اداریہ:

ایک ایساماہ مبارک سایہ فگن ہورہا ہے جو رحمتوں عظمتوں والا ہے رفعتوں برکتوں والا ہے۔ کامیابیوںکامرانیوں والا ہے رب کی خوشنودی حاصل کرکے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا نادر موقعہ سال میں صرف ایک دفعہ ایسا موقع کہ جب شیاطین پابند سلاسل ،رحمتیں اور برکتیں بے حد وحساب۔ ماہِ قرآن بھی اور ماہِ صیام بھی کہ ایک نفلی روزہ رکھنے والے کے  لئے  تو جہنم ستر سال کی مسافت پہ اس سے دور کردی جائے تو جو اس پورے ماہ کے فرض روزے رکھے اس کے اجر کا کیا کہنا ایسا مقدس مہینہ کہ مہینوں کے خالق نے اپنی پاک کتاب میں ان کی تعداد تو بتائی مگر نام صرف اسی مہینے کا بتایا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ اس میں ایسی رات ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے ’’لیلۃ القدر‘‘ اور اس رات میں ہی قرآن کا نزول ہوا یعنی حیات نو کا پیغام آیا۔ بھٹکتی اور بلکتی انسانیت کے زخموں کا مرحم آیا جفا کاروں کو وفا شعاری کا درس ملا، ظلم کی آگ کو عدل کا سبق پڑھا کر اس طرح ٹھنڈا کیا کہ وحشی بردبار اور قاتل وبے صبرے تمکین شعار بن گئے ، اس کتاب کے آنے سے جہالت کی رات اختتام کو پہنچی اور علم کے نور سے طلوع فجر کا اہتمام ہوا شاید اسی لیے روزہ بھی طلوع فجر سے شروع ہوتاہے کہ انسانیت پہ چھائی ہوئی ظلم کی رات اختتام کو پہنچی  اور سپیدہ سحر نمودار ہوا۔ہر سال اس عظیم کتاب کے نزول کاجشن اس انداز منایا جائے کہ گناہوں سے سیاہ والی رداءِ حیات ایک دفعہ پھر توبہ وانابت کے نور سے دھل کر چمک اٹھے اور آگ کے مستحق بنے ہوئے گل وگلزار کے وارث ٹھہریں کامیابی اور فتح ونصرت کا عجیب موسم ہے کہ کفر واسلام کا سب سے پہلا فیصلہ کن معرکہ 2 ھجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوتے ہی 17 رمضان کو ہوا اور پھر یہی ماہ مبارک برکات وفتوحات کا ایک تسلسل لیکر چلا احد وخندق کے معرکے اسی کے آس پاس ہونے کے بعد آخر کار فتح مبین کا وقت آپہنچا اور بقول صاحب الرحیق المختوم بحوالہ زاد المعاد اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کی عزت کی طنابیں جو زاء کے شانوں پر تن گئیں اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی  اور چمک دمک سے جگمگا اٹھا ۔ 20رمضان المبارک 8ہجری کو مکہ فتح ہوگیا لسان نبوت سے اعلان الٰہی یوں بلند ہوا ۔ وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا  ؀

اور اعلان کر دیں کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا ۔(الاسراء:81)

یہی رمضان المبارک ہی کا مہینہ تھاجب 13ہجری 13 رمضان کو مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سپاہ اسلام نے نہر فرات کے کنارے غزوہ بویب میں اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن پارسیوں کو شکست دی پھررمضان ہی میں 15 ہجری کو قادسیہ کا فیصلہ کن معرکہ ہوا اور آگ کے پجاری پارسیوں کی کمر ٹوٹ گئی ۔ اور ان ہی تاریخوں میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیو ندزدہ لباس پہنے اس حال میں شہر فلسطین کی چابیاں لینے پہنچے تھے کہ آپ پیدل چل رہے تھے اور غلام سوار تھا مصر پہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے 20ہجری میں رمضان شروع ہوتے ہی فتح کے پرچم لہر ا دیئے تھے۔ 23 رمضان 31ہجری کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پارسیوں کے ساتھ زور کا رن پڑا اور پارسیوں کا قائد یزدگردقتل ہو ا اور اس کے ساتھ ہی ساسانی حکومت صفحۂ ہستی سے مٹ گئی ۔ پھر جبل طارق پہ طارق بن زیاد 92 ہجری رمضان ہی میں پہنچا اور کشتیاں جلا کر اپنے 12ہزار کے لشکر سے یوں گویا ہوا  ’’أیھا الناس أین المفر البحر من ورائکم والعدو أمامکم ولیس لکم واللہ الا الصدق والأمانۃ ‘‘مسلمانوں میدان جنگ سے بھاگنے کی اب کوئی صورت نہیں تمہارے آگے دشمن کا وسیع ملک ہے پیچھے ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر۔  اللہ کی قسم! صرف ثابت قدمی پامردی اور استقلال ہی میں تمہاری بھلائی ہے ۔‘‘

وادی لکہ میں مقابلہ ہوا ، راڈرک(لذریق) ایک لاکھ 20ہزارکا لشکر جرار لیکر آیا مگر 12ہزار کے مقابل ٹھہر نہ سکا ۔ فتوحات رمضان کی فہرست طویل ہے ۔ محمد بن قاسم نے بھی راجہ داہر کو رمضان ہی میں شکست دی تھی وہ بھی ایک بہن کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے عراق سے چلا اور دیبل سندھ پہنچا اسی طرح عموریہ کی فتح میں بھی ایک ھاشمیہ عورت کی پکار شامل تھی۔ جس پر معتصم بن الرشید نے لبیک کہتے ہوئے أبلق گھوڑوں کا لشکر تیار کیا تھا اور 6 رمضان 223ہجری کو اپنی بہن کی مدد کے لیے عموریہ جاپہنچا فتح یاب ہوا اور کہا اے بہن! کل قیامت کےدن  اپنے نانا کے سامنے گواہی دینا کہ معتصم نے مدد کے لیے پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ روزوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے بجائے جرأتمند وطاقتور بنایا اور فتح ونصرت سے ہمکنار کیا۔ ابھی پچھلے دنوںہمارے ایک دوست کو اللہ پاک نے بیٹی سے سرفراز فرمایا ہم نے پوچھا نام کیا سوچا؟ فوراً جواب ملا ’’عافیہ صدیقی‘‘ مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور زبان سے دعا نکلی ’’اللہ عافیت میں رکھے ‘‘مشق ستم بنائی جانے والی وہ قوم کی بیٹی جو جرم بیگناہی میں 8سال سے ظالموں کی قید میں ہے جس کی آنکھیں شاید آج بھی کسی محمد بن قاسم یا کسی معتصم الرشید کا راہ تک رہی ہوں جس پہ ظلم کی انتہا کردی گئی ہے جو پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہے جس کا گناہ یہ ہے کہ

’’یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تو مسلمان ہے‘‘

کچھ دیوانے ایسے بھی ہیں جن کے دل آج بھی اپنی اس بہن اور بیٹی کے لیے پریشان ہیں وہ اسی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے نومولود بچیوں کے نام اس نام پہ رکھ  رہے ہیں۔ رہی بات حکام کی تو وہ رعیت کے مسؤول بن کر ذمہ داری اٹھانے کی بجائے ان کی گردنوں پہ پاؤں رکھ کر سوار ی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ادارے تباہی کا شکار ہورہے ہیں ۔ریلوے اور بجلی والوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی نہ سفر کرسکتے ہیں نہ گھر میں بیٹھ سکتے ہیں مگر اوپروالے یخ بستہ ٹھنڈے کمروں میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں مگریہ بات یاد رہے کہ  عوام کی مصیبت کے دنوں کی طرح ان کے عیش واقتدار کے دن بھی جلد از جلد گزر جائیں گے۔ رمضان المبارک رحمت بن کرآیا ہے اور موقع لیکر آیاہے کہ بے آس خانماں خراب ستائے ہوئے لوگوں آو ٔ!درِرحمت کھلے ہیں عافیت مانگو ظلم اور ظالموں سے نجات مانگو قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کیلئے دامن پھیلاؤ اپنے ہی ملک میں ظلم کے شکار مظلوموں کے لیے ہاتھ پھیلاؤ ، اس ملک کی حفاظت مانگو جو رمضان ہی کا تحفہ ہے ۔آج سے چونسٹھ برس پہلے بھی آگ سے نجات کے ماہِ مبارک رمضان میں انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزادی کا مہینہ اگست آیا تھااورشاید لیلۃ القدر ہی  تھی جوہجرت کی رات بنی تھی لوگ سب کچھ چھوڑ کر ارضِ پاک کی طرف دوڑے تھے ۔ لَآ اِ لٰہَ  اِلَّا اللہُ کی حکمرانی کے لیے ظلم کے خاتمے کے لیے اور اسلامی معاشرہ کے قیام کیلئے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی لاکھوں جانوں کی قربانی پیش کی گئی عزتیں تاراج ہوئیں۔ شرم وحیا کے وہ چہرے  جنہیں کبھی چاند نے بھی نہ دیکھا تھا، پامال ہوئے اور کچھ نے عزت وناموس کی خاطر خودموت کو گلے لگایا اور بے بس بیٹیاںبے آباد کنووں میں کود گئیں۔بوڑھے باپ جوان سہاروں سے اور جواں عورتیں اپنے سہاگوں سے محروم ہوئیں چنگیز وہلا کو  کی  روحانی اولاد نے مسلماں بچوں کو نیزوں کی انیوں پہ اچھالا یہ سب کچھ جھیلنے کے بعد ہجرت کرنے والے کٹے پھٹے بچے کھچے لوگوں نے جب پاکستان کی سرزمین پہ قدم رکھا تو سجدہ ریز ہوگئے جیسے جھلستی دوپہر میں کوئی شجر سایہ دار مل گیا ہو جیسے رستے  زخموں پہ مرحم کا اہتمام ہوگیاہو مگر نصف صدی سے زائد عرصہگزرنے کے بعد بھی اس خواب کی تعبیر ابھی باقی ہے جو خواب آنکھوں میں سجا کر ہجرت کرنے والے اپنا سب کچھ تج کریہاں آئے تھے، تعبیر کیا ملتی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب اس پناہ گاہ میں بھی کوئی محفوظ نہیںرہا،گلی گلی مقتل سجے ہیں نشیمن ظلم وجور کی آندھیوں کی زد میں ہیں رنگ ونسل، زبان اور صوبہ کی بنیاد پر تقسیم ہورہی ہے، لڑائی ہورہی ہے یہ اس نبی کے اُمتی ہیں جس نے صرف لَآ اِ لٰہَ  اِلَّا اللہُ کے رشتہ پر جمع کیا تھا اسی وجہ سے اس کے دربار میں سادات قریش شرفاء مکہ عمروصدیق عثمان وعلی رضی اللہ عنہم نے جگہ پائی ان کے برابر ہی فارس کے سلمان حبشہ کے بلال اور روم کے صہیب کو مقام ملا ۔

حق وباطل کا پہلا معرکہ بپا ہوا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے کافر ماموں عاص بن ھشام کو قتل کیا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقابل ان کا بیٹا عبد الرحمن تھا اور جب قیدیوں کا معاملہ سامنے آیا تو عمر فاروق کی رائے یہ تھی زید بن خطاب کو میرے حوالے کردیں میں اس کی گردن مار دوں عقیل کو علی کے حوالے کریں اور حمزہ کے بھائی کو حمزہ کے حوالے کریں وہ ان کی گردنیں ماریں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ مشرکین کے لیے ہمارے دلوں میں نرم گوشہ نہیں ایک طرف یہ معیار اور جنگ کے خاتمہ پر شاش بن قیس بوڑھے یہودی نے اوس وخزرج کو اکٹھے بیٹھا دیکھ کر ایک یہودی نوجواں کو بھیجا جس نے پرانی عداوت کی باتیں چھیڑ کر جھگڑ ا کروادیا،قریب تھا کہجنگ چھڑ جاتی  اتنے میں رسول اللہ پہنچ گئے اور آپ کی نصیحت سے انہیں احساس ہوگیا یہ شیطان کی چال تھی چنانچہ وہ رونے لگے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر فرمانبردار بن گئے عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے بھی مہاجر وانصار میں  عصبیت کی چنگاری سلگائی تھی۔

دو مقدس نسبتوں یعنی مہاجر وانصار جب عصبیت کی بنیاد پر آواز لگائی گئی یا معشر الانصار اور یا معشر المہاجرین انصاری نے انصار کو اور مہاجر نے مہاجرین کو پکارا آپ کو پتہ چلا تو آپ تشریف لے گئے اور فرمایا عصبیت کی بات اور میں تمہارے درمیان موجود ’’دعوھا فانھا منتنۃ‘‘ اسے چھوڑ دو یہ بدبودارہے۔

انصار ومہاجر کی نسبت کتنی پاکیزہ ہے مگر جب عصبیت کا سبب بنے تو لسان نبوت اسے بدبودار کہے اس وقت بھی وطن عزیزمیں یہی عصبیت کا زہر ہے جو ملک وقوم کو اجاڑ رہا ہے اور اس کے پیچھے بھی یہودی ذہنیت کارفرما ہے ۔

وزیر داخلہ کو ایک عرصہ کے بعد ایک بات سمجھ میں آئی ہے اور انہوں نے ان الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ کراچی میں اسرائیل کا اسلحہ استعمال ہورہاہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کا کام یہودی ہی کرتے آئے ہیں ۔ نام کوئی بھی ہو مگر کام ایک ہی ہے ۔

رمضان غمخواری کا مہینہ بھی آئیے اغیار کی سازشوں سے باخبر ہوکر باہم شیر وشکر ہوجائیں اور یہودی منصوبوں  کو ناکام بنادیں۔

اگر یہ ماہِ مبارک اس سال ہمیں باہم بھائی بھائی بنا گیا اور اکرام مسلم کا شعور اجاگر ہوگیا تو سمجھیئے رمضان کا مقصد ہم نے پالیا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول مقبول کے فرمان کے مطابق :’’ کتنے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں پیاس اور بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ تو روزہ داروں کے لئے ہے باقی جو رکھیں گے ہی نہیں ایسے شخص سا بد نصیب کون ہوگا کہ رحمت و بخشش جس کے دروازے پہ آئے اور وہ پھر بھی محروم رہ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے