(1):جن کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کے لیے کیا ہے ۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ (الفتح : 29)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، آپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ (مسند أحمد : 3600 إسناده حسن )
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو قلب محمد ﷺ کو سب سے بہتر پایا اس لئے اللہ نے ان ہی کو اپنے لئے منتخب فرما لیا اور انہیں پیغمبری کا شرف عطاء کر کے مبعوث فرمایا: پھر قلب محمد ﷺ کو نکال کر دوبارہ اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو سب سے بہترین پایا، چناچنہ اللہ نے انہیں اپنے نبی کا وزیر بنادیا، جو ان کے دین کی بقاء کے لئے اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں۔
(2):جن کا امتحان اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ۔
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۰۰۳(الحجرات :3)
جن کے دل اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمالیے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔
(3):جن کے لیے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہے۔
وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَ زَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ (الحجرات : 7)
لیکن اللہ نے تمہارے لیے (صحابہ کرام)ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے۔
(4):جن کے لیے اللہ تعالٰی نے نافرمانی اورکفر کو ناپسند کیا ہے ۔
وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ۰۰۷ (الحجرات : 7)
اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنادیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
(5):جن کے ایمان کا دفاع بھی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۳
اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟ سن لو ! بیشک وہ خود ہی بیوقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔ (البقرة : 13)
(6):جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک آئیڈیل قرار دے دیا ہے۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١(البقرة :137)
اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقینا وہ ہدایت پا گئے
(7):جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا۔
رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ(التوبة : 100)
اللہ ان سے ( صحابہ کرام)راضی ہوگیا اور وہ اس ( اللہ تعالیٰ ) سے راضی ہوگئے
(8):جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ کہا ہے ۔
اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَۙ۰۰۷ ( الحجرات : 7)
یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
(9):جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جماعت کہا ۔
اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۲ (المجادلة :22)
یاد رکھو ! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
(10): جن کی سچائی کی تصدیق بھی اللہ تعالیٰ نے کی ہے ۔
اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(الحشر : 8)
یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
(11):جن کی کامیابی کی ضمانت بھی اللہ تعالیٰ نے دی ہے ۔
اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۲ (المجادلة :22)
یاد رکھو ! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
(12):جن کی مثالیں بھی اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں دی ہیں ۔
ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ(الفتح: 29)
یہ ان کی مثال تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی مثال ہے ۔
(13):جن کے رکوع و سجدوں کا تذکرہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح: 29)
تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔
(14):جن سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًاؒ۰۰۲۹ِ(الفتح: 29)
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
(15):جن سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے ۔
وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌؒ۰۰۱۰
ان سب سے اللہ نے اچھی جزا (جنت) کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔ (الحديد : 10)
(16):جن کے دلوں میں آپس کی محبت بھی اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے ۔
وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا(آل عمران : 103)
اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ۔
(17): جن کو اللہ تعالیٰ نے پوری امت کے لیے محافظ بنایا تھا ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ (صحيح مسلم : 2531 )
ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہوجائے گا تو پھر آسمان پر وہی آجائے گا جس کا وعدہ کیا گیا (یعنی قیامت)۔ تو میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ فتنے آئیں گے جن سے ڈرایا گیا ہے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے۔
(18): جن کے مٹھی بھر خرچ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کے احد پہاڑ سونا خرچ کرنے سے افضل بنایا ہے ۔
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ (صحيح البخاري : 3673)
(19):ان میں سے کوئی ایک غلطی کرتا تھا تو وحی کی صورت میں اس کی اصلاح کی جاتی تھی ۔
جیساکہ سیدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ جب واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے۔وہ فقراء مہاجرین میں سے تھے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی کفالت اور مالی تعاون کرتے تھے۔جب یہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سخت صدمہ پہنچا تھا ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی تھی کہ وہ آئندہ مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اصلاح کے لیے قرآن نازل فرمایا ۔
وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۲۲(النور : 22)
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
(20): یہ وہ لوگ تھے ۔اللہ پر قسم اٹھا لیتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی قسموں کی لاج رکھ لیا کرتے تھے ۔
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ الرُّبَيِّعَ عَمَّتَهُ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا، فَعَرَضُوا الْأَرْشَ ، فَأَبَوْا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَوْا إِلَّا الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ : يَا رَسُولَ اللهِ، أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ ؟ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « يَا أَنَسُ، كِتَابُ اللهِ الْقِصَاصُ «. فَرَضِيَ الْقَوْمُ، فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ «. (صحيح البخاري : 4500)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہ کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہوگئے اور انہوں نے معاف کردیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔
(21):ایک صحابی کی گواہی کو دو کے برابر قرار دے دیا جاتا تھا ۔
عَنْ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : نَسَخْتُ الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، فَفَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا، فَلَمْ أَجِدْهَا إِلَّا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ الَّذِي جَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ، وَهُوَ قَوْلُهُ : { مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ }.
(صحيح البخاري : 2807)
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید کو ایک مصحف (کتابی) کی صورت میں جمع کیا جانے لگا تو میں نے سورة الاحزاب کی ایک آیت نہیں پائی جس کی رسول اللہ ﷺ سے برابر آپ کی تلاوت کرتے ہوئے سنتا رہا تھا جب میں نے اسے تلاش کیا تو) صرف خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں وہ آیت مجھے ملی۔ یہ خزیمہ رضی اللہ عنہ وہی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی :
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ(الاحزاب: 23) مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا۔
(22): ان کو اگر قربانی کا مطلوب جانور نہیں ملتا تھا تو ان کو کھیرے جانور کی قربانی کی اجازت دے دی جاتی تھی ۔
عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ : « مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ «. فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ، وَاللهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ فَتَعَجَّلْتُ فَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ . فَقَالَ : إِنَّ عِنْدِي عَنَاقًا جَذَعَةً ، وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَهَلْ تُجْزِئُ عَنِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تُجْزِئَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ. (سنن ابي داود : 2800)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے روز نماز کے بعد خطبہ دیا اور فرمایا ’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ گوشت کی بکری ہے۔‘‘ ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اے اﷲ کے رسول! اﷲ کی قسم! میں نے نماز کے لیے آنے سے پہلے ہی قربانی کر دی ‘ میں نے سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے تو میں نے جلدی کی ‘ خود بھی کھایا اور اپنے گھر والوں اور ہمسایوں کو بھی کھلایا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’یہ تو گوشت کی بکری ہوئی۔‘‘ پھر اس نے کہا: میرے پاس بکری کا بچہ ہے جو جذع ہے اور یہ گوشت کی دو بکریوں سے بھی بڑھ کر ہے تو کیا یہ میری طرف سے کافی ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہاں ‘ لیکن تیرے بعد کسی کے لیے ہرگز کافی نہیں ہو گی۔‘‘
(23):جن سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے ۔
عن عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ – أَوْ سَاقَيْهِ – فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَوَّى ثِيَابَهُ – قَالَ مُحَمَّدٌ : وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ – فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ : دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ، وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ، وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ، وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ ؟ فَقَالَ : « أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ «. (صحيح مسلم : 2401)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں (اسی دوران) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کررہے تھے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا، روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کی بات ہے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے تو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑو ں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا (اے عائشہ! ) کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
(24):جن کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے اترتے تھے ۔
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ۠ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ۰۰۹ (الانفال : 9)
جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی کہ بیشک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔
(25):جن کی طرف آسمان سے فرشتے سلام بھیجا کرتے تھے ۔
عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا : « يَا عَائِشَ، هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ «. فَقُلْتُ : وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، تَرَى مَا لَا أَرَى ؟ تُرِيدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(صحيح البخاري : 3768)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا اے عائشہ! یہ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف فرما ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں میں نے اس پر جواب دیا وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ وہ چیز ملاحظہ فرماتے ہیں جو مجھ کو نظر نہیں آتی (آپ کی مراد نبی کریم ﷺ سے تھی) ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ. (صحيح البخاري : 3820)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آرہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہوگا اور نہ تکلیف و تھکن ہوگی۔
(26):جن کی موت کی وجہ سے رحمٰن کا عرش ہل جاتا تھا ۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا: اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ. (صحيح البخاري : 3803)
’’سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش رحمن ہل گیا تھا۔‘‘
یہ تھے محمد رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین