تحریک شہیدین پر کم وبیش دو سوسال گزرجانے کے بعد بھی آج تک لوگوں کی زبانوں پر اس کا ذکر جمیل اسی طرح جاری ہے جیسے کہ ابھی ابھی چند دنوں قبل کی بات ہو۔ ملک اور بیرون ملک میں کوئی بھی سیمینار، کنونشن اور کانفرنس جس کا کسی بھی اعتبار سے جنگ آزادی ہند اور اس کے عمائدین سے تعلق ہو ممکن ہی نہیں کہ بلا اس تحریک کے تذکرے سے پوری ہوجائے۔ اگر انہوں نے اپنے فولادی عزم وارادہ سے غلام ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش نہ کیا ہوتا تو شاید آج ہمارا ملک آزاد فضا میں سانس نہ لے پاتا۔

تحریک شہیدین پر کئی ناحیوں سے گفتگو کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ تحریک آزادی ہند کی اہم کڑی تصور کی جاتی ہے جوکہ مبنی برحق ہے لیکن اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں دعوت وتبلیغ بھی رہا ہے۔ بدقسمتی سے مقررین ومصنفین اس جانب بہت کم توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے تحریک شہیدین کے دعوتی کارنامے اور حصول یابیاں اس طرح نہیں نکھر سکیں جس طرح اس کا حق تھا۔

جس پر آشوب ماحول اور حالات میں شہیدین نے اپنی تحریک کا آغاز کیا وہ کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کیلئے سازگار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ مسلمان تمام ہی شعبئہ زندگی میں تنزلی کے شکار تھے۔ دینی ، اخلاقی اور سیاسی ہرناحیہ سے ان کی اصلاح اور رہنمائی کی ضرورت تھی۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ تیرہویں صدی میں جب ایک طرف ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہورہی تھی اور دوسری طرف ان میں مشرکانہ رسوم وبدعات کازور تھا۔ مولانا اسماعیل شہید اور حضرت سید احمد بریلوی رحمہما اللہ کی مجاہدانہ کوششوں نے تجدید دین کی نئی تحریک شروع کی۔ یہ وقت تھا جب سارے پنجاب پر سکھوں کا اور باقی ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ ان دو بزرگوں نے اپنی بلند ہمتی سے اسلام کا علم اٹھایا اور مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی۔ جس کی آواز ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے کناروں تک یکساں پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اس علم کے نیچے جمع ہونے لگے۔ ‘‘ (مقدمہ تحریک شہیدین ج/۱،ص/۴۰)

اس دور میں ایک برائی نہ تھی بلکہ بے حیائی اور گناہ کے جو بھی کام ہوسکتے ہیں ، مسلمان اس میں ملوث تھے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اگر ’’شرک جلی‘‘ دنیا میں کوئی چیز ہے اور لغت اور عرف وشرع میں اس کے کچھ معنی ہیں تو وہ صاف صاف مسلمانوں میں کثرت سے موجود تھی۔ قبروں اور مردوں کے متعلق ایک مستقل شریعت بن گئی تھی۔ جس کے واجبات اور مستحبات میں انہیں سجدہ کرنا، ان سے دعا مانگنا، بوسہ دینا، نذریں اور چادریں چڑھانا، منتیں ماننا ، قربانیاں کرنا، طواف کرنا، گانا بجانا، میلہ لگانا، تہوار(ہندوانہ) منانا، چراغاں کرنا، عورتوں کا جمع ہونا اور مختصر اور صحیح الفاظ میں ان کو قبلہ وکعبہ اور ملجا ومآل سمجھنا تھا۔ اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے متعلق وہ سب عقائد وخیالات موجود تھے۔ جن کی وجہ سے نصرانی ، یہودی اور مشرکین عرب بدنام ہیں۔ ہندووں اور شیعوں کی بکثرت رسوم مسلمانوں کی معاشرت کا جز بن گئی تھیں۔ اور ان سے مشکل سے کوئی گھر خالی تھا، ان کی پابندی قرآن وحدیث واسلامی فرائض سے زیادہ کی جاتی تھی۔ شرک وبدعت اور اسراف وجہالت ان کے اجزائے ترکیبی تھے۔ ‘‘ (تحریک شہیدین ج/۱،ص/۶۸،۶۹)

ایسے ماحول میں دعوت کے علم کو سنبھالنا اور اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کو بھی حق کی دعوت دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جہاں معمولی رسم کی خلاف ورزی کرنے پر آدمی کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑسکتی تھی۔ لوگوں کی ذہنیت اتنی بگڑ چکی تھی کہ وہ اپنے آباواجداد اور پیرومرشد کے خلاف کوئی بھی بات سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ حدیث وقرآن کی باتیں ان کے نزدیک ثانوی درجہ کی چیزیں تھیں جس کے پڑھنے اور سمجھنے کا حق صرف معاشرے میں چند لوگوں تک محدود تھا۔ اس وقت کے جاہلانہ ماحول کو سمجھنے کیلئے مولانا محمد فاخر زائر آلہ آبادی کے واقعہ کا بیان مناسب ہے:’’ حضرت زائر دہلی تشریف لائے ، جامع مسجد میں ایک جہری نماز میں بآواز بلند آمین کہہ ڈالی ، دہلی میں یہ پہلا حادثہ تھا ، عوام برداشت نہ کرسکے ، جب آپ کو گھیر لیا ، تو فرمایا اس سے فائدہ نہ ہوگا تمہارے شہر میں جو سب سے بڑا عالم ہو اس سے مسئلہ دریافت کرو، لوگ آپ کو حضرت حجۃ اللہ شاہ ولی اللہ صاحب کی خدمت میں لے گئے۔ دریافت مسئلہ پر آپ نے فرمایا: کہ حدیث سے بآواز بلند آمین ثابت ہے ۔ مجمع چھٹ گیا، اب صرف مولانا محمد فاخر زائر اور شاہ صاحب بصورت قرآن السعدین باقی تھے۔ فاخر زائر صاحب نے عرض کیا : آپ کھلیں گے کب؟ فرمایا: اگر کھل گیا ہوتا تو آج آپ کو کیسے بچالیتا۔‘‘ (تراجم علماء حدیث ہند ص:۶۳)

ایسے پر خطر ماحول میں تحریک شہیدین کے روح رواں سید صاحب اور ان کے مشیر خاص شاہ اسماعیل رحمہ اللہ نے اپنے دیگر معاونین کے تعاون اور اللہ کی نصرت وتائید سے دعوت کے کمان کو سنبھالا، ہر چیز کو داؤ پر لگا کر اللہ تعالیٰ کے احکامات وفرامین کی بالادستی کا عزم مصمم کرلیا۔ بریلی ، دہلی ، بنگال، پنجاب، سندھ کے علاقے خاص طور پر آپ کے دعوتی مراکز قرار پائے۔ آپ جہاں بھی پڑاؤ ڈالتے لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا۔ جو آپ سے کتاب وسنت کی باتیں سنتے۔ اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی سعی حاصل کرتے اور اپنے ہم نشینوں میں سے بھی جن کو مناسب خیال کرتے دور دراز اور قرب وجوار کے علاقوں میں دعوتی اغراض کے تحت خطوط ارسال فرمایا کرتے تھے۔

تحریک شہیدین کے لالہ وگہر کی شبانہ جدوجہد سے چند ایسے رسوم کا بھی خاتمہ ہوا جن پر خاندان ولی الٰہی میں بھی عمل ہوتا تھا۔ جیسے سلام مسنون اور نکاح بیوگان کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ کا خاندان بھی عوام الناس کے طریقہ پر تھا۔ اور اس کی بہت  مثالیں کتابوں میں موجود ہیں اشارہ کافی ہے۔ خالد گھر جاکھی رقمطراز ہیں:’’چونکہ یہ تحریک کوئی سیاسی تحریک نہ تھی ، جس کاکام ملک گیری اور نہ ہی صرف تبلیغی تحریک تھی جو سیاست سے روشناس ہی نہ ہو بلکہ یہ ایک تجدیدی تحریک تھی جس کے سامنے بہ یک وقت لوگوں کی اصلاح کا پروگرام بھی تھا اور ایسی حکومت کا قیام بھی تھا جو خالص کتاب وسنت کے قانون کی حامل ہو چنانچہ ان دنوں بعض ملاؤں نے یہ فتوی دے رکھا تھا کہ اب حج فرض نہیں رہا۔ کیوں کہ انگریز وغیرہ سے جنگوں نیز اپنی خانہ جنگیوں کی وجہ سے راستہ مخدوش ہے۔ نیز ہندوانہ ذہنیت کی وجہ سے بیوہ عورتوں کا نکاح بھی معیوب سمجھا جاتا تھا چنانچہ اس بدرسم کو اپنے ہی گھر سے توڑا اور گھر میں جو بیوہ تھیں ان کا مناسب جگہوں پر نکاح کردیا اس کے بعد جلد ہی حج کا اعلان فرمایا کہ آئندہ سال ہم چار صدافراد حج کو جائیں گے۔‘‘ (سوانح مولانا فضل الٰہی ج/۱،ص/۳۱)

شہیدین کی تحریک سے منسلک مبلغین عالم باعمل ، کتاب وسنت کے شیدائی اور لوگوں کیلئے بہترین نمونہ تھے۔ ان حضرات سے عوام اسی طرح ٹوٹ کرمحبت کرتے تھے جیسے کوئی اپنے اکلوتے بیٹے سے کرتاہے اگر ان سبھی کے نام گنائے جائیں تو ایک لمبی چوڑی فہرست تیار ہوسکتی ہے لیکن بعض نام قابل ذکر ہیں شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ ، مولانا عبدالحئی ، مولوی محمد یوسف ، مولانا ولایت اور عنایت علی وغیرہم۔ یہ سب باضابطہ طور پر جہاد کے ساتھ ساتھ دعوتی امور کیلئے متعین تھے۔ جن کے ہاتھوں اللہ کی توفیق سے سینکڑوں کی قسمت سنور گئی ان گنت شہروں ، بستیوں اور خاندانوں سے شرک وبدعت کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ گمراہیوں کا ازالہ ہوا، اور لوگ کشاں کشاں راہ راست کی طرف آنے شروع ہوگئے ۔ تحریک شہیدین کی دعوت دین کے ثمرات وبرکات کسی شمار وقطار میں آنے والے نہیں ۔علیم ناصری رحمہ اللہ نے کسی حد تک تحریک شہیدین کے دعوتی کارناموں کو منظوم شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

بڑے چھوٹے دہات اور شہران کی راہ میں آئے

جہاں ٹھہرے وہیں اللہ کے احکام پہنچائے

عوام الناس کو توحید کی تبلیغ فرمائی

حدیث مصطفی غفلت زدہ لوگوں کو پہنچائی

عقائد کی کجی کی ہر طرح تردید فرمائی

بڑی شفقت سے ترک شرک کی تاکید فرمائی

رسمیں ہندؤوں کی  مسلمانوں سے چھڑوائیں

نبی کی سنتیں جو مٹ چکی تھیں تازہ کروائیں

وہ جن کے مشرکانہ کام تھے سارے بدلوائے

جو سیدھے راہ سے بھٹکے ہوئے تھے راہ پر آئے

دلوں کی کھیتیاں اس ابر نے سیراب کرڈالیں

زمین روح کی بنجر تھیں جو شاداب کرڈالیں

بہار افزا ہوئے ہر سو فلاح کے گلشن

خزاں کی زد میں آئے سب کو کنشت ودیر کے گلشن

(شاہنامہ بالاکوٹ ص:۱۱۳)

یقینا تحریک شہیدین تحریک جہاد کے ساتھ ساتھ ایک دعوتی تحریک بھی تھی۔ جس کے اچھے ثمرات ملک وبیرون ملک میں رونما ہوئے ۔ بھٹکے ہوئے افراد صراط مستقیم پر گامزن ہوئے اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی باتوں کو عروج حاصل ہوا۔ عقائد بد کا یک لخت خاتمہ ہوگیا غلط رسوم ورواج مٹ گئے

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے