دین اسلام پوری دنیا اور تمام نوع انسانی کیلئے رہنما دین ہے اور اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق ومالک اور پالنہار ہے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ اسی ذاتِ وحدہ لاشریک کی گواہی دیتاہے جو بھی اس دین برحق کو قبول کرتاہے اس کے ذمہ اِس پیغام حق کو دوسروں تک حکمت ودانائی سے پہنچانا بھی ضروری ہوجاتاہے ، اور ویسے بھی فی زمانہ اسلامی میڈیا کی ضرورت واہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ غیر اسلامی میڈیا جس طرح اخلاقی انار کی اور بغاوت پھیلا رہاہے اورنور کو ظلمت اور ظلمت کو نور بنانے میں مصروفِ عمل ہے ۔ ایسے نہ گفتہ بہ حالات میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ بھی صحافتی میدان میں بھر پور طریقہ سے قدم رکھتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا چاہتا ہے۔ اس عظیم مقصد کی خاطر اور مشن انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کی تکمیل کیلئے اور پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ علیہ کی مخلصانہ جدوجہد کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لیے مجلہ ’’ اسوئہ حسنہ ‘‘ کا اجراء کیا جارہا ہے ہم اپنے مجلے کانام رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم وصف کی طرف منسوب کررہے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن حکیم میں تذکرہ یوں کیا ہے۔

{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآَخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا} (الاحزاب : ۲۱)

’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول (کی ذات ) میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔‘‘
اور اس میں شک بھی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس تمام مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین نمونہ ہے جن کے مقابلے میں کسی اور کا کوئی بھی نمونہ عمل واخلاق قابلِ اتباع وپیروی نہیںہوسکتاکیونکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیںہے جس کے لیے رسول اکرم ﷺ کا کوئی اسوئہ نہ ملتا ہو۔ انسانی زندگی جن جن چیزوں سے تعبیر ہے ان سب کی تعمیر کے لیے نمونہ عمل موجود ہے ۔ آپ ﷺ کی زندگی کے شب وروز صبح وشام آئینہ جہاں میں موجود ہیں ، آپ کا ہر مشکل وقت اور آسان زمانہ سامنے ہے ، رنج والم، حزن وملال اور بے کسی میں آپ کا صبر واستقلال اور توکل کا حال بھی موجود ہے اور ایام سلطانی کا عجز وانکسار ، حلم وتدبر اور عدل وانصاف کے نمونے بھی واضح ہیں ۔ جنگ کے میدان کے تمام تر واقعات اور صلح کی زبان کے تمام تر الفاظ آج بھی اسی طرح موجود ہیں ، جیسے کل تھے ۔ آپﷺ کی ذاتِ بابرکات کا ہر وصف آپ کا ہر قول ہر فعل آپ کی حرکات وسکنات کی ساری تصویریں آج بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح آپ کے وقت کے لوگوں کے سامنے تھیں، آپ کے فیصلے ، حکم ، ہدایات آپ کا اٹھنا ، بیٹھنا ، بولنا ، ہنسنا ، سونا اور جاگنا اور آپ کاسراپا آج بھی اسی طرح پہچانا جاتاہے اور ہمیشہ پہچانا جاتارہے گا جس طرح آپ کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد پہچانا گیا تھا ۔ رسول معظم ﷺ تونورِ ہدایت ہیں جس کی روشنی پہلے بھی بے داغ تھی اور آج بھی بے داغ ہے اس لیے آپ پہلے والوں کی طرح آج بھی اور کل والوں کے لیے بھی بہترین اسوئہ حسنہ ہیں ۔ اس نمونہ کو تھام کر ہر فرد، ہر قوم ،ہر ملت ، ہر برادری ، ہر تنظیم ، ہر ادارہ اور ہر جماعت کامیابی وکامرانی حاصل کرسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا اسوئہ حسنہ ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کاضامن ہے اور یہی وہ بنیادی اور اہم طریقہ ہے جو ایک عام انسان کو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتاہے ۔ مجلے کی اس عظیم نسبت کے حوالے سے ہم پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہورہی ہیں ۔ ہمیں ان کا بخوبی احساس ہے ادارہ مجلہ کی انتہائی کوشش ہوگی کہ ہم اسے اسم بامسمّی ثابت کریںاور اس مجلہ کے ذریعے سید المرسلین ﷺ کے اسوئہ حسنہ کو عامۃ الناس تک پہنچائیں۔
یوں تو صحافتی میدان میں رسائل وجرائد کی تعداد بے شمار ہے مگر دینی رسائل کی تعداد بہت محدود ہے اور ان میں بھی کتاب وسنت کی خالص تعلیمات کو حکیمانہ انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ ان میں بھی بعض میں شخصیت پرستی اور شخصی اجارہ داری کا عنصربھی بہت غالب ہے بلکہ فرقہ وارانہ تعصبات اور مذہبی منافرت، شخصی تقلید اور خوشامدی صحافت کے علمبردار نظر آتے ہیں۔
’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ ان شاء اللہ صحافتی میدان میں خالص کتاب وسنت کی آواز کو تقویت باہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگااور حق وصداقت کا ترجمان بن کر شفاف اور بے باک صحافت اور اعلیٰ اقدارکا امین بن کرنبّاض اور مصلح کی حیثیت سے اپنے سفر صحافت کو جاری اور ساری رکھنے کی بھر پور کوشش کرے گا ۔
’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ کی نوعیت ان شاء اللہ ایک علمی ، تحقیقی اور اصلاحی مجلے کی ہوگی اس میں کوئی شک نہیں کہ ملتِ اسلامیہ کے اہل توحید اور اصحاب خیر مختلف سمتوں میں توحید وسنت کی سربلندی کے لیے اپنی اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن آپ محسوس کریں گے کہ اسلامی صحافتی میدان میں عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں تحقیقی کام کے حوالے سے ہماری کوششیں انتہائی ناکافی ہیں جبکہ در پیش چیلنجزسنگین تر ہوتے جارہے ہیں ۔ قرآن وحدیث کی خالص تعلیمات پر فرقہ پرست اور باطل گروہوں کی طرف سے مسلسل اور سنگین حملے ہورہے ہیں ، ان کا دفاع کرنا ، انہیں ناکام بنانا اور توحید وسنت کا تحفظ اہل توحید کی اہم ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کا خیال رکھتے ہوئے ’’مجلہ اسوئہ حسنہ‘‘ کو بیک وقت عربی ، اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اس وقت مختلف موضوعات اور مختلف زبانوں میں عقیدہ وفکر کی گمراہی میں مبتلا لوگوں کی جانب سے لکھی گئی لاتعداد کتابوں اور مضامین کا جواب ہم پرقرض ہے۔ہم ’’ مجلہ اسوئہ حسنہ‘‘ کے ذریعے اہل علم واہل قلم کی توجہ تصنیف وتالیف ، تحقیق واصلاح کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کریں گے اور اہل باطل کے جواب میں کیے گئے اہل توحید کے علمی وتحقیقی کام کو منظرعام پر لانے میں ان کے معاون بنیں گے ہم جماعت کے تمام اہل علم وفضل و اصحاب قلم سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی علمی ، تحقیقی اور اصلاحی نگارشات سے ’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ کو ممنون فرمائیں گے۔

ہم یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ مجلہ بیک وقت نہ صرف اساتذہ عظام اور طلباء کرام بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی بشمول خواتین واہل خانہ کے لیے مفید ثابت ہو گا اس میں علماء کرام کی دلچسپی کے علمی وتحقیقی مضامین بھی ہونگے اور عوام الناس کے لیے دینی علم وشعور واصلاح فراہم کرنیوالی ہلکی پھلکی تحریریں بھی۔
اس وقت ہمارا معاشرہ بگاڑ کی آخری حدوں کو چھورہا ہے ۔ صحیح اور غلط ، حلال اور حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ۔ بے علمی ، جہالت ، عصبیت اور دینی تعلیمات ، اسلامی تہذیب وتمدن اور ثقافت سے غفلت عام ہوچکی ہے بلکہ اغیار سے اٹھنے والے تہذیبی اور ثقافتی طوفان نے اسلامی افکار ونظریات اور اسلامی اقدار وروایات کو بہت بری طرح متأثر کررکھا ہے ایک سازش کے تحت کیبل کلچر اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عیاشی ، فحاشی ، بے پردگی ، اختلاط مردوزن ، عریانی ، بے حیائی ، دین سے بغاوت غیر شرعی آزادی نسواں اور نوجوانان اسلام کے جذبات سے کھیلنے اور انہیں بے حمیت بنانے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہماری حتی الوسع کوشش ہوگی کہ اس مجلے کے ذریعہ سے قرآن وسنت کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کرتے ہوئے ، مغرب سے آنے والے اور خود اپنے ملک سے بھی اٹھنے والے طوفانوں اور سیلابوں کے سامنے بند باندھ سکیں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرسکیں۔اس عظیم کارخیر میں ہمیں اپنے قارئین کرام کی تجاویز اور مشوروں کی اشد ضرورت رہے گی ، ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری صحیح سمت میں رہنمائی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے صدق وسچائی کے ابلاغ کی اور ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اس بات سے کوئی بات ہم سے قرآن وحدیث کے خلاف صادر ہو۔ آمین
جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کی مذمت
جماعۃ الدعوۃ پاکستان کی خالص خیر خواہ ، امن پسند ، دینی اور رفاہی جماعت ہے جس کا شدت پسندی اور دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف کتاب وسنت کا منہج رکھنے والی جماعت ہے جوکہ حقوق اللہ کی تعلیم عام کرنے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پوراکرنے کی تڑپ رکھتی ہے جس کی زندہ جاوید مثالیں 8اکتوبر 2005ء؁ اور حال ہی میں بلوچستان کے زلزلہ زدگان کی خدمت میں انتہا ئی کاوش ہے جس نے دشمنوں کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیاکہ خالص انسانی خدمت کا جذبہ دیکھنا ہوتو جماعۃ الدعوۃ کے کارکنوںکو دیکھ لیا جائے۔ سیلاب زدگان کی خدمت یتیموں کی کفالت اور بیواؤں کی خدمت اس کے علاوہ ہے، ایسی دینی اور فلاحی تنظیم پراغیار کے ایما پر بغیرکسی ٹھوس ثبوت کے پابندی لگانا اور قیادت کو نظر بند کرنا عدل وانصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کو اٹھا کر انہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی آزادی دی جائے اگر پابندی لگانی ہے تو ان جماعتوںپر پابندی لگائی جائے جو فرقہ واریت کو ہوادے رہی ہیںبلکہ بعض تو نظریہ پاکستان کے بھی خلاف ہیں انہیں نہ صرف ہر طرح کی آزادی بلکہ حکومتی تعاون بھی حاصل ہے جبکہ جماعۃ الدعوۃ اپنی مدد آپ کے تحت پاکستانی عوام کی خدمت کررہی ہے اور موجودہ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی اس بات کا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ دہشت گرد تنظیم نہیں ہے بلکہ اس کے کارکنان تو رفاہی اور فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ (روز نامہ امت : مؤرخہ 14 دسمبر 2008ء؁ )
وزیر موصوف کے بیان کے بعد بھی جماعۃ الدعوۃ پر پابندی ’’ چہ معنی دارد‘‘جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ جوکہ امن عالم کے ضامن ہونے کی دعویدار ہے بذات خود ہی ظالمانہ کاروایوں میں مصروف عمل ہے کہ جماعۃ الدعوۃ پر تو ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کے باوجود پابندی کا پروانہ جاری کردیا گیا اس لیے کہ جماعۃ الدعوۃ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جبکہ اسرائیل آئے روز نہتے ، بے بس اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں پراور کشمیری مسلمانوں پر انڈیا آگ اور خون برساتا رہتاہے۔ مگر وہاں کسی کو ظلم وبربریت اور جارحیت ، انتہاپسندی اور دہشت گردی نظر نہیں آتی یہ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور جانبداری ہے جو اسے کسی طرف بھی نہ اخلاقی نہ بین الاقوامی اور نہ ہی مذہبی لحاظ سے زیب دیتی ہے مگر اسے جان لینا چاہیے کہ ظلم کی تاریک رات کی مدت بہت کم ہوا کرتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے