آج کے دور میں ہم جس طرف بھی نگاہ اٹھاکے دیکھیں تو ہر طرف مختلف قسم کے فتنے و فساد سر اٹھا تے ہمیں نظر آئیں گے آج سے چودہ صدی پہلے محسن انسانیت امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیں ان فتنوں سے آگاہ کر رکھا تھا کہ آنے والے ہر دن میں فتنہ وفساد زیادہ ہوتے جائیں گے آج روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ قتل ہو رہے ہیں ہر طرف قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے ہر طرف برائیاں عروج پر ہیں، برکت اٹھتی جارہی ہے ان تمام فتنوں سے ہمارےپیارے نبی ﷺ نے ہمیں آگاہ کیا تھا آئیے احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں ہم اس دور کا مطالعہ کریں گے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک زمانہ آئے گا جس میں عمل کم ہوجائے گا اور بخیلی زیادہ ہوجائے گی اور فتنے ظاہر ہونے لگیں گےاور ’’ھرج‘‘ زیادہ ہوجائے گا صحابہ نے عرض کیا ھرج کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایاقتل قتل‘‘

(صحيح البخاري (8/ 14)
اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم ذرا غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آج زمانہ کتنی تیزی سے اس صورتحال سے دوچار ہورہا ہے جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں کیا گیا ہے اور نیک اعمال میں کمی آچکی ہے لوگ مساجد کم جاتے اور جوکہ زمین پر اللہ کے سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات ہیں جبکہ بازار آباد ہیں جوکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند جگہیں ہیںاسی طرح سینماگھروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی گھنٹوں کھیل کے میدانوں میں صرف ہورہے ہیں لیکن اسلام کے لیے وقت نہیں، الغرض اسی طرح برائی کی طرف دوڑھیں لگی ہوئی ہیںاور اعمال کی طرف سے غافل ہیں، اور دسری چیز جو حدیث میں ذکر ہوئی ہے وہ ہے بخیلی وہ بھی ہمارے سامنے ہے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی کوشش میں ہے دوسروں کا مال دبائے ہوئے ہیں لوگ صدقہ وخیرات کرنے سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح آگ میں کودنے سے خوف آتاہے، تیسری چیز جوکہ بطور فتنہ ذکر ہوئی ہے ، اگر آج ہم معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ فتنوں کا ایک سیلاب ہے اور ہم سب اس میں خس وخاشاک کی طرح بہتے چلے جارہے ہیں اور ہر گھر فتنوں کی لپیٹ میں ہے اور ان سے کوئی جائے پنا ہ نہیں نظر آتی اور فتنے اپنی تما م تر اقسام کے ساتھ مسلم امت پر ٹوٹ پڑے ہیں، اقتدار کے فتنے، دولت وثروت کے فتنے، غربت وافلاس کے فتنے، ظلم و جبر کے فتنے، دشمنوں کے خوف کے فتنے الغرض فتنوں کی فہرست بڑی طویل ہے چوتھی چیز جو حدیث میں ذکر ہوئی ہے وہ قتل ہے یہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہمارے معاشرے میں قتل کی خبریں اتنی عام ہیں کہ ایسی خبر سن کر احساس بھی نہیں ہوتا کیا ہوا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ قاتل کو معلوم ہے کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہے کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا، اندھے اور نامعلوم قتلوں کی بہتات ہوگئی ہے نامعلوم قاتلوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے مختلف ناموں اور طریقوں سے جس کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد لامحدود ہے کہیں لسانیت کے رنگ میں کہیں نسلی فسادات کی صورت میں کہیں مذہبی کشیدگی کی صورت میں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے صرف جاری ہی نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے ایسے دن آئیں گے کہ جہالت کی کثرت ہوگی علم اٹھ جائے گا اور ھرج زیادہ ہوجائےگااور ھرج قتل ہے‘(بخاري (9/ 48)
مذکورہ حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ قیامت سے پہلے جہالت عام ہوگی اور علم اٹھ جائے گا اور ایک حدیث میں آتاہے:آپ ﷺ نےفرمایا:’’بے شک اللہ علم عطا کرنے کے بعد (سینوں سے علم کو) مٹائے گا نہیں لیکن علم کو اٹھائے گا علماء کی وفات کے ذریعے ،پس جاہل لوگ رہ جائیں گے جن سے لوگ فتوی پوچھیں گے وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہونگے‘‘(صحيح البخاري (9/ 100)
اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ کس طرح علم کو اٹھالیا جائے گا یعنی علماء بکثرت وفات پائیں گے اور پیچھے علماء کے روپ میں جہال رہ جائیں گے جو لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے اپنی کم علمی سے اور خود بھی گمراہ ہونگے، علماء کی وفات سے جو خلاء پیدا ہورہا ہے اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے اور علم سے ناواقف لوگ علماء کی مسندوں پر بیٹھے ہیں عوام الناس کو اپنی لن ترانیوں میں الجھاکر اپنا الّو سیدھا کر رہے ہیں ، پیٹ کی آگ کی خاطر جہنم کی آگ کے سوداگر بن گئے ہیں اور پہلی حدیث میں جو لفظ ھرج مذکور تھا جس کا مطلب قتل ہے یعنی قیامت کے قریب قتل کے واقعات زیادہ ہوں گے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے دنیا کا کوئی ملک کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ، اسکی تفصیل کا یہ مقام نہیں لیکن خون ناحق کی یہ ارزانی اور انسانیت کی اس تذلیل کی اجازت اسلام نہیں دیتا، دین اسلام تو آیا ہے انسان کی تکریم اور امن وسلامتی کا پیغام لے کر، لیکن آج صد افسوس کا مقام ہے کہ اسی دین کے نام پر جس طرح قتل عام ہورہا ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ، اسلام تو ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتاہے :

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 32)

’’ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے