موسم سرما اور اسلامی تعلیمات
الحمد للہ وحدہ، والصلاة والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وبعد:
اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ملک پاکستان میں مختلف اقسام کے مواسم میسر فرمائے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یقیناً یہ موسم کا تغیر وتبدل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کی اہم نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ (آل عمران: 190)
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیرپھیر میں یقیناً عقلمندروں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
مزید فرمایا: يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۰۰۴۴ (النور: 44)
’’ اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردوبدل کرتارہتاہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔‘‘
محترم قارئین کرام! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں چار نمایاں موسم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک موسم سرما بھی ہے جس کا آغاز دسمبر سے ہوتاہے اور جس کے آتے ہی کچھ چہروں پر فرحت اور کچھ پر غمی وحزن کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
بلاشبہ سردی کے آنے سے مختلف پریشانیاں درپیش آتی ہیں مثلاً: بیماری، برف کا گرنا،موسم کا انتہائی سرد ہونا وغیرہ لیکن ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ تمام امور مشیئتِ الٰہی سے ہوتے ہیں اور ان میں اللہ رب العالمین کی حکمت شامل ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا (آل عمران:191)
’’اے ہمارے رب! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔‘‘
اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ نے بے فائدہ اور بے مقصد نہیں بنائی اس میں اللہ رب العالمین کی حکمت مضمر ہوتی ہے اور انسانیت کی بھلائی مقصود ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
سبب
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر شے کے وجود کا ایک سبب رکھا ہے اور اس میں حکمتِ الٰہی ہے۔ بسا اوقات ہمیں یہ اسباب معلوم ہوتے ہیں اور کبھی ہم ان سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سردی کا باطنی سبب حدیث رسول میں کچھ اس طرح بیان ہواہے۔سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح بخاری، حدیث: 3260)
’’جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں، تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو اس کا یہی سبب ہے۔‘‘
سردی کو بُرا بھلا کہنا
احادیث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سردی ہو یا گرمی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بعض لوگ اس امر سے غافل ہوتے ہیں اور نادانی میں سردی کو بُرا بھلا کہہ دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں چنانچہ حدیث قدسی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ الليْلَ وَالنَّهَارَ (صحيح مسلم:2246)
’’ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتاہے زمانہ کو بُرا بھلا کہتاہے حالانکہ میں ہی زمانہ پیدا کرنے والا ہوں میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں میں جس طرح چاہتاہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتاہوں۔‘‘
سردی اور گرمی کا ہیرپھیر اور زمانے کی تبدیلی کا نظام اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے اور جو شخص اس نظام کو بُرا بھلا کہتاہے گویا وہ اس کے چلانے والے کو بُرا کہتاہے جو کہ اللہ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔
اگر کسی شخص کو سردی کی وجہ سے زیادہ مشکلات درپیش ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ کی دعا کرے اور حفاظتی اسباب اختیار کرے۔نیز اس موسم کے کچھ شرعی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ کچھ ایسے افعال ہیں جن سے بچنا چاہیے اور بعض میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذیل میں ایسے امور ذکر کرتاہوں جن سے اجتناب ضروری ہے۔
۱۔ منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ
’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ انسان منہ ڈھانپ کرنماز پڑھے۔‘‘(سنن أبي داود:643)
سردی کے موسم میں اکثر لوگ نماز کی حالت میں اپنا منہ چادر یا مفلر وغیرہ سے ڈھانپ کر نماز پڑھتے ہیں یہ عمل مکروہ ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو مثلاً: کسی بیماری کی وجہ سے تو اس بناء پر کوئی حر ج نہیں۔
۲۔ السدل :
سدل کی تعریف صاحب ھدایہ نے کچھ اس طرح کی ہے :
هو أن يجعل ثوبه على رأسه أو كتفيه ثم يرسل أطرافه من جوانبه ( الهداية 1/143)
’’(سدل یہ ہےکہ) کوئی شخص اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے) چھوڑ دے۔‘‘
سردیوں میں اکثر حضرات یہ عمل بھی کرتے ہیں۔ حالتِ نماز میں چادر وغیرہ کو گلے میں اس طرح ڈالتے ہیں اور رکوع کرتے وقت دونوں کنارے لٹکتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ عمل جائز نہیں۔
۳۔ رات سوتے وقت ہیٹر جلتے ہوئے چھوڑ دینا:
آپ کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ کتنے ہی حادثے اس وجہ سے رونما ہوئے ہیں کہ رات ہیٹر، انگیٹھی بند کیے بغیر سوجانےاور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کتنی ہی قیمتی جانیں چا چکی ہیں۔
اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لاَ تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ (صحيح البخاری:6293)
’’جب (تم)سونے لگو تو گھر میں (جلتی ہوئی ) آگ نہ چھوڑو۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ :
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: احْتَرَقَ بَيْتٌ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ، فَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَأْنِهِمْ، فَقَالَ: «إِنَّمَا هَذِهِ النَّارُ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ» (سنن ابن ماجه:3770)
’’سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک گھر کو آگ لگ گئی جب کہ گھر والے گھر میں تھے۔ نبی کریم ﷺ کو ان کے حادثے کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آگ تمہاری دشمن ہے جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔‘‘
لہذا رات سوتے وقت ہیٹر یا کوئی بھی اس جیسی چیز (لکڑی یا کوئلوں پر جلنے والی انگیٹھیاں وغیرہ) بند کرکے سونا چاہیے اور اس حساس عمل سے احتیاط برتنی چاہیے۔
۴۔ ٹھنڈے پانی کے ڈر سے وضو یا غسل میں سستی کرنا اور عبادات ترک کرنا:
سردی کے آتے ہی اکثر لوگ پانی کے ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے وضو یا غسل میں سستی کرتے ہیں اور عبادات کو ترک کر دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں کیونکہ اگر غور کیا جائے تو اس مشقت پر اور زیادہ انسان اجر کا مستحق ہوتاہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ
’’کیا میں تمہیں ان چیزوں کی خبرنہ دوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ غلطیاں مٹاتااور درجات بلند فرماتاہے؟ (صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسولﷺ! کیوں نہیں)، آپ ﷺ نے فرمایا: مشقت اور نا چاہتے ہوئے وضو مکمل اور اچھی طرح کرنا، مسجدوں کی طرف دور سے چل کر جانا اور نماز کے بعد اگلی نماز (مسجد میں بیٹھ کر) انتظار کرنا۔ یہ ہے رباط(تین مرتبہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے)۔ (النسائی : 143)
یقیناً سخت سردی میں جب انسان اپنے اعضاء کو اچھی طرح دھوتا ہے اوروضو کرتاہے تو وہ اس اجر کا مستحق ہوتاہے البتہ کسی شرعی عذر کی بناء پر مثلاً: بیماری کے خدشہ کی وجہ سے وضو یا غسل ترک کر دینا اور اس کی جگہ تیمم اختیار کرنا اس میں کوئی حرج نہیں۔
یقیناً یہ موسم مؤمن کے لیے بہار ہے:
بعض ایسے امور بھی ہیں جو اس موسم میں کثرت سے کرنے کا موقع میسر آتاہے اور اسلام ان کی طرف رغبت دلاتاہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ موسم سرمامیں راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں اور اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بہت سی عبادات سرانجام دے سکتے ہیں۔
۱۔ قیام اللیل:
یقیناً قیام اللیل اور شب بیداری مؤمنین کا شیوہ ہے۔ اور یہ موسم ان کے لیے ایک بہار کی مانند ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ۰۰۱۷ وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠۰۰۱۸(الذاریات: 17۔18)
’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘
فرمان نبوی ہے:
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ العَبْدِ فِي جَوْفِ الليْلِ الآخِرِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ (سنن الترمذی:3579)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتاہے تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہوکر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ(یعنی تہجد پڑھو)۔‘‘
۲۔روزہ:
اس موسم میں جہاں دیگر عبادات کرنے کے مواقع ملتے ہیں وہاں روزہ بھی ہے کیونکہ اس موسم میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جس میں انسان آسانی سے صیام(روزہ) کا اہتمام کر سکتاہے چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے : الغَنِيمَةُ البَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ (سنن الترمذی: 797 مرسل صحیح)
’’ٹھنڈا ٹھنڈا بغیر محنت کے مال غنیمت یہ ہے کہ روزہ سردی میں ہو۔‘‘
اور روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ المِسْكِ يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا (صحیح البخاری: 1896)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اورپاکیزہ ہے (اللہ تعالیٰ فرماتاہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوات میرے لیے چھوڑتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتاہے۔‘‘
لہذا ہمیں موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ان ایام میں روزے دار زیادہ گرمی، بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرتا اور بآسانی روزہ رکھ لیتاہے۔
۳۔ صدقہ وخیرات:
اس موسم میں جہاں دیگر عبادات کے مواقع میسر ہوتے ہیں وہاں ایک پہلو صدقہ وخیرات کا بھی ہے کیونکہ اس موسم میں اکثر غرباء ومساکین کو شدت سے لحاف،کمبل ودیگر گرم ملبوسات وحفاظتی سامان کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ احادیث میں صدقہ واخیرات کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اگر یہ صدقہ صحیح وقت پر مستحق تک پہنچ جائے تو اس کی اور بھی قدر بڑھ جاتی ہے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (صحيح مسلم:2699)
’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ ‘‘
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر حال میں نافرمانیوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین