اللہ ہی حاکم ہےاس کے سِوا کسی کا حکم نہیں چلنا چاہیے   

﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ﴾

’’سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا ’’اللہ‘‘ ہی کا کام ہے ، ’’اللہ‘‘ بہت برکت والا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘(الاعراف:۵۴)

حضرات! اللہ تعالیٰ کے احکم الحاکمین ہونے کے ثبوت اور اس کی حاکمیت کے دلائل جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ’’اللہ‘‘ کی ذات کا ایک جامع تصور اپنے ذہن میں تازہ کریں ، تاکہ ہمارے ایمان میں تازگی اور ایقان میں پختگی اور ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے تعلق میں وارفتگی پیدا ہو جائے کہ ہم نے اسے کیوں اپنا حاکم ماننا اور ہر حال میں کس لئے اس کا حکم تسلیم کرنا ہے۔ ہم نے اس لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کا حکم ماننا ہے کیونکہ وہ صرف ہمارا خالق ، مالک، رازق معبودہی نہیں بلکہ وہ ہمارا بادشاہ اور حاکم بھی ہے ، اس کا فرمان ہے:

﴿ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا۰۰۲﴾ (الفرقان: ۲)

’’اللہ ‘‘ ہی کے لیے زمین وآسمانوں کی بادشاہی ہے، اس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور اس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، اس نے ہرچیز کوپیدا کیا اور پھراس کی تقدیر مقرر فرمائی۔ ‘‘

﴿فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَؒ۰۰۸۳﴾ ( یٰس: ۸۳)

’’پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘

﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۲۳﴾ ( الحشر: ۲۳)

’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے نہایت پاک، سراسر سلامتی والا ، امن دینے والا، نگرانی کرنے والا، اپنا حکم نافذ کرنے پر پوری طرح بااختیار اوربلند و بالاہے ۔‘‘

﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَؒ۰۰۸﴾ ( التین: ۸)

’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟ ‘‘

اس کے ہر حکم میں حکمت اور خیر خواہی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کسی کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے اور ان پر اپنا حکم چلائے۔ لہٰذا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی کا حکم چلنا چاہئے کیونکہ وہ سب سے بڑا حاکم ہے۔

﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰﴾ ( الأعراف:۵۴)

’’بے شک تمہارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیداکیا، پھرعرش پر مستوی ہوا ،وہ رات کو دن پراوڑھاتا ہے جو تیز چلتاہوا، رات کے پیچھے چلاآتا ہے، سورج، چاند اور ستارے ہیں جو اس کے حکم کے تابع ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ، اللہ تعالیٰ بڑی برکت والا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو حاکم تسلیم کروانے اور اپنا حکم منوانے کے لئے اپنی قدرت اور خالق ہونے کی بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس ’’اللہ ‘‘ کا تم نے حکم ماننا ہے وہی تمہارا رب ہے اور اسی نے سات آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اپنی شان کے مطابق عرش پر جلوہ افروز ہوا وہی رات اور دن کے نظام کو چلانے والا اور اسی نے سورج، چاند اور ستاروں کو مسخر کر رکھا ہے۔ لوگو! کان کھول کر سُن لو وہی سب کو پیدا کرنے والا ہے اس لیے حکم بھی اسی کا چلنا چاہئے ۔کیونکہ وہ بڑا برکت والا اور رب العالمین ہے۔

اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات اور اس کے اہم ترین ارکان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ یہ میرے تابع اور میرے حکم پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ اے انسان تو اپنے آپ پر غور کر کہ ان کے مقابلے میں تیری حیثیت تو نہایت معمولی ہے جب کائنات کے بڑے، بڑے ارکان میرے حکم پر چل رہے ہیں تو تجھے بھی میرا حکم ماننا چاہئے ۔

 ﴿ فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ۰۰۱۲﴾ (المؤمن: ۱۲)

’’حکم دینے کا اختیار ’’اللہ‘‘ بزرگ وبرتر کے پاس ہے۔‘‘

یہی بات سیدنا یعقوبu نے اپنے بیٹوں کو اور سیدنا یوسفu نے اپنے قید کے ساتھیوں کو سمجھائی تھی۔

﴿ وَ قَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ١ؕ وَ مَاۤ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۚ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ﴾

’’یعقوبuنے فرمایا: اے میرے بیٹو !ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی تم سے کسی چیز کو ٹال نہیں سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اورلازم ہے کہ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کیا کریں۔‘‘ ( یوسف:۶۷)

سیدنا یعقوبu کی نصیحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکِ مصر میں قحط سالی کی وجہ سے امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہو جایا کرتا ہے۔ اس صورتحال میں گیارہ آدمیوں کا جتھا جو کہ ایک سے ایک بڑھ کر کڑیل جوان اور حسن و جمال کے پیکر تھے۔ ایسے اجنبیوں کو انتظامیہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی اور یہ بھی ممکن ہےکہ انتظامیہ نے مصر میں امن و امان برقرا ر رکھنے کے لیے دفعہ 144جیسا کوئی قانون لگا کر رکھا ہو۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر سیدنا یعقوب uنے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا تم وہاں اجنبی اور پردیسی ہو گے۔ اس لیے تمھیں ایک جتھے کی شکل میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا چاہیے ۔ یہ میری احتیاطی تجویز ہے ورنہ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے تمہارا بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کے معاملات آسان کو فرما دیتا ہے ۔

سیدنا یوسفu بے گناہ ہونے کے باوجود پابند سلاسل کر دیے گئے۔ اس حالت میں بھی انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے ہیں کہ حقیقی حاکم تو اللہ تعالیٰ ہے۔

﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ ( یوسف:۴۰)

’’جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سِوا عبادت کرتے ہو یہ تم نے اور تمہارے باپ دادا نے محض نام رکھ لیے ہیں، سوائے ناموں کے تم کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حکم دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نے حکم دیاہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو، یہی اصل دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ‘‘

سیدنا یوسف u نے اپنے قید کے ساتھیوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ بالآخر اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے کیونکہ حکم دینا ’’اللہ‘‘ کا اختیار اور کام ہے۔ یوسف نے دین قیم کے الفاظ استعمال فرما کر قیدی ساتھیوں کو یہ بھی سمجھایا کہ جس کے پاس عقیدۂ توحید نہیں ، اس کے پاس کچھ بھی نہیں بے شک وہ کتناپاکبازاور دیندار ہونے کے دعوے کرتا پھرے۔ حقیقی معبود تو ’’اللہ تعالیٰ ہے۔مگر اکثر اس بات کو جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کرتے۔

﴿وَ اتَّبِعْ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ وَ اصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ وَ هُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَؒ۰۰۱۰۹﴾ ( یونس: ۱۰۹)

’’اس کی پیروی کریں جوآپe کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کریں یہاں تک کہ ’’اللہ‘‘ فیصلہ کردے، وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔‘‘

﴿وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ١ٞ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۷۰﴾ ( القصص: ۷۰)

’’اس ’’اللہ‘‘کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اوّل ، آخر اس کی تعریف ہے، اور حکم دینے کا اختیار اسی کو ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘

﴿ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ١ؕ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ١۫ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۰۰۶۲﴾ ( الأنعام: ۶۲)

’’پھر وہ ’’اللہ‘‘ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا سچامالک ہے ۔سن لو! حکم اُسی کا چلتا ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والاہے۔ ‘‘

﴿ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا١ؕ …… فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۰۰۱۱۴ ﴾ ( الانعام:۱۱۴)

’’کیا میں ’’اللہ‘‘ کے سواکوئی اورحاکم تلاش کروں، جب کہ اس نے تمہاری طرف مفصّل کتاب نازل فرمائی ہے …آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔‘‘

﴿وَّ لَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا﴾ (الکھف:۲۶)

’’وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

اہل لوگوں کو ذمہ داری دینے کا حکم:

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۰۰۵۸ ﴾ ( النساء: ۵۸)

 ’’یقیناً ’’اللہ ‘‘ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ’’اللہ‘‘ جس کی تمہیں نصیحت کررہا ہے، یقیناً یہ تمہارے لیے بہتر ہے،بے شک ’’اللہ ‘‘ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ ‘‘

اس فرمان میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دینی، سیاسی اور انتظامی ذمہ داری بھی اہل لوگوں کو دینی چاہئے کیونکہ جب تک اہل لوگ آگے نہیں ہوں گے اور وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک طور پر پوری نہیں کریں گے، قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس کے بہتر نتائج نہیں نکل سکتے۔

اہل منصب کو فیصلہ کرتے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے:

﴿يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِؒ۰۰۲۶﴾ ( ص :۲۶)

’’اے داؤدu ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وہ تجھے ’’اللہ‘‘ کی راہ سے بھٹکا دے گی جو لوگ ’’اللہ ‘‘کی راہ سے بھٹک گئے ان کو سخت عذاب ہو گا کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کر دیا ہے۔‘‘

﴿وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ١ؕ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ۰۰۷۱﴾ (المؤمنون: ۷۱)

’’اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین ،آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا سب تباہ ہو جاتا ،بلکہ ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ، حِبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ؟» ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا» (صحيح مسلم، باب قطع السارق الشريف وغيره، والنهي عن الشفاعة في الحدود)

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ ایک مخزومی عورت نے چوری کی اس صورت حال پر قریش کے لوگ پریشان ہوئے ۔ انہوںنے آپس میں مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں اللہ کے رسولe کی خدمت میں کس سے سفارش کروائی جائے انہوں نے سوچا کہ اسامہ بن زید t نبیe کےپیارے ہیں‘ اس کے سوا یہ جرأت کوئی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہt نے آپ سے عرض کی۔ اللہ کے رسولe نے اسامہ t سے فرمایا: کیا تو اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر تاہے؟ آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہو ئےکہ ان میں کوئی بڑے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ۔جب کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمدe کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

ذمہ دار لوگوں کے ساتھ اختلاف ہو جائے تو

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًاؒ۰۰۵۹﴾ (النساء: ۵۹)

’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں صاحبِ امر ہوں ۔ اگر ان سے کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائو اگر ’’اللہ ‘‘اور قیامت کے دن پر تمہارا ایمان ہے یہ نتائج کے اعتبار سے بہتر اور بہت اچھا طریقہ ہے۔ ‘‘

﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاؕ۰۰۳۶﴾ ( الأحزاب: ۳۶)

’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو پھر اُسے اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑ جائے گا۔‘‘

﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىِٕنِيْنَ خَصِيْمًاۙ۰۰۱۰۵﴾ ( النساء: ۱۰۵)

’’یقیناً ہم نے آپ کی طرف برحق کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو آپ کو ’’اللہ‘‘ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے اس کے مطابق فیصلے کریں اور خیانت کرنے والوں کی حمایت کر نے والے نہ ہوجانا۔ ‘‘

﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۰۰۶۰وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ۰۰۶۱﴾ (النساء: ۶۰، ۶۱)

 ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے اُتارا گیا اس کو مانتے ہیں، لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں مبتلا کر دے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ’’اللہ‘‘ کے نازل کر دہ حکم اور رسول کی طرف آئو تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ سے کنی کتراتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ نہ کرنے والے درجہ بدرجہ مجرم ہوں گے:

﴿وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ (المائدة:۴۴)

’’جو ’’اللہ‘‘ کے نازل شدہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔ ‘‘

﴿وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (المائدة:۴۷)

’’جو ’’اللہ‘‘ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ نافرمان ہیں۔‘‘

﴿وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۰۰۴۵﴾

’’ہم نے تورات میں ان کے لیے لازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان ،دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے،جسے قصاص معاف کر دیا جائے وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ جو ’’اللہ ‘‘ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں۔ ‘‘(المائدة:۴۵)

قانونِ الٰہی کی برکات:

﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَؒ۰۰۶۶﴾ (المائدة: ۶۶)

’’اگر وہ واقعی تورات اور انجیل نافذ کرتے اور جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا ہے تو ضرور اپنے اوپر سے اوراپنے پائوں کے نیچے سے کھاتے، ان میں سے ایک جماعت سیدھے راستے پر ہے اور بہت سے ان میں بُرے کام کر نے والے ہیں ۔‘‘

﴿وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۰۰۹۶﴾ ( الأعراف: ۹۶)

’’اوراگر بستیوں والے صحیح طور پر ایمان لے آتے اور’’اللہ‘‘ سے ڈرتے تو ان پر ہم ضرور آسمان اور زمین سے برکات نازل کرتے، لیکن انہوں نے جھٹلا دیا، ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا کیونکہ وہ بُرے کام کرتے تھے۔ ‘‘

برکت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کی عمر میں برکت پیدا کر دی جائے تو وہ تھوڑی مدت میں ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ جس سے لوگ مدت تک استفادہ کرنے کے ساتھ اسے یاد رکھتے ہیں۔ خورد و نوش میں برکت پیدا ہو جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہو جاتے ہیں۔ اگر برکت اٹھالی جائے تو سب کچھ ہونے کے باوجود آنکھیں سیر نہیں ہوتیں اور پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ الغِنَى عَنْ كَثْرَةِ العَرَضِ، وَلَكِنَّ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ (صحيح البخاري، باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ)

’’سیدنا ابوہریرہtنبیeسے بیان کرتے ہیں کہ آپe نے فرمایا کہ دولت مندی مال کی کثرت سے نہیں بلکہ غنا دل کے استغنا سے حاصل ہو تی ہے۔‘‘

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ» (رواہ ابن ماجه: باب إقامة الحدود[صحیح])

’’سیدنا عبداللہ بن عمرw بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسول eنے فرمایا: ’’اللہ‘‘ کی حدود میں سے کسی ایک حد کونافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘

یاد رہے کہ فصلوں میں سب سے زیادہ چاول کی فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے یہ فصل بھی دس، گیارہ مرتبہ پانی ملنے سے تیار ہو جاتی ہے، چالیس مرتبہ بارش کو اس پر تقسیم کریں اگر ہر موسم میں اتنی بارشیں ہوں تو ملک کی زراعت کس قدر مضبوط اور بجلی کی کتنی بچت ہو گی کہ جس کا اندازہ کرنامشکل ہوجائے۔

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے