حدیث نبوی میں احد پہاڑ کا تذکرہ 

مدینہ منورہ کے پہاڑوں میں سے احد پہاڑ کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس پہاڑ کو پیارے پیغمبر ﷺ سے اور آپ علیہ السلام کو اس پہاڑ سے محبت ہوا کرتی تھی، اور اس پہاڑ سے کئی تاریخی یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں، آپ علیہ السلام نے کئی مقام پر اس پہاڑ کا ذکر فرمایا اور بعض اعمال اور ان کے اجر و ثواب کو بھی اس سے تشبیہ دیا، ہم ایسی چند روایات یہاں ذکر کرتے ہیں جن میں احد پہاڑ کا ذکر ہے۔

احد حد ودِ حرم میں ہے

سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

مَا بَيْنَ كَدَائ، وَأُحُدٍ حَرَامٌ، حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كُنْتُ لِأَقْطَعَ بِهِ شَجَرَةً وَلَا أَقْتُلَ بِهِ طَائِرًا

مدینہ منورہ کداء سے احد پہاڑ تک حرم ہے، اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حرم قرار دیا ہے، میں حدودِ حرم میں سے نہ کوئی درخت کاٹتا ہوں اور نہ کسی پر ندے کو قتل کرتا ہوں۔(مسند احمد : 12620)

صحابہ جیسی نیکیاں کسی کی نہیں

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

’’ میرے صحابہ کو برا مت کہو ، میرے صحابہ کو برا مت کہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ان ( صحابہ ) میں سے کسی ایک کے دیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی ( اجر ) نہیں پا سکتا ۔‘‘( صحیح مسلم : 6487 )

خلفاء راشدین کی فضیلت

سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ :

 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: «اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ»

جب نبی کریم ﷺ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” احد ! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔“( صحیح بخاری : 3675 )

نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کا اجر

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :

مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا ، فَإِنَّه يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ

جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ۔( صحیح بخاری : 47 )

احد پہاڑ کی نبی ﷺ سے محبت

سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ :

خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ أَخْدُمُهُ ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا وَبَدَا لَهُ أُحُدٌ ، قَالَ : هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ، ثُمَّ أَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ ، قَالَ : اللهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا كَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَكَّةَ ، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا .

میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر ( غزوہ کے موقع پر ) گیا ، میں آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ، پھر جب آپ ﷺ واپس ہوئے اور احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ۔ اے اللہ!  میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں ، جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا ، اے اللہ ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما ۔( صحیح بخاری : 2889 )

رسول اللّٰہ ﷺ کی دنیا سے بے رغبتی

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :

لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ ، إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی بھی حصہ میرے پاس رہ جائے ۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ (صحیح بخاری : 2389)

دجال کہاں اترے گا ؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ، حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ ( صحیح مسلم : 3351 )

’’ مشرق کی جانب سے مسیح دجال آئے گا ، اس کا ارادہ مدینہ ( میں داخلے کا ) ہو گا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے اترے گا ، پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے ، اور وہیں وہ ہلاک ہو جائے گا ۔‘‘

جہنم میں کافر کی کیفیت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِهِ مَسِيرَةُ ثَلَاثٍ ( صحیح مسلم : 2851 )

’’ کافر کی داڑھ یا ( فرمایا : ) کافر کا کچلی دانت احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن چلنے کی مسافت کے برابر ہو گی ۔

ایک روایت میں ہے کہ :

إِنَّ غِلَظَ جِلْدِ الْكَافِرِ اثْنَانِ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ ضِرْسَهُ مِثْلُ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ مَجْلِسَهُ مِنْ جَهَنَّمَ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ،‏‏‏‏ وَالْمَدِينَةِ

پہاڑ جیسی ہو گی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہو گی جتنا مکہ اور مدینہ کے درمیان کا فاصلہ“۔( سنن ترمذی : 2577 )

رسول اللّٰہ ﷺ کی دامن احد میں دفن ہونے کی تمنا

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے سنا کہ جب شہدائے احد کا تذکرہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺفرماتے :

أَمَا وَاللّٰہِ! لَوَدِدْتُ أَنِّی غُودِرْتُ مَعَ أَصْحَابِ نُحْصَ الْجَبَلِ یَعْنِی سَفْحَ الْجَبَلِ.

اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ پہاڑ کے دامن میں دفن کر دیا جاتا۔( مسند احمد : 10738 )

صدقہ کی فضیلت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ نے فرمایا :

«إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقْبَلُ الصَّدَقَاتِ، وَيَأْخُذُهَا بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا لِأَحَدِكُمْ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ مُهْرَهُ، أَوْ فَلُوَّهُ حَتَّى إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ» ، وَقَالَ وَكِيعٌ فِي حَدِيثِهِ: وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللهِ: {هُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ} {وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} وَ{يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}

اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا ہے اور ان کو دائیں ہاتھ میں وصول کرتا ہے، پھر وہ ان کو یوں بڑھاتا رہتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی گھوڑی، اونٹنی یا گائے کے بچے کی پرورش کرتا ہے،یہاں تک کہ ایک لقمہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ وکیع نے اپنی روایت میں کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کی تصدیق قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتی ہے: اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے صدقات کو پکڑ لیتا ہے۔ (سورۂ توبہ: 104) اور اللہ سود کو ختم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (سورۂ بقرۃ: 284 ، بحوالہ مسند احمد: 10090)

اگر جبل احد جتنا قرضہ ہو

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تجھے ایک دعا نہ سکھلاؤں کہ اگر تجھ پر احد پہاڑ جتنا بھی قرض ہو تو اللہ اسے ادا کردے۔ اے معاذ تو پڑھ لیا کر:

اللهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ، وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ، وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكِ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا، تُعْطِيهُمَا مَنْ تَشَاءُ، وتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِيني بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ

اے اللہ، دنیا کے مالک، تو جسے چاہتا ہے بادشاہی دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، ۔ تیرے ہاتھ میں بھلائی ہے. تو ہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ دنیا کے رحمان اور آخرت کے رحیم تو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے منع کرتا ہے۔ مجھ پر ایسی رحمت کر کہ میں تیرے سوا سب سے غنی ہو جاؤں۔(صحيح الترغيب : 1821)

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے