اب اگر ایسی کسی بدکاری پر تہمت لگانے کو مطلوبہ حد تک گواہ میسر نہیں آتے اور وہ خاموش بھی نہیں ہوتے بلکہ اس معاشرے میں طہارت کے ماحول کو ختم کرنے کے جرم میں ان کو ایک ایسی سزا سنائی جو کہ جسمانی بھی ہے معاشرتی بھی ہے دینی بھی ہے ۔ان  سزائوں کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جرم کرنے والا اپنی سنگین غلطی کا احساس کر لے اور اس کے ارتکاب کا سوچے بھی نہیں اور دوسرا اس نے جو غلطی کی ہے وہ اس کا کفارہ اسی دنیا میں دے دیتاہے اور پھر اس معاشرے میں پاک صاف فضا کا ایک خوبصورت رکن بن جاتا ہے اور وہ سزا مختلف پیرائوں میں کچھ یوں ہے کہ : ٭ اسی کوڑے ۔  ٭ ان کی گواہی کا قبول نہ ہونا ۔ ٭ اور ان کا فسق ثابت ہو جانا ۔

کسی بھی انسان کے لئے اس سے بڑھ کراور سزا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے کردار کی نفی کر دی جائے کہ کسی کی گواہی کو ہمیشہ قبول نہ کرنا اس کے کردار کی نفی ہی ہے لیکن بالاتفاق علماء کے نزدیک اگر و ہ قاذف اور تہمت لگانے والا اپنی سزا بھگت لیتا ہے اور اس کے بعد توبہ اور اصلاح کی منازل سے گزر کر دوبارہ اگر اس معاشرے میں داخل ہونا چاہے تو اس کی گواہی بھی قبول ہو گی اور اس پر فسق کی برائی بھی ختم ہو جائے گی کہ توبہ اگر سچے دل سے کی گئی ہو تو ہر قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ حدود کو ختم نہیں کرا سکتی اور آخر میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک اعلان کہ وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی بشرطیکہ کوئی سمجھے ۔

شرعی احکام جو ان آیات سے ثابت ہوتے ہیں یا وہ مسائل جو ان آیات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ۔

۔ احصان کے شریعت اسلامیہ میں کیا معنی ہیں ؟

لفظ احصان شریعت اسلامیہ میں کل چار امو ر کیلئے وارد ہوا ہے ۔

۔ عفت وعصمت : وَالْمُحْصَنَا تِ مِنَ النِّسَائِ۔۔۔(النساء : ۲۴)
۔ حریت:  فَاِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَا تِ مِنَ الْعَذَابِ۔۔(النسائ:۲۵)
۔ زواج: حَرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہَاتُکُمْ …  وَالْمُحْصَنَا تِ مِنَ النِّسَائِ ۔(النسائ:۲۳۔۲۴)
۔ الاسلام: من اشرک باللہ فلیس بمحض۔ قال رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  ۔(احکام القرآن لجصاص)

شروط قذف کیا ہیں؟

قذف کی چند شروط کا شریعت اسلامیہ نے تعین کیا ہے جس کا موجود ہونابہت ضروری ہے اور اس میں کچھ شرائط کا تعلق قاذف یعنی تہمت لگانے والے سے ہے،اورچند شرائط کا تعلق مقذوف سے ہے یعنی جس پر تہمت لگائی جا رہی ہے ، اور کچھ شرائط المقذوف بہ یعنی جن الفاظ کے ذریعے تہمت لگائی جا سکتی ہے ۔

 ٭ شروط قاذف:عقل ، بلوغ ، اختیار ، اسلام

٭ شروط مقذوف: اسلام،عقل ، بلوغت، حریت ، عفت(زناسے )

۔ وہ کون سے الفاظ ہیں جن سے تہمت لگائی جا سکتی ہے ؟

 وہ الفاظ جن سے تہمت لگائی جا سکتی ہے ان کی بنیادی طورپرتین اقسام ہیں : صریح ، کنایہ ، تعریض۔

صریح: جیسے تہمت لگانے والا واضح لفظوں میں زنا کا لفظ استعمال کرتے ہوئے بات کرے یا اس کے نسب کی نفی کرے ۔

کنایہ: جیسے کہے : اے فاسقہ عورت ، اے فاجرہ ، اے خبیثہ عورت ۔لیکن اتفاق اور راجح یہ ہے کہ اس پرحد نہیں ہے ۔

تعریض:جیسے وہ زانیہ نہیں ہے یا وہ زانی نہیں ہے اس میں اختلاف ہے اور راجح یہ ہے کہ قرائن کی مدد سے فیصلہ کیا جائے گاپھر اس پرحد جاری کی جائے گی۔

۔ اگر تہمت لگانے والی جماعت ہو تو پھر حد کی کیا کیفیت ہو گی؟

کہا گیا ہے کہ ان کو ایک حد لگائی جائے گی یہ امام ابو حنیفہ ، اما م مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کی رائے ہے ۔

اور جمہور کی رائے اس میں قرین قیاس ہے ۔

۔ کیا گواہوں میں عدالت کا ہونا ضروری ہے ؟

گو کہ آیت میں تو اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ اس مسئلہ میں گواہ صاحب عدالت (یعنی عادل)ہوں گے لیکن گواہوں کے عمومی معیار اسلامی سے اخذ کرتے ہوئے علماء کی اکثریت عدالت کو گواہ کے لئے لازم قرار دیتی ہے ۔

۔ کیا گواہوں کیلئے لازمی ہے کہ وہ ایک وقت میں گواہی دیں؟

گو کہ آیت میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں ہے کہ گواہ اکٹھے گواہی دیں گے یا متفرقین اور اس بات کو امام مالک اور شافعی نے آیت کے ظاہر سے اخذ کرتے ہوئے اختیار فرمایا ہے ، جبکہ ابو حنیفہ کی رائے اس کے برعکس ہے ۔

۔ کیا غلام کی سزا آزاد آدمی جیسی ہو گی ؟

تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی غلام کسی محصن پر تہمت لگائے تو اس پر حد جاری کی جا سکتی ہے لیکن کیا  اس پر نصف حد جاری ہو گی یا مکمل اس پر اختلاف ہے لیکن ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ غلام کی حد کوڑے ہو گی قرآن مجید کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہ ’’فان أتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب‘‘  پر قیاس کرتے ہوئے نصف سزا رکھی گئی ہے ۔

۔ کیا حد حقوق اللہ میں سے ہے یا حقوق العباد میں سے ؟

اس با ت میں کوئی شک نہیں ہے کہ قذف اللہ کے حقوق پر تعدی اور تجاوز کرنے کے مترادف ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ قذف سے انسان کی عزت ختم ہوتی ہے لہذا اس ناحیہ اور پہلو سے اس کا شمار حقوق العباد میں بھی کیاگیا ہے ۔

ابو حنفیہ رحمہ اللہ اسے حقوق اللہ میں شمار کرتے ہیں کہ جب حاکم کے پاس یہ مسئلہ پہنچتا ہے تو وہ یہ حد جاری کرتا ہے خواہ مقذوف نے یہ سزا طلب کی ہو یا نہ کی ہو۔اور اگر معاف بھی کردے تو بھی یہ سزا معاف نہ ہوگی۔اور غلامی میں یہ سزا نصف ہو جاتی ہے ۔

جبکہ امام شافعی اور مالک رحمہما اللہ اس کو حقوق العباد میں سے گردانتے ہیں ان کے خیال میں جب تک یہ مقذوف طلب نہ کرے اما م اس پر حد جاری نہیں کر سکتا ۔

جبکہ پہلی رائے بہتر ہے کہ کچھ ناحیہ سے یہ اللہ کے حقوق میں شمار ہوتی ہے اور کچھ ناحیہ سے یہ بندوں کے حقوق میں شمار کی جاتی ہے ۔

٭قاذف یعنی تہمت لگانے والے کی گواہی قبول نہیں ہو گی ۔

قرآن مجیدنے تہمت لگانے والے پر تین سزائیں سنائی ہیں:۔ اس کو کوڑے رسید کئے جائیں۔

۔ اس کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔

۔ اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے لہذا وہ فسق اورعصیان میں داخل ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’اِلَّا ‘‘ کے ذریعے استثناء فرمایا اب اختلاف یہ پیدا ہوا کہ یہ استثناء کس پر وارد ہوا ہے اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ حدود کو ختم تو نہیںکروا سکتی اور حد ہر صور ت میں نافذ کی جائیگی اور توبہ اور اصلاح کے بعد اس سے فسق کی تہمت بھی ختم ہو جائیگی۔لیکن گواہی پراختلاف ہے ۔

ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توبہ کے باوجود اس کی گواہی قبول نہ ہو گی خواہ أصلح الصالحین بھی کیوں نہ ہو جائے جبکہ تینوں ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس کی گواہی بھی قبول ہوگی اور اس سے فسق کی تہمت بھی ختم ہو جائیگی ۔

استفادات:

۔ زنا کی سزا اسلام میںسب جرائم کی سزائوں سے زیادہ سخت ہے لہذا اسلامی قانون میں اس کے ثبوت کیلئے شرائط بھی انتہائی سخت رکھی گئی ہیں جن میں ذرا بھر بھی کمی رہے یا شبہ پیدا ہو جائے تو زنا کی انتہائی سزا جسے حد کہا جاتا ہے وہ معاف ہو جاتی ہے صرف تعزیری سزا بقدرجرم باقی رہ جاتی ہے۔

۔ پاک صاف عورتوں یامردوں پر تہمت کبائرمیںشمار کی گئی ہے جو کہ کسی معاشرے کی فطرتی بنیادیںتباہ کرتا ہے اور اسلامی مجتمع کی طہارت سے بھر پور فضا مسموم ہو جاتی ہے ۔

۔ قذف کے ذریعے مؤمنا ت پرتہمت لگانا گویا معاشرے کو زہر آلود کرنے میں معاون بننے کے مترادف ہے

۔ یہ مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت ، عفت، عصمت کا محافظ ہو اور اس پر پردہ ڈالے اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہو اور اس غلطی کا کسی کو علم بھی نہ ہو تو خاموشی اور تنہائی میں اس کو سمجھا دینا بہتر ہے نسبتا اس کا اعلان کسی مجمع اور محفل میںکیاجائے ۔

۔ اگرکوئی غیر مسلم کسی مسلم پرتہمت لگاتا ہے تو اس کی تہمت یا گواہی قابل اعتبار نہ ہو گی لیکن اگر کوئی مسلم کسی غیرمسلم پر تہمت لگائے اور یہ جرم ثابت ہوجائے تو اس کی سزا اس کو دی جائے گی کہ اس وقت وہ مسلم معاشرے کا حصہ ہے اور اس کی کی ہوئی برائیاں اپنے بد اثرات ا س معاشرے پرچھوڑتی ہیں۔

۔تینوں سزائیں اس بات کی قباحت کو بڑا کرتی ہیں کہ قذف ایک بہت بڑا جرم ہے اورتینوںسزائیںیعنی جسمانی سزا ، سماجی بائیکاٹ ،اور اپنی غیر اعتباری حیثیت اس معاملے کی برائی کو واضح کرتی ہیںکہ اتنی سخت سزا کسی بڑے جرم پرہی سنائی جا سکتی ہے۔

۔ اسلامی شریعت کے تحت کسی اسلامی معاشرے میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ صرف سنی سنائی خبر پر یا گمان پر کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرے اور اس پر تہمت لگائے اور الزام لگائے۔

۔ ان جرائم پر جوحدود اللہ کو توڑتے ہیںان پراحکام الہی کے تحت سزائوں کا نفاذ ان جرائم کرنے والوں کے لیے کفارہ ہوتا ہے اور حکام وقت پر ان سزائوں کا نفاذ اوامر الہی کی اطاعت سمجھ کرکرنا بہت ضروری ہے۔

۔ کسی جرم کے بعد اس کے اثرات اپنی ذات پر سے ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی صورت میں انتہائی خوبصورت دروازہ کھول دیا ہے ۔ جو کہ ’’ذلک فضل اللہ ‘‘کی صورت میں ہے ۔لیکن ان معاملات اورمسائل میں صرف توبہ بھی اس جرم کی قباحت کو ختم کرنے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اپنی اصلاح بھی ازحد ضروری ہے تاکہ آئندہ اس امر کا ارتکاب بھی نہ ہو۔

۔ اگر قاذف اپنی اصلاح بعداز توبہ کر لے تو اس کی گواہی والی حیثیت بحال ہو جائیگی اور اس کی فسق والی حیثیت بھی ختم ہو جائیگی۔

۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رحم کرنے والی اور بہت زیادہ فضل والی ہستی ہے جس کو ہماری کوئی اطاعت فائدہ نہیں دیتی اور کوئی معصیت نقصان نہیں دیتی ،اس نے ایسا نظام تشکیل دیاہوا ہے کہ دنیاوی جرائم پر مبنی معاملات پر سزائیں بھی دنیاوی رکھی ہیں تاکہ عبرت ہو اور

جو لوگ اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ظالموں سے سب سے بہتر انتقام لینے والا ہے اور انصاف کرنے والا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے نظام میں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو سکتی ۔

۔ اسلام نے معاشرے میں موجود ہر برائی سے محاربت اختیار کی ہے اور اس محاربت کو دینی فریضہ سمجھ کر انجام دینے والوں کے لیے خاص فضیلت ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہیںکرتے وہی کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں جبکہ بالعکس دنیا اور آخرت میں نقصان اور خسارہ سے دوچار ہوں گے۔

بیو گی میں بیٹیو ں کے تابع ہوتی ہے ۔ اس کے مقا بلے میں اسلام میں عورت کی مستقل حیثیت تسلیم کی گئی ہے ۔ اس کو پوری آزادی ہے ، شادی کرنے ، کاروباری معاملات طے کرنے ، میراث حاصل کرنے کی اور جب چاہے دوسری شادی کر سکتی ہے ، یا عزت کے ساتھ بیو گی کی زندگی گزار سکتی ہے ۔ ہر قسم کی محفل میں شریک ہو سکتی ہے (مگر خاوند کی اجازت ضروری ہے)۔ خلاصہ کلام ہر حیثیت میں مقدس ہے ۔ جبکہ ہندو مذہب میں ہر حیثیت میں ذلیل اور ثانوی کرجہ کہ مالک ہے ۔

 جس کے پیروں کے تلے جنت یکے ایوان و چمن

جس کے دم سے جگمگاتا ہے شبستان سخن