کے لوگوں کے ساتھ تھے ۔ ہر ممکن ان کی بھی خدمت کرتے اور ان سے خدمت لینے سے بچنا چاہتے ۔الحمد للہ اہل خانہ سے بہت خوش رہتے تھے ۔ ہم نے آٹھ سال کی اس رفاقت میں کبھی کوئی منفی بات آپ کی زبان سے اہل خانہ سے متعلق نہیں سنی ، جب کہ ہمارے تعلقات علمی ہونے کے ساتھ گھریلو بھی رہے ۔

(9) القاب وآداب کو شدید ناپسند کرتے تھے ۔ جب کبھی کسی پروگرام میں آپ کا تعارف پیش کرنے کےلیے کھڑا ہوتا ، سلیقے اور تہذیب سے مبالغہ سےپاک تعارف پیش کرتا لیکن آپ اپنی ناپسندیدگی کا باضابطہ اظہار کرتے اور اس ناپسندیدگی میں کہیں سےکوئی دکھلاوا نہیں ہوتا ۔ہمارا دل گواہی دیتا کہ شیخ کو واقعی یہ چيزیں پسند نہیں ۔ بعد میں ،میں شکایت کرتا کہ میں نے کون سی غلط یا مبالغہ آمیزبات کہی تھی لیکن آپ کا اصرار قائم رہتا۔

(10) لباس و پوشاک سے لے کر پوری زندگی کا ڈھب انتہائی درجے میں سادہ تھا ۔ بغیر کسی تکلف کے زمین پر بیٹھ جاتے ۔ ظاہر و باطن میں ایسی مطابقت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔اکثر ہمیں یہ سعادت ملتی کہ گزارش کرنے پر گھرتشریف لے آتے ۔ ایلاف ، الہام نانا کہہ کر چمٹ جاتیں ، خوب دلارتے ، اپنے ہاتھ سے دونوں کو کھلاتے ، اخلاق کی یہ بلندی کس کے حصے میں آتی ہے ، ہم دونوں میاں بیوی یادکرتے ہیں اور آنسو کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں ،بسا اوقات شیخ الہام کی اگلی ہوئی چيزیں بغیر کسی تکلف کے کھالیتے !!

(11)بالعموم مغرب اور عشاء کی نمازوں میں ملاقات ہوتی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھتے کہ ثناءاللہ ہے یا نہیں ،نظرآجا تو چہرے پر بشاشت کی لکیریں پھیل کر محبت وشفقت سے ہمیں مالا مال کردیتیں ، پھر دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ، دوسری نمازوں میں بھی ملاقات ہوتی تو کیفیت یہی رہتی البتہ مغرب و عشاء کی طرح باتوں کا وقت کم رہتا۔نظر نہیں آتا تو ام عبد اللہ ( اللہ پاک انہیں صبر جمیل کی توفیق ارزانی کرے ) سے استفسار کرتے کہ سب خیریت تو ہے ، ثناءاللہ آج کل نظر نہيں آرہے !!!

(12) عشاء کی نماز ادا کررہا تھا جب ام عبداللہ کے نمبر سے بار بار فون آنا شروع ہوا ۔ ہمیں لگا کہ شاید ام ایلاف سے بات کرنا چاہ رہی ہیں۔بتایا گيا کہ شیخ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، ثناءاللہ بابو کو جلد بھیجیں ۔ہمارے ساتھ مولانا محمد علی تیمی مدنی تھے ، انہیں ساتھ لیا کہ وہ گاڑی ڈرائیو کرنا جانتے ہیں ، بھاگے بھاگے پہنچے ، ہمار ے شیخ زمین پر دراز تھے ، شیخ نبیل سندھی موجود تھے ، ہاتھ پکڑا ، سانسوں کے چلنے کی کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کی ، ادھر ڈاکٹر فاروق صاحب بھی تھے ، ان کی طرف امید و مایوسی کی عجیب وغریب کیفیت میں دیکھتے ہوئے بڑھا ، انہوں نے بتایا کہ وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو اس کیفیت میں کیا جاسکتا ہے ، شیخ کی روح پرواز کرچکی ہے ، ہمارے تو پاؤں تلے زمین کھسک گئی ۔زندگی میں اس سے پہلے ایسے صدمے سے کبھی دوچار نہيں ہوا۔شیخ میرے لیے مکہ مکرمہ میں باپ کے درجے میں تھے ۔ یہ احساس یتیمی دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے ، ایسے ایسے لمحے ، یادیں ، باتیں ، نصیحتیں اور حسب ضرورت شفقت آمیز خفگیاں ہیں کہ دل بے قابو ہوجاتا ہے ، آنکھیں تنہائی پاتے ہی بہہ پڑتی ہیں اور زبان پر دعائیں جاری ہوجاتی ہیں ۔

غفر اللہ لشیخنا ورحمه وأدخله فسیح جناته واللھم ذویه وأھله الصبر والسلوان

یہ تمام جاننے والوں کی گواہی ہے کہ ہمارے شیخ رحمہ اللہ کے اندر بہت سادگی پائی جاتی تھی ۔ہم دیکھ دیکھ کر پریشان رہتے کہ کوئی کس طرح ایسی سادگی برت سکتا ہے ۔ یہاں چند ذاتی تجربے شیئر کیے جارہے ہیں

(1)         مکے میں ہمارا پہلا سال تھا ، اس وقت تک ہماری شادی نہیں ہوئی تھی ، شیخ کے اہل خانہ انڈیا میں تھے اور شیخ یہاں اکیلے تھے۔ اکثر مغرب کی نماز میں ملاقات ہوتی ، شیخ گھر لے آتے ۔ اپنے ہاتھ سے موسمی کا جوس نکالتے اور پلاتے ، کبھی لبن میں روح افزا ملا کر پیش کرتے ، پھر لسی کے نیند آور ہونے کے سلسلے میں مزیدار قصے سناتے ،باتیں کرتے کرتے ایک دو تین منٹ کے لیے نکل جاتے ، پھر کچھ دیر بعد واپس جاکر چائے لیے ہوئے آ جاتے ۔کہیں سے کوئی تکلف نہیں جھلکتا۔ ایسا لگتا کہ یہی معمول ہے ۔

(2)         کسی روز اگر عشاء بعد بھی گفتگو کا سلسلہ چلتا تو کھانا کھلاتے۔ کھانا بھی خود سے بنالیتے تھے ۔ روٹی لینے کے لیے بغیر کسی تکلف کے نکل پڑتے ، میں اصرار کرتا کہ میں لے آتا ہوں ، راضی نہیں ہوتے ، زیادہ سے زیادہ ساتھ چلنے کی اجازت دے دیتے ۔ دو تین لوگ ہوتے تو ہمیں آپس میں گفتگو کا کہتے اور خود نکل پڑتے ۔جب اہل خانہ نہیں تھے تب بھی اس بات سے روکتے کہ کھایا ہوا برتن میں دھو دوں ، میں اصرار کرتا لیکن وہ ٹس سےمس نہ ہوتے ۔

(3)         کبھی بھی کہیں بھی بغیر کسی تکلف کے پیدل چل سکتے تھے۔ اصرار کرتا کہ شیخ گھر تشریف لائیں ، آتے تو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتے ،میں لفٹ کے پاس کھڑا ہوتا اور شیخ سیڑھی چڑھنے لگتے ، پیچھے پیچھے ہونا پڑتا۔خفا ہوتے کہ یہ کیا کہ آپ لوگ ابھی سے خود کو بوڑھا بنا رہے ہیں ۔

(4)         دسترخوان پر جب کبھی دو تین طرح کا سالن دیکھتے تو ناراض ہوتے ۔ ضد کرنے لگتے کہ میں تو بس ایک ہی کھاؤں گا ، کوشش اور منت سماجت سےبہ مشکل تمام دوسرے کےلیے راضی کرنا پڑتا۔ پیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہتے کہ آپ لوگ اس مشین پر کتنا بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں ؟ وقت سے پہلے کیوں چاہتے ہیں کہ یہ بگڑ جائے۔

(5)         سبزیاں کھانے کی تلقین کرتے ، کہتے کہ گوشت خاص مواقع سےکھائیے ، ہفتے میں ایک دن دو دن کھالیجیے ، یہ کیا کہ آپ لوگ تو بس گوشت ہی گوشت کھاتے ہیں ۔میں کہتا کہ شیخ قرآن و سنت میں تو صرف گوشت کا ہی تذکرہ ملتا ہے ، سبزیاں کہاں نظر آتی ہيں ؟ زور سےہنستے اور کہتے : وہ سارے تذکرے خاص مواقع کے ہیں ، مہمان کی آمد کے یا کسی اور تقریب کے ۔کبھی ٹھیک سے جائزہ لے کر دیکھ لیجیے۔

(6)         شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا ایک اسوہ پیش کرتے کہ وہ جب کہیں دعوت میں جاتے تو گھر سےکچھ نہ کچھ کھا کر جاتے تاکہ میزبان پر زیادہ بوجھ نہ بنیں ۔ہمیں ایسا محسوس ہوتا کہ شیخ خود بھی اس پرعامل ہیں ۔

(7)         بالمعوم یا تو ہوائی چپل میں ہوتے یا پھر عام سے جوتے میں ۔ ام ایلاف اکثر شکایت کرتیں کہ شیخ کو کم ازکم چپل تو بدل لینی چاہیے ، کیسی پرانی ہوگئی ہوئی ہے ۔میں مسکراکر ٹال دیتا ۔ شیخ کو ان چيزوں سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا ۔

(8)         شیخ کی سادگی،محبت اور خاکسار پر شفقت کا ہی نتیجہ تھا کہ جب کبھی کسی مہمان کی آمد ہوتی ۔ گزارش کرتا کہ شیخ فلاں صاحب آرہے ہیں ، رات میں کھانا ساتھ میں کھاتے ہیں ، اگر باضابطہ کوئی مجبوری نہ ہوتی تو شیخ ضرور آتے ، مہمانوں کےساتھ بیٹھتے اور جب گزارش کی جاتی کہ کچھ نصیحت وغیرہ کریں تو بالعموم قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنے اور بخاری شریف ترجمہ کے ساتھ پڑھنے پر لوگوں کو ابھارتے اور عمل کرنے کی تلقین کرتے ۔

(9)         مجھے جب کسی موضوع پر کچھ لکھنا ہوتا ، شیخ سے رابطہ کرتا ، رہنمائی کرتے ، مصادر ومراجع بتاتے ، کتابیں مرحمت فرماتے ۔ میں لے کر آجاتا۔ اکثر لوٹانے میں تاخیرہوجاتی ، اس بیچ اگر ان کتابوں کی شیخ کو ضرورت پڑ جاتی تو فون کرتے ، میں کہتا کہ میں لے کر آجاتا ہوں ، آپ منع کرتے اور کہتے کہ کسی وقت میں ہی گزرتے ہوئے لےلوں گا ۔بسا اوقات کتابیں زیادہ ہوتیں ، میں بہت کوشش کرتا کہ پہنچادوں لیکن سختی سے منع کردیتے اور خود ڈھوکر لے جاتے ۔

(10)      شیخ کے پاس گاڑی تھی ، ام ایلاف کو منڈی وغیرہ سے کچھ لینا ہوتا تو کہتی کہ آپ تو شیخ سے گزارش کرہی سکتے ہیں ، میں ٹال جاتا، اور اشارۃ یہ بتادیتا کہ میں شیخ سے نہیں کہہ سکتا۔ام عبداللہ اکثر ام ایلاف سے کہتیں کہ آپ بغیر کسی جھجک کے بتایا کیجیے ، گاڑی ہے تو اتنا بھی نہیں کرسکتے ہم لوگ ۔دونوں نے مل کر یہ پلان کرلیا کہ جہاں جانا ہوتا، دونوں آپس میں بات کرلیتیں اور پھر ام عبداللہ کے کہنے پر شیخ لے جاتے ۔ شیخ بس یہ چاہتے کہ ثناءاللہ بھی ساتھ ہوں ۔کہا کرتے کہ کہیں جانا ہو تو بتایا کیجیے ، تکلف کی کوئی ضرورت نہيں ہے ۔

(11)      آپ کی وفات پر تعزیت کرنے کے لیے کویت سے شیخ کے ایک عزیز آئے تو بتانے لگے کہ پہلی مرتبہ جب شیخ وہاں آئے تھے تو شخصی دعوت پر آئے تھے ، ایک مہمان خانے میں انتظام تھا ، مسجد متصل تھی ، شیخ ہر نماز کے بعد بیٹھتے اور استفادہ کرنے والے جم کر مستفید ہوتے ۔ دوسری مرتبہ وزارہ کی طرف سے آپ کو بلایا گیا ۔ پانچ ستارہ ہوٹل میں انتظام تھا، کہنے لگے کہ وہ مسجد اچھی تھی ، سب لوگوں سے ملاقات ہوتی تھی ، اخذ وافادہ کی راہ کھلی رہتی تھی ۔ یہاں تو بس شکم پروری ہورہی ہے ۔ میں اس کی خاطر تو نہیں آیا تھا یہاں ۔پانچ ستارہ ہوٹل میں ویسے خوش نہیں تھے جیسے اس مسجد سے متصل عام مہمان خانے میں خوش تھے ۔

(12)      ابھی سے چند ہی دن پہلے کی بات ہے ، ہم دونوں اہل وعیال کے ساتھ مکہ مول گئے ، خواتین خریداری میں لگ گئیں ، بھیڑ بہت تھی ، کہیں کوئی کرسی خالی نہیں تھی ، شیخ ایک کونے میں فرش پر بیٹھ گئے اور شیخ کے ساتھ خاکسار بھی بیٹھ گیا ۔

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں (میر تقی میر)

(سوشل میڈيا پر پھیلی بعض باتوں سے متعلق ضروری وضاحتیں )

سوشل میڈیا پر شیخ رحمہ اللہ کی موت کے بعد بعض چيزیں ایسی عام ہوتی جارہی ہیں جن کی سچائی کے سلسلے میں بعض وضاحتیں ان شاءاللہ درست موقف کو عام کرنے کا ذریعہ بنیں گی ۔ یہاں اس سلسلے کی چند چيزیں بیان کی جاتی ہیں ۔

(1)         کیا شیخ نے مقبرۃ المعلاۃ میں دفن ہونے کی خواہش کی تھی اور اسے خوش نصیبی سمجھاتھا ؟

نہیں ، یہ بات درست نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا پر بعض بڑے مشائخ کے حوالے سے یہ بات عام ہو گئی ہے ۔ میں نے ام عبداللہ سےاس سلسلے میں استفسار کیا ۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ ، بڑی اور چھوٹی صاحب زادیاں اور شیخ سب لوگ مقبرہ سے گزرے تھے اور مقبرہ سے گزرنے کی دعا پڑھی گئی تھی ۔ شیخ کی موت کے بعد ام عبداللہ نے اپنی اس خواہش کا اظہار بعض خواتین کے سامنے کیا کہ آج ہی مقبرہ سے گزرے تھے اور میری تمنا تھی کہ میں مقبرہ معلاۃ میں جگہ پاتی ۔ اللہ نے انہیں جگہ دے دی ، سننے میں بعض خواتین کو کچھ دھوکہ ہوا اور یہ بات عام ہوگئی ۔ ام عبداللہ فرمارہی تھیں کہ شیخ اس مزاج کے تھے ہی نہیں ۔ وہ تو موت وحیات کا مالک اللہ کو سمجھتے تھے اور کہیں دفن ہونے کو سعادت یا خوش نصیبی نہیں مانتے تھے ۔

(2)         بعض احباب نے ہمارے شیخ کے نام کے ساتھ « ڈاکٹر « لکھا ہے ۔ ہمارے شیخ نے پی ایچ ڈی کا آخری مرحلہ عبور کرلیا تھا لیکن مشرف سے اختلافات کے باعث آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض نہیں ہوئی تھی ۔اس لیے سچی بات یہی ہے کہ معروف معنوں میں آپ «ڈاکٹر « نہیں تھے اور ہمارے شیخ کے معاملے میں یہ کتنی اچھی بات ہے کہ آپ ڈاکٹر نہیں تھے ورنہ شاید ایسے بڑے محقق عالم نہیں ہوتے جن کی تحقیق وتدقیق کے عرب وعجم یکساں معترف ہوں۔ بعض دفعہ استفسار کیے جانے پر اسے اللہ کی مصلحت قراردیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل جاتی تو شاید یہ کام نہیں ہو پاتا۔آپ القاب وآداب کے بھی خلاف رہتے تھے ۔ اس لیے حتی المقدور آپ کے اس اختصاص کو بھی باقی رکھنا چاہیے ۔

(3)         کیا ناقدری زمانہ کے شاکی تھے ؟

 نہیں ، آپ درویش صفت انسان تھے ، آگے پیچھے کرنے کا ہنر بالکل بھی نہيں جانتے تھے ، حق کہنے کے معاملے میں انتہائی جری تھے اور علمی سطح پر بطور خاص نفع رسانی کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے تھے ۔ ہم اکثر کہتے کہ شیخ کوشش کریں گے تو شہریت مل جائے گی ، مسکراتے ہوئے ٹال جاتے ۔بعض لوگ غلط طریقے سے چيزوں کو جانے بغیر الٹی سیدھی باتیں عام کرتے ہیں اور شیخ جیسی نیک اور بے ضرر شخصیت کی آڑ میں اپنا غصہ اتارتے ہیں ۔ آپ سعودی عرب ، یہاں کے علماء ، حکمراں اور عوام سب کے قائل تھے ، ان کی خوبیوں کی جم کرتعریف کرتے تھے ، ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ سعودی عرب مضبوط سے مضبوط تر رہے ، تمام سنی مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کو نعمت قرار دیتے تھے ۔ جو حضرات سادہ لوح لوگوں کو ورغلانے کا کام کرتے ہيں ، انہیں آئینہ دکھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے ۔ ایک واقعے کا ذکر اکثر کرتے تھے کہ بعض لوگ ایک محفل میں سعودی عرب کے نظام کے بارے میں باتیں کرنے لگے اور الٹی سیدھی باتیں شروع کردیں ۔ شیخ نے ان سے کہا : ایسا ہے کہ فلاں فلاں ذمہ دار حضرات سے میرے مراسم ہیں ، آپ کی تنقید کا مقصد اگر اصلاح ہے تو چلیے میں ان سےآپ کو ملا دیتا ہوں اور آپ یہ ساری باتیں انہیں بتائیے کہ نصح و ارشاد کا یہی طریقہ اسلامی ہے ورنہ تو آپ فتنہ پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ، کیوں کہ اس سے کوئی فائدہ تو ہونے سے رہا ۔

(خورد نوازی کی بعض حیرت انگیز مثالیں )

ہمارے شیخ رحمہ اللہ علم و آگہی کی جس بلندی پر فائز تھے ، اس سے الحمد للہ ایک دنیا واقف ہے لیکن کہیں سے کوئی احساس ترفع نہیں تھا ، طلبہ ، ریسرچ اسکالرز اور علماء کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں بہت آگے تھے ۔یہاں ذاتی تجربات کی روشنی میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

(1)         پہلی بار ہم شیخ سے دہلی میں ملے تھے ،ہم لوگوں نے شیخ کو بزم قرآن کے تحت جے این یو میں مدعو کیا تھا ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے افکار و تراث پر گفتگو کرنی تھی ، جب سلسلہ گفتگو شروع ہوا تو ہم حیرت میں تھے اور پھر ہر ممکن یہی کوشش کی کہ جب تک شیخ وہاں ہیں ، آپ سے استفادہ کیا جائے ۔ مختلف قسم کی محفلیں رہیں ، ہمار ےدوست ڈاکٹر آفتا ب احمد مینری علامہ اقبال کے عقیدت مند ہیں ، اقبالیات پر ان کا اچھا مطالعہ ہے ، ہم نے انہی دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کے دینی افکار و نظریات پر ایم فل کیا تھا ، شیخ نے ہماری باتوں سے اندازہ لگالیا کہ ہم آزادیات میں تو ہمارے دوست اقبالیات میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔فرمانے لگے : واہ آپ دونوں دوستوں نے بڑا اچھا کیا ہے ۔ ایک نے اقبال کو تو دوسرے نے آزاد کو اپنالیا ہے ۔بر صغیر ہند وپاک کو جمع کرلیا۔ تعجب کی اصل بات یہ تھی کہ اس کے بعد جب بھی کسی محفل میں مولانا آزاد سےمتعلق گفتگو ہوتی تو کہتے ، ثناءاللہ تیمی صاحب بتائيں گے جب کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ « آزادیات « کے معاملے میں بھی ہم شیخ کے سامنے کہیں کھڑے ہونے کی حیثیت میں نہیں تھے ۔

(2)         جب شیخ شدید اصرار کے بعد اس کےلیے تیار ہوئے کہ آپ کے اردو مقالات کا مجموعہ شائع ہو جائے ، مضامین اکٹھے ہوگئے اور کمپوزنگ وغیرہ ہوگئی تو حکم ہوا کہ آپ نظر ثانی کریں ، کھل کر تنقید کریں اور جہاں جو محسوس کرتے ہوں، اس کا اظہار کریں ۔ہمارے لیے یہی بڑی بات تھی کہ شیخ ہمیں اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہم مسودہ سے استفادہ کرسکیں ۔ہم نے جب کہا کہ ان شاءاللہ تعالی استفادہ کریں گے تو اپنی طبعی بے تکلفی سے کہا : اس سب تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ، کتاب چھپے گی ، اغلاط سے پاک ہو نی چاہیے نا ، صحیح سے چیک کریں اور جو محسوس کرتے ہیں وہ بتائیں ۔ شیخ کے یہاں کیا خامی ہو سکتی تھی ، جہاں جہاں کمپوزنگ وغیرہ کی غلطی تھی ،درست کردی گئی ۔

(3)         جب شیخ کے ساتھ ہم نے « لائیو گفتگو « کا سلسلہ شروع کیا (شیخ کو کس طرح اس کے لیے راضی کیا ، اس کی تفصیل ان شاءاللہ تعالی پھر کبھی )، سوالات کرتا اور اکثر آپ کے جواب سے بھی بعض سوالات کشید کرلیتا ۔ پروگرام کے بعد اظہار مسرت کرتے ہوئے کہتے : یہ کیا آپ ترجمہ میں آگئے ۔ آپ کو تو قومی میڈیا میں ٹی وی اینکر ہونا چاہیے تھا!!!

(4)         عام اسلامی تاریخ ، بر صغیر کی مسلم تہذیب و معاشرت اور حکومت کی تاریخ اور بطور خاص تاریخ اہل حدیث پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی ۔ علمائے اہل حدیث کا آپ نے باضابطہ تذکرہ بھی تیار کررکھا تھا ، اس کے نظر ثانی کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔ انیسویں اور بیسوی صدی کے حالات پر اور بھی گہری نظر تھی ۔ہمیں اکثر نصیحت کرتے کہ ان دوصدیوں پر مطالعہ کو آگے بڑھائیں اور کچھ علمی کام کریں ۔ایک روزہ فون کرکے پوچھا کہ گھر پر ہیں ؟ میں نےجب اثبات میں جواب دیا تو فرمایا : کچھ دیر میں پہنچتا ہوں ۔آئے تو « تاریخ الدعوة السلفية في الھند» کا پورا خاکہ تیار کیے ہوئے تھے ۔ سامنے رکھا اور فرمانے لگے : یہ دیکھیے ، یہ میں نے تیار کیا ہے ، آپ اگر لکھتے تو کیا خاکہ بناتے ؟ جو کچھ حذف و اضافہ، تبدیلی و ترمیم کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، کرتے جائیں ۔میں حیرت واستعجاب کے عالم میں شیخ کو دیکھنے لگا ، استغفر اللہ کہتے ہوئے میں نے کہا کہ شیخ آپ یہ کیا فرمارہے ہیں ۔ مسکرائے اور کہا : جے این یو جیسی جگہ جا کر بھی آپ ان مولویانہ تکلفات سے نہیں نکلے ، اسے دیکھیں ۔

میں نےحکم کی تعمیل کی ، اپنی بعض طالب علمانہ گزارشات رکھیں تو اسی وقت انہیں قلم بند کیا اور بعض چیزیں بدل لیں ، بعض کے سلسلے میں اپنا موقف پیش کیا ۔ہمارے درمیان یہ بات ہوئی کہ شیخ عربی میں لکھ دیں تو ان شاءاللہ اردو ترجمہ خاکسار کرنا چاہے گا ، خوش ہوئے اور دعائیں دیں ۔

(5)لائیو گفتگو کے بعد جب میں بعض احباب کے کمنٹس سناتا تو کہتے : یہ کیا آپ سب تعریف والا سنائے جارہے ہیں ،جہاں آپ کے حساب سے مبالغہ ہوتا ، استغفر اللہ پڑھتے اور کہتے کسی نے کوئی تنقید کی ہو تو وہ بتائیے ، خود آپ کی کوئی تنقید ہے تو اس کا اظہار کیجیے ۔ احباب سے بھی یہی گزارش کیجیے ۔ ہمارے دوست محمد بن طاہرسلفی یہ بیان کرتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے کہ جب میں نے شیخ سے کہا کہ یوٹیوب پر آپ کی ویڈیوز دیکھی ہیں تو شیخ نے فورا کہا : آپ کی کوئی تنقید ہو تو بتائیں ، کیا خامی تھی اس میں ، اس کی طرف اشارہ کریں ۔

(6) شیخ کو خاکسار سے متعلق یہ خوش فہمی تھی کہ انگریزی میں لکھی گئی اسلامی کتابوں پر میری نظر ہے ،اسی طرح آپ کا یہ بھی حسن ظن تھا کہ ہندوستان کی تاریخ پر لکھی گئی انگریزی زبان کی کتابوں سے میں واقف ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ کن کن ویب سائٹس سے اسلامیات کے مطالعہ میں مدد لی جاسکتی ہے ۔ آپ اکثر نئی تعلیم سے آراستہ لوگوں سے کہہ دیتے کہ ثناءاللہ صاحب سے پوچھ لیجیے ، یہ اپنے خوردوں کو اہمیت دینے کی آپ کی اپنی خاص ادا تھی۔

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

(طالب علموں کے لیے عملی زندگی کی چند ضروری مثالیں اور نصیحتیں )

میں جب مکہ مکرمہ آیا اور شیخ کے پڑوس میں رہنے کی سعادت ملی تو اکثر کوشش کرتا کہ شیخ سے ان کی زندگی کے سلسلے میں باتیں کروں اور معلومات حاصل کروں ، آپ کمال خوبی سے ٹال جاتے اور گفتگو کارخ کہیں اور موڑ دیتے ۔بہت اصرار پر زیادہ سے زیادہ عبدالرحمن قائد کے پروگرام « اوراق العمر» پراپنی گفتگو سن لینے کا کہتے اور پھر کسی علمی موضوع کی طرف بڑھ جاتے ۔اس طرف آکرکبھی کبھی اپنے سلسلے میں بھی کچھ اشارے کرتے ۔وفات سے ہفتہ دس دن پہلے کی بات ہوگی ، ہم لوگ علم دین کی راہ میں معیشت کی پریشانیوں کا ذکر کررہے تھے ، تحقیق اور معاشی زندگی کے بیچ توازن کی کیا راہ ہو ، ان پر باتیں چل رہیں تھیں کہ آپ نے اپنی زندگی کی روشنی میں کچھ نہایت اہم باتیں شیئر کیں ، ہم طلبہ کے لیے ان میں بڑی نصیحت ہے ۔

(1)         شیخ بتانے لگے کہ علم وتحقیق کی راہ بہت صبر طلب ہے ، بقدر کفاف پر جینے کی خو پیدا کرنی پڑتی ہے، اگر کسی کے اندر دنیا کے حصول کا جذبہ شدید ہو تو علم وتحقیق کی راہ اس کے لیے نہیں ہے ۔

(2)         آپ اکثر اس بات کی شکایت کرتے کہ اگر آپ کو اپنے موضوع پر تحقیق نہيں کرنی ، نئے انکشافات کے لیے محنت نہیں کرنی ، موضوع سے متعلق کسی مروج غلطی کی تصحیح نہیں کرنی ، کوئی ان چھوا گوشہ مس نہيں کرنا ، علم و ادب کی خدمت کا کوئی جذبہ نہیں تو پھر تحقیق کی دنیا میں آنے کا کیا فائدہ ؟ صرف نام کے آگے «د» لگانے اور نوکریوں میں بڑا درجہ پانے سے تحقیق کا بھلاتو ہونے سے رہا ۔

(3)         میں نے چھیڑا کہ شیخ آپ نے ان دوتقاضوں کو کیسے ہم آہنگ کیا ؟ توازن کی صورت کیسے نکالی ؟ بتانے لگے : دیکھیے ، شروع میں یونیورسٹی کی طرف سے تھوڑا مکافئہ مل جاتا تھا اور اپنے فیلڈ میں اتنا کام مل ہی جاتاتھا کہ گزر بسر ہوسکے ۔میں نے پیسوں کی طرف بہت زیادہ توجہ نہیں دی ، اپنے ہی میدان میں کام کرنے سے ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور میں علمی مصروفیتوں میں منہمک ہوتا گیا ۔شیخ کے کافی قریب رہے ڈاکٹر عبدالمنان سلفی صاحب نے بھی اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ شیخ کام کے لیے زیادہ پریشان نہیں ہوا کرتے تھے ۔

یہاں اس بات کی وضاحت فائدے سے خالی نہ ہوگی کہ جامعہ سلفیہ میں بھی آپ کو لائبریری کی کتابوں کی ترتیب کا موقع ملا تھا ، فراغت کے بعد خدا بخش لائبریری میں بھی کیٹلاگنگ کی تھی، وجہ یہ ہوئی کہ آپ فراغت کے بعد خدا بخش لائبریری سے استفادہ کی غرض سے پٹنہ آئے ہوئے تھے ،وہاں اس وقت ہندوستان کی تاریخ کے کسی گوشے پر سی می نار چل رہا تھا ، ہمارے شیخ ہر مقالہ نگار کے مقالہ پڑھنے کے بعد سوال جواب کے سیشن میں اس کے یہاں موجودتاریخی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے اور اپنی وضاحتیں رکھتے ، اس وقت لائبریری کے ڈائریکٹر عابدرضا بیدار صاحب تھے ، انہوں نے بھانپ لیا ، پوچھا : صرف تاریخ یاد ہے تمہیں یا کچھ لکھا بھی ہے ؟ آپ نے بتلایا کہ معارف میں بعض تحریریں شائع ہوئی ہیں ۔ عابد رضا بیدار کو حیرت آمیز خوشی ہوئی اور پھر کیٹلاگنگ کا کام تفویض کردیا ۔ شیخ ہمارے بتاتےتھے کہ ایک ورقہ پر دس روپے ملتے تھے ، میں نےپہلے ہی دن کئی ورقے بھر دیے ۔ بیدار صاحب مسکرائے اور کہا : آرام سے کیجیے ، ایک دن میں پانچ بہت ہیں ۔ بقیہ اوقات میں آپ اپنےذوق کی چیزیں پڑھتے رہیں ۔

 جامعہ اسلامیہ آئے تو وہاں کی لائبریری میں یہ فريضہ انجام دیا اور شیخ حماد انصاری کی لائبریری میں اسی عمل سے جڑے رہے ، مکہ مکرمہ آئے تو ام القری یونیورسٹی کی لائبریری اور مکتبۃ الحرم المکی سے عمل کا یہ رشتہ برقرارر ہا۔

(4)         شیخ بتارہے تھے کہ پیسوں کی طرف بھاگنے کی بجائے میں نے ہمیشہ علم و تحقیق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔ اللہ پاک کی ہمیشہ مہربانی رہی کہ جب جب پیسوں کی ضرورت آپڑی ، اللہ نے اسی علم و تحقیق کی را ہ سے کوئی نہ کوئی سبیل نکال دی ۔بچوں کی تعلیم بھی ہوئی ، دہلی میں گھر بھی لیا اور کبھی کسی کا محتاج بھی نہ ہونا پڑا ۔ان مواقع سے ایسے علمی پروجیکٹس ملتے رہے جن سے یہ ساری راہیں آسان ہوگئیں ۔

(5)         شیخ نے آگے ایک بہت بڑی نصیحت کی اور بتلایا کہ میں نے ہمیشہ اس پر عمل کیا ۔آپ نے بتلایا کہ کبھی بھی کسی سے بھی اپنے کام کا پیسہ لیجیے ۔ کام کیجیے تو پیسہ لیجیے ورنہ کسی بھی نام پر پیسہ مت قبول کیجیے ۔شیخ نے بتلایا کہ یہ مالدار ملک ہے ، لوگوں کے پاس پیسے ہیں ، ہمارے بہت سےاحباب علمی استفادہ کے بعد مختلف حوالوں سے کوشش کرتے کہ مجھے پیسے دیں لیکن میں دوٹوک انداز میں کہتا کہ جب کبھی کوئی کام کروں گا تو پیسے لوں گا ویسےپیسے نہیں لے سکتا۔شیخ کی وفات کے موقع سے آپ کے ایک قریبی عرب عزیز نے بھی ہو بہو یہی بات بتلائی ۔ انہوں نے کہا کہ لاکھ کوشش کرتا کہ شیخ کسی طرح کچھ قبول کرلیں ، لیکن آپ بڑے باغیرت واقع ہوئے تھے ۔کچھ سرکاری کاموں میں پیسے لگ جاتے تو آپ ایک ایک پیسہ باضابطہ چکاتے اور ہماری لاکھ کوشش پر بھی اس کے خلاف کوئی بات قبول نہیں کرتے۔ہمارے شیخ نے نصیحت کی کہ پیسے قبول کرتے ہی آپ اپنی حیثیت کھو دیتے ہیں ، پھر آپ کے لیے حق کہنا اور اپنے وقار کے ساتھ رہنا آسان نہيں رہ جاتا۔

(6)         شیخ بتاتے تھے کہ طالب علم کو مستقبل سے ڈرنے کی بجائے ایمانداری سے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے ، اچھی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے ، اللہ پاک روزی روٹی کا سامان کرہی دیتا ہے،انسان اپنی روزی پوری کیے بغیر مر بھی نہیں سکتا۔آپ علم دین کے حاملین کے یہاں دنیا داری اور مادیت پرستی کے رجحان کو بہت گھاتک خیال کرتے تھے ۔

(7)         میں نے شیخ کے یہاں ایک بہت بڑی خوبی دیکھی ، مجھے محسوس ہوتاہے کہ ایسا اللہ کے بہت خاص بندوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ آپ کو چاہے جیسے حالات پیش آجاتے ، گھریلو زندگی سے لے کر بقیہ دوسرے امور تک میں، چاہے جس قسم کی پریشانی آجاتی ، آپ بہت زیادہ پریشان نہيں ہوتے تھے ۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے دعا کے ساتھ جو کوشش کرسکتے تھے وہ کرتے تھے اور نتیجہ اللہ کے حوالے کرکے پھر سے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔میں اپنے تعجب کا اظہارکیا کرتا تھا ۔ شیخ فرماتے تھے کہ نتیجہ کیا ہمارے آپ کے ہاتھ میں ہے ؟ نہیں نا ؟ اللہ پاک کے حوالے کیجیے اوریقین رکھیے ، اللہ پاک اچھا حل نکالے گا ۔الحمد للہ اللہ پاک نے ہمارےشیخ کو ہر معاملے میں سرخرو کیا ۔آپ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔اس بڑی خوبی کی وجہ سے آپ کو اپنے کام میں توجہ مرکوز رکھنے کا بھرپور موقع ملتا تھا ۔

(علمی و فکری اصلاح کا طریقہ )

ہمارے شیخ رحمہ اللہ مخطوطات کی قرائت ، شناخت اور وجود کے سلسلے میں عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتے تھے ۔آپ ملکوں کا دورہ لائبریریوں سے استفادہ کے لیے اور محققین علماء سے ملنے کے لیے کرتے تھے ۔ کویت کے ایک سفر کے بارے میں بتاتے کہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد ایک ہندوستانی بزرگ نے پوچھا کہ آپ کس ادارے سے آئے ہیں ؟ شیخ نے کہا جوابا کہا کہ میں کسی ادارے سے نہیں آیا ، لائبریریوں میں بعض کتابیں ڈھونڈنے اور اہل علم سے ملاقات کی غرض سے آيا ہوں ۔بزرگ نے جواب دیا : اچھا ، تو کوئی کویت بھی اس غرض سے آتا ہے !!!

 ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علمی تراث کے ساتھ ہی ان کے خط کو پڑھنے اور سمجھنے کےمعاملے میں آپ کو سند کا درجہ حاصل تھا ۔ایک موقع سے امام حرم معالی الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ نے ترکی کا سفر کیا تو وہ وہاں سے بعض نادر مخطوطات لے کر آئے ، شیخ کوفون کیا اور مخطوطات دکھلا کر رائے لی ، ساتھ ہی ایک کرسی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ کرسی آپ کے انتظار میں ہے ۔ شیخ نے مخطوطات دیکھ کر بتلادیا کہ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریر نہيں اور چوں کہ آپ پہلے سے ہی ایک ادارے سے وابستہ تھے ، اس لیے دوسری پیش کش سے معذرت کرلی ۔ دلچسپ بات دیکھیے کہ ابھی ہمارے شیخ مکتبۃ الحرم المکی میں ہی قسم المخطوطات کے تحت نادر مخطوطات پر کام کررہے تھے ۔

 قاضی مکہ محمد الرفاعی رحمہ اللہ کے یہاں شیخ کے ساتھ جب جب جانے کا موقع ملا ، انہوں نے شیخ کی تعریف کرتے ہوئے « علامہ « اور شیخ نے اس پر استغفر اللہ ضرور کہا ۔واضح رہے کہ قاضی محمد الرفاعی کا مکتبہ شخصی مکتبات میں اپنی نمایاں شان رکھتا ہے۔علمی تراث کی معرفت اور اس کے استحضار میں آپ کی مثال ملنی مشکل تھی ۔ اس میدان کے ماہرین بھی آپ کو « ساحر « جادوگر کہا کرتے ۔محمود محمد طناحی جو اس میدان کے بڑے ماہرین میں سے تھے، آپ کو بہت پہلے سے میمنی الصغیر کہتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی شان عظیم ہونے والی ہے ۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی کی تحقیق و تصنیف میں کوئی خامی دیکھتے تو اسے قلم بند کرتے اور مصنف کو اپنے استدراکات بھیج دیتے ۔ محمود محمد شاکر ، بکربن عبداللہ ابوزید اور محمود طناحی وغیرہ سے آپ کے تعلقات کی اساس یہی طرز عمل بنا۔ آپ ان بزرگوں کی وسعت نظر اور علمی گیرائی و گہرائی کے ساتھ اعتراف حق کے جذبے کی خوب تعریف کرتے ۔

فرانس گئے تو ڈاکٹر حمید اللہ سے ملے ۔ خود ڈاکٹر حمید اللہ کو تعجب تھا کہ یہ پہنچ کیسے گئے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی سادگی ، وسعت مطالعہ ، زبان دانی اور جذبہ اشاعت اسلام کی بھرپور تعریف کرتے ۔ان کےپورے تراث کی جمع و ترتیب پر کام کررہے تھے ۔عبدالصمد شرف الدین ، قاضی اطہر مبارک پوری اور ان جیسے دوسرے اور محققین سے جاکر ملے ۔ہمارے شیخ ان بزرگوں کی سادگی اور بے تکلف زندگی کو بیان کرتے اور علم و تحقیق کی دنیا میں ان کے مقام پرروشنی ڈالتے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کے گہرے مطالعے کی داددیتے ۔ ایک واقعہ اکثر سناتے کہ ایک مجلس میں ایک صاحب نے ایک لفظ کے بارے میں کہا کہ کتاب میں ایسے ہے اور آپ نے کچھ ایسے لکھا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کو وہم ہوا ہے ، اصل چیک کرلیجیے اور بتلایا کہ اصل میں ویسے ہی ہے ۔اور واقعی معاملہ ویسا ہی تھا۔

فواد سزگین کے بارے میں بتاتے تو آنکھیں چمک جاتیں ، تحقیق کے باب میں ان کے بعض عجیب وغریب رویے کو تحسین آمیز انداز میں بیان کرتے ۔محمد مصطفی اعظمی اور ضياءالرحمن اعظمی دونوں بزرگوں کا ذکر خیر اکثر کرتے ۔ محمد مصطفی اعظمی کی اس تحقیق کی بطور خاص داد دیتے جس سے انہوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ احادیث کے سلسلے میں جو یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ یہ سب بعد میں لکھی گئی ہیں ، وہ کس قدر بے بنیاد ہے ۔ خود یورپ جاکر انہیں آئینہ دکھانے میں کامیاب رہے ۔الجامع الکامل چھپ کر آئی تو بہت خوش ہوئے اور اس کام کو سراہنے کے ساتھ اس کی وقعت بھی بیان کی ۔

تحقیق تراث کے معاملے میں ان کی نظر اردو کے تراث اور محققین پر بھی لاجواب تھی ۔ قاضی عبدالودود ، امتیاز علی عرشی ، حافظ محمود شیرانی، غلام رسول مہر ، مشفق خواجہ،رشید حسن خاں اور مالک رام وغیرہ کا نام عزت سے لیتے اور تحقیق کے باب میں ان کی خوبیوں اور خامیوں پر زبردست گفتگو کرتے ۔شمس الرحمان فاروقی کے علمی ، ادبی اور تحقیقی کاموں کو سراہتے لیکن میر سے متعلق شعر شور انگيز کے بارے میں آپ کی رائے تنقیدی زیادہ تھی ۔ غالب کے مقابلے میں آپ میر کو نسبتا کمتر درجے کا شاعر شمار کرتے تھے ۔اردو شعراء میں آپ غالب کے بہت قائل تھے ۔بتاتے تھے کہ جب پہلی بار سعودیہ آیا تو میرے پاس مصحف کے علاوہ « دیوان غالب» تھا۔

فاروقی سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے اور بتاتے کہ ایک عرب عروضی عالم نےایک کتاب لکھی تھی جس میں ثابت کیا گيا تھا کہ شعراء جب رزم و بزم آرائی اور مسرت و خوشی سے متعلق احساسات کو بیان کرتے ہیں تو ایک طرح کے بحور و اوزان کا استعمال کرتے ہیں اور جب حزن وملال اور غم و الم اور تکلیف کے احساسات بیان کرنے ہوں تو دوسری طرح کے بحور و اوزان کا استعمال کرتے ہیں ۔ میں نے فاروقی صاحب سے جب اس سلسلے میں استفسار کیا توانہوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور خراب لہجے میں کہا کہ کون ایسی بات کرتا ہے ۔ ہمارے شیخ بتاتے تھے کہ عرب عالم کی کتاب میں دلائل کی بہتات تھی !!!

یہاں یہ وضاحت بھی فائدے سےخالی نہ ہوگی کہ ہمارے شیخ عروض کے ماہر اور اس میں اپنی خاص راہ رکھتے تھے ۔ اسے ایک دن ایک رات کا علم کہتے تھے اور اسے پڑھانے کے سلسلے میں اپنا خاص طریقہ متعین کیے ہوئے تھے ۔ کبھی کبھی جب اپنی کوئی غزل سناتا تو فنی خامیوں سے آگاہ کرتے ،اچھے شعر پرداد دیتے اور جھٹ بتلا دیتے کہ غزل کس وزن اور کس بحر میں ہے ۔ آپ راگ سے واقف تھے اور آواز کی حیرت انگیز معرفت رکھتے تھے ۔

ہمارے شیخ کسی کو بھی نیچا دکھانے کا مقصد نہیں رکھتے تھے ، جس کے یہاں علم کی خوشبو نظر آتی ، اسے اس کی علمی خامیوں سے آگاہ کرنے کا ہمیشہ یہی طریقہ اپناتے کہ اسے ہی خط لکھ کر بتاتے ۔ اس کا کہیں کوئی ڈھونڈورا نہیں پیٹتے ۔ تعلیمی اداروں میں موجود خامیوں کو دور کرنے سے متعلق بھی آپ کا یہی رویہ تھا کہ آپ براہ راست ادارے کے ذمہ دار کو اپنی رائے لکھ بھیجتے ۔ رائے منوانے کا کوئی اصرار نہیں ہوتا۔ایم ، اے ۔ پی ايچ ڈی کے طلبہ کو مقالہ لکھنے کے لیے موضوعات کے انتخاب میں بھرپور مدد دیتے ، خطہ تیار کردیتے ، مراجع مصادر بتا دیتے اور کہیں ذکر تک نہیں کرتے ۔کوئی اپنی کتاب نظر ثانی کے لیے دیتا یا اصلاحات چاہتا تو کردیتے لیکن یہ خواہش کبھی نہیں ہوتی کہ اس کام کے لیے کہیں ان کا نام ذکر کیا جائے ۔ایک صاحب کی ایک کتاب چھپ کر آئی ، کتاب کے سر ورق پر آپ کا نام درج تھا ، آپ کو یہ چیز پسند نہیں آئی ۔

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

(آج کل آپ کیا کررہے ہیں ؟ کیا پڑھ رہے ہیں ؟)

(1)         ہمارے شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ حقیقی معنوں میں فنا فی العلم تھے ۔ اگر آپ کہیں چلے جاتے یا میں کسی وجہ سے کئی دنوں تک مل نہیں پاتا ، حی الھجرہ میں رہتے ہوئے جب کئی کئی دنوں بعد ملاقات ہوتی تو علیک سلیک کے بعد سب سے پہلا سوال یہی کرتے کہ آج کل کیا کررہے ہیں ؟ کیا کچھ لکھ پڑھ رہے ہیں ، کچھ لکھا ہو تو دکھائیے ، پڑھا ہو تو بتائیے ۔بعض بسا اوقات تو کچھ بھی نیا کیا ہوا نہیں ہوتا توشرمندگی محسوس ہوتی ، اگر کسی ایسی کتاب کا تذکرہ کرتا جو شیخ کی نظر سے نہیں گزری ہو تو حکم فرماتے کہ ہمیں بھی دکھلائیے ۔آپ طلبۃ العلم کو طلب علم میں مشغول دیکھنا چاہتے تھے ۔ اکثر ناراض ہوتے کہ یہ کیا آپ فیس پرزیادہ تر لگے رہتے ہیں ، اس سے نکلیے ، کچھ ٹھوس کام کیجیے ۔

(2)         آپ برصغیر ہندوپاک کے سعودی عرب کی یونیورسیٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ سے یہ توقع رکھتے تھے کہ جب وہ پہلے ہی ایک ادارہ سے پڑھ کر فارغ ہو کر آئے ہوئے ہیں اور مزید تعلیم حاصل کررہے ہیں تو انہیں اپنا مشغلہ خالص علمی بنانا چاہیے اور زیادہ توجہ اعلا صلاحیت کے پیدا کرنے میں لگانی چاہیے ۔ آپ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ یہ طلبہ مشائخ کے عمومی دروس میں حاضر ہوں ، آپ کا ماننا تھا کہ مساجد میں دیے جانے والے اکثر دروس عام لوگوں کے لیے ہوتے ہیں ، ان سے عام آدمی فائدہ اٹھائے گا ، طلبہ کو تو خود کو تیار کرنا چاہیے کہ وہ علمی ضرورتیں پوری کرسکیں اور جب فارغ ہوں تو خود اس قسم کے درس دے سکیں ۔ان کا ماننا تھا کہ طلبہ کو زیادہ وقت لائبریری میں گزارنا چاہیے ، علمی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرنی چاہیے اور اہل علم سے بھی ملنا چاہیے لیکن زیادہ توجہ کتابوں کے مطالعہ پر مرکوز رکھنی چاہیے ۔

(3)         طالب علم سے باتیں کرتے ہوئے وہ اندازہ لگا لیتے تھے کہ اس کی دلچسپی کیا ہے اور اس کے اندرکس قسم کی صلاحیت پائی جاتی ہے ، آپ اکثر اس کے حسب حال مشوروں سے نوازتے تھے ۔ جس مسجد میں نماز ادا کرتے تھے ، اس کے آس پاس ام القری یونیورسٹی کے طلبہ بڑی تعداد میں تھے ، نمازوں کے بعد اکثر ان کے ساتھ دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے ۔ آج بھی طلبہ اس سلسلے کو « اسٹینڈنگ کانفرنس « کے نام سے یاد کرتے ہیں اور شیخ کے نفع رسانی کے جذبہ اور سادگی کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں ۔

(4)         آپ نے مختلف مواقع سے خاکسار کو بڑے اہم علمی مشورے دیے ۔ آپ چاہتے تھے کہ میں افسانہ نویسی ، فیس بک کے پوسٹس اور غیر ضروری مشغولیتوں سے نکلوں اور ٹھوس علمی کام کروں ۔ آپ بعض عربی کتابوں کے اردو ترجمہ تو بعض اہم اردو کتابوں کے عربی ترجمہ کی ضرورت پر زور دیتے تھے ۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی « ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک « کے ترجمہ کے لیے آپ نے باضابطہ حکم دیا ، میں نے اس سلسلے میں اپنی آمادگی بھی ظاہر کی ، دو چار قدم بڑھا بھی اور پھر تساہل کا شکار ہوگیا ۔ اب جب کہ شیخ ہمارے بیچ نہیں ہیں ، خود میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ مجھے شیخ کے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق بخشے ۔اس کےعلاوہ بھی آپ کئی اہم اردو کتابوں کے عربی ترجمہ کی ضرورت پر زور دیتے تھے ۔ کبھی کبھی خفگی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ جب تک فیس بک سے نکلیے گا نہیں ، یہ سب علمی کام نہیں کر پائیے گا اور صلاحیت بے مطلب ادھر ادھر ضائع ہو جائے گی ۔آپ نےاردو کی ایسی بہت سی کتابوں کی باضابطہ فہرست بنائی ہوئی تھی جنہیں عربی کے قالب میں ڈھالا جانا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپ مختلف علمی موضوعات کی طرف اشارے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم الٹی سیدھی چيزوں سے نکل کر ان میں لگ جائیں تاکہ ضروری اور منظم کام ہوسکے ۔

(5)         ہم لوگ جب مکہ مکرمہ آئے تو شیخ کو خوشی ہوئی ۔ ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، ڈاکٹر حشرالدین مدنی اور خاکسار کے ساتھ آپ نے ایک علمی مجلے کا خاکہ تیار کیا ۔ ہم لوگ حی الھجرہ میں واقع شیخ کے دفتر میں جمع ہوئے ، سارے امور زیربحث آئے ۔ زور اس پر تھاکہ بر صغیر کے علمی و فکری سرمایوں سے عرب دنیا کو آگاہ کیا جائے ۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ ہم پہلے ایک دو شمارےنکال کر دکھائیں پھر دیکھیں گے کہ اہل علم کی کیا رائے بنتی ہے ۔ ہم پرجوش بھی بہت تھے ، ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی بطور خاص اچھی دلچسپی لے رہے تھے لیکن پھر ہم اپنی سہل انگاریوں کی نذر ہوگئے اور ایک بڑا کام ہو تے ہوتے رہ گيا !!!

(6)         شیخ کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ نئی نسل کی کا وشوں سے آگاہ رہنا چاہتے تھے ۔ آپ کے پاس جب کوئی چيز پہنچتی اور اس میں کوئی خوبی دیکھتے تو اس کا اظہار کرتے تھے ۔ بتاتے تھے کہ فلاں صاحب کی فلاں چیز اچھی ہے ، انہوں نے اچھا ترجمہ کیا ہے ، تعریب اچھی ہے ۔ کوئی خامی نظر آتی تو اسے بھی بیان کرتے لیکن خیر خواہی اور اصلاح کا جذبہ بہت واضح رہتا۔ہمارے ساتھی مترجمین کا ذکر چلتا اورمیں ڈاکٹر حشرالدین مدنی کی عربی زبان ولغت سے متعلق گہری معرفت کا ذکر کرتا تو کہتے کہ پھر وہ کام کیوں نہیں کرتے ؟ صرف خطبوں کے ترجمہ سےاس صلاحیت کے ساتھ انصاف ہو جائے گا ؟ جب آپ کو پتہ چلا کہ حشرالدین صاحب مولانا آزاد کی کتاب « تذکرہ» کا عربی ترجمہ کررہے ہیں تو بہت خوش ہوئے ۔ اکثر ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کی اس خوبی کی داد دیتے کہ وہ ہرچند مہینوں پر کوئی نہ کوئی کتاب منظر عام پر لانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ آپ چاہتے تھے کہ ہم بقیہ لوگ بھی کسی موضوع پر باضابطہ خاکہ کے تحت کام کریں اور علم وادب کی خدمت ہو ۔

(7)         کتابوں سے ایسی محبت کم کسی کے حصے میں آتی ہے۔ام عبداللہ جہاں لے جانے کو کہتیں ، شیخ لے کر جاتے ۔ وہ اپنی خریداری میں مصروف ہو جاتیں ، شیخ بالعموم گاڑی ہی میں بیٹھے رہتے یا کسی جگہ اتر کر بیٹھ جاتے اور کتابیں پڑھتے رہتے ۔ پھر جب ام عبداللہ کا فون آجاتا کہ اب وہ ساری خریداری سے فارغ ہوچکی ہیں تو سامان وغیرہ گاڑی میں لا کر رکھتے اور پھر گھر کو لوٹ جاتے ۔ کہا کرتے تھے کہ اس ترکیب میں بڑا فائدہ ہے ۔ خواتین کو مرضی کے مطابق خریداری کا موقع مل جاتا ہے ، اپنا کوئی وقت ضائع نہیں جاتا اور بے مطلب کی کوئی تکرار بھی نہيں ہوتی !!!

(8)         اللہ کی منشا دیکھیے کہ آپ کی موت بھی اسی حالت میں آئی جب آپ دارالحدیث کے ایک طالب علم کو یہ بتا رہے تھے کہ مطالعہ کیسے کرنا ہے ،لغت سے استفادہ کیسے کریں گے ، حدیث کے باب میں حدیث کے حکم کی کیا اہمیت ہے اور حدیث سے فوائد کیسے مستنبط کرنے ہیں ۔آپ نے پوری زندگی اسی راہ پر چلتے ہوئے گزاری ۔ علم ، اہل علم اور طلبۃ العلم سے محبت کی ، ان سب کی خدمت کی ، انہیں فائدہ پہنچایا ، اسی راہ پر چلتے ہوئے آخری سانسوں تک علمی رہنمائی کی اور علم اور طلبۃ العلم کی خدمت کرتے ہوئے راہی دار بقا ہوگئے ۔

بنا کر دند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

(اردو زبان و ادب کے رمز شناس )

ہمارے شیخ کو پوری دنیا میں محقق اور ماہر تراث ابن تیمیہ اور ابن قیم کی حیثیت سے جانا گيا جس کے آپ بجا طور پر مستحق تھے لیکن اس شہرت کے پیچھے بہت ساری حیثیتیں چھپ بھی گئیں جیسے یہ کہ آپ کا اصل اختصاص عربی زبان و ادب میں تھا اور آپ عربی زبان میں باضابطہ «لغوی « کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کی تحقیقات پڑھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والوں کو اس کا احساس ہوگا ۔آپ کے کاموں میں شریک اور ستائیس سال تک ایک ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر علی عمران نےبہت سلیقے اور وضاحت سے بتلایا کہ ہمارے شیخ کو اس سلسلے میں کیسی مہارت حاصل تھی ۔آپ نے بتایا کہ ایک کامیاب محقق کے اندر جتنی خوبیاں پائی جانی چاہیے تھیں وہ شیخ محمد عزیر کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں ۔

 آپ کو ہزاروں عربی کے اشعار یوں ہی یاد تھے اور ان کی نسبت کے بارے میں آپ کی معرفت حیرت انگيز تھی ۔ہم جب کبھی عربی کا کوئی لفظ بولتے ، آپ کے سامنے عبارت پڑھتے اور کہیں کوئی لفظ غلط ادا ہو جاتا تو آپ بروقت تصحیح فرماتے اور ضبط کلمہ کی اہمیت سے روشناس کراتے ۔ہم جب ان شاءاللہ تعالی آپ کی علمی تصنیفات ، تحقیقات او رترجموں پر لکھیں گے تو ان گوشوں کو بہ دلائل مبرہن کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ پاک توفیق دے۔

عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ ہمارے شیخ اردو کے علمی و دینی سرمایوں پر حیرت انگيز گہری نظر رکھتے تھے ۔ تاریخ ، سیرت ، فقہ ، اصول فقہ ، حدیث ، اصول حدیث ، فلسفہ ، منطق ، تذکرہ ، مناظراتی ادب ، تاریخ اہل حدیث ان تمام موضوعات پر لکھی گئی اردو کتابوں ، مواد ،سال اشاعت ، مختلف ایڈیشنس اور بقیہ دوسری تفصیلات سے آگاہ تھے اور یہ ساری چيزیں آپ کو یاد تھیں ۔ ہم معلومات کے تنوع کے ساتھ اس یادداشت پر محو حیرت رہا کرتے تھے ۔

زبان و ادب کی معرفت کا یہ دائرہ عربی ، اردو ، فارسی اور انگریزی تک پھیلا ہوا تھا ۔ آپ اردوزبان وادب کے باضابطہ عالم تھے ۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب آپ اردواور فارسی میں شاعری بھی کرتے تھے ۔آپ نے ایم اے کا مقالہ « حالی کی شاعری اور تنقید میں عربی کی تاثیر « پر لکھا تھا اور آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے « ہندوستان کی عربی شاعری کا تنقیدی جائزہ « موضوع منتخب کیا تھا ۔ سب کچھ لکھ چکے تھے ،افسوس کہ مشرف سے بعض علمی پوائنٹس پر اختلاف کی وجہ سے آپ کو پی ايچ ڈی کی ڈگری تفویض نہ کی گئی جس کا آپ کو کوئی ملال بھی نہیں تھا ، اسے اللہ کی حکمت سمجھتے تھے اور اپنے علمی ، تحقیقی اور فکری کام پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ۔

ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ اردو زبان وادب کے باضابطہ عالم تھے تو ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ زبان کی تاریخ ، لسانیاتی پہلو ، تحقیق ، تنقید ، فکشن ، شاعری ، علمی نثر اور طنز ومزاح کے سرمایہ پر نہ صرف یہ کہ نظر رکھتے تھے بلکہ آپ کو اس سلسلے میں تنقیدی اور تحقیقی بصیرت حاصل تھی ۔ مصنفین اور ان کی تصنیفات یاد تھیں ، مواد کے معیار سے واقف تھے اور مقابلہ و مقارنہ کی عجیب وغریب صلاحیت پائی جاتی تھی ۔ ہم جب اردو زبان وادب پر گفتگو چھیڑتے تو ہمیں بس یہی لگتا کہ آپ کا تعلق صرف اردو زبان و ادب سے ہی ہے ۔

آپ لسانیاتی مباحث میں حافظ محمود شیرانی ، محی الدین قادری زور ، شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارگ کو اہمیت دیتے تھے اور ان کے نظریات کی قوت وضعف پر سیر حاصل تبصرہ کرتے تھے ۔ تحقیق کے معاملےمیں امتیاز علی عرشی ، قاضی عبدالودود اورمشفق خواجہ وغیرہ کے قائل تھے اور ان کی جاں فشانی اور موضوع سے متعلق ایمانداری اور اصول تحقیق کو برتنے کی تعریف کرتے تھے ۔ مالک رام کو آپ مسلمان سمجھتےتھے ، آپ کی ان سے ملاقات تھی ۔ کہتے تھے کہ ان سے جب میں نے آٹوگراف مانگا تو انہوں نے وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَلکھ کردستخط ثبت کردیا تھا ۔

تنقید میں حالی اور شبلی کے بعد کلیم الدین احمد کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ آپ مقدمہ شعر و شاعری اور شعر العجم کے علاوہ اردو شاعری پر ایک نظر اور اردو تنقید پر ایک نظر پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے ۔آل احمد سرور کے بارےمیں میرے اس خیال کی تائید کرتےتھے کہ ان کی تنقید میں دوٹوک رویہ نہیں پایا جاتا ۔کلیم الدین احمد کے یہاں اس وصف کی تائید کرتھے ۔ میں جب اسے ان کے مسلک ومشرب سے جوڑنے کی کوشش کرتا تو دوسرے علمی وادبی زاویوں کی طرف اشارہ کرتے ۔اسی طرح حسن عسکری کے بھی آپ قائل تھے ۔ آج کے زيادہ تر تنقید نگاروں کے بارے میں آپ کی رائے بہت مثبت نہیں تھی ۔

شعراء میں آپ غالب سے متاثر تھے ۔ اس کے مقابلے میں کسی کو نہیں دیکھتے تھے ، ویسے تمام کلاسیکل شعراء کی اہمیت کو مانتے تھے اور چاہتے تھےکہ نئی نسل پہلے انہیں ٹھیک سے پڑھے ۔ حالی کی شاعری کی تعریف کرتے تھے ۔ « مسدس « کے بارےمیں آپ کا خیال تھا کہ ہر طالب علم کو اسے یاد کرلینا چاہیے ۔ فضا ابن فیضی کی زبان پر گرفت اور کلاسیکل طرز ادا کے بہت قائل تھے ۔ ان کی بعض ترکیبوں کو پیش کرکے اس کے حسن پر باتیں کرتے تھے ۔ خاکسار چوں کہ فضا صاحب سے متاثر رہا ہے ، اس لیے جب کبھی ان کے بعض اشعار دوران گفتگو پیش کرتا تو خوش ہوتے جیسے فضا کا یہ شعر ؛

جہاں عاجز رہی دانش عقیدے کام آئے

نہ تھا کچھ سہل ، ناموجود کو موجود رکھنا

اقبال کے قائل تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی شاعری کے ساتھ ان کے خطبات سے بھی طلبہ آگاہ ہوں تاکہ باضابطہ علمی اور تنقیدی جائزہ لے سکیں ۔ عام اسلامی جذبہ بیدار کرنے میں شاعر مشرق کے کردار کو سراہتے تھے اور کہتے تھے کہ اس خاص زاویے سے اقبال کا دور دور تک کوئی مد مقابل نہيں ۔آج کے زيادہ تر شعراء کے بارے میں رائے بہت مثبت نہیں تھی ۔ ایک محفل میں نصیر ترابی کی آپ نے تعریف کی تھی ۔ میں بعض جدید شعراء کےاشعار سناتا تو ان کے یہاں تجدد آمیز رویے کوآپ مستحسن نظر سے نہيں دیکھتےتھے ۔

علمی نثرکے معاملےمیں آپ سرسید ،شبلی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، سید سلیمان ندوی اور عزیز احمد کی کتابوں کے اردو مترجم جمیل جالبی وغیرہ کے قائل تھے ۔ سرسید کےدینی افکار کے شدید ناقد تھے اوراسے ان کے تعلیمی مشن کےلیے نقصاندہ بھی تصور کرتے تھے ۔ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی « سیرۃ النبی « کی تعریف کرتے تھے ۔ شبلی کی تنقیدی بصیرتوں کے بھی قائل تھے اور ان کی ہمہ جہتی کی داد دیتے تھے۔ سید سلیمان ندوی کی « خطبات مدراس» کو یاد کرلینے کا مشورہ دیتے تھے ۔ ان کی « ارض القرآن « کے ساتھ « یاد رفتگاں « کی بھی تعریف کرتے تھے۔حالی کی نثری تصنیفات میں سوانحی سلسلے کو بعض خامیوں کے باوجود بہت اہم خیال کرتے تھے ۔مولانا ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ آپ چاہتےتھے کہ اس کی پہلی جلد کا عربی ترجمہ ہو جائے ۔غبار خاطر اور تذکرہ کو بھی کم اہم نہيں سمجھتے تھے ۔سیاسی نظریےمیں بھی مولانا آزاد کو سراہتے تھے ۔ آزادی کے بعد مولانا نے ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے سرمایوں کی حفاظت میں جو زبردست کردار ادا کیا ، اس کی بطور خاص تحسین کرتے تھے ۔ « آزادیات» کے پورے علمی مواد پرآپ کی گہری نظر تھی ۔شیخ اکرام کے رود کوثر ، آب کوثر اور موج کوثر کے پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے ، ان تینوں سلسلوں کی خامیوں اور خوبیوں پر بصیرت افروز گفتگو کرتے تھے ۔اپنے حلقہ احباب میں مولانا ابوالقاسم فاروقی صاحب کی اردو زبان پر گرفت ، مزاح نگاری اور مضمون نویسی کی کھل کر تعریف کرتےتھے اور چاہتے تھے کہ ان کی زیادہ سےزيادہ چيزیں چھپ کر منظر عام پر آجائیں ۔

اردو فکشن میں ڈپٹی نذیر احمد ، راشدالخیری اور عبدالحلیم شرر کے بعد ترقی پسند تحریک کے تحت لکھے گئے بعض ناولوں کو فنی اعتبار سے سراہتے تھے لیکن فکر ونظر کے اعتبار سے ان کے قائل نہ تھے ۔ ابن صفی کی خوب تعریف کرتے تھے ۔ انتظار حسین کے بعض ناولوں کو اہمیت دیتے تھے ۔ تاریخی ناولوں کا آپ نے مطالعہ کیاہوا تھا ، ان میں بعض کی تعریف کرتےتھے ۔نیاز فتح پوری پر سخت تنقیدکرتے تھے اور اس کے رویوں پر اپنے غصے کا اظہار کرتے تھے۔ اس طرف آکر جو ناول لکھے گئے ہیں ، ان سے ہمارے شیخ اپنی ناواقفیت کا بر ملا اظہار کردیتے تھے اور کوئی رائے نہیں دیتے تھے ۔کسی معاملے سے اپنی عدم واقفیت کے اظہار میں آپ کے جیسی شفافیت کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔

اردو طنز ومزاح میں رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، مشتاق احمد یوسفی ، ابن انشاء، کرنل محمد خاں، مشفق خواجہ اور عطاءالحق قاسمی کو سراہتےتھے۔یوسف ناظم اورمجتبی حسین کے کچھ ویسے قائل نہ تھے ۔ میں جب ان دونوں کا ذکر کرتا تو یوسفی کے مقابلے میں ان کی کم مائگی پر دلائل دیتے تھے ۔یوسفی کی تمام تحریریں ، رشیداحمد صدیقی کی « آشفتہ بیانی میری « اور « خنداں « ابن انشاء کی «اردو کی آخری کتاب» اور « آوارہ گرد کی ڈائری « کرنل محمد خان کی « بجنگ آمد « پطرس بخاری کی « پطرس کے مضامین « مشفق خواجہ کی « خامہ بگوش کے قلم سے « اور عطاء الحق قاسمی کی « شوق آوارگی « وغیرہ کو پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے ۔

رشید احمد صدیقی کے خاکوں کی تعریف کرتھے ۔ گنجہائے گراں مایہ پڑھنے کو کہتے ۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کے « پرانے چراغ» کو بھی سراہتے تھے ۔ مولانا اسحاق بھٹی کی تحریروں کو پسند کرتھے ، جن شخصیات کو بھٹی صاحب نے قریب سے دیکھا تھا اور جن کے بارے میں قلم برداشتہ لکھا ہے ، ان خاکوں کو فنی اعتبار سے زيادہ اہمیت دیتے تھے ۔

اس سلسلے میں افسوس یہ رہ گيا کہ میں ان موضوعات پر آپ سے باضابطہ لائیو گفتگو بھی نہ کرسکا اورآپ نے باضابطہ کوئی تصنیف بھی نہیں چھوڑی جب کہ اس معاملے میں آپ کی رہنمائی ہماری نسل کےلیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ۔

آنے والی نسلیں تم پرفخر کریں گی ہم عصرو

جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے

فراق گورکھپوری

(وہ شخصیات و واقعات جنہيں یاد کرکے روپڑتےتھے )

ہمارے شیخ محمد عزير شمس رحمہ اللہ کی پوری زندگی کتابوں میں گزری۔ آپ قرآن وسنت کو سلف کے منہج کے مطابق سمجھ کر ان پر عمل کرنے کے داعی تھے۔اس معاملےمیں جہاں نظریاتی اعتبار سے آپ اسلاف کے منہج پر زور دیتے تھے وہیں تزکیہ و سلوک ، اخلاق و آداب اور زہد وورع کے معاملے میں بھی آپ سلف کے منہج کو اپنانے کو ضروری سمجھتے تھے ۔آپ زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت پر عمل کو ضروری سمجھتے تھے اور اس پر زور دیتے تھے کہ ہر معاملے میں سلف کے طریقے کو دیکھنا چاہیے اور عملا انہیں برتنا چاہیے ۔

(1)         آپ نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علمی سرمایہ کی تحقیق و اشاعت میں نمایاں ترین حصہ لیا ، بہت سے ایسے رسائل چھاپے جنہیں سب سے پہلی مرتبہ روشنی میں لانے کی سعادت آپ ہی کو حاصل ہوئی ۔ آپ ان کا خط پڑھنے کے معاملے میں بھی عدیم النظیر تھے ۔ آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علمی سرمایے کے ساتھ ساتھ ان کے زہد وورع ، تقوی و پرہیزگاری اور اخلاق کریمانہ کا بطور خاص تذکرہ کرتے تھے ۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جس طرح اپنے مخالفین و معاندین کو مختلف مواقع سے بخش دیا ، جب ضرورت پڑی تو ان کا دفاع کیا اور ان میں سے بعض کی موت پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ۔ آپ اکثر ان اخلاق عالیہ کا ذکر کرتے اور بیان کرتے کرتے جذباتی ہو جاتے ۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے زہد فی الدنیا اور استغراق فی العبادۃ کی کیفیت بیان کرتے اور تزکیہ و طہارت کی اہمیت سے روشناس کراتے ۔آپ نظریاتی تمسک کےساتھ ساتھ عمل کی پابندی کو بہت ضروری خیال کرتے تھے ۔

(2)         شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کا ذکر چھڑتا تو ان کی خدمت اسلام اور رد شرک و بدعت کی مدح کے ساتھ ان کے اخلاق عالیہ کا ذکر ضرور کرتے ۔اکثر ان کے سلسلے میں سید سلیمان ندوی کی شہادت پیش کرتے کہ اسلام کے دفاع کے لیے جو سب سے پہلی آواز ہوتی ، وہ مولانا ثناءاللہ امرتسری کی ہوتی ، اسے پیش کرنے کے بعد ہمیں توجہ دلاتے کہ آخر آج اپنے اسلاف کے بالمقابل ہم کہاں کھڑے ہیں ۔آپ مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے بارے میں بتلاتے کہ کس طرح اپنے اوپر جان لیوا حملہ کرنے والے کے اہل خانہ کے ساتھ آپ نے برتاؤ کیا اور اسلامی اخلاق کی اعلا مثال پیش کی۔ان مواقع پر طاری کیفیت ایسی ہوتی کہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ۔آپ کا کمال یہ بھی تھا کہ کسی سے نظریاتی اختلاف کے باوجود اس کے یہاں اخلاق کی بلندی دیکھتے تو اس کا ذکر کرتے اور اس خاص زاویے سے اسے سراہتے تھے ۔چنانچہ جب آپ درالعلوم دیوبند گئے ، وہاں کی لائبریری سے استفادہ کیا اوروہاں کے ذمہ داروں نے اسلامی ضیافت کا نمونہ پیش کیا تو بہت متاثر ہوئے ۔ ان کے یہاں وقت کی پابندی کو بطور خاص بیان کرتےتھے اورخوش ہوتے تھے ۔

(3)         شیخ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا ذکر خوب کرتے۔ ابوزہرہ مصری کی کتاب « ابن تیمیہ ، حیاتہ و عصرہ ، آرائہ و فقہہ» کے اردو ترجمہ « حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ « پر آپ کے مقدمہ اور تعلیقات کی بطور خاص داددیتے اور استفادہ کرنے کو کہتے ۔ ان کے علم کی وسعت ، سلف سے محبت اور جذبہ خدمت علم واسلام کے واقعات سناتے ۔طلبۃ العلم سے ان کی محبت اور کتابوں کے معاملے میں ان کی فیاضی کو بیان کرتے ۔ کم ایسا ہوا کہ آپ نے شیخ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا ذکر کیا ہو اور آب دیدہ نہ ہوئے ہوں ۔ ان کا ذکر آجاتا تو خود کو کم ہی روک پاتے ۔ جب « آثار حنیف» چار جلدوں میں چھپ کر آئی ، آپ نے ان طلبہ کو دیا جن کے بارےمیں آپ کی رائے یہ تھی کہ وہ پڑھنے لکھنے سےشغف رکھتے ہیں ۔ چاروں جلدیں عنایت بھی کیں اور یہ بھی کہا کہ اچھی طرح پڑھیے ، استفادہ کیجیے اور رسالوں میں تبصرہ بھی کیجیے ۔

(4)         جب ہمارے مربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ۔ آپ کو مقبرۃ المعلاۃ میں دفن کیا گيا ، مٹی دینے والوں میں آپ بھی شامل تھے ۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ ڈاکٹر صاحب کا ذکر کرکے زارو قطار رورہے ہیں ۔آپ کہا کرتے تھے کہ جامعہ امام ابن تیمیہ ڈاکٹر صاحب کا شاہ کار ہے ۔ بڑا کارنامہ اور ان کا سب سے بڑا صدقہ جاریہ ہے ۔

(5)         جب حافظ الیاس صاحب کا انتقال ہوا اور اس کے بعد شیخ سے ملاقات ہوئی تو شیخ نے ذکر چھيڑ دیا اور دیر تک ان کے بارے میں بتاتے رہے ۔ ان کے یہاں تواضع اور نفع رسانی کے جذبے کی تعریف کرتے رہے اور دیر تک ضبط کی کوشش کے باوجود روتے رہے ۔بتاتے رہے کہ سماحۃ الشیخ کے اتنے قریب ہونے کے باوجود شیخ سے انہوں نے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں لیا اور ملت و جماعت کی بھلائی کی کوشش کرتے رہے ۔

(6)         پچھلے چند سالوں میں بطور خاص ملک عزیز میں جس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں ، انہيں لے کر آپ کافی فکرمند رہتے تھے ۔ ہندوستان میں موجود مواقع اور وسعت کو بیان کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ملت ان مواقع سے فائدہ اٹھائے ، آپ ہمیں تو یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہم بہت زیادہ ان چيزوں میں نہ پڑیں ، دعاؤں کا اہتمام کریں اور عملا جو ممکن ہو سکتا ہو وہ کریں لیکن وہ خود بھی مسلمانوں کے حالات بیان کرتے کرتے افسردہ ہو جایا کرتے تھے ۔جب کبھی کوئی اچھی خبر آتی تو خوش ہوجایا کرتے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے نجی طور پر کوئی نعمت حاصل ہوئی ہے لیکن ان تمام کے باوجود وہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کو بہت اچھا سمجھتےتھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اچھی حکمت عملی سے اپنے حقوق کی حفاظت کریں ۔وہ علاحدگی پسند سیاست کو سم قاتل سمجھتے تھے ۔

(7)         عالمی سطح پر مسلمانوں کو مضبوط اور قوت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ خانہ جنگی اور آپسی ٹکراؤ کے سخت خلاف تھےا ور مانتے تھے کہ اس سے سوائے کمزور ہونے کے اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔سنی مسلمانوں کے بعض وہ گروہ جو سعودی عرب کی دشمنی میں ایران کی حمایت کی غلطی کرتے ہیں ، انہيں نادان سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی ایران کو ویسی قوت حاصل ہوگئی تو سب سے پہلے انہی نادانوں کا نقصان ہوگا اور ٹھیک سے پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کیسی بھول کی ہے ۔اس سلسلے میں آپ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی فراست کے بڑے قائل تھے اور حق کہنے کےمعاملے میں ان کی جرات وبسالت کی بعض عملی مثالیں بیان کیا کرتے تھے ۔

جب نام تیرا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے