رمضان کی فرضیت :

رمضان کے روزے ہرمکلف مسلمان مرد وعورت پرفرض ہیں اورجوبچے اوربچیاں سات سال کے ہوجائیں اوروہ روزے رکھ سکتے ہوں توانکے لئے رمضان کے روزے رکھنا مستحب ہےاورانکے سرپرست کا یہ فرض ہے کہ طاقت رکھنے کی صورت میں انہیں نمازکی طرح روزے کا بھی حکم دیں۔ اس مسئلہ کی بنیاد اللہ تعالى کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم اللہ کا تقوى  اختیارکرو روزے کے چند گنتی کے دن ہیں تو جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔( البقرة:183۔184)

اوراسی طرح ارشاد فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا  جولوگوں کوراہ بتلاتا ہے اوراس میں ہدایت کی اورحق کوناحق سے پہچاننے کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں  پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ پائے وہ اسکے روزے رکھے اورجو بیمارہو یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں اسکی گنتی پوری کرے۔(سورة البقرة:185)

اورسیدناعبداللہ بن عمرtکی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے: اس بات کی گواہی دیناکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ و سلم  اللہ کے رسول ہیں اورنمازقائم کرنا اورزکاۃ دینا اوررمضان کے روزے رکھنا اوربیت اللہ کا حج کرنا۔(متفق علیہ)

نیزجبرائیل علیہ السلام نے جب رسول  صلی اللہ علیہ و سلم سے اسلام کے بارے میں سوال کیا توآپ نے فرمایا : اسلام يہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورمحمد  صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اورنماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور استطاعت  ہو توبیت اللہ کا حج کرو۔

نیز صحیحین میں سیدناابوہریرہ tسے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبیمحترم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اجروثواب طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اسکے گزشتہ تمام صغیرہ گناہ معاف کردیئے گئے ۔

دوسری حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ آدمی کا ہرعمل اسی کے لئے ہے ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سوگنا تک ہے البتہ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسے اسکا بدلہ دونگا اس نے میرے لئے اپنی شہوت سے کنارہ کشی کی اورکھانا پینا ترک کیا اورروزہ دارکے لئے خوشی کے دو موقع ہیں ایک موقع وہ ہے جب وہ روزہ افطارکرتا ہے اور دوسراموقع وہ ہوگا جب وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا ۔ اورروزہ دارکے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔(متفق علیہ)

نابالغ بچوں کے لیے رمضان کا حکم :

بچے اوربچیاں جب سات سال یا اس سے زیادہ کے ہوجائیں توعادت ڈالنے کے لئے ان سے روزے رکھوائے جائیں اوران کے سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ نمازکی طرح انہیں روزے کا بھی حکم دیں اورجب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں توپھران پرروزہ واجب ہوجاتا ہے  اوراگردن میں روزہ کے دوران ہی بالغ ہوجائیں توانکا یہ روزہ فرض روزہ کی طرف سے کفایت کرجائیگا۔بچی کے بارے میں بھی بالکل یہی حکم ہے البتہ اسکے تعلق سے ایک چوتھی علامت حیض بھی ہے جس سے اسکے بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

مسافر کے لیے رمضان کا حکم :

مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا بہترہے لیکن اگرکوئی شخص بحالت سفرروزہ رکھ لے توبھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم سے نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دونوں عمل ثابت ہیں لیکن اگرسخت گرمی ہواورمشقت زیادہ محسوس ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی موکد ہوجاتا ہے اورایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سفرمیں روزے سے ہے اورسخت گرمی کی وجہ سے اس کے اوپرسایہ ڈال دیا گیا ہے توآپ نے فرمایا:سفرمیں روزہ رکھنا بھلائی نہیں ہے اوراسلئے بھی ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اسکی دی ہوئی رخصت کو قبول کیا جائے جس طرح اسے یہ بات ناپسند ہے کہ اسکی نافرمانی کی جائے دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں: جس طرح اسے یہ بات  پسند ہے کہ اسکے فرائض پرعمل کیا جائے اس سلسلہ میں گاڑی یا اونٹ یا کشتی یا پانی کے جہازسے سفرکرنے والے میں اورہوائی جہاز سے سفرکرنے والے میں کوئی فرق نہیں کیونکہ سفرکا لفظ ہرایک کوشامل ہے اوروہ سفرکی رخصت سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اللہ تعالى نے اپنے بندوں کے لئے سفراوراقامت کے احکام رسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تاقیامت آنے والوں کے لئے مشروع فرمائے اوراسے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بعد میں حالات میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اورکیسے کیسے وسائل سفرایجاد ہوں گے  اسلئے اگرحالات اوروسائل سفرکے مختلف ہونے سے احکام بھی بدل جاتے تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اس بات پرمتنبہ کیا ہوتا۔

جیسا کہ ارشاد ہے :ہم نے آپ پرکتاب نازل کی جو ہرچیز کوبیان کرنے والی ہے اورمسلمانوں کے لئے ہدایت اوررحمت اوربشارت ہے۔(سورة النحل:89)

نیز فرمایا : اوراس نے گھوڑے اورخچراورگدھے تمہاری سواری اورزینت کے لئے پیدا کئے  اوروہ چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے ۔(سورة النحل:8)

ماہ رمضان کے آغاز کا ثبوت :

ماہ رمضان کا شروع ہونا اورختم ہونا دویا دو سے زیادہ عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے البتہ اس ماہ کے شروع ہونے کے لئے صرف ایک گواہ کی گواہی کا فی ہے نبی اكرم  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: اگردو گواہ گواہی دیدیں توروزہ رکھو اورافطارکرو۔نیزرسول الله  صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صرف ابن عمر کی شہادت اورایک موقع پرصرف ایک دیہاتی کی شہادت کی بنیاد پرلوگوں کوروزہ رکھنے کا حکم دیا تھا  اورمزید کوئی شہادت نہیں طلب کی تھی  اسکی حکمت یہ ہے کہ اس ما ہ کے شروع ہونے اوراختتام کو پہنچنے میں دین کے لئے احتیاط کوملحوظ رکھا جائے جیسا کہ اہل علم نے اسکی صراحت کی ہے۔

اگرکسی شخص نے رمضان کے شروع یا اختتام کے وقت اکیلے چاند دیکھا اوراسکی شہادت پرعمل نہ کیا گیا تواہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق وہ عام لوگوں کے ساتھ روزہ رکھے اورافطارکرے اورخود اپنی شہادت پرعمل نہ کرے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادہے:

روزہ اس دن کا ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو  اورافطاراس دن ہے جس دن تم سب افطارکرتے ہو  اورقربانی اس دن ہے جس دن تم سب قربانی کرتے ہو۔

 کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم نے رؤیت ہی پراعتماد کرنے کا حکم دیا ہے اوراس بارے میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی جیساکہ صحیح حدیث میں آپ کا یہ ارشاد ثابت ہے:چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھ کرافطارکرو اوراگرابرکی وجہ سے تم پرچاند ظاہرنہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو۔ (متفق علیہ)

اورآپ  صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث بھی ثابت ہے :تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لویا (شعبان کی) گنتی پوری کرلو اورافطارنہ کرویہاں تک کہ چاند دیکھ لویا (رمضان کی) گنتی پوری کرلو

اس معنیٰ کی اوربھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ان احادیث میںرسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے جاننے کے باوجود اختلاف مطلع کی جانب کوئی اشارہ نہیں فرمایا لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مطلع بدل جانے کی صورت میں ہرشہروالوں کے لئے چاند دیکھنے کا اعتبارہوگا انکی دلیل سيدناابن عباسwکا یہ اثرہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں تھے اورانہوں نے اہل شام کی رویت کا اعتبارنہ کیا ملک شام والوں نے سید نامعاویہ tکے زمانہ میں جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اوراسی کے مطابق روزہ رکھا لیکن اہل مدینہ نے وہی چاند ہفتہ کی رات دیکھا اورجب کریب نے ابن عباس سے اہل شام کے چاند دیکھنے اورروزہ رکھنے کا تذکرہ کیا توابن عباس نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے  اسلئے ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ (عیدکا) چاند دیکھ لیں یاپھر(رمضان کی ) گنتی پوری کرلیں ابن عباس نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث سے استدلا ل کیا : چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھ کرافطارکرو

جن ممالک میں دن اوررات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندراندرپوری ہوجاتی ہے وہاں کے لوگ دن میں روزہ رکھیں گے خواہ دن چھوٹا ہویا بڑا اوریہ ان کے لئے کفایت کرجائیگابھلے ہی دن چھوٹا ہو۔ البتہ وہ ممالک جہاں دن اور رات کی گردش چوبیس گھنٹے کے اندرپوری نہیں ہوتی بلکہ رات یا دن چھ چھ ماہ تک لمبے ہوتے ہیں وہاں کے لوگ نماز اورروزہ کے وقت کا اندازہ متعین کرکے اسی حساب سے نمازپڑھیں گے اورروزے رکھیںگے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نےدجال کے ظاہرہونے کے ایام کے بارے میں حکم دیا ہے جسکا پہلادن ایک سال کے اوردوسرادن ایک ماہ کے اورتیسرادن ایک ہفتہ کے برابرہوگا کہ نماز کے وقت کا اندازہ کرکے نمازپڑھ لیں۔جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں بایں طورکہ وہاں فجرطلوع ہوتی ہو اورآفتاب غروب ہوتا ہو البتہ موسم گرما میں دن بہت ہی طویل ہوتا ہواوراسکے برعکس موسم سرما میں بہت ہی چھوٹا ہوایسے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہی اوقات میں نمازاداکریں جوشرعاً متعین اورمعروف ہیں کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے :سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو اورفجرکے وقت قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجرمیں قرآن پڑھنے کے وقت فرشتے حاضرہوتے ہیں۔(سورۃ بنی اسرائیل:78)

ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات :

 ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے اوقات کی تعیین کی تو جن ممالک میں دن اوررات ایک دوسرے سے جداجدا ہوں اورانکا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہووھاں کے مکلف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پورے دن یعنی طلوع فجرسے لے کرآفتاب غروب ہونے تک کھانے پینے اوردیگرتما م مفطرات سے رکے رہیں اورصرف رات میں خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو کھانا  پینا اوربیوی سےہمبستری وغیرہ حلال جانیں کیونکہ شریعت اسلامیہ ہرملک کے باشندوں کے لیے عام ہے اوراللہ تعالى کا ارشادہے : اورکھاتے اورپیتے رہویہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے تم کوصا ف دکھائی دینے لگے۔(سورة البقرة:187)

البتہ وہ شخص جودن کے طویل ہونے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہو یاآثاروعلامات سے یاتجربہ سے یا کسی معتبرماہرڈاکٹرکے بتانے سے یا اپنے گمان غالب سے یہ جانتا ہوکہ روزہ رکھنا اسکی ہلاکت کا یا شدید مرض میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتا ہے یاروزہ رکھنے سے اسکا مرض بڑھ جائیگایا اسکی شفایابی کمزورپڑجائے گی تو ایسا شخص روزہ نہ رکھے اورانکے بدلے دوسرے مہینہ میںجس میں اسکے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو قضا کرلے اللہ تعالى کا ارشاد ہے:جوشخص رمضان كا مہینہ پائے وہ اسکا روزہ رکھے اورجو مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ۔(سورة البقرة:185)

نیزاللہ تعالی نے فرمایا:الله كسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔(سورة البقرة:286)

اورفرمایا : اوراس اللہ نے دین کے معاملے میں تم پرکوئی حرج وتنگی نہیں رکھی۔(سورة الحج:78)

اسی طرح رمضان کے روزے کا مسئلہ بھی ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں دن اوررات جداجدا ہوں اورہرچوبیس گھنٹے کے اندرانکی گردش مکمل ہوجاتی ہو اس ملک کے اوقات کے اعتبارسے ماہ رمضان کی ابتداء اوراسکے اختتام  اوقات سحروافطار نیزطلوع فجراورغروب آفتاب وغیرہ کے اوقات متعین کرلیں اورروزہ رکھیں۔

سحری کا حکم:

موذن کے بارے میں اگریہ معروف ہو کہ وہ فجرطلوع ہونے کے ساتھ ہی اذان دیتا ہے توایسی صورت میں اسکی اذان سنتے ہی کھانے پینے اوردیگرتمام مفطرات سے رک جانا ضروری ہےلیکن اگرکلینڈرکے اعتبارسے ظن وتخمین سے اذان دی جائے توایسی صورت میں اذان کے دوران کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے آپ نے فرمایا:بلال رات میں اذان دیتے ہیں سوکھاؤ اورپیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم tاذان دیں۔

اس حدیث کے آخرمیں راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتومt نابینا شخص تھے وہ اسوقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک کہ ان سے یہ نہ کہاجاتا کہ تم نے صبح کردی۔(متفق علیہ)

اہل ایمان مرد وعورت کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم کی درج ذیل احادیث پرعمل کرتے ہوئے وہ طلوع فجرسے پہلے ہی سحری سے فارغ ہوجائیں آپ نے فرمایا :جوچیز تمہیں شبہ میں ڈالے اسے چھوڑکرجوشبہ میں ڈالنے والی نہ ہو اسے لے لو۔

نیزفرمایا:جوشخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اوراپنی عزت کو بچالیا ۔

لیکن اگریہ بات متعین ہوکہ موذن کچھ رات باقی رہنے پرہی طلوع فجرسے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے اذان دیتا ہے جیساکہ بلال کرتے تھے توایسی صورت میں مذکورہ بالا احادیث پرعمل کرتے ہوئے کھانے پینے  میں کوئی حرج نہیں یہاں تک کہ طلوع فجرکے ساتھ اذان دینے والے موذن کی اذان شروع ہوجائے۔

 حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لئے روزہ کا حکم :

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کا حکم مریض کا حکم ہے  اگرروزہ رکھنا انکے لئے بھاری ہوتو روزہ نہ رکھیں اوربعد میں جب وہ روزہ رکھنے کے لائق ہوجائیں تو مریض کی طرح وہ بھی چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں  بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں کو ہردن کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھاناکھلانا ہوگا لیکن یہ ضعیف اورمرجوح قول ہے صحیح بات یہی ہے کہ انہیں بھی مریض اورمسافرکی طرح چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی  اللہ تعالى کا ارشاد ہے: پس جو تم میںسے مریض ہویا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔(سورة البقرة:184)

سيدناانس بن مالک tکی درج ذیل حدیث بھی اسی بات پردلالت کرتی ہے جس میں یہ ذکرہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اللہ تعالى نے مسافرسے روزہ کی اورآدھی نمازکی تخفیف کردی ہے اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ کی۔(صحیح مسلم وسنن اربعہ)

 عمررسیدہ مرد وعورت اورایسا مریض جس کے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہواس کے لیے رمضان کا حکم :

جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفایاب ہونے کی امیدنہ ہو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو اسے ہردن کے بدلے بصورت استطاعت ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا جیساکہ صحابۂ کرامy کی ایک جماعت جن میں ابن عباسw بھی ہیں کافتوى ہے۔

حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے روزہ رکھنے کا حکم :

حيض اورنفاس والي عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ حیض اورنفاس کے وقت وہ روزہ توڑدیں حیض اورنفاس کی حالت میں روزہ رکھنا اورنمازپڑھنا جائزنہیں اورنہ ہی ایسی حالت کی نماز اورروزہ صحیح ہے انہیں بعد میں صرف روزوں کی قضا کرنی ہوگی نمازکی نہیں سيده عائشہ rکی حدیث ہے ان سے سوال کیاگیا کہ کیا حائضہ عورت نمازاورروزے کی قضا کرے؟ توانہوں نے فرمایا: ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اورنمازکی قضا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔(متفق علیہ)

سيده عائشہ rکی بیان کردہ حدیث پرعلماءl کا اتفاق ہے کہ حیض ونفاس والی عورتوں کو صرف روزوں کی قضا کرنی ہے نماز کی نہیں۔ اوریہ اللہ سبحانہ کی طرف سے ایک طرح کی رحمت اورآسانی ہے کیونکہ نمازایک دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے اس لئے نمازکی قضا مذکورہ عورتوں پربھاری تھی اس کے برخلاف روزہ سال میں صرف ایک بارفرض ہے اوروہ ماہ رمضان کا روزہ ہے  اس لئے اس کے قضا میں کوئی مشقت ودشواری نہیں۔

مریض رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھ سکا اوررمضان کے بعد انتقال کرگیا اس کے روزوں کا حکم :

مسلمان اگررمضان کے بعد بیماری کی حالت میں انتقال کرجائے تواس پرروزوں کی قضا اورمساکین کوکھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ شرعاً معذورہے اسی طرح مسافراگرحالت سفرمیں یاسفرسے واپس آتے ہی انتقال کرجائے تواس پربھی روزوں کی قضا اورمسکینوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ شرعا معذورہے۔ البتہ وہ مریض جس نے شفایاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی پھرانتقال کرگیا یا وہ مسافرجس نے سفرسے واپس آنے کے بعدروزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی  پھرانتقال کرگیا ایسے لوگوں کے اقرباء کوچاہئے کہ وہ ان کی طرف سے روزوں کی قضا کریں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :جو شخص انتقال کرگیا اوراسکے ذمہ روزہ تھا تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے۔(متفق علیہ)

لیکن اگرانکی طرف سے کوئی روزہ رکھنے والا نہ ہوتو انکے ترکہ میں سے ان کے ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کونصف صاع جو تقریباً ڈیڑھ کلوہوتا ہے کھانا دینا ہوگا جیسا کہ عمررسیدہ (بوڑھے ) اوردائمی مریض کی طرف سے دیا جاتا ہے۔اسی طرح حیض اورنفاس والی عورتوں سے اگررمضان کے روزوں کی قضا میں سستی ہوئی اورپھروہ انتقال کرگئیں تو اگرانکی طرف سے کوئی روزوں کی قضا کرنے والا نہ ہوتو ہرروزہ کے بدلے ان کی طرف سے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا ۔

مذکورہ اشخاص میں سے اگرکسی نے کوئی ترکہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس سے مسکینوں کو کھانا دیا جاسکے تواسکے ذمہ کچھ نہیں اللہ تعالى کا ارشاد ہے : اللہ تعالى کسی نفس کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ (سورة البقرة:286)

اورفرمایا اللہ سے ڈرو جتنی تم میں طاقت ہو: (التغابن:16)

روزه داركے لیے رگ میں اورعضلات (پٹھے) میں انجکشن لگوانے کا حکم :

صحیح بات یہ ہے کہ رگ میں اورعضلات میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ غذا کے انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے  اسی طرح چیک اپ کے لئے خون نکلوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اسکی شکل سینگی لگوانے کی نہیں ہے ہاںبچھنہ لگوانے سے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق لگوانے والے اورلگانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:سینگی لگانے والے اورلگوانے والے نے روزہ توڑدیا۔

روزہ دارکے لئے ٹوتھ پیسٹ یامنجن استعمال کرنے نیز کان ، ناک  اورآنکھ کے قطرے (دوائیں)ڈالنے کا حکم:

پیسٹ (منجن) کے ذریعہ دانت صاف کرنے سے مسواک کی طرح روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ روزہ دارکواسکا سخت خیال رکھنا چاہئے کہ منجن کا کچھ حصہ پیٹ کے اندرنہ جانے پائےلیکن غیرارادی طورپراگرکچھ اندرچلا بھی جائے توا س پر قضانہیں ہے۔

اسی طرح آنکھ اورکان کے قطرے ڈالنے سے بھی علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا اوراگران قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے تو اس روزہ کی قضا کرلینا احوط(احتیاط)ہے واجب نہیں کیونکہ آنکھ اور کان کھانے پینے کے راستے نہیں ہیں البتہ ناک کے قطرے استعمال کرنا جائزنہیں کیونکہ ناک کھانے پینے کا راستہ شمارہوتی ہے اوراسی لیے نبی اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:  اور ناک میں (وضوکے وقت) خوب اچھی طرح پانی چڑھاؤ الایہ کہ تم روزہ سے ہو(تو پھر اس سے اجتناب کرو)

لہٰذا مذکورہ حدیث نیز اس معنی کی دیگراحادیث کی روشنی میں اگرکسی نے روزہ کی حالت میں ناک کے قطرے استعمال کئے اورحلق میں اسکا اثرمحسوس ہوا تو اس روزہ کی قضا کرنی واجب ہے ۔

جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کرکچھ کھا پی لیا اسکا حکم:

ایسے شخص پرکچھ نہیں اوراسکا روزہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اے ہمارے رب! ہم اگربھول گئے یا غلطی کربیٹھے توہماری گرفت نہ کر۔ (سورة البقرة:286)

اس آیت کی تفسیرمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث ہے کہ بندے کے جواب میں اللہ تعالى نے فرمایا :میں نے تمہاری بات قبول کرلی  نیز ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جس نے روزہ کی حالت میں بھول کربیوی سے جماع کرلیا تو مذکورہ بالاآیت کریمہ اورحدیث شریف کی روشنی میں علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اسکا روزہ صحیح ہے نیزرسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے:جس نے رمضان میں بھول کرروزہ توڑدیا تواس پرنہ قضا ہے نہ کفارہ اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قراردیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ جماع اوردیگرتمام مفطرات کو شامل ہیں اگرروزہ دارنے بھول کرایسا کیا ہو تویہ اللہ تعالى کی رحمت اوراسکا فضل واحسان ہے۔

تارک نماز کے روزہ رکھنے کا حکم :

صحیح بات یہ ہےکہ عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے لہٰذا جب تک وہ اللہ تعالى سے توبہ نہ کرلے اسکا روزہ اوراسی طرح دیگرعبادات درست نہیں کیونکہ اللہ تعالى کا ارشادھے اوراگرانہوں نے شرک کیا ہوتا تووہ سب اکارت (ضائع) ہوجاتا جووہ کرتے تھے:(سورۃ الانعام:88)

نیزاس معنیٰ کی دیگرآیات اوراحادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہوجانے کی دلیل ہیں۔

لیکن کچھ اہل علم اسطرف گئے ہیں کہ تارک نماز اگر نمازکی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی اورلاپروائی کی وجہ سے نمازچھوڑتا ہے تواسکا روزہ اوردیگرعبادات برباد نہیں ہوں گی یعنی عمداً نمازترک کرنے والا کافرہے  بھلے ہی وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو کیونکہ اس قول پربے شماردلائل موجود ہیں انہیں دلائل میں سے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:بندہ کے درمیان اور کفروشرک کے درمیان بس نماز چھوڑنےکا فرق ہے اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں جابربن عبد اللہ سے روایت کیا ہے ۔

اورآپ  صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بھی :ہمارے اوران کافروں کے درمیان جومعاہدہ ہے وہ نمازہے تو جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفرکیا اس حدیث کو امام احمد نیز ائمہ اربعہ (ابوداؤد،نسائی، ترمذی اورابن ماجہ ) نے بریدہ بن حصین اسلمی tسے روایت کیا ہے۔

 رمضان کے روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرروزہ چھوڑنے کا حکم:

جب کسی نے شرعی عذرکے بغیرعمداً رمضان کا روزہ چھوڑدیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اس کی وجہ سے وہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کافرقرارنہیں دیا جائیگاالبتہ اس کو چھوڑے ہوئے روزے کی قضا کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالى سے توبہ کرنی ہوگی بے شماردلائل سے ثابت ہوتاہے کہ روزہ کی فرضیت کا انکارکئے بغیرمحض سستی ولا پروائی کی بنا پراگرکوئی شخص رمضان کا روزہ چھوڑدے تو اس کی وجہ سے وہ کافرشمارنہیں ہوگا ۔

روزہ دارکے جسم سے اگرخون نکل جائے  مثلاً نکسیروغیرہ پھوٹ جائے تو اسکا حکم اور روزہ دارکے لئےاپنے خون کا کچھ حصہ چیک اپ کے لئے خون نکلوانے کا حکم:

روزہ دارکے جسم سے اگرخون نکل جائے مثلاً نکسیرپھوٹ جائے یا استحاضہ ہوجائے تو اس سے روزہ پرکوئی اثرنہیں پڑتا البتہ حیض اورنفاس آنے سے نیز سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،بوقت ضرورت چیک اپ کے لئے خون نکلوانے میں کوئی حرج نہیں اس سے روزہ پرکوئی اثرنہیں پڑتا البتہ روزہ کی حالت میں خون کا صدقہ کرنے کی بابت احتیاط اسی میں ہے کہ یہ کا م روزہ افطارکرنے کے بعد کیا جائے کیونکہ اس صورت میں عموماً خون زیادہ نکالا جاتا ہے اسلئے یہ پچھنا لگوانے کے مشابہ ہے۔

 رمضان کے روزہ کی حالت میں بیوی كے قريب جانا اور اسکا حکم:

 اور مسافرکے لئے روزہ نہ رکھنے کی صورت میں بیوی كے قريب جانے کا حکم :

جس نے رمضان میں روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا اوراس پرروزہ فرض تھاتو اس پرکفارۂ ظہار واجب ہےساتھ ہی اسے اس روزہ کی قضا نیزجوغلطی سرزد ہوئی ہے اس پراللہ تعالى سے توبہ کرنی ہوگی۔ لیکن اگروہ سفرمیں تھا یا کسی ایسے مرض کا شکارتھا جس سے اسکے لئے روزہ نہ رکھنا درست ہے تو ایسی صورت میں اسے صرف اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ مسافراورمریض کے لئے روزہ توڑدینا جائز ہے خواہ وہ جماع (ہمبستری) کے ذریعہ ہو یا کسی اورچیز کے ذریعہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے: پس تم میں سے جوشخص بیمارہویا سفرپرہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے۔ (سورة البقرة:184)

اس سلسلہ میں عورت کا حکم بھی وہی ہے جو مردکا حکم ہے  یعنی اگروہ فرض روزہ سے تھی تواس پرکفارہ اورقضا دونوں واجب ہیں اوراگرسفرمیں تھی یا کسی ایسے مرض کا شکارتھی جس سے اسکے لئے روزہ رکھنا دشوارتھا توایسی صورت میں اس پرکفارہ نہیں  بلکہ صرف اس روزہ کی قضا لازم ہے۔

تنفس( دمہ) وغیرہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں منہ میں اسپرے استعمال کرنے کا حکم:

مریض اگراسپرے استعمال کرنے کے لئے مجبور ہو تو جائز ہے۔اللہ تعالى کا ارشاد ہے:اورالله نے تمہارے لئے بیان کردیا ہے جو اس نے تم پرحرام کیا ہے  ہاں مگروہ چیزیں جن کے لئے تم مجبورہوجاؤ۔ (سورۃ الانعام:119)

اوراس لئے بھی اسپرے کا استعمال جائز ہے کہ یہ کھانے پینے کے قبیل سے نہیں بلکہ چیک اپ کے لئے خون نکلوانے اورغیرمغذی انجکشن لگوانے کے زیادہ مشابہ ہے ۔

روزہ کی حالت میں کسی کو خود بخود قے ہوجائے تو اسکا حکم :

روزہ کی حالت میں خودبخود قے ہوجانے سے روزہ کی قضا نہیں لیکن اگرکسی نے عمداً قے کی ہے تو اسے اس روزہ کی قضا کرنی ہوگی کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادہے: جسے خود بخود قے ہوجائے اس پرقضا نہیں اورجس نے عمداً قے کی اس پرقضا ہے ۔

اس حدیث کو امام احمد نیزسنن اربعہ (ابوداؤد،نسائی، ترمذی اورابن ماجہ ) نے ابوہریرہ tسے روایت کیا ہے۔

گردہ کے مریض کے لئے روزہ کی حالت میں خون تبدیل کرانے کا حکم :

مسئولہ صورت میں روزہ کی قضا دینی ہوگی کیونکہ اس سے مریض کو تازہ خون مل جاتا ہے خون کے ساتھ ہی اگراسے اورکوئی مادہ دے دیا گیا تووہ ایک دوسرا مفطر (روزہ توڑنے والا) شمارہوگا۔

مرد اورعورت کے لئے اعتکاف کا حکم اور آداب :

اعتكاف مرد اورعورت دونوں کے لئے سنت ہے  کیونکہ نبی كريم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے اورآخرزندگی میں صرف آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے آپ کے ساتھ بعض ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی تھیں اورآپ کی وفات کے بعد بھی انہوں نے اعتکاف کیا۔اعتکاف کرنے کی جگہ وہ مساجد ہیں جن میں باجماعت نماز قائم کی جاتی ہوا عتکاف کے دوران اگرجمعہ پڑے توافضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے اعتکاف کرنے کے لئے علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق کوئی متعین وقت نہیں اورنہ ہی اسکے لئے روزہ رکھنا شرط ہے البتہ روزہ کی حالت میں اعتکاف افضل ہے۔سنت یہ ہے کہ معتکف نے جس وقت سے اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے اسوقت وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ ) میں داخل ہو اورجتنی دیرکے لئے اعتکاف کی نیت کی تھی وہ وقت پورا ہونے پرباہرآجائے ۔ کوئی ضروت پیش آجائے تو اعتکاف توڑبھی سکتا ہےکیونکہ یہ سنت ہے  اسکا پورا کرنا ضروری نہیں البتہ اس صورت میں اعتکاف پورا کرنا ضروری ہے جب اسکی نذرمانی گئی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا مستحب ہے اورجوشخص اس عشرہ میں اعتکاف کی نیت کرے اسکے لئے مستحب یہ ہے کہ نبی مكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کرتے ہوئے اکیسویں رمضان کو فجرکی نماز پڑھ کراپنے معتکف میں داخل ہو اورآخری عشرہ مکمل ہونے پرباہرآئے۔ درمیان میں اگروہ اعتکاف توڑدے تو اسمیں کوئی حرج نہیں الایہ کہ اس نے اعتکاف کرنے کی نذرمانی ہوتو اس صورت میں اعتکاف پوراکرنا ضروری ہےجیساکہ اوپرمذکورہوا افضل یہ ہےکہ معتکف مسجد کے اندراپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بنالے تاکہ ضرورت محسوس ہونے پراس میں کچھ آرام کرسکے۔ معتکف کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاھئے اورذکرواذکاراوردعا واستغفارمیں مشغول رہنا چاھئے نیزغیرممنوع اوقات میں بکثرت نفل نمازیں پڑھنی چاہئیں۔معتکف کے بعض احباب واقارب اگراس سے ملنے کے لئے آئیں اوریہ ان کے ساتھ گفتگو کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں نبی مكرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعتکاف کی حالت میں بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ سے ملنے کے لئے آتیں اورآپ کے ساتھ گفتگوکرتی تھیں ایک مرتبہ سیدہ صفيهrآپ سے ملنے کے لئے آئیں اسوقت آپ رمضان میں اعتکاف میں تھے  جب وہ واپس جانے کے لئے کھڑی ہوئیں تو آپ انہیں رخصت کرنے کے لئے مسجد کے دروازہ تک تشریف لے گئے۔یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف سے ملنے اوراسکے ساتھ گفتگو کرلینے میں کوئی حرج نہیں نیزاس واقعہ میں مذکورآپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فعل آپ کے انتہائی تواضع اورازواج مطہرا ت کے ساتھ آپ کے حسن معاشرت کی دلیل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے