قارئین کرام، السلام علیکم!

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے جس میں زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اسلام میں جامعیت، ہمہ گیریت اور عالمگیریت موجود ہے تو زیادہ مناسب ہو گا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :

{وَنَزَّلْنا اِلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیء وَھُدًی وَرَحْمَۃًوَبُشْریٰ لِلْمُسْلِمِیْن}(سورۃ النحل :۸۹)

’’اور ہم نے( آپ صلی اللہ علیہ و سلم ) پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس  میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔ ‘‘

مذاہب عالم میں سے صرف اسلام ہی واحد مذہب ہے جو کہ روحانیت کو قربان کیے بغیر انسان کو دنیاوی لذتوں سے آشنائی کا موقع فراہم کرتا ہے ، وگرنہ بقیہ جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں امور دین اور دنیا کی تفریق کی گئی ہے جبکہ دین اسلام اس قسم کی غیرفطرتی تقسیم سے مبرأ اور آزاد ہے ۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوںکو حاصل کرنے پر قدغن نہیں لگاتا بلکہ ہر اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتاہے جس سے مسلمانوں کو دنیااور آخرت میں سرخروئی حاصل ہو سکے ۔ اسلام کی جامعیت کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:فلیست تنزل فی احد من اھل دین اللہ نازلۃ الا وفی کتاب اللہ الدلیل۔ (الرسالۃ:ج:۱،ص:۲۰)

ترجمہ: ’’کتاب اللہ میں مسلمانوں کو پیش آمدہ جمیع مسائل کے متعلق کامل ترین رہنمائی موجود ہے۔‘‘ جبکہ عظمت اسلام اور اور اس کی ہمہ گیریت کے بارے میں شیخ المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :

لاأعلم شیئا یحتاج الیہ الا وفی کتاب اللہ ۔ ’’کوئی ایسی چیز میرے علم میں نہیں ہے کہ جس کی ضرورت ہو اور قرآن کریم میں اس کی وضاحت نہ ہو۔‘‘

اسلام وہ نظام حیات ہے جو مہد سے لیکر لحد تک تمام انسانی موضوعات مثلاً: روحانی، جسمانی، جنسی، معاشی، معاشرتی، سیاسی،سفارتی، اور عمرانی بلکہ انفرادی اور اجتماعی پر بحث ہی نہیں کرتا بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتاہے ۔

وہ الگ بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین صاحب اس کا انکارکریں اور کہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے اور اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے یہ بھی فرمائیں کہ اگرچہ داڑھی سنت ہے تاہم حضور  صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں مسلمان اور غیرمسلم دونوں داڑھی رکھتے تھے ۔(یعنی داڑھی رکھنا کوئی ضروری نہیںہے) یہ گل افشانی کرتے ہوئے بھی سنے گئے ہیں کہ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن کریم میں نہیں ہے ۔(بحوالہ روزنامہ نوائے وقت کراچی : 7نومبر 2007)

گویا کل تک جو کام دشمنان اسلام نہیں کر سکتے تھے آج وہی کام نام نہاد مسلمان کر رہے ہیں بلکہ اس شعر کے مصداق ٹھہرتے ہیں :

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اپنے تو اسلام سے نالاںہیں لیکن غیرمسلم اسلام کی حقانیت کا برملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ پوپ جان پال  ایک ادارتی صفحہ میں یوں لکھتے ہیں :

’’دنیا کے بہترین مذاہب میں اسلام کا مقام قابل قدر اور نمایاںہے جس نے دنیا سے جہالت کی ظلمتوں کو رنگ ونور اور آگہی میںتبدیل کر کے رکھ دیااور لوگوں کو ایسی منزل کی راہ دکھائی جو امن کا مسکن اور مسکن کے امن کی ضمانت ہے ۔سب کو اسلامی تعلیمات کے زریں اصولوں کو اپنا کر اپنے جیون کو کامیاب بنانا چاہیے۔‘‘

اس طرح پروفیسر کرشن دھریوال لکھنو سے نکلنے والے اخبار (INDIANS) میں لکھتے ہیں:

’’میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور اس کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ تمام مذاہب کے دساتیر اور قوانین کا بغور مطالعہ اور تقابلی جائزہ لینے کے بعد میں اس جگہ پر اس حقیقت کے سامنے سر جھکانے میں عار نہیں سمجھتا کہ تمام اخلاقی اصول وقوانین کے دھارے اسی ایک چشمہ اسلام سے پھوٹتے ہیں۔‘‘

مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بعض اخبارات اور لادین رسائل ومجلات پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو غیر محسوس انداز سے منہدم کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میںلگے ہوئے ہیں اور نئی نسل کو دین سے متنفر ، بدظن اور دور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے دل سے اسلام کی محبت کو ختم کیاجاسکے اور مغربی قوم کی طرح انہیں بھی مادر پدر آزاد بنا دیا جائے۔ مگر الحمدللہ ثم الحمد للہ پچھلے دنوں رائے عامہ کے ایک حالیہ سروے کے نتائج میں ایک ایسا انکشاف سامنے آیا ہے کہ جس سے مسلمان قوم کو اس کی طے شدہ منزل سے بھٹکانے والوں کو مایوسی ہوئی ہے اور ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ہے۔

 سروے کرنے والوں نے اٹھارہ سال سے ستائیس سال کی عمر تک کے دوہزار نوجوانوں سے پوچھا کہ ان کے نزدیک کونسی شناخت فوقیت رکھتی ہے پاکستانی ہونا یا مسلمان ہونا؟ جن میں سے تین چوتھائی نے جواب دیا کہ ہم پہلے مسلمان ہیں، پھر پاکستانی۔ اس کے بعد ان سے ایک اور سوال پاکستان کے موجودہ مسائل کے بارے میں کیا گیا کہ کہ یہ مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں ؟ تو چھیاسی فیصد(86%) نوجوانوں کا جواب ہے :’’اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف لوٹ جائیں تو ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘(حوالہ:روزنامہ امت 23مارچ 2010)

ان جوابات نے ان دانشوروں کو بہت پریشان کیا ہے جو برسوں سے لادینیت کا زہر پاکستانی عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس طرح کچھ دنوں پہلے دینی مدارس کے بارے میں سروے سامنے آیا اس میں بھی کثرت سے لوگوں نے جواب دیا کہ دینی مدارس کی تعلیم لاجواب ہے اور معاشرے کے لیے بہت مفید ہے ان مذکورہ بالا سروے رپورٹس کے نتائج سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان شاء اللہ یہ صدی مسلمانوں کی صدی ہو گی ویسے بھی ناامیدی کفر ہے ۔ دینی جذبہ ،شوق اور تڑپ رکھنے والوں کو محنت وجدوجہد اور پرخلوص کاوش سے تیزی لانی چاہیے نوجوان نسل کی نبوی منہج پر تعلیم وتربیت کا بھرپور طریقے سے اہتمام کرناچاہئے ۔ ایمان ایک ایسا پودا ہے کہ اسے جیسے ہی سازگار ماحول میسر آئے گا یہ چند دنوں میں ہی تناور اور پھل دار درخت بن جاتاہے اور اگر مسلمان اپنے معاملات اور اخلاقیات کو تھوڑا سا درست کرلیں تو ان شاء اللہ مسلمانوں کی فتح ، کامیابی اور کامرانی کو دنیا کی کوئی قوت نہیں روک سکتی ۔ علامہ اقبال نے بھی مسلمان قوم سے بہت سی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

نہیں ہے نومید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

والسلام

آپ کا بھائی

مقبول مکی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے