اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا کر کے پیدا کیا ہے اور یہ شرف انسان کی عملی زندگی میں تبھی نظر آئے گا جب انسان معاشی طور پر نہ صرف خودکفیل ہو بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو۔ معاشی خوشحالی نہ صرف انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور خود دار بناتی ہے بلکہ اس میں اتنی فارغ البالی پیدا کرتی ہے کہ وہ انسانیت کی اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے غور وفکر کرتا ہے اور بہترین افکار ونظریات پیش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص بھوک وافلاس میں مبتلاہو ،قریب ہے کہ اس کا افلاس اسے کفر کے قریب پہنچادے۔ اگر کفر کے قریب نہ بھی پہنچائے تب بھی وہ مہذب و شائستہ زندگی نہیں گزار سکتا اور نہ ہی قوم وملک اور انسانیت کے لیے کوئی اعلیٰ فکر دے سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں معاشی خوشحالی کو خیر ،بھلائی اور اپنی نعمت قرار دیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طریقے بتائے ہیں اور آپ ﷺ نے معاشی بدحالی،بھوک وافلاس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی ہے اور معاشی خوشحالی کے حصول کے لیے راستے بتائے ہیں
اس مضمون میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ اسلام نے بھوک وافلاس کے خاتمے کے لیے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔
اسلام نے بھوک وافلاس کے خاتمے کے لیے کچھ رہنما اصول دیے ہیںجو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱): اسلام کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر شخص محنت اور جدوجہد کر کے اپنی روزی خود حاصل کرے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جاں فشانی،محنت و مشقت کے بغیر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت وسعی لازم ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کا مطالعہ کریں ،تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں بادیہ نشینوں نے محنت و جدوجہد کو اپنایا تو وہ صحرائے عرب سے اُٹھ کر ایک عالم پر چھا گئے اور دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ عبادت ہوں معاملات ہوں ،معیشت ہو یا معاشرت، سائنس ہو یا شعروادب، غرض اپنی محنت و جاں فشانی سے بحروبر مسخر کر لیے اور پوری دنیا میں ہدایت وعلم کی روشنی میں پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
آپ ﷺ کے فرامین اور عملی زندگی سےہمیں پیہم، محنت و مشقت اور جان فشانی کی تلقین ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائیں، بعثت سے پہلے باقاعدہ تجارت کی اور تجارت کی غرض سے طویل سفر کیے۔بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لیا ، رسول اللہ ﷺاپنے جوتوں کی مرمت خود فرمالیتے اور سیتے تھے۔ انبیائے کرام رضوان اللہ اجمعین جہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داریاں مکمل طور سے ادا فرماتے اور رسالت کی تبلیغ فرماتے وہاں دینوی اعتبار سے بھی ان کی محنت ،سعی اور کوشش کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چنانچہ سیدنا آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ سیدنا نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کشتی بنائی۔ سیدنا داؤد علیہ السلام لوہے کا کام کرتے تھے ۔آپ علیہ السلام لوہے سے زرہیں اور دیگر سامان ِ جنگ بناتے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اجرت پر دس سال سیدنا شعیب علیہ السلام کے ہاں خدمت گزاری کی۔ سیدنا ادریس علیہ السلام کپڑے بنتے تھے ۔ سیدنا زکریا علیہ السلام کپڑے سیتے تھے ۔ جد الانبیاء سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام راج گیری کا کام کرتے تھے۔ باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی ۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نےدس سال تک بکریاں چرائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے بھی کبھی محنت سے جی نہیں چرایا اور کوئی بھی حلال پیشہ اپنانے میں عار نہ سمجھا، بلکہ اپنے عمل سے اُمت پر یہ ثابت کردیا کہ عزت اور عظمت معاشی جدوجہد میں مضمر ہے۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمام اقتدارسنبھالنے کے بعد گردونواح میں کپڑا بیچا اور ضرورت مندوں کا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تجارت کرتے تھے ،بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے، کیونکہ وہ جسم کی تمام توانائیاں صرف کرتا ہے۔ اگر مزدور کی حق اور بھلائی بھی پیش رکھے تو اس کا درجہ بہت ُبلند ہے (۱)
قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ نے محنت اور جدوجہد کر کے اپنی روزی خود حاصل کر کے کھانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔
اسلام میں کسب معاش کی اہمیت:
اسی لیے اسلام میں کسبِ معاش کی اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ دن کی یہ روشنی اسی لیے ہے کہ تلاشِ معاش میں سہولت ہو: وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا۪۰۰۱۱ (۲)
زمین کے بارے میں فرمایا کہ وہ بھی تمہارے لیے حصولِ معاش کا زریعہ ہے: وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ (۳)طلب معاش کو جائز اور درست قرار دیا گیا،اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ(۴)کسب معاش کے لیے سفر کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی : وَ اٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ (۵)
بلکہ کسب معاش اور اس کے لیے تگ ودو کا حکم فرمایا گیا: فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ(۶)
محنت کا ذکر حدیث نبوی ﷺ میں :
احادیث میں بھی کسب معاش کی فضیلت کے سلِسلہ میں کثرت پائی جاتی ہے یہاں تک آپ ﷺ نے سچے اور امانت دار تاجر کو فرمایا کہ اس کا حشر انبیاء ، صدیقین شہدا کے ساتھ ہو گا۔ (٧)
آپ نے فرمایا کہ بہتر آدمی کے لیے مالِ حلال بہتر شےہے۔ (۸)
حدیث شریف میں محنت یعنی مزدوری اور عملِ ید یعنی انسان کے خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی بڑی عظمت اور فضیلت وارد ہوئی ہے۔ مثلاً «بخاری» میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں : «مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ» ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ» (۹)
یعنی اللہ نے کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا جس نے اجرت پر بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے (متحیر ہو کر) سوال کیا:» اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ نے بھی یہ کام کیا ہے َ» اس کا جواب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایہ ہم سب کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے کہ اس میں حضور ﷺ کا تواضع و انکسار ی بھی نمایا ں طور پر جھلک رہی ہے:« میں تو چند قراریط کے عوض(چند ٹکوں کے عوض) مکہ کے لوگوں کے جانور چرایا کرتا تھا» معلوم ہوا کہ اجرت یا مزدوری یا دوسروں کے لیے کام کرنا ہر گز باعثِ ندامت یا موجبِ شرم نہیں ہے۔ اس لیےکہ اگرچہ یہ تو مسلّمات میں سے ہے کہ جو شخص خود اپنے سرمائے سے کام کر رہا ہو خواہ وہ چھابڑی ہی لگاتا ہو اس کے لیے کسی احساسِ کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جبکہ انسان کسی اور کے لیے اُجرت پر کام کرنے میں یقیناً عار محسوس کرتا ہے لیکن نبی اکرم ﷺ نے اس کے لیے فرمایا کے میں خود اجرت پر دوسروں کے لیے کام کرتا رہاہوں ۔ لہذا یہ قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ ہرگز ایسی بات نہیں ہے جس پر انسان کسی بھی درجے میں ندامت یا شرم محسوس کرے۔(۱۰)
فریضہ طلبِ حلال:
«طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ»
’’رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔‘‘(۱۱)
سیدنا داؤد علیہ السلام اور عملِ ید:
اسی طرح بخاری ہی کی حدیث کا حوالہ بھی یہاں بے محل نہ ہو گا جو کہ سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں: «مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ» (۱۲)
’’کسی شخص نے ان سے بہتر روزی نہیں کھائی جس نے اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کمائی اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کماتے تھے۔‘‘
محنت اور جائز تجارت:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ»
’’سیدنا رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت۔‘‘ (۱۳)
سوال کی مذمّت اور محنت مزدوری کی ترغیب:
یہاں بنی اکرم ﷺ نے جس طرح سوال کرنے کی بجائے محنت مزدوری کرکے پیٹ پالنے کی ترغیب دلائی ہےوہ بھی پیشِ نظر رہے:
«لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَبِيعَهَا، فَيَكُفَّ اللهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ»(۱۴)
’’ تم میں سے کسی شخص کا رسی لے کر پہاڑ پر چلا جانا اور پھر لکڑیوں کا گھٹہ پیٹھ پر لاد کر بیچنا اور اس طرح اپنے چہرے کو (یعنی عزتِ نفس کو) بچانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کے اور وہ چاہے تو اس کو کچھ دے دیں اور چاہے تو خالی ہاتھ لوٹا دیں ۔‘‘
محدثین کے نزدیک بہترین ذریعہ معاش:
مشہور عالم علامہ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر کسبِ حلال کے تین ذرائع ہیں ۔
(۱) زراعت (۲) تجارت (۳)صنعت
اس میں سے کون سا زریعہ معاش زیادہ بہتر ہے، علماءکرام نے اپنی راے کے مطابق اس کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ تجارت سب سے افضل ہے۔ خود ماوردی کی رائے ہے کہ زراعت کی فضیلت زیادہ ہے۔ (۱۵)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ہی جگہ ایسی حدیثیں جمع کردی ہیں جو تجارت و زراعت اور صنعت کی اسلام میں اہمیت اور پیغمبرِ اسلام کی نگاہ میں شرف و فضیلت بتاتی ہیں۔ (۱۶)
قَال مُحَمَّدٌ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ: ثُمَّ الْمَذْهَبُ عِنْدَ جُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْكَسْبَ بِقَدْرِ مَا لاَ بُدَّ مِنْهُ فَرِيضَةٌ
’’ محمد بن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بقدر کفایت روزی کمانا ہر شخص پر فرضِ عین ہے ۔‘‘(۱٧)
(۲): دوسرا اصول یہ ہے کہ مالدار لوگ غرباء و مساکین کی مالی مدد کریں ۔
اسلام نے نفع مند مال کی تعریف کی ہے اور اس مال کے کمانے کی خواہش اور حرص کو اسے احسن طریقے سے خرچ کرنے اور اس مال کو مزید ثمر آور بنانے کو ضروری قرار دیا ہے ۔ ایسے مال دار آدمی کو سراہا ہے جو مال ملنے پر شاکر ہو اور اس مال کو لوگوں کی منفعت اور خیر خواہی کے لیے خرچ کرے جب کہ اس ضمن میں سوائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے اور کوئی چیز اس کے پیشِ نظر نہ ہو۔محتاجوں،غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد،معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دینِ اسلام کا بنیادی درس ہے، دوسروں کی مدد کرنے ان کے ساتھ تعاون کرنے ان کےلیے روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دینِ اسلام نے اپنے رب کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مال دار لوگوں کو اپنے مال میں سےغریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحبِ استطاعت پر واجب ہے کہ مال دار لوگ غریب ،مسکین ،یتیم کی مقدور بھر مدد کریں ۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ١ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَالسَّآىِٕلِيْنَ۠ وَفِي الرِّقَابِ١ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۰۰۱۷۷
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پراور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں،یتیموں،محتاجوں ،مسافروں،سوال کرنے والوں،غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جونماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا کرتے ہیں ۔ سختی،مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔‘‘(۱۸)
قرآن حکیم ہی کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَايُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ۰۰۲۱۵
’’(لوگ) آپ ﷺ سے سوال پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ۔ فرما دیجیے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست) ہےمگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بےشک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔ ‘‘(۱۹)
اسلام میں سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں ، بےکسوں،معذوروں، بیماروں ، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود ہے۔اور یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہےجب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوی کا خاتمہ کر کے معاشرے میں دولت اورضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکے۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و محتاجی کو دور کرنے کے لیے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمہ قرضِ حسنہ قرار دیتے ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے :
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۰۰۲۷۲
’’ تم جوکچھ مال خرچ کر رہے ہو یہ سب (اس کا ثواب) تم کو پورا پورا مل جائے گا اور تمہاے لیے اس میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی۔ ‘‘(۲۰)
دوسرو کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسنددیدہ عمل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِيَ١ۚ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۰۰۲۷۱
’’ اگر تم ظاہر کرکے دو صدقوں کو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر ان سے چھوپا کر دو ان فقیروں کو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ (اس کی برکت سے) تمہارے کچھ گناہ بھی دور کر دیں گے اور اللہ تمہارے کیے ہوئے کاموں کو خوب خبر رکھتے ہیں ۔ (۲۱)
دینِ اسلام سراسر خیر خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہےجو کہ اطمنانِ قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے ۔
صدقہ کرنے والوں کی حدیث مبارکہ میں حوصلہ افزائی
«إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ»
’’صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب و ناراضگی کو ختم کر دیتا ہے اور بُری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ (۲۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
الصَّدَقَةُ عَلَى المِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ
’’مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘(۲۳)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ، حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الجَبَلِ»
جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے تو رحمٰن ایسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے، اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔ یہ مال صدقہ رحمٰن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کے وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (۲۴)
محسنِ انسانیت رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا کرتے بلکہ عملی طور پر آپ ﷺ خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ مسجدِ نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے آپ ﷺ کے پاس آئی ، آپ ﷺ صحابہ کرام کے درمیان سے اُٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں چلے گئے اور اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کے حاجت مندوں کی مدد کے لیے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جانے کے لیے تیار ہوں۔ (۲۵)
حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتاہے۔ جوشخص اپنے کیسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن ستر پوشی فرمائے گا۔(۲۶)
ارشاد نبویﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ (۲٧)
لہذا ہمیں ان احادیث مبارکہ کے مطابق اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کرنی چاہئیے تاکہ دین و دنیا کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو اور یہی حقیقی زندگی ہے۔
(۳): تیسرا اُصول یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو وسائل معاش فراہم کرکے دے ، یا ایسے کارخانے لگائے یا ایسے وسائل تلاش کرے جہاں سے لوگ روزی روٹی حاصل کریں ۔ اسی طرح مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرکے فقراء و مساکین بیواؤں، یتیموں ، بوڑھوں اور کمزوروں تک پہنچائے یا مالداروں پر ٹیکس لگا کر غرباء کی کفالت کرے۔
اسلامی نظامِ معیشت میں تمام مسلمانوں کو حقُ المعاش کے مساوی حقوق دئیے گئیے ہیں اور بنیادی حقُ المعاش کی فراہمی یاست کی زمہ داری ہے۔ (۲۸)
کتاب الخراج میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔
« سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں میں سے کسی شخص کے دروازے کے پاس سے گزرے وہاں ایک سائل سوال کر رہا تھا جو نہیات ضعیف اور اندھا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے بازو پر پیچھے سے مارا اور کہا کہ تم کون سے اہلِ کتاب میں سے ہو اس نے کہا کے یہودی ہوں ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے اس امر پر کس نے مجبور کیا جو میں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے کہا کہ میں جزیہ کی ادائیگی،حاجات کی تکمیل اور عمر رسیدگی کی وجہ سے سوال کرتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اِسے اپنے گھر لے گئے او اسے اپنے گھر سے کچھ مال دیا پھر ایسے بیت المال کے خازن کی طرف بھیجا اور کہا کے اسے اور اس کے قبیل کے دوسرے لوگوں کو دیکھو۔ اللہ کی قسم ہم نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہم نے اس کی جوانی سے تو خوب فائیدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں ایسے رسوا کر دیا (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) (بے شک صدقات فقراء اور مساکین کے لیے ہے ) اور فرمایا فقراء سے مراد مسلمان ہیں اور یہ اہلِ کتاب مسکین میں سے ہیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے اور اس جیسے دیگر کمزور لوگوں سے جزیہ ساقط کردیا۔ (۲۹)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رعایا کو حق المعاش کی فراہمی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے صاحبانِ اقتدا پر لازم ہے کہ اس امر کا انتظام کریں کے کوئی بھی شخص حقِ معیشت سے محروم نہ ہو بلکہ ہر فرد کو حصولِ معیشت کا مساوی حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لا کر باعزت اور حلال طریقے سے اپنی روزی کما سکیں ۔نیز اہل ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ضرورت مندوں ،غرباء اور محتاجوں کی معاشی ضرویات سے محروم نہ رہے۔ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر معاشرے میں غریب اور نادر لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں اور دوسری طرف امراء عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہوں تو اسلامی حکومت ان امیر لوگوں سے سختی کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرکے غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرے۔
اللہ تعالیٰ نے جن مقامات پر اپنے بندوں کو رزق فراہم کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ان میں اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ یہ قرآنی احکام اس منشاء ایزدی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ لہذا اسلامی ریاست پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو پورا کرے کہ ایسا کرنے سے ہی اس کے قیام اور بقا کا جواز ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ : وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا
’’اور زمین میں کوئی چلنے پھر والا(جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ کےذمہ ہے۔ ‘‘(۳۰)
اس وعدۂ رب کے بعد اگر کوئی شخص بنیادی حق المعاش سے محروم ہے تو اس کی ذمہ داری براہ راست ریاست اور حکومت اسلامی پر عائد ہوتی کیونکہ حقوق اللہ کی تنفیذ اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینا من جانب اللہ اسلامی ریاست ہی کا حق ہے ۔ جیسے حدود کا اجراء حق اللہ میں سے ہے مگر اس کو تعزیری شکل میں ریاست نافذ کرتی ہے ۔ حدود و قصاص عشر زکوٰۃ وغیرہ لینا اسلامی ریاست کا فرضِ منصبی ہے۔ (۳۱)
تو یہ ہیں وہ اُصول جو رسول اکرم ﷺ نے ماتحتوں کے بارے میں وضع فرمائے ہیں اور یہی ہیں وہ اخلاقی تعلیمات ہیں ،کہ جب تک وہ کسی معاشرے میں بالفعل موجود نہ ہوں تو محض کوئی خالی قانونی ڈھانچہ ،خواہ اس کی کتنی ہی پیروی کیوں نہ کر لی جائے، معاشرے میں وہ برکات پیدا نہیں کر سکتا جو اسلام کی منشاء ہیں۔ (۳۲)
حوالہ جات
(۱)ترمذی،حدیث نمبر ۱۲۲۲،ج۳/ص۵۳۴۔
(۲)سورۃ نباء، آیت، ۱۱ (۳)سورۃاعراف،آیت ۱۰
(۴)سورۃ بقرہ آیت، ۱۹۸ (۵)سورۃ مزمل آیت، ۲۰
(۶)سورۃ جمعہ ،آیت ،۱۰
(٧) ترمذی، عن ابی سعید الخدری، کتاب البیوع،باب ماجاء فی التجار
(۸)مجمع الزوائدج ۴/۶۴ص ،باب اتحاذ المال
(۹) بخاری ، حدیث ،نمبر۲۲۶۲ کتابُ الاجارہ
(۱۰)اسلام کا معاشی نظام ڈاکٹر اسرار احمد مرکزی انجمن خدّام القرآن، لاہور ،ص نمبر ۳٧
(۱۱) طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۰:۱۰۸،رقم:۱۰۱۱۸
(۱۲)بخاری کتاب: خرید وفروخت کے مسائل کا بیان حدیث،۲۰٧۲۔
(۱۳)شعرانی، کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ، ۲:۳
(۱۴) بخاری عن زبیر بن عوام، کتاب الزکوٰۃ ،باب سوال سے بچنے کا بیان، حدیث: ۱۴٧۱
(۱۵) عینی علی البخاری ج۶/۱۸۶
(۱۶)بخاری ،کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ
(۱٧)حوالہ الموسوعہ الفقھیہ الکویتیہ جلد ۴۰ /ص ۳۹
(۱۸) سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۱٧٧
(۱۹) حوالہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۱۵
(۲۰)حوالہ سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۲٧۲
(۲۱) سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۲٧۱
(۲۲) جامع ترمذی ، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ، کتاب زکوٰۃ و صدقات کے احکام، حدیث ۶۶۴
(۲۳) ترمذی حدیث نمبر ۶۵۸ (۲۴) ترمذی : حدیث ۶۶۱
(۲۵) بخاری ، محمد بن اسماعیل ،کتاب مظالم والغصب،حدیث ۴۴۲
(۲۶)ترمذی، باب ماجاء فی الستر علی ا؛مسلمِ، ابواب الحدود حدیث ،نمبر۱۴۲۵۔
(۲٧)سننِ ابوداؤد،حدیث نمبر ۴۶۴۹۔
(۲۸) امام ابو یوسف کتابُ الخراج،ص۱۸۳۔۱۱۳۔
(۲۹)ابو یوسف کتاب الخراج ص، ۱۳۶۔
(۳۰)سورۃہود، آیت، ۶۔
(۳۱)اقتصادی اسلامی ص ،منہاج القرآن ،طبع لاہور، ص ۱۹۸۔۱۹۹
(۳۲)اسلام کا معاشی نظام ڈاکٹر اسرار احمد مرکزی انجمن خدّام القرآن، طبع، لاہور،ص نمبر۴۰