﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ﴾( البقرۃ: ۱۸۳)

ترجمہ: اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح سے ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں شاید کہ تم متقی بنو۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رحمتوں ، بخششوں ، عظمتوں اور مغفرتوں والا ماہ مقدس سایہ فگن ہورہا ہے ۔مساجد کی رونق بڑ ھ جائے گی فرزندانِ توحید تقوی کے حصول کیلئے دنیاوی ناز ونعم کو ترک کر کے اپنے رب رحیم وکریم کا حکم بجا لانے میں مستعد ہوجائیں گے سارا سال کاہلی اور سستی کرنے والا مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر کوشش کرے گا کہ برے کاموں سے بچا رہے ۔ درحقیقت روزہ اسی کا ہے جو کھانے ، پینے ، شہوت ، غیبت ، بدزبانی ، بداندیشی اور بدعملی سے مکمل اجتناب کرے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے کا نام ہے جو روزے دار روزہ رکھ کر بھی غیبت ، گالی گلوچ، مکروفریب ، رشوت ، قماربازی ، سود خوری ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدنظری سے نہیں رکتے وہ روزے کی روح سے نابلد ہیں ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :

مَن لَّم یَدَع قَولَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِہِ فَلَیسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَن یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ ۔(صحیح البخای ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۱۹۰۳)

جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بدعملی سے نہیں رکتا(اس سے کہہ دو) کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں ۔
دوسری جگہ ارشادفرمایا

: اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلاَ یَرفُث وَلاَ یَجہَل وَاِنِ امرُؤٌ قَاتَلَہُ أَو شَاتَمَہُ فَلیَقُل إِنِّی صَائِمٌ مَرَّتَینِ ‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الصوم، حدیث نمبر ۱۸۹۱)

ترجمہ: روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بدزبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑ ے یا گالیاں دے تو اسے دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں ۔
اسلام کا مقصد بھی ایسے ہی رجال کارکی تیاری ہے جو خواہشات ، جذبات اور اعمال میں متوازن ہو، جو خواب وخور، گفت وشنید، خندہ وگِریہ، جسم وروح اور دنیا وآخرت میں توازن قائم رکھتے ہوں ۔تمام بد اعمال لوگ مثلاً : راشی اہل کار، انصاف فروش حکّام ، عیاش سرمایہ دار، لامذہب اساتذہ وطلباء اور گراں فروش تجار اس ماہ مقدس میں بھی اس توازن کو اپنے جذبات ، اعمال اور حرکات سے درہم وبرہم کر رہے ہوتے ہیں جبکہ روزہ تو اس توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہے جس طرح فوج کو جفاکش بنانے کیلئے ہر سال ایک دوماہ کیلئے جنگلوں اور پہاڑ وں میں رکھا جاتا ہے جہاں سپاہی ہر روز میلوں پیدل چلتے اور پہروں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اِسے کیمپ لائف کہا جاتا ہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے کیمپ لائف ہے خود ہی غور فرمائیے کہ جولوگ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی فطری محبت کے باوجود چھوڑ کر رب کریم کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر روز کم از کم بارہ گھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں ، سحری کے بعد دیر تک تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں ۔ تمام گنا ہوں سے بچتے ہیں ، پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے تصور میں ڈوبے رہتے ہیں غرباء ، مساکین ، ایتام اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرتے ہیں اپنی کمائی کا خاصہ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو تقدس اور توازن کی مطلوبہ منزل کو پہنچ سکتے ہیں ۔
روزے کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت ہے اس روزے سے نہ صرف تزکیہ نفس ہوتا ہے بلکہ اس کی بدولت انسان مادی خواہشات ، لالچ اور طمع جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرتا ہے اور روزے سے روحانی تربیت ہوتی ہے اس سے ذہنی اور جسمانی نظم وضبط پیدا ہوتا ہے انسانیت سے محبت کا شعور اجاگر ہوتا ہے رمضان میں عبادت کے ذریعے انسان انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت بھی حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں مساوات پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
رمضان المبارک حقوق اللہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص محروم طبقات کی جانب متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ بنتا ہے کیونکہ انسان خود بھوکا پیاسا رہ کر دوسروں کی فاقہ کشی کابخوبی احساس کرسکتا ہے ۔
اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے رمضان و قرآن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس ماہ مقدس میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے دل کی اجڑ ی بستی کو آباد کیا جائے تاکہ وہ دل کے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بن سکے اور اللہ تعالی کا بھی ارشاد گرامی ہے

:﴿إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ٭ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ ﴾ (فاطر: (۲۹۔۳۰)

وہ جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالی ان کو پورا پورا اجر عطا فرمائے گا اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا بے شک وہ بڑ ا بخشنے والا اور قدرت والا ہے اور قرآن پاک کی تلاوت سے انسان کے خیالات ، احساسات اور فکر پاک ہوتی ہے جب اس کے اندر پاکیزگی آ جاتی ہے تو ظاہر بھی صاف ہوتا چلا جاتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ
قرآن مجیدکو کثرت کے ساتھ اور سمجھ کر پڑ ھا جائے جس سے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور تعلق باللہ بڑ ھتا ہے۔
قرآن پاک ایک بات بہت زور دے کر کہتا ہے اس پر بھی غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے آخرت کی فکر کرنی چاہیے ۔
روزہ مسلمانوں کو نظم و ضبط ، صبر و استقامت ، ایثارو قربانی، اتحادویگانگت، باہمی اخوت، محبت ، مساوات ، ضرورتمندوں سے حسن سلوک ، انفاق ، مؤثر پلاننگ اور اپنے دشمن کو پہنچانے کا اور اس سے فی سبیل اللہ نبرد آزما ہونے کا بھی درس دیتا ہے ۔
رمضان المبارک تقوی و صبر کا مہینہ ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے طاقت اور جذبہ ایمانی کے عملی مظاہرے کا مہینہ ہے اسی ماہ میں غزوہ بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں نے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دی یہ ماہ رحمت مسلمانوں کو دنیا کے فرعون کے خلاف مقابلہ اور طاغوت کے خلاف کھڑ ا ہو جانے کا پیغام دیتا ہے ۔
ماہِ رمضان مسلمانوں کو درس دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! بلا شبہ روزہ تمہیں صبرو عظمت سکھاتا ہے لیکن صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی مدر پدر آزاد، پلید رحمت دو جہاں ، محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی طرح بھی گستاخی کرے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو نہیں بلکہ غازی عبد القیوم شہید ، غازی علم الدین شہید ، عامر عبدالرحمن چیمہ شہیداور شہیدۃ الحجاب کی طرح اپنی جان سے آگے گزر جاؤ۔
الغرض روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی عملی تربیت کا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت میں کا میابی و کامرانی حا صل ہو سکے اور یہی رمضان المبارک کا پیغام ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے