شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ

اس کے بعد بارہویں صدی ہجری میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا عہد سعید آیا۔ انہوں نے اپنے تلمیذ رشید شیخ محمد معین رحمہ اللہ ، صاحب درا سات اللبیب کے نام ایک مکتوب گرامی میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ  سے متعلق نہایت جامع تبصرہ لکھا۔ اپنی بعض کتابوں میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی طویل عبارتیں نقل کیں چنانچہ اسی جرم میں ہندی ’’محققین‘‘ کا ایک طبقہ ان کی کتاب ’’البلاغ المبین‘‘ کا انتساب ان کی جانب درست نہیں سمجھتا۔ مگر ’’محققین کرام‘‘ شاہ صاحب کی بے نظیر تصنیف، حجتہ اللہ البالغۃ سے متعلق کیا ارشاد فرمائیں گے؟

 

 

ملا عبدالعلی بحرالعلوم لکھنوی رحمہ اللہ

عبدالعلی بحرالعلوم لکھنوی رحمہ اللہ  نے1180ھ میں، فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، لکھی، اس میں بڑی کثرت سے احادیث و آثار کے حوالے آئے ہیں۔ متاخر ائمہ حدیث میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے حوالے بھی دیئے ہیں۔(۱)

 

 

نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ  کے بعد برصغیر میں عمل بالحدیث کی طرح خاصی عام ہو چکی تھی، لیکن شیخ الاسلام کا اصل تعارف اور معارف ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کا بھر پور ورود حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ  کے تلامذئہ کرام اور نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ  قنوجی والی بھوپال کی تصانیف و علم پروری سے ہوا۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ  نے اپنی کتابوں اتحاف النبلائ، ابجد العلوم، تقصار جیود الاحرار، التاج المکلل، وغیر ہا میں مختلف انداز و پیرایے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمہ کا ذکر کیا۔ بلکہ اپنی کتاب حجج الکرامۃ فی آثار القیامیۃمیں تو یہاں تک لکھ دیا:

’’مجددمأ تہ ہفتم شیخ الاسلام ابن تیمہؒ و حافظ ابن القیمؒ است و تجدید این دو بزرگوار کا رے کرد کہ مثل آں از سلف و خلف معہود نیست، کتب و دفاتر اسلام و تواریخ و سیراز احوال ایشان مشخون است۔‘‘ (بحوالہ حیات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :7 مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور)

نواب صاحب نے اس ضمن میں دو کتابیں القول الجلی فی ترجمۃ الشیخ تقی الدین ابن تیمۃ الحنبلیؒ للشیخ محمد بن احمد بخاری النابلسی الحنفی (1200ھ) اور اپنے عالی مرتبت استاذ مفتی عراق شیخ ابو البرکات خیر الدین نعمان بن محمود الآلوسی رحمہ اللہ  کی جلاء العینین فی محاکمۃ الاحمدینبھی شائع کرادی۔

 

 

اراکین د بستان نذیر یہ کی مساعی

حضرت میاں صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ  جو اپنی خدمت دینی کی وسعت و ہمہ گیری کی وجہ سے مجددانہ شان رکھتے ہیں، ان کی 60 سالہ تدریسی خدمت کے نتیجے میں متعدد ایسے اکابر فضلاء تیار ہوئے جنہوں نے معارف ابن تیمیہ کی قدر کی اور اس کی نشر و اشاعت میں سر گرمی سے حصہ لیا۔ چنانچہ حضراتِ غزنویہ، مولانا غلام العلی قصوری امر تسری، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا رفیع الدین شکرانویs  دبستان نذیریہ ہی کے فیض یافتہ تھے۔

 

 

علمائے خانوادئہ غزنویہ

میاں صاحب دہلوی رحمہ اللہ  کے تلامذہ کرام میں حضرات غزنویہ نے مسابقت کی اور معارف ابن تیمیہ کی ترویج و اشاعت کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ خانوادئہ غزنویہ کے مورث اعلی حضرت مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ  امامین جلیلین شیخ الاسلام ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ سے گہری عقیدت و وابستگی رکھتے تھے۔ مولانا عبداللہ غزنوی صاحب علم و الہام بزرگ تھے، فرماتے تھے:

’’میں نے خواب میں دیکھا کہ جس دن نور تقسیم ہوا ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کو نور کا ایک بڑا حصہ ملا۔‘‘ (سوانح عمری مولانا عبداللہ غزنوی48)

یہی عقیدت و وابستگی ابنائے غزنویہ کو ورثے میں ملی۔ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

’’قریب قریب ان ہی ایام میں (نواب صاحب کے عہد کا ذکر ہے) بمبئی کے بعض علم دوست عرب تاجروں کے ذریعہ حضرت علمائے غزنویہ (امرتسر) کا امراء و علمائے نجد سے تعلق پیدا ہو گیا جس کے نتیجہ میں ہمارے ہاں معارف ابن تیمیہ کا مزید ورود ہوا، جبکہ نواب صاحب کا ذریعہ علمائے حدیث یمن تھے۔

بزرگان غزنویہ مولانا محمد، صاحبِ حاشیہ تفسیر جامع البیان، مولانا عبدالجبار، مولانا عبدالرحیم، مولانا عبدالواحدs کی توجہ سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ  کی بعض تصانیف طبع ہوئیں اور تدریسی طریقے سے آپ کی دعوت توحید اور ذکر و فکر کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔‘‘ (حیات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ8)

 

 

مولانا ابو عبداللہ غلام العلی قصوری ثم امر تسری رحمہ اللہ

معارف ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے خزینوں کو زبان اردو میں منتقل کرنے کا خیال سب سے پہلے مولانا ابو عبداللہ غلام العلی قصوری ثم امر تسری رحمہ اللہ  (م1306ھ) کو آیا۔ چنانچہ انہوں نے شیخ الاسلام کی مایہ ناز کتاب حمویۃ فی الرد علی الجھمیۃ کا اردو ترجمہ بعنوان ’الشافیہ‘ کیا، جو پہلی مرتبہ لاہور سے 1201ھ میں طبع ہوا۔ مولانا غلام العلی کے تفصیلی حالات راقم الحروف نے اپنی کتاب ’ارباب علم و خرد‘ میں لکھے ہیں۔

 

 

مولانا تلطف حسین عظیم آبادی رحمہ اللہ

مولانا تلطف حسین عظیم آبادی رحمہ اللہ  (م1334ھ) نے کتب حدیث کی نشر و اشاعت اور مسلک سلف کے احیاء کے لیے اپنے مطبع (مطبع انصاری، دہلی) سے متعدد کتب شائع کیں، جن میں شیخ الاسلام کی کتابیں بھی شامل ہیں۔

 

 

علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ

محدث شہیر علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ ، صاحبِ عون المعبود نے بھی معارف ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی نشرو اشاعت میں دلچسپی لی اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی بعض کتب طبع کروائیں۔ (ملاحظہ ہو: حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ:21،  الجامعۃ السلفیۃ بنارس1979ئ(

امام ابن تیمیہ کی ’مناسک الحج‘ پہلے پہل محدث عظیم آبادی کی کتاب، المکتوب اللطیف الی المحدث الشریف، کے ساتھ، مطبع انصاری، دہلی سے 1314ھ میں مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کی سعی سے طبع ہوئی۔

 

 

مولانا رفیع الدین شکرانوی رحمہ اللہ

مولانا رفیع الدین شکرانوی رحمہ اللہ  نے امام بن تیمیہ رحمہ اللہ  اور ان کے تلمیذ خاص حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  کی تصانیف کو جمع کرنے میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا، چنانچہ مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا شکرانوی کے کتب خانے سے متعلق یہ شہادت دیتے ہیں:

’’آپ کے کتب خانہ میں حافظ ابن قیم اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی تصنیفات کا قلمی ذخیرہ جتنا بڑا جمع ہو گیا ہے، شاید ہندوستان میں تو کہیں اتنا بڑا سرمایہ نہ ہو گا۔‘‘ (پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت:353/1)

 

 

اردو میں معارف ابن تیمیہ رحمہ اللہ

مگر جو کچھ بھی تھا عام ہندی مسلمان کے سطحِ فکر سے بلند، زبانِ غیر یعنی عربی میں تھا۔ اردو میں سب سے پہلے مولانا حالی نے 1875ء میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے احوال لکھنے کی طرف توجہ مبذول کی مگر صرف 4 صفحے ہی ضبط تحریر میں لا سکے کہ پھر یہ کام ادھورا رہ گیا جس کی تکمیل شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے ’کلیات نثر حالی‘ میں کر دی۔ تاہم علامہ شبلی نعمانی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے حالات پر اردو میں سب سے پہلے ان کی تحریر منظر شہود پر آئی، اور یہ نقش اول اپنے بعض مندرجات کے اعتبار سے بلاشبہ لائق قدر و ستائش ہے۔ اس کے بعد مولانا ابولکلام آزاد رحمہ اللہ  کے قلم معجز رقم نے ’تذکرہ‘ میں شیخ الاسلام کی شان مجددیت کا تذکرہ لکھا اور خوب لکھا اور غالبا انہی کی توجہ سے معارف ابن تیمیہ کو زبان اردو میں منتقل کرنے کی چلن عام ہوئی۔ چنانچہ مولانا ممدوح کے ایماء پر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے توجہ مبذول فرمائی۔ ان کے علاوہ مولوی مراد علی سوہدروی، مولانا عبدالرحیم پشاوری، مولانا عبدالجلیل ہزاروی، مولانا عبداللہ قصوری، مولانا عبدالحمید اٹاوی، مولانا اصغر علی روحی، مولانا صدر الدین اصلاحی وغیرہ ہم بھی ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے افادات ابن تیمیہ کو زبان اردو میں منتقل کیا اور اس کے بعد تو گویا ’’نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے‘‘ عاملان بالحدیث اور دلداد گان توحید و سنت نے نہایت سر گرمی سے معارف ابن تیمیہ کی اشاعت میں حصہ لیا۔ اردو میں ڈاکٹر محمد یوسف کو کن عمری نے ’حیات ابن تیمیہ‘ لکھی۔

 

 

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی آغاز بد و شعور ہی سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی قلمی مساعی کا آغاز 17 برس کی عمر ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ ان ہی ایام طالب علمی میں مولانا نے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  پر اتہام بابت زیارت قبر نبویe، کے عنوان سے مضمون لکھا جو ہفت روزہ، اہل حدیث، امر تسر کے 1926ء کے کسی شمارے میں شائع ہوا۔ پھر جیسے جیسے منزل حیات کی رفتار بڑھتی گئی عقیدت وارادت کے رشتے بھی مزید پروان چڑھتے گئے۔ چنانچہ موصوف نے شیخ ابوزہرہ مصری کی ’ابن تیمیۃ، حیاتہ و عصرہ، اراء ہ و فقھہ، کا اردو ترجمہ مولانا رئیس احمد جعفری سے ’حیات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ‘ کے عنوان سے کرایا اور اس پر نہایت فاضلانہ حواشی تحریر فرمائے۔ ان حواشی کے بعد مذکورہ کتاب حیات و افکار ابن تیمیہ کا اہم ترین مآخذ بن گئی۔ خود مولانا بھوجیانی نے شیخ الاسلام کی کئی کتب تعلیق و تقدیم کے ساتھ شائع کیں۔

 

 

 

 

سوانح امام ابن تیمیہ بزبان اردو

اردو میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے حالات پر جو مثبت تحریری سرمایہ کتابی صورت میں منتقل ہوا ہے اس کی ایک فہرست درج ذیل ہے:

(1      علامہ ابن تیمیہ حرانی از علامہ شبلی نعمانی (مطبوعہ، الندوہ، جلد5 شمارہ نمبر6، جو بعد ازاں، مقالات شبلی، جلد پنجم حصہ تاریخی اول میں بھی صفحہ65 تا 81 طبع ہوا اور اس وقت کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔)

(2      تذکرہ از مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ ۔ مولانا نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’ تذکرہ‘ میں امام ابن تیمیہ کے حالات پر نہایت تفصیل سے خامہ فرسائی کی ہے۔

(3      سیرت امام ابن تیمیہ از مولانا غلام رسول مہر

(4      امام ابن تیمیہ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق

(5      امام ابن تیمیہ از ڈاکٹر محمد یوسف کو کن عمری

(6      شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ از مولانا ابو الحسن علی ندوی۔ مولانا ندوی نے اپنی مشہور کتاب’تاریخ دعوت و عزیمت‘ کی دوسری جلد امام ابن تیمیہ کے حالات و آثار کے لیے وقف رکھی۔

(7      ابن تیمیہ از محمد بن شعیب، تصحیح عبداللہ بن عمر

(8      امام ابن تیمیہ از ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری

(9      حیات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ از شیخ ابو زہرہ مصری، مترجم: سید رئیس احمد جعفری، تقدیم: مولانا غلام رسول مہر، تحقیق و تعلیق: مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی۔ مشہور مصری محقق شیخ ابو زہرہ کی کتاب’ ابن تیمیہ، حیاتہ و عصرہ، اراء ہ وفقھہ‘ کا اردو ترجمہ جس کا ذکرگزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔

(11    صاحب سیف و قلم از سید حسین حسینی

(12    امام ابن تیمیہ از ملک عبدالرشید عراقی

(13    امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ از ملک عبدلرشید عراقی

یہ سلسلۂ اشاعت روز افزوں ترقی پر ہے۔ مختلف مکتبات افادات ابن تیمیہ کی نشر و اشاعت میں بقدر امکان حصہ لے رہے ہیں۔ آج بھی ایک ہندی محقق (محمد عزیز شمس حفظہ اللہ ) ’البلد الامین‘ میں معارف ابن تیمیہ سے متعلق داد تحقیق دے رہا ہے۔

گو شمس و قمر کے سامنے دیا سلائی کی ایک معمولی تیلی کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن اگر خورشید کے ضمن میں ذرے کا ذکر قابل تعزیر نہ ہو تو عرض ہے کہ ان سطور کے گناہگار راقم نے بھی امام ابن تیمیہ کا ایک مختصر رسالہ ’خلاف الامۃ فی العبادات‘ (مترجمہ مولانا عبدالرحیم پشاوری رحمہ اللہ ) طبع کروانے کی سعادت حاصل کی ہے اور اب بھی گوشۂ دل ان ولولوں سے معمور اور ذو ق و شوق سے بھر پور ہے۔

 

 

علامہ شبلی کے مقالے پر ایک نظر

علامہ شبلی نعمانی اپنی جودتِ طبع اور گو نا گوں اوصاف کی وجہ سے تاریخ اسلامی ہند میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ پہلے پہل انہوں ہی نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے حالات اردو میں لکھنے کی طرف توجہ دی۔ یہ درست ہے کہ امام ابن تیمیہ کی کثیر الجہت شخصیت کا کماحقہ، ذکر کسی مختصر مقالے میں نہیں سما سکتا تاہم یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ خامۂ شبلی نے بھی جامعیت کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حضرت الامام کی مجددانہ شان اور خصائص کے بارے میں شبلی کی تحریر بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ معترف ہیں کہ ’’جو شخص رفارمر (مجدد) کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے، وہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  ہیں۔‘‘

بعض ضمنی واقعات کے اخذ و قبول میں بھی شبلی نے اپنے ذوق کا پورا پورا ثبوت بہم دیا ہے۔ مثلا شیخ شمس الدین ابن الحریری کا تذکرہ، امام ابن تیمیہ کے اساتذئہ کرام کے اسم گرامی، نیز بالخصوص ان کی فاضلہ استاذ زینب کا ذکر… وغیرہا۔

یہ وہ بیانات ہیں جس کے ذکر سے اردو میں حیات ابن تیمیہ پر لکھی گئی بعض اہم تصانیف بھی محروم ہیں۔ جس سے مقالہ شبلی کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں کتاب و سنت کے چشمئہ صافی سے اکتساب نور و ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے