یقینا سب سے اچھی کتاب کلام اللہ ہے اور سب سے اچھا اسوہ رحمت عالم جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ بدترین امور وہ ہیں جو ایجاد کر لئے گئے ہوںاورہر ایجادکردہ امر( بدعت) گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐکو رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد اس وقت مبعوث کیا جب دنیابالعموم اوراہل عرب بالخصوص سخت تفرقے کا شکار اور کھلی گمراہی سے دوچار تھے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے

: وَاِنْ کَانُوْ امِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٌ (آٰل عمران:164)

’’اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘امام عمادالدین ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی گمراہی ہر کسی پر آشکار تھی (تفسیر ابن کثیر1:424) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پریہ احسان کیا کہ ان کی طرف رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ اس دین کوتمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ چنانچہ اللہ نے اپنا دین ظاہر فرمایا اور اس پر مسلمانوں کو ایک امت بنا کر جمع کر دیا، یوں ان کے دل صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے سے انکے دلوں کو جوڑ دیا ِ،حالانکہ (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ) اگر آپ روئے زمیں پر جو کچھ بھی ہے لٹادیتے تو بھی ان کے دلوں کو جوڑ نہ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نعمت عظمی یعنی دین حق کے ذریعے جوڑدیا۔

امام مسلم بن الحجاج القشیری رحمہ اللہ نے سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ زَوِیٰ الْاَرْضَ فَرَاَء یْتُ مَشَارِقَھَا وَ مَغَارِبَھَا، وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکَھَا مَا زَوَیٰ لِیْ مِنْھَا (مسلم 2215/4)

’’ اللہ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا اور میری امت کی حکمرانی عنقریب زمین کے ان حصوں تک پہنچ جائے گی جو میرے لئے سمیٹے گئے تھے۔ اس کے بعد امت میں فتنوں کا ظہور ہوا جس کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دی تھی۔چناچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میںسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے،انہوںنے دریافت کیا کہ تم میںسے کس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فتنوں کی حدیث ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ کچھ لوگوں نے کہا ہم نے سنا ہے،سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا : غالبا تم لوگ اہل وعیا ل اور پڑوسی کے ساتھ پیش آنے والے فتنے مراد لے رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں، سیدناعمررضی اللہ عنہ نے کہا اسے تو نماز اور صدقہ مٹا دیتے ہیں لیکن تم میں سے کس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو سمندر کی طرح موجیں ماریں گے ؟ حذیفہؓ کہتے ہیں کہ اس پر سب خاموش ہو گئے،البتہ میں نے کہا کہ میں نے، توسیدناعمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ! اللہ کیلئے تمھارے باپ کی خوبی۔ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ فتنے دلوں پر چٹائی کی طرح تنکے تنکے پیش کئے جائیں گے، اب جس کے دل کو یہ فتنے پلادئے جائیں گے ا س کے دل پر سیاہ داغ پڑجائے گا اور جو دل اسے قبول نہ کریگا اس پر سفید نشان لگ جائے گا چنانچہ سارے دل دو قسم کے ہو جائیں گے (1) ایک سفید،جیسے چکنا پتھر،انہیں جب تک آسمان وزمین قائم ہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا (2)دوسرا کالا مٹیالا،نہ بھلے کی پہچان نہ برے سے انجان،مگر وہی جو اس کی ہوس کو پلا دیا گیا (مسلم 128/1)

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا عہد جو خیرالقرون تھا پھر وہ عہد جو اس سے متصل تھا اور پھر جو اس سے متصل تھا ان تینوں عہدوں کے گزر جانے کے بعد اسلام کی غربت کا آغازہو گیا۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ ’’کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم  میںسیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْْنَھُمْ ثُمَّ یَجِیْ ئُ قُوْمٌ تَسْبِقُ شَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہ‘ وَ َیمِیْنَہ‘ شَھَادَتَہ‘ (صحیح مسلم189/)

’’ بہترین لوگ میرے عہد کے لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہوں گے، پھر وہ جو ان سے متصل ہوں گے۔ اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی قسم پر سبقت لے جائے گی اور قسم گواہی پر سبقت لے جائی گی۔

چنانچہ جب بھی وہ زمانہ آیا ہے تو اس کے بعد والا اس سے برا ہی ثابت ہوا ہے اور اسلام کی غربت اس میں کچھ زیادہ ہی سخت رہی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے اس کی خبر دی تھی۔ سیدناابوہریرہ عبدالرحمان بن صخررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

بَدَائَ اْلِاسْلَامُ غَرِیْباً وَسَیَعُوْدُ غَرِیْباً کَمَا بَدَائَ فَطُوْبٰی ِللْغُرَ بَا ئِ (مسلم:130/1) ’’

اسلام اجنبی بن کر ظاہر ہوا اور عنقریب اجنبی بن کر ہی پلٹے گا جیسا کہ ظاہر ہوا تھا لہٰذااجنبیوں کے لئے خوش بختی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ دین کو قیامت تک لئے قائم رکھیں گے اس لئے زمین اللہ کی حجت کے ساتھ قائم رہنے والے انسانوں سے کبھی بھی خالی نہ رہے گی۔ آپؐکا فرمان ہے ’’میر ی امت میں سے ایک طائفہ اللہ کے امر کے ساتھ برابرقائم رہے گا جو انہیں چھوڑیں گے اور جو ان کی مخالفت کریں گے وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر (قیامت)آجائے گا اور وہ اسی حال پر ہوں گے۔ (مسلم 187/4)

یہ آئمہ مجددین کی ہستیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ حجت قائم کرتا ہے چناچہ جب بھی کوئی ایسا عہد آتا ہے جس میں دین کے بیشتر نقوش مٹ جاتے ہیںاسکی رسی ٹوٹنے کے قریب پہنچ جاتی ہے، جاہلوں کا لہو و لعب اور سر آبردگی اختیار کر لینے سے دین کے اکثر اصول معطل ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے افراد بھیجتا ہے جو دین کی تجدید کرتے ہیں اور لوگوں کو دعوت دین،تعلیم، حسن نمونہ اور جہاد کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ،صحابہ کرام اور قرون اولیٰ کے طریق پر لوٹاتے ہیں۔

 یہ اس حدیث شریف کے مصداق ہے جسے امام ابو دائود رحمہ اللہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر سو سال کے سرے پر ایسے افراد بھیجے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کریں گے۔ ‘‘ (ابو دائود،کتاب الملاحم،باب 1صفحہ 424)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اس حدیث کی سند عمدہ ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور اسے امام حاکم،حافظ عراقی، علامہ سخاو ی رحمہم اللہ اور دوسرے اہل علم نے صحیح کہا ہے، علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ ابن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حافظ ابن کثیر نے ’’النھایہ‘‘ میں اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہر قوم نے اپنے امام کے بارے دعوی کیا ہے کہ وہی اس حدیث کی مراد ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ حدیث ہر گروہ کے حاملین علم کو اور ہر صنف کے علماء کو شامل ہے خواہ وہ محدیثین و مفسرین ہوںیا فقہا ء اور نحوی ہوں یا اہل لغت اور دوسری قسم کے علماء ہوں۔شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجدد کی شرط یہ نہیں کہ اس کی بات قبول کی جائے، اس کی دعوت پر لبیک کہا جائے اور یہ بھی نہیں کہ ہر وہ بات جو وہ کہتا ہو اس میں معصوم ہو۔ کیوں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے علاوہ کسی کے لئے ثابت نہیں(مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیہ 153/3)

موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ مجدد کی کچھ علامتیں ہوتی ہیں جنہیں اہل نظر بھانپ لیتے ہیں لیکن اہل با طل ان کا انکار کر دیتے ہیں۔ سب سے واضح علامت یہ ہے کہ وہ اس امت کے رہروان اول سے محبت کرتے ہیں اور دین کے اصول و قواعد کا علم رکھتے ہیں جن کی اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی صفات کمال اور نعوت جلال سے پہچانا جائے اور اسی وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے، یہی سارے پیغمبروں کے دین کی اصل، ان کی دعوت کا اول وآخر، ا ن کے شعار کا مغز اور ان کی ملت کی حقیقت ہے۔چنانچہ ان مجددین میں امام شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ بھی ہیں جس کی شہادت اکابر اہل علم کے ایک جم غفیر نے دی ہے۔شیخ عبدالرحمن بن قاسم فرماتے ہیں کہ شیخ کے ہم عصر اکابر نے شہادت دی ہے کہ وہ صاحب علم و دین ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے لائے ہوئے دین کے من جملہ مجدد ہیں۔ ایسی ہی شہادت مصر، شام،عراق،حرمین اور اہل ہند کے علماء نے دی ہے ان فضلاء و اذکیا سے شیخ کی مدح و ثناء اور ان کے مجدد ہونے کی شہادت تواتر سے منقول ہے (الدرر السنیہ 12/9)

شیخ محمد رشید رضانے مجددین میں ان کا شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ بلاد نجد میں اسلام کے مجدد تھے انہوں نے وہاں کے باشندوں کو ان میں پھیلی ہوئی شرک وبدعت سے توحید و سنت کی طرف پلٹایا ‘‘(الوھابیون والحجازصفحہ 6) الشیخ عبدالمتعال صعیدی نے بھی اپنی کتاب ’’المجدون فی الا سلام ‘‘ میں ان کو مجدد شمار کیا ہے اوراس کتاب میں ان کے حالات ذکر کئے ہیں(المجددون فی اسلام 473/)

شیخ ابن بازرحمہ اللہ آئمہ ہدایت کے بارے جنہیں اللہ تعالی مختلف اوقات میں بھیج کر احسان فرماتے ہیں۔لکھتے ہیںکہ ان ہی ہدایت ہافتہ ائمہ اور مصلح داعیوں میںامام علامہ،حبر فہامہ، بارہویں صدی میں اسلام کے مٹے ہوئے نقوش کے مجدد اور سنت خیر البشر کے داعی شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی تمیمی حنبلی طیب اللہ اثرہ واکرم فی الجنۃ مثواہ بھی تھے۔ ( مقدمہ طبع ثانی،کتاب الشیخ محمد بن عبدالوہاب)

حقیقت یہ ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے لئے اس کی شہادت مذکورہ علما ء کے علاوہ بہت سے بلند پایہ علماء اور ثقہ اہل علم وفضل نے دی ہے جس کے نتیجے میں ان کے مجدد دین ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کیوں کہ وہ عالم با عمل تھے اور ان لوگوںمیں سے تھے جنہیں اللہ تعالی اپنی حجت قائم کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  (مقدمہ طبع ثانی،کتاب الشیخ محمد بن عبدالوہاب)کے وقت سے پھیلی ہوئی رسی کو قیامت تک جوڑنے کے لئے وجود میں لاتا ہے اور جب بھی ان میں سے کوئی ایک یگانہ وقت گزر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے ائمہ ہدی،اعلام ہدایت، منارہ ارشاد اور سربراھان اصلاح میں سے کسی اور کو کھڑا کر دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے