جلسئہ استراحت:

پہلی اور تیسری رکعت کے بعد قیام سے قبل تھوڑ ی دیر بیٹھنا جلسئہ استراحت کہلاتا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے دو قول ہیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ اور امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک یہ جلسہ (بیٹھنا) سنت ہے اور احناف اس کی مشروعیت وسُنیت کے قائل نہیں ۔
شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

السنۃ عند الشافعی رحمہ اللہ ان یقوم معتمداً علی الأرض خلافاً للحنفیۃ۔(شرح تراجم ابواب صحیح البخاری ص/۳۵)

امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سنت یہ ہے کہ نمازی زمین پر ٹیک لگا کر اٹھے بخلاف احناف کے ۔

المغنی میں ابن قدامہ لکھتے ہیں

: قال مالک والشافعی السنۃ ان یعتمد علی یدیہ فی النہوض۔ (۱/۵۳۰)

کہ امام مالک وشافعی رحمہما اللہ فرماتے ہیں : اٹھتے وقت ہاتھوں کا آسرالینا سنت ہے ۔
اب ہم جانِبین کے دلائل ذکر کرتے ہیں ۔ اوّلا ہم احناف کے دلائل اور ساتھ ساتھ ان کے جواب لکھیں گے ۔ اس کے بعد جلسہ استراحت کے قائلین کا ذکر ہو گا۔ ان شاء اللہ

احناف کے دلائل

۱۔ حدثنا خالد بن ایاس (یقال خالد بن الیاس) عن صالح مولی التواُمۃ عن أبی ہریرۃ قال کان النبی ﷺ یَنہَضُ فِی الصَّلوٰۃِ عَلیَ صُدُورِ قَدَمَیہِ۔ (جامع ترمذی ، مع تحفۃ الأحوذی ۱/۲۳۸ ، باب کیف النہوض من السجود)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑ ے ہوتے تو پاؤں کے سینہ پر کھڑ ے ہوتے ۔ (یعنی جلسہ استراحت کیلئے نہ بیٹھتے )۔
جواب : یہ دلیل قابل استدلال نہیں کیونکہ یہ ضعیف ہے اسے روایت کرنے کے معاً بعد امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : خالد بن ایاس ضعیف عند اہل الحدیث کہ یہ راوی خالد بن ایاس محدثین کے ہاں ضعیف ہے ۔ (حوالہ مذکور) نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ترک الناس حدیثہ ۔ (المغنی ۱/۵۳۰)
کہ لوگوں نے (اس کے ضعف کے سبب) اس کی احادیث ترک کر دیں ۔ پس یہ روایت قابل احتجاج نہیں ۔

۲۔ وَاِذَا نَہَضَ نَہَضَ عَلَی رُکبَتَیہِ وَاعتَمَدَ عَلیٰ فَخِذِہِ۔ (سنن ابی داؤد مع العون ۱/۳۱۱)

جب رسول اللہ ﷺ کھڑ ے ہوتے توگھٹنوں کے بل کھڑ ے ہوتے اور ران کا آسرا لیتے ۔4
جواب : امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے اور دونوں پر کلام ہے ۔ ایک سند میں محمد بن جحادہ ، عبد الجبار بن وائل عن أبیہ کے طریق سے روایت کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق امام منذری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ عبد الجبار کا سماع اپنے والد (وائل) سے ثابت نہیں ۔
اسی طرح دوسری سند جو ہمام عن شفیق کے واسطے سے ہے ۔ اس میں عاصم بن کلیب اپنے والد ( کلیب) سے اور وہ (کلیب) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔
کلیب کے متعلق امام منذری رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں : وحدیثہ عن النبی ﷺ مرسل فانہ لم یدرکہ (عون المعبود، ۱/۳۱۱)
کہ کلیب کی حدیث جو براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے ہو ، مرسل ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں پایا۔ پس یہ حدیث اپنی دونوں سندوں کے لحاظ سے متکلم فیہ اور ناقابل احتجاج ہے ۔
۳۔ مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ میں ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں ہے ۔
فَسَجَدَ فَانتَہَضَ قَائِماً کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور کھڑ ے ہوگئے ۔
جواب:(۱) اس کی سند میں ایک راوی شہر بن حوشب ہے ۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کثیر الإرسال والاوہام۔ کہ یہ شخص کثرت سے ارسال کرتا اور اسے وہم ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ متکلم فیہ راوی ہے ۔
(۲) نیز اس حدیث میں جلسہ استراحت کی نفی نہیں ، بالفرض نفی ہوبھی تو زیادہ سے زیادہ وجوب کی نفی ہو گی۔ اس کی سنیت کی نفی نہیں ۔
(۳) مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے زیادہ قوی ہے جس میں جلسہ استراحت کا اثبات ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ۱/۲۳۸)
(۴) عکرمہ کا بیان ہے کہ میں نے مکے میں ایک بزرگ کے پیچھے نماز پڑ ھی تو انہوں نے بائیس تکبیریں کہیں ۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا یہ شخص بے وقوف ہے جو اس قدر زیادہ تکبیرات کہتا ہے انہوں نے کہا یہی تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔
(صحیح البخاری)
استدلال
اس اثر ثابت ہوا کہ نماز میں جلسہ استراحت نہیں ۔ اگر ہوتا تو جلسوں سے اٹھنے کیلئے دو تکبیریں زیادہ ہوجاتیں ۔ اور تکبیرات بائیس کے بجائے چوبیس ہوتیں ۔ کیونکہ ہر دفعہ قیام وقعود میں رسول اللہ ﷺ تکبیر کہا کرتے تھے ۔
جواب: چونکہ جلسہ استراحت خفیف اور تھوڑ ا ہوتا ہے لہذا اس کیلئے کوئی ذکر ودعاء مشروع نہیں ۔ یہ کوئی مستقل بیٹھنا نہیں بلکہ قیام ہی کا ایک حصہ ہے لہذا اس سے جلسہ استراحت کی عدم مشروعیت پر استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔ اگر اس سے استدلال کیا بھی جائے تو وہ اشارۃ ہو گا۔ جب کہ سیدنا مالک بن حویرث کی حدیث (جو آئندہ ذکر ہو گی) جلسہ استراحت کے اثبات میں صریح ہے ۔
ومن المعلوم ان العبارۃ مقدمۃ علی الإشارۃاور قاعدہ کلیہ ہے کہ عبارت اشارہ سے مقدم ہوتی ہے پس یہ دلیل بھی ناکافی ہے ۔

(۵) نَہَی اَن یَّعتَمِدَ الرَّجُلُ عَلیٰ یَدِہِ اِذَا نَہَضَ فِی الصَّلوٰۃِ ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۳۷۷)

رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ نماز ی نماز میں کھڑ ے ہوتے وقت ہاتھ کا آسرالے ۔
جواب:اس حدیث کے بیان کرنے میں راویوں کے الفاظ مختلف ہیں ۔ ابوداؤد رحمہ اللہ کے حوالے سے مکمل متن مع سند ملاحظہ ہو۔
حدثنا احمد بن حنبل ومحمد بن شبویۃ ومحمد بن رافع ومحمد بن عبد الملک الغزال قالوا حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن اسمعیل بن امیۃعن نافع عن ابن عمر قال نہی رسول اللہ ﷺ
قال احمد بن حنبل : ان یجلس الرجل فی الصلوۃ وہو معتمدعلی یدہ۔
وقال ابن شبویۃ : نہی ان یعتمد الرجل علی یدہ فی الصلوۃ
وقال ابن رافع : نہی ان یصلی الرجل وہو معتمد علی یدہ
وقال ابن عبد الملک : نہی ان یعتمد الرجل علی یدیہ اذا نہض فی الصلوۃ
پس امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے اندازِ روایت سے واضح ہے کہ یہ روایت ایک ہی ہے صرف راویوں کے الفاظ میں اختلاف ہے ۔ پہلے راوی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔ ان کے بیان کردہ الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ نمازی دورانِ نماز ہاتھ پر ٹیک لگا کر نہ بیٹھے ۔ دوسرے اور تیسرے راوی کی روایت کا مفہوم ہے کہ مطلقاً نماز کے دوران نماز ی ہاتھ کی ٹیک نہ لے مگر اس کو بھی بیٹھنے کے وقت کے ساتھ خاص کیا جا سکتا ہے کیونکہ دوسری روایات میں بالصراحت نمازی کو بحالتِ جلوس ہاتھ کی ٹیک سے منع کیا گیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو مصنف عبد الرزاق ۲/۱۹۷ والسنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۱۳۵ والمستدرک للحاکم ۱/۲۷۲)
ان تمام روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ امام احمد کی روایت سب سے صحیح ہے جسے دوسری روایات کی تائید حاصل ہے ۔ پس احناف نے صرف ابن عبد الملک کی روایت اور الفاظ سے استدلال کیا جو دوسری روایات کے مقابلے میں شاذ ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ اس کی تائید میں کوئی مستند روایت ہی ہے لہذا یہ بھی غیر مقبول اور مردود ہے ۔ اس سے بھی احناف کے موقف کی تائید نہ ہو سکی۔
(۶) سنن ابی داؤدرحمہ اللہ میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے

: فَسَجَدَ ثُمَّ کَبَّرَ فَقَامَ وَلَم یَتَوَرَّک ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۲۶۷)

کہ رسول اللہ ﷺ سجدے کے بعد تکبیر کہہ کر کھڑ ے ہوئے اور نہ بیٹھے ۔
اس سے امام طحاوی حنفی نے استدلال کیا ہے کہ چونکہ ابو حُمید کی اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں لہذا یہ مشروع نہیں ۔ (حاشیہ صحیح البخاری ۱/۱۱۳)
جواب: یہ صحیح ہے کہ ابو حُمید رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں لیکن اس میں جلسہ استراحت کا مذکور نہ ہونا اس کے عدم وجود اور نفی پر کیسے دال ہوا؟
اگر امام طحاوی کے بقول جلسہ استراحت کا عدم ذکر اس کے عدمِ مشروعیت پر دال ہے تو
۱۔اس میں وضو کا ذکر نہیں ۔
۲۔نماز میں قبلہ رو ہونے کا بھی ذکر نہیں ۔
۳۔ دعاء استفتاح کا نام ونشان تک نہیں ۔
۴۔نماز میں ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر نہیں ۔
۵۔رکوع وسجود کی دعاؤں کا بھی کوئی ذکر نہیں ۔
کیا طحاوی صاحب اور ان کے ہمنواوہم خیال احباب مندرجہ بالا پانچوں امور کی عدمِ مشروعیت کا فتویٰ دیں گے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
امام طحاوی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا اس حدیث میں ذکر نہیں وہی مشروع ہے تو ہم عرض کریں گے کہ :
ا۔ اس حدیث میں رکوع کو جاتے ہوئے ، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور تیسری رکعت کے قیام کے وقت رفع الیدین کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے ۔ احناف کو اس سنت سے کیوں عداوت ہے ؟
ب: اس حدیث میں آخری تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ (تورّک) جس پر اصحاب الحدیث عامل ہیں ۔ (الحمد للہ) یہ احناف کو کیوں گوارا نہیں ؟
پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں اگر جلسہ استراحت کا ذکر نہیں تو کیا ہوا؟ دیگر صحیح ترین روایات میں صراحتاً ذکر موجود ہے وہی اس کے سنت ہونے کی دلیل میں کافی ہے ویسے احناف کی معلومات میں اضافے کی غرض سے عرض ہے کہ سنن ابی داؤد رحمہ اللہ میں باب افتتاح الصلوٰۃ کی دوسری حدیث انہی ابو حُمید رضی اللہ عنہ سے ہے اس میں جلسہ استراحت موجود ہے ۔ ذرا غور سے دیکھیں ۔

۷۔ کَانَ اِذَا رَفَعَ رَاسَہُ مِنَ السَّجدَتَینِ اِستَوَی قَائِماً۔ (سبل السلام شرح بلوغ المرام بحوالہ مسند بزار باب صفۃ الصلاۃ ۱/۳۱۱، حدیث :۲۸۶)

کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدوں سے اٹھتے تو سیدھے کھڑ ے ہوجاتے ۔
جواب : یہ حدیث بھی ناقابل استدلال وناقابل احتجاج ہے ۔ امام نو وی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (ملاحظہ ہو سبل السلام صفحہ ایضاً)

۸۔ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلوٰۃِ المَکتُوبَۃِ اِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِی الرَّکَعتَینِ الأُولَیَینِ اَن لاَ یَعتَمِدَ عَلَی الأَرضِ إِلاَّ اَن یَّکُونَ شَیخاً کَبِیراً لاَ یَستَطِیعُ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۱۳۶)

سنت ہے کہ پہلی دو رکعتوں کے بعد جب نمازی کھڑ ا ہو تو زمین پر آسرا نہ لے الا یہ کہ بوڑ ھا ہو۔
جواب: اس کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق اور زیاد بن زیاد السوائی ہیں اور یہ دونوں راوی اہل علم کے ہاں روایت حدیث میں مجروح اور متکلم فیہ ہیں اس وجہ سے ان کی بیان کردہ روایات ضعیف اور ناقابل عمل ہیں ۔
۹۔ عن النعمان بن ابی عیاش قال اَدرَکتُ غَیرَ وَاحِدٍ مِن اَصحَابِ النَّبِیِّ ﷺ فَکَانَ اِذَا رَفَعَ رَأسَہُ مِنَ السَّجدَۃِ فِی اَوَّلِ رَکعَۃٍ وَالثَّالِثَۃِ قَامَ کَمَا ہُوَ وَلَم یَجلِس۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)
نعمان بیان کرتے ہیں میں نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ پہلی رکعت میں بیٹھے بغیر کھڑ ے ہوجاتے تھے ۔
جواب: اس کی سند میں محمد بن عجلان راوی مدلس ہے جو عن سے روایت کرتا ہے اہل علم جانتے ہیں کہ مدلس راوی کی روایت بصیغہ عن مقبول نہیں ہوتی۔ نیز اس کا حافظہ بھی درست نہ تھا اور یہ بیان کرنے میں اکیلا ہے نیز ابن عجلان سے ابو خالد الاحمر راوی ہے اس کا حافظہ درست نہ تھا۔ لہذا یہ اثر بھی ناقابل استدلال ہے ۔

۱۰۔عن عبد الرحمن بن یزید قال رَمَقتُ عَبدَ اللّٰہِ بنَ مَسعُودٍ فِی الصَّلوٰۃِ فَرَأَیتُہُ یَنہَضُ وَلاَ یَجلِسُ قَالَ یَنہَضُ عَلیٰ صُدُورِ قَدَمَیہِ فِی الرَّکعَۃِ الاُولیٰ وَالثَّالِثَۃِ ۔ (بیہقی فی السنن)

عبد الرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نماز میں غور سے دیکھا وہ پہلی اور تیسری رکعت میں بیٹھے بغیر کھڑ ے ہوا کرتے تھے ۔
جواب: اس حدیث کو بیان کر کے امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اگرچہ جلسہ استراحت کا ترک کرنا ابن مسعود سے صحیح ثابت ہے تاہم سنت کی اتباع واطاعت افضل ہے ۔لہذا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس عمل کو ترک کرنا اس کی عدم مشروعیت پر دلالت نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کا اسے ترک کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کسی عمل کو ترک کرنا اس کے مسنون نہ ہونے پر دال نہیں ۔

۱۱۔ عن عطیۃ العوفی قال رَأَیتُ ابنَ عُمَرَ وَابنَ عَبَّاسٍ وَابنَ الزُّبَیرِ وَاَباَ سَعید الخدریِّ یَقُومُونَ عَلیٰ صُدُورِ اَقدَامِہِم فِی الصَّلوٰۃِ ۔ (بیہقی)

عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ، ابن عباس ، ابن الزبیر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم کو دیکھاکہ یہ لوگ نماز میں سیدھے پاؤں کے بل کھڑ ے ہوتے ہیں ۔
جواب : اس اثر کا راوی عطیہ ہے جس کے متعلق امام بیہقی نے اسی اثر کے بعد لکھا وعطیۃ لا یحتج بہ کہ عطیہ قابل احتجاج نہیں ۔
میزن الاعتدال میں امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ مشہور تابعی ہے مگر ضعیف ہے ۔
نیز صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کا کسی عمل کو ترک کر دینا اس کے مسنون ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ صحابہ کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع اولیٰ اور افضل ہے ۔
۱۲۔ بعض احناف کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ جلسہ منسون ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی نماز بیان کرنے والا ہر صحابی اسے ذکر کرتا کچھ ذکر کرتے ہیں کچھ ذکر نہیں کرتے لہذا یہ سنت نہیں ہے ۔
جواب: یہ اعتراض بے محل اور بے جا ہے کیونکہ کسی بھی ایک صحابی نے مکمل نماز بیان نہیں کی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی مکمل نماز تمام صحابہ کی احادیث اور بیان جمع کر کے سب سے مجموعی طور پر معلوم ہوئی ہے ورنہ کسی ایک حدیث میں مکمل نماز کا بیان نہیں آیا۔
۱۳۔ اگر یہ جلسہ استراحت مسنون ہوتا تو اس کیلئے کوئی ذکر مشروع ہوتا اس جلسہ میں چونکہ کوئی ذکر اور دعاء نہیں معلوم ہوا کہ یہ سنت نہیں ۔
جواب: یہ اعتراض بھی محض اعتراض ہے ورنہ اس میں بھی کوئی وزن نہیں چونکہ یہ انتہائی مختصر ، خفیف جلسہ ہے اور قیام ہی کا ایک حصہ ہے اس لئے علیحدہ دعا مشروع نہیں ۔
۱۴۔صاحب ہدایہ وغیرہ جب اپنے جملہ دلائل کے جوابات پا چکے اور اپنے اعتراضات کی غیر معقولیت ان پر واضح ہوئی تو عاجز ہوکر جلسہ استراحت کی تاویل یہ کی کہ یہ بڑ ھاپے پر محمول ہے جب رسول اللہ ﷺ عمر رسیدہ ہوگئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ ﷺ نے بیٹھنا شروع کیا ورنہ یہ سنت نہیں ۔
جواب : لیکن ان کی یہ تاویل بھی اہل علم کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ یہی وجہ سے کہ خود احناف میں سے البحر الرائق کے مصنف نے اس تاویل کو پسند نہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کی کوئی دلیل پیش کرنی چاہیے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسی طرح نماز پڑ ھو جیسے مجھے نماز پڑ ھتے دیکھتے ہو لہذا صاحب ہدایہ کی یہ تاویل بھی غیر معقول اور غیر مقبول ہوئی۔
جلسہ استراحت کا ثبوت
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔
صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی ۔(صحیح بخاری)
کہ تم نماز اسی طرح پڑ ھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑ ھتے دیکھا ، کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ مروی روایات میں جلسہ استراحت کا ثبوت موجود ہے ۔

عن ابی قلابۃ قال اخبرنی مالک بن الحویرث اللیثی أنہ رَأَیَ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّی فَإِذَا کَانَ فِی وِترٍ مِن صَلٰوتِہِ لَم یَنہَضَ حَتَّی یَستَوِیَ قاَعِداً۔ (صحیح بخاری ، ۱/۱۱۳ ، باب من استوی قاعدا فی وتر من صلوتہ ثم نہض ۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱/۳۱۳ ، باب کیف النہوض فی المفرد ۔ سنن النسائی ۱/۱۳۶ ، باب الاستواء للجلوس عند الرفع من السجدتین )

ترجمہ:مالک بن حویرث کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑ ھتے دیکھا جب پہلی اور تیسری رکعت میں ہوتے تو نہ کھڑ ے ہوتے جب تک برابر ہوکر نہ بیٹھتے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ جلسہ سنت ہے اور کان کا لفظ استمرار پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کسی عذر کی وجہ سے نہ تھا۔
نمازی جلسہ استراحت کے بعد کیسے کھڑ ا ہو؟
جلسہ استراحت کے بعد جب نمازی کھڑ ا ہوتو اسے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر ان کا آسرا لے کر کھڑ ا ہونا چاہیے ۔
مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہوئے ابو قلابہ نے بیان کیا ہے کہ سیدنا مالک بن حویرث رحمہ اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑ ھائی اور فرمایا میں تمہیں نماز پڑ ھاتا ہوں میرا نماز کا کوئی ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے نبی محترم ﷺکیسے نماز پڑ ھتے تھے ؟
ابو قلابہ کے شاگرد ایوب نے ان سے پوچھا کہ سیدنا مالک رضی اللہ عنہ کی نماز کیسے تھی ؟ انہوں نے عمرو بن سلمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ان شیخ کی نماز جیسی تھی ۔
ایوب کہتے ہیں وہ شیخ(عمرو بن سلمہ) جب دوسرے سجدسے سے سراٹھاتے تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ہاتھ رکھتے ، پھر کھڑ ے ہوتے ۔( صحیح بخاری ، سنن ابی داؤد ، سنن النسائی ، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ۱/۲۳۷ ، باب کیف النہوض من السجود)
معلوم ہوا کہ یہ جلسہ سنت ہے تبھی تو سیدنا مالک رحمہ اللہ نے یہ بتایا اور کر کے دکھایا اور دیگر لوگ بھی اس کے عامل رہے ۔ یادرہے کہ کسی امتی کے کسی عمل کو ترک کر دینے سے اس عمل کا سنت ہونا مشکوک نہیں ہوجاتا۔
نمازی زمین پر ہاتھ کیسے رکھے ؟
سابقہ بحث سے واضح ہوا کہ جلسہ استراحت مسنون ہے جلسہ کے بعد قیام کو جاتے ہوئے زمین پر ہاتھ رکھنے چاہیں اب آخری ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ نمازی جلسہ کے بعد زمین پر ہاتھ کیسے رکھے ؟ ہاتھ کھلے ہوں یا مٹھی بند ہو؟۔
اس بارے میں محدث العصر الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ مٹھی یوں بند ہو جیسے آٹا گوندھنے والا بند کرتا ہے ۔ انہوں نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (۲/۳۹۲) میں ایک حدیث نقل کی ہے ۔ لفظ یہ ہیں :

اخرج ابو اسحق الحربی فی غریب الحدیث (۵/۹۸/۱) عن الأزرق بن قیس رَأَیتُ ابنَ عُمَرَ یَعجِنُ فِی الصَّلٰوۃِ یَعتَمِدُ عَلیَ یَدَیہِ اِذَا قَامَ فَقُلتُ لَہُ : فَقَالَ: رَاَیتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ یَفعَلُہُ ۔

ازرق بن قیس فرماتے ہیں میں نے سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا جب کھڑ ے ہوتے تو ہاتھوں کو ٹیکتے اور آٹا گوندھنے والے کی طرح ہاتھ رکھتے ۔ ازرق کہتے ہیں کہ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا ، تو انہوں نے جواب دیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۔ یادر رہے کہ اس اثر کی سند کو شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے ۔
النہایہ فی غریب الحدیث میں ابن الاثیر نے یعجن کا معنی لکھا ہے کہ ہاتھ کو آٹا گوندھنے والے کی طرح رکھا جائے ۔ جلسہ استراحت کے اثبات میں مالک بن حویرث کی حدیث بروایت ابی قلابہ بحوالہ صحیح بخاری اوپر ذکر ہو چکی ۔ کرمانی کے حوالے سے اس حدیث کے حاشیہ پر صحیح بخاری میں ہے ۔

قال الفقہاء : یعتمد کما یعتمد العاجن للخمیر

کہ ہاتھ یوں رکھے جیسے آٹا گوندھنے والار کھتا ہے ۔
پس علامہ الالبانی رحمہ اللہ اور علامہ کرمانی کے حوالوں سے جلسہ استراحت کے بعد قیام کیلئے کھڑ ے ہوتے وقت زمین پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت متعین ہوگئی۔
استاذ الاساتذہ الحافظ محمد صاحب محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں نے ہم سے بیان کیا کہ محترم حافظ صاحب رحمہ اللہ کا عمل بھی اس کے مطابق تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے