پہلی بات

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت دنیا میں موجود چیزوں میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے ۔ انسانوں میں ہمیں سب سے اعلیٰ وارفع انبیاء ورسل کا طبقہ دکھائی دیتا ہے اگر دنیا میں موجود کتب کے متعلق غور کریں تو کتب سماوی کو بلند مقام حاصل ہے پھر کتب سماوی میں سے قرآن حکیم ایک منفرد اور اعلی مقام ومرتبہ رکھتا ہے اگر ہم دنوں پر غور کریں تو فرمان نبوی کی رو سے جمعہ کو ایک خاص منزلت اور رفعت حاصل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

خَیرُ یَومٍ طَلَعَت فِیہِ الشَّمسُ یَومُ الجُمُعَۃِ ۔ (سنن الترمذی ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر :۴۵۰)

بہترین دن جس دن سورج نکلتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے ۔

اسی طرح مکہ اور مدینہ کی شان باقی تمام بلدان اور شہروں سے افضل ہے حتی کہ مکہ کی قسم خود ربّ کائنات نے قرآن میں اٹھائی اور فرمایا

﴿وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ ﴾(التین :۳)

اور مجھے اس بلد امین (مکہ) کی قسم ہے ۔
اسی نقطہ سے جب ہم سال کے بارہ مہینوں کیطرف نگاہ دوڑ اتے ہیں تو جو مقام ومنزلت ماہ رمضان کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے مہینے کو حاصل نہیں پھر رمضان کے عشرہ اخیرہ کی شان اس کے پہلے دو عشروں سے زیادہ ہے رمضان کی جان ا سکا آخری عشرہ ہے اس لیے اس عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے ۔
رمضان کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت میں زیادتی کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یوں بیان فرمایا ۔

کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَجتَہِدُ فِی العَشرِ الأَوَاخِرِ مَا لاَیَجتَہِدُ فِی غَیرِہِ (رواہ مسلم، کتاب الإعتکاف ، حدیث نمبر :۲۰۰۹)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آخری عشرہ میں جو محنت اور جدوجہد فرماتے وہ بقیہ دنوں میں نہیں فرماتے تھے ۔
رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ایسے معمولات ہمیں ملتے ہیں جو کہ رمضان کے پہلے عشرے میں کم ہی نظر آتے ہیں ۔
۱۔ رات بھر جاگنا
مسند احمد میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے شروع کے دنوں کی راتیں کچھ نماز پڑ ھ کر اور کچھ سوکر گزارتے لیکن جب عشرہ اخیر شروع ہوجاتا تو(مکمل شب بیداری) کیلئے کمر کس لیتے اور مستعد ہوجاتے ۔
۲۔ اپنے اہل کو جگانا
طبرانی میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑ ے کو جو نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اٹھایا کرتے تھے ۔
۳۔ وصال صوم
بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشرہ اخیر ہ میں وصال صوم بھی کرتے تھے ۔
۴۔ لیلۃ القدر
یہ بھی عشر ہ اخیر کے اہم خصائص میں سے ہے جس کے بارے میں فرمان رب العالمین ہے کہ

﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ﴾(القدر :۳)

لیلۃ القدر کی ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَن قَامَ لَیلَۃَ القَدرِ اِیمَاناً وَاحتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہِ (صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۱۷۶۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے ایمان اور احتساب(ثواب کی نیت سے ) کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
۵۔ اعتکاف
اعتکاف بھی عشرہ اواخرہ کے اہم خصائص میں سے ہے ۔
اعتکاف کی تعریف
لغت میں اعتکاف کا لفظ عکف سے بنا ہے جس کا معنی ہے روک لینا بند کرنا ، مقید کرنا وغیرہ
شرعی اصطلاح میں اعتکاف کسی مسلمان کا عبادت الٰہی کی نیت سے مسجد میں خاص وقت تک اپنے آپ کو مقید کرنا مراد ہے ۔
اعتکاف کی اقسام
شرعی اعتکاف کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ سنت مؤکدہ
وہ اعتکاف جو کہ رمضان کے آخری دس دنوں پر محیط ہو وہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔
۲۔ واجب
وہ اعتکاف جو کہ انسان اپنے اوپر نذر کی صورت میں واجب کر لے مثلاً اگر کوئی آدمی نذر مانتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے حج کرنے کی توفیق بخشی تو پھر میں اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا اب اس شخص پر اعتکاف کرنا واجب ہے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مسلمانوں کا اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔
اعتکاف کی شرائط
۱۔ مسلمان ہونا
۲۔ عاقل ہونا یعنی پاگل دیوانہ مجنون نہ ہو۔
۳۔ غسل واجب سے پاک ہونا
۴۔ حیض اور نفاس کے خون سے پاک ہونا
۵۔ اعتکاف کی نیت کرنا
۶۔ مسجد کا ہونا
اعتکاف کی فضیلت
اعتکاف کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان جوکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔ (من اعتکف یوماً ابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ بین النار ثلاث خنادق کل خندق ابعد فیما بین الخافقین ) (رواہ الطبرانی والحاکم وصححہ)
جوشخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ۳ تین خندقیں تیار کروائے گا ہر خندق کی چوڑ ائی مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی۔
اتنی فضیلت صرف ایک دن اعتکاف کرنے والے کی ہے اور آدمی دس دن اعتکاف کرتا ہے اور وہ بھی ماہ صیام میں اس کی فضیلت کا اندازہ لگائیں ۔ ۔ ۔ ؟
اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں مشفق اور امین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فِی المُعتَکِفِ ہُوَ یَعکِفُ الذُّنُوبَ وَیُجرَی لَہُ مِنَ الحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الحَسَنَاتِ کُلَّہَا)

اعتکاف والا آدمی گنا ہوں سے رکا رہتا ہے اس کو ان تمام نیک اعمال کا جوکہ وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر پاتا ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیک اعمال کرنے والے کو دیا جاتا ہے ۔
جائے اعتکاف
اعتکاف صرف اور صرف مساجد میں ہی ہوتا ہے ۔ رب العالمین کا ارشاد ہے

﴿وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)

اور تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو۔
مذکورہ آیت میں اعتکاف کی جگہ صرف مساجد ہی ذکر کی گئی۔
اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :

أَنَّہَا کَانَت تُرَجِّلُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَہِیَ حَائِضٌ وَہُوَ مُعتَکِفٌ فِی المَسجِدِ (صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف ، رقم الحدیث :۱۹۰۵)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام ما ہواری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ نکالا کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے ۔
عورتوں کا اعتکاف
عورت بھی مرد کی طرح اعتکاف کی برکات سے مستفید ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کا شوہر اس بات کی اجازت دے عورت کا اعتکاف بھی صرف مسجد میں ہی درست ہو گا کیونکہ قرآن کا حکم

﴿وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)

عام ہے اور شریعت میں عورتوں کیلئے کوئی الگ حکم نہیں ہے کہ وہ اعتکاف گھر میں کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات مسجد نبوی میں ہی اعتکاف کرتی تھیں کسی صحیح حدیث سے گھر میں اعتکاف کرنا ثابت نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)
اعتکاف کا وقت
اعتکاف کرنے والا شخص ۲۰ رمضان کی شام کومسجد میں داخل ہو گا اور اگلے روز نمازِ فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو۔

دلیل : عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہَا قَالَت کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا أَرَادَ أَن یَعتَکِفَ صَلَّی الفَجرَ ثُمَّ دَخَلَ مُعتَکَفَہُ (صحیح مسلم ، کتاب الاعتکاف ، حدیث نمبر ۲۰۰۷)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا فرما کر اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوتے تھے ۔
دوران اعتکاف جائز امور
۱۔ طبعی ضروریات مثلاً پیشاب وغیرہ ، غسل جنابت کیلئے مسجد سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ مسجد میں اس چیز کا انتظام نہ ہو۔
۲۔ مسجد میں کھانا، سونا، چار پائی لگانا، خیمہ لگانا اور بقدر ضرورت گفتگو میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۳۔ سرمیں تیل لگانا، کنگھی کرنا جائز ہے ۔
دلیل : أَنَّہَا کَانَت تُرَجِّلُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَہِیَ حَائِضٌ وَہُوَ مُعتَکِفٌ فِی المَسجِدِ (صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف ، رقم الحدیث :۱۹۰۵)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام ما ہواری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ نکالا کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے ۔
۴۔ معتکف آدمی سے اس کی بیوی ملاقات کے لئے آ سکتی ہے اور وہ اس کو مسجد کے دروازے تک چھوڑ نے کیلئے بھی جا سکتا ہے ۔
دلیل : حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیلئے مسجد میں تشریف لاتی تھیں ۔
دوران اعتکاف ممنوع اعمال
۱۔ بیوی کیساتھ مباشرت ، ہم بستری کرنا

﴿وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)

اور تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت نہ کرو۔
۲۔ جنازہ میں شرکت کرنا
۳۔ مریض کی عیادت کرنا (چلتے چلتے اگر کسی کا حال پوچھ لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں )

دلیل : قَالَت عَائِشَۃُ رضی اللہ عنہا : اَلسُّنَّۃُ عَلَی المُعتَکِفِ أَن لاَ یَعُودَ مَرِیضاً وَلاَ یَشہَدَ جَنَازَۃً وَلاَ یَمَسَّ امرَأَۃً وَلاَ یُبَاشِرَہَا (سنن ابی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۲۱۱۵)

صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے کیلئے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے نہ جنازہ میں شریک ہو اور نہ ہی عورت کو (شہوت کیساتھ) چھوئے اور نہ ہی اس کے ساتھ مباشرت کرے ۔
۴۔ بغیر ضرورت کے مسجد سے نکلنا

کَانَ لاَ یَدخُلُ البَیتَ إِلاَّ لِحَاجَۃٍ إِذَا کَانَ مُعتَکِفاً (صحیح بخاری ، کتاب الإعتکاف ، حدیث نمبر :۱۸۸۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر میں داخل نہیں ہوتے جس وقت آپ ا اعتکاف میں ہوتے ۔
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر معتکف بغیر کسی ضرورت کے مسجد سے نکلتا ہے خواہ تھوڑ ی دیر کیلئے ہی کیوں نہ نکلے اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا کیونکہ مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا ایک رکن ہے ۔ (فقہ السنہ باب الاعتکاف)
۵۔ کبائر کا ارتکاب
اگر معتکف کبائر کا ارتکاب کرے گا تو اس کا اعتکاف بھی باطل ہوجائے گا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے ۔
ایک غلط فہمی
عوام الناس میں یہ تأثر عام طور پر پایا جاتا ہے کہ بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں ہوتا یہ بات صحیح نہیں ہے اگر معتکف آدمی کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ تا ہے تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہیں ہے جمہور اور محقق علماء کا موقف ہے کہ روزہ اعتکاف کیلئے شرط نہیں ہے ۔ (فتوی علامہ ابن باز رحمہ اللہ )
اعتکاف کے فوائد
۱۔ معتکف کیلئے لیلۃ القدر کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے ۔
۲۔ معتکف کے قلب وذہن پر صرف ذکر الٰہی جاری ہوتا ہے جس کی بناپر وہ فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے ۔
۳۔ معتکف آدمی ساری خواہشات اور گنا ہوں سے بچا رہتا ہے ۔
۴۔ معتکف آدمی کو مسجد کیساتھ ایک خاص انس اور پیار ہوجاتا ہے ۔
۵۔ معتکف کو تنہائی میسر ہوتی ہے جس میں اپنی گذشتہ خطاؤں پر ندامت کے آنسو بہا سکتا ہے اورتوبہ کر کےنئےسرےسے اپنی زندگی کو احکام الٰہی کےمطابق بسرکرسکتا ہے ۔
۶۔ اعتکاف سے آدمی کو آخرت کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
۷۔ حالت اعتکاف میں معتکف کو فضول گوئی اور فضول کلام کی بری عادت سے نجات ملتی ہے اور وہ کم گوئی کی عادت حسنہ کا عادی ہوجاتا ہے ۔
آخری بات
محترم قارئین ! اعتکاف کے متعلق آخری اور اہم بات اس کی حفاظت ہے اگر معتکف اعتکاف کے بعد بھی تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے اور فضول گفتگو ، گالی گلوچ ، عبث کلام سے دور رہتا ہے تو اس نے اعتکاف کی حفاظت بھی کی ہے اور اعتکاف سے اس کو فائدہ بھی ہوا ہے ۔
اعتکاف کے بعد ہر قسم کے گناہ سے احتراز اور بچناہی ہماری اصل ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بعد از اعتکاف بھی گنا ہوں سے بچائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے