محنت ایک ایسی بیش بہا صلاحیت اور قوت گراں ہے کہ جس کے مسلسل استعمال سے انسان نہ صرف زمین بلکہ سمندر کی تہہ میں پہنچ کر اس کی گہرائیوں سے قیمتی خزانے حاصل کر سکتاہے بلکہ فضائوں کا سینہ چیر کر سیاروں میں اپنی کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑ سکتاہے ۔’’وہ کون سا عقد ہے جو اس محنت سے وا ہو نہیں سکتا ۔‘‘

محنت دونوں سمت کی جاسکتی ہے صحیح بھی اور غلط بھی ، اس میں خیر کی صلاحیت بھی موجود ہے اور شر کی بھی ۔ جو لوگ خیر اور بھلائی کے کاموں کیلئے محنت وجدوجہد کرتے ہیں وہ اس مقولے کے مصداق ٹھہرتے ہیں (مَنْ جَدَّ وَجَدَ) ’’جس نے محنت کی اس نے (ثمر)پالیا ‘‘ دنیا وآخرت دونوں میں سرخرو ہوتے ہیں اور جو لوگ برے ، غیر اخلاقی وغیرقانونی کام کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ وقتی اور عارضی فائدہ تو حاصل کر لیتے ہوں لیکن انجام بہر حال انکا برا ہی ہوتاہے ۔ ایک شخص اگر اپنی انفرادی زندگی کو سنوارنے اور سدھارنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے تو اس کی محنت کے ثمرات اس کی ذاتی زندگی تک محدود رہتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ اس سے متعلقہ افراد اس کی محنت وجدوجہد سے مستفید ہوسکتے ہیں لیکن جب اس محنت وجدوجہد کا دائرہ اجتماعی زندگی تک بڑھا یا جائے تو یہ نہ صرف انسانیت کی خدمت ہوگی بلکہ اسلام اور ملک و قوم دونوں کی ترقی کا باعث ہو گی قوم اور ملک اس وقت ترقی کرتے ہیں جب سب مل کرایمانداری اور خلوص دل سے کوشش ، محنت اور جدوجہد کرتے ہیں ، اسلام میں محنت کی عظمت پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ اسلام ہاتھ کی کمائی کی بہت زیادہ فضیلت بیان کرتاہے۔مگرہمارے ہاں بدقسمتی سے ہندوانہ پس منظر کی وجہ سے ان لوگوں کو جو ہاتھ کی کمائی کھاتے ہیں کمتر سمجھا جاتا ہے یہ بڑھئی ہے،یہ دھوبی ہے،یہ موچی ہے،یہ وہی جاہلیت ہے جس کو ختم کرنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جب موسی علیہ السلام کو نبی بنایا تو وہ اپنے خاندان کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا کہ جب مجھے مبعوث کیا گیا تو میں بھی وادی اجیاد میں اپنی قوم کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (مسند احمد:۱۱۴۸۲)

سیدنا دائودعلیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ زرہیں بنایا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں انکی عظمت کو بیان کیا گیا :

ترجمہ: اور ہم نے دائود کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی اے پہاڑو،ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو (انکا مسخر کر دیا) اور ان کے لئے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا

سیدنا دائود علیہ السلام پر ایک فضل تو یہ کیا کہ ان پر زبور نازل کی جب وہ زبور سے حمد کے ترانے پڑھتے تھے تو پرندے اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے ۔

دوسرا فضل یہ تھا یہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں فولاد کو نرم کر دیا تھا تاکہ وہ زرہیں تیار کر سکیں۔ یہ ہے ہاتھ کی کمائی اور محنت کش کی فضیلت جو قرآن میں بیان ہوئی ہے

الغرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  جو دین حق لے کر آئے وہ ہر قسم کی ناانصافیوں اور استحصال کو ختم کر کے ہر سطح پر عدل و انصاف کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ سارا معاملہ دنیا سے متعلق ہے اصل کمائی آخرت کی کمائی ہے۔

سورۃ کہف میں ارشادہے : ’اے نبی! ان سے کہیے کہ کیا ہم بتائیں تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں جو اپنی محنت اور عمل کے اعتبار سے خسارے میں ہے وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں۔‘‘

افسوس کہ ہم بھی ایسے لوگوں ،ایسے افراد کو رول ماڈل سمجھتے ہیں فلاں شخص نے کتنی محنت کی ہے اس نے چھابڑی سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا آج دیکھو کتنی فیکٹریوں کا مالک ہے ظاہر ہے اس نے دنیا میں کامیابی کیلئے محنت کی ہے اپنی تفریحات کو چھوڑا اپنے آرام کو چھوڑا وہ راتوں کو جاگا ہو گا کیا کچھ نہیں کیا ہو گا اپنے حقوق سے دستبردار ہوا،اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتا رہا۔بظاہر یہ شخص دنیا میں کامیاب نظر آ رہا ہے لیکن یہ سب سے زیادہ ناکام ہے اس لئے کہ اس نے محنت تو بہت کی لیکن اس محنت کا نتیجہ دنیا کے چند ٹکے کے سوا کچھ نہیں ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت اس نے برباد کر ڈالی محنت کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں کچھ لوگ وہ ہیں جب وہ شام کو لوٹتے ہیں تو اپنی اخروی ہلاکت کا سامان لے کر لوٹتے ہیںکچھ وہ ہیں جو صحیح رخ پر محنت کر رہے ہیں وہ اپنی آخرت کی فلاح اور کامیابی کا پروانہ لے کر لوٹتے ہیں  محنت تو ہر شخص کر رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا رخ کدھر ہے اور اصل کامیابی کس محنت میں ہے اللہ تعالی ہمیں صیحح رخ پر محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

یہ کہنا نامناسب ہے کہ میر ی کوئی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ درحقیقت اسلام ، عوام کے حقوق اور ملک وملت کے مفاد کیلئے ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا ضروری ہے ۔ ذمہ داری کا احساس کرنے والا وہی ہو سکتا ہے جو اپنے خالق ومالک اور پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والا ہو او ر اس میں احساس ذمہ داری کو بیدار کرنے کیلئے شریعت کا پابند ہونا ضروری ہے جس میں احساس ذمہ داری کا جذنہ مفقود ہو وہ فرائض وواجبات کو کما حقہ بجالانے سے قاصر رہتا ہے ۔ آج ہمارے قوم کا المیہ بھی یہی ہے کہ یہ ہر کام میں شارٹ کٹ راستہ تلاش کرنے کی عادی بنتی جارہی ہے جو کہ پہلے صرف دنیاوی امور میں تو تھا ہی اب دینی امور میں بھی اس طریقہ کا استعمال کیا جا رہاہے۔ شارٹ کٹ وہی لوگ استعمال کرتے ہیں جو محنت کے عادی ہونے کی بجائے محنت کرنے سے جی چراتے ہیںاور ایک ہی رات میں سب کچھ کرنے کی طمع کرتے ہوئے پہلے سے حاصل شدہ بھی گنوا کر ندامت کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں ۔حالانکہ اگر شریعت اسلامیہ پر غوروفکر کیا جائے تو جگہ جگہ انسان کو حسن عمل اور احساس ذمہ داری کا درس دیا جا رہا ہے جہاں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ عمل نہیں بلکہ اگر تھوڑا ہی ہو لیکن احسن طریقے سے انجام دیا ہوا ہو اور احسن طریقہ سے مراد وہ دستور حیات ہے جو شریعت اسلامیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کی زبانی آپ کے قول وفعل سے ہم تک پہنچایا ہے ۔

 قال اللہ تعالی :{الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا}(الملک : ۲)

’’جس نے موت اور حیات کو اس لیئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میںسے اچھے کام کون کرتا ہے ‘‘ اسلام میں کام کی کمیت کی بجائے اس کی کیفیت اور معیار کو دیکھا جاتاہے اسلامی معیار پر وہی کام پور ااترے گا جو محنت اور لگن ایمانداری ، دیانتداری ،خلوص نیت اور حسن عمل کے جذبہ سے سرشار ہو کر انجام دیا جائے۔

(قال النبی  صلی اللہ علیہ و سلم :انَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اِذَا عَمِلَ اَحَدُکُمْ عَمَلًا أنْ یُتْقِنَہُ)  (رواہ ابویعلی عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی مجمع الزوائد کتاب الایمان  ۴۲۰  ص ۹۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے جب کوئی کام کیا جائے تو اسے حسن عمل سے انجام دیا جائے ۔

٭ حسن عمل مرتبہ احسان پالینے کے بعد پیدا ہوتاہے ۔ احسان کیا ہے ؟اس کی وضاحت خود رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم  نے زبان نبوت سے ان الفاظ میں کی ہے  (أن تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک)’’اس طرح اللہ کی عبادت کی جائے گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ،اگر تم  اسے نہیں دیکھ سکتے تو اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے ‘‘

٭  اپنی مسئولیت کو ذمہ داری اور ایمانداری سے انجام دینا بھی دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے ۔٭  ناکامی اور نامرادی کی اصل وجہ روح اخلاص اور حسن عمل سے دوری ہے ۔

محنت ،دیانتداری ،ایمانداری ، خلوص دل اور حسن عمل سے کام کرنے والا رتبے میں فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتاہے۔بقول شاعر:

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا              مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

عقل کر نادان

عصر حاضر میں میڈیا کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن یہ امر بھی مبنی برحقیقت ہے کہ موجودہ میڈیا اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے، میڈیا کے ذریعے ہی وہ اسلامی روایات اور مشرقی افکار کے خلاف نسل نو کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔

کہیں تو اس میڈیاکے ذریعے فحاشی وعریانی پھیلائی جارہی ہے اور کہیں خودساختہ رومانوی کہانیوں کے توسط سے نوخیز نسل کو خاندانی ادارہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے حد تو یہ کہ ہماری قومی زبان کے تشخص کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہو تا جا رہا ہے ۔ غیر ممالک کی زبانوں کو قومی زبان میں شامل کرکے اغیار کی خوشنودی حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ جس کی تازہ مثال مؤرخہ .420-03-2010 .4 کو حکومت سندھ کے زیر اہتمام شائع ہونے والا اشتہار ہے جس میں حر تحریک کے رہنما سید صبغت اللہ شاہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیا گیا ہے ، مذکورہ اشتہار میں ہندی زبان کا لفظ ’’آدرشی ‘‘ استعمال کیا گیا ہے معلوم نہیں کہ متعلقہ حکام نے اس لفظ کو جان بوجھ کر استعمال کیا ہے یا پھر نادانی میں یہ غلطی سرزد ہوئی ہے ۔ یہ امر انتہائی تشویشناک اور مستقبل کے حوالے سے کافی پرخطر ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالا جائے اور قومی زبان اور اسلامی روایات کے تحفظ کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے وگرنہ ہماری اسلامی روایات سے نسل نو بیگانہ اور لاپر واہ ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے