کیا سب اچھا ہے؟ ایک نظر اس طرف بھی  !

  (مسلمانوں کی داخلی و خارجی صورتِ حال کا جائزہ)

موضوع کی اہمیت سمجھنے کیلئے پہلے حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں اور خود مشاہدہ کریں کہ بھلائی کے کاموں کے حوالے سے درجنوں تحاریک کے باوجود دینداری کم ہورہی ہے اور ملک و معاشرہ کس انداز سے دن بدن بگڑتا جارہا ہے۔ امتِ مسلمہ ایک مذہبی اکائی کی حیثیت سے نہ صرف خارجی طور پر اس وقت انتہائی ذلت کی کیفیت سے گذر رہی ہے بلکہ داخلی طورپربھی سارے مسلم معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔بہترہوگا کہ پہلے صورتحال کا صحیح اندازہ کرلیا جائے۔ آئیے پہلے خرابی کے اشاروں (Indicators)اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر نظر ڈالیں :

سودی لین دین ،بے پردگی و بے حیائی،  زنا و عصمت دری، لاٹری اسکیمیںاور جوا ، غیر شادی شدہ لوگوں کی تعداد، کمسن بچوں کی قبل از وقت اور نا مناسب بے باکی ، اخلاقی بے راہ روی اور متعلقہ بیماریاں ،گھریلو جھگڑے اور شرحِ طلاق ، خاندانی تنازعات اور قطع تعلقي ، بوڑھے والدین کی بے قدری اور نظر اندازی، میوزک گروپ کی تعداد ، کھیلوںمیںبڑھتی ہوئی دلچسپی اور مقابلوں کی تعداد، رشوت خوری ، چوری ،ڈاکے اور قتل ، آلودگی اورغیرصحت مندانہ ماحول ، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ،

شادی بیاہ و دیگر معاملات میں فضول خرچی ، مزاروں، آستانوں، پیروں اور عاملوں کی تعداد، عیش و عشرت کے سامان کی فراوانی اور اس کیلئے بھاگ دوڑ ، شرکیہ معاملات ، جادو ٹونا اور قبر پرستی کا رجحان ، لاقانونیت اوربے انصافی ، در آمدی اور صنعتی  محتاجگی ، انٹرنیٹ کا منفی استعمال ، منشیات کا استعمال بشمول گٹکا ،

مہنگائی ، لوگوں میں عدم برداشت کا رویہ (ہائی بلڈ پریشر)، ہم جنس پرستی ، مخنثوں(ہیجڑوں) کی تعداد اور قحبہ گیری، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور ملاوٹ، پیچیدہ امراض اوراچانک اموات، جسمانی و ذہنی معذوری،

نباتات، حیوانات اور انسانوں میں جنیاتی بے ترتیبی اور بگاڑ،  نومولود بچوں میں پیدائشی نقائص ،  مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں،  ذہنی بے سکونی اور نفسیاتی امراض، صحت مند افراد کے مقابلے میں بیمارلوگوں کی شرح سمیت دیگر معاشرتی برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

کیا بڑھتی ہوئی یہ خرابیاں ثابت نہیں کرتیں کہ خیر کی دعویدار تحریکیںکافی نہیں یاان میں لازمی کوئی کمی اور خرابی ہے یاپھریہ کہ قوم کی اصلاح کرنے والوںکی ترجیحات کچھ اور ہونی چاہئیں اور یہ کہ نہی عن المنکر(برائی سے روکنے) کو ترک کرنے سے مسائل بڑھتے ہیں۔غور کریں کہ مسلمان آج کل کس بے وقعتی کی صورتِ حال سے گذر رہے ہیںاور کیوںیہود و نصاریٰ اور دیگرکفارِ عالم کی زبان اور ہاتھ سے ہم غیر محفوظ ہیں ۔یہ سوچ ذہن سے نکال دیں کہ ہم مطلوبہ یا پسندیدہ مسلمان ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سچے مسلمان ہی نہیں کیونکہ ہم شافعی ، مالکی، حنبلی ، دیوبندی، بریلوی ، شیعہ، سنی کہلانے میں نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے براہِ راست نسبت یعنی محمدی کہلانے سے کتراتے ہیں۔ یہی و جہ کہ جب کسی جگہ کوئی مسلمان تکلیف میں ہوتا ہے تو پہلے دوسرے مسلمان یہ دیکھتے ہیں وہ ہمارا ہم مسلک ہے یا نہیں ، پھر اگر مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہ صرف تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔آج کے مسلمان عملاً مسلمان ہونے کے علاوہ سب کچھ ہیں ورنہ کیا و جہ ہے کہ اصحابِ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  صرف اتباعِ وحی اور اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  پر عمل کرکے کامیاب ہوئے جبکہ آج ہم ناکام ہیں۔ اصل و جہ یہ ہے کہ ہم اتباعِ وحی اور اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  کی پیروی کے مرحلے تک آتے ہی نہیں ہیں۔ ہم کو چاہیئے کہ ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال کریں کہ ہمارے ہر مذہبی عمل کا حوالہ اور بنیاد کیا ہے؟ صاف بات یہ ہے کہ ہماری ساری کوششیں اپنے مذہبی راہنماؤں کی پیروی ، آباء و اجداد کی نقالی اور غیر مستند کتب سے رہنمائی تک محدود رہتی ہیں اور زندگی بھر وہی کرتے ہیں جو آباء و اجداد اور فرقے کے نظام کے مطابق ہوتا ہے۔ اب تو اکثر لوگوں کی دینی علمیت بے نام بزرگوں کے اقوال اور حکایتوں تک محدود ہوتی جارہی ہے ان بزرگوں سے منسوب مافوق الفطرت باتیں بڑے شوق سے سنی  اور سنائی جاتی ہیںاور اس کے برعکس قرآن و حدیث کا لفظ سنتے ہی چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور منہ کا مزہ کڑوا ہوجاتا ہے۔

اسی طرح عقیدہ توحید کی سمجھ اور اسوۂ رسول پر عملدرآمد کا دعویٰ کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ عملی معاملات میں غیر اسلامی طور طریقے اپنانے میں وہ اپنے ہم عصروں سے کسی طور کم نہیں مثلاً فضول خرچی، جھوٹ، کاروباری بد دیانتی، رشوت ، بے پردگی وغیرہ میں ہم پیالہ و ہم نوالہ نظر آتے ہیں۔ دوسروں پر شرکیہ طور طریقے کے الزامات لگانے والوں کوشرک کی مندرجہ ذیل صورت کے حوالے سے یہ فرمانِ الہٰی ذہن میں رکھنا چاہیے۔

اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۭ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ        ؀

(ترجمہ)کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ؟ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور سمجھ بوجھ کے باوجود اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے ، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے۔ (الجاثیہ45:آیت23)

اس کے علاوہ صرف دنیاوی زندگی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی فکر میں غیر شرعی اور غیر متوازن مصروفیات میں مشغولیت، 1400سالہ پرانے اسلامی نمونہ (Model) کی تعلیمات سے دوری، خصوصاً  شرک کے ارتکاب کی و جہ سے ہم بین الاقوامی سطح پر مرعوب ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:۔

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا  ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ  ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِيْنَ    ؁

ہم عنقریب کافروں (حق کا انکار کرنے والوں)کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں نازل کی۔ ( اٰلِ عمران 3:آیت 151)

خود فیصلہ کریں کہ آج کے دور میں کون سا گروہ کس گروہ سے مرعوب ہے؟

خلاصہ یہ ہے کہ اخلاقی خرابی بڑھتی جارہی ہے ، قوم بے پردگی کی انتہا سے بے لباسی کی طرف بڑھ رہی ہے، نمازی اور باشرع افراد بھی نئی نئی اصطلاحوںکے تحت سودی لین دین میں خوب ملوث ہیں۔ ایک سائل یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ  ہزاروں خانقاہوں، آستانوں، مزاروں اور مدارس و مساجد میں لاکھوں زندہ یا فوت شدہ مذہبی رہنماؤں کی کثرت کے باوجود گمراہی کیوں بڑھ رہی ہے؟

 کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ زيرِ مطالعه مضمون كا ان سب باتوں سے کیا تعلق ہے ؟ تعلق یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ مسائل کا وجود ہی در اصل تدبرِقرآن(قرآن کریم پر غور و فکر) کے نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔کیونکہ غور وفکر ہی مسلمان کے دل کو حق پر عملدر آمد کیلئے مطلوبہ نرمی اور جستجو پر آمادہ کرتا ہے۔ جب ہم خود کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اسلامی معاشرے میں مذکورہ مسائل کے پیدا ہونے کا کیا جواز ہے اور یہ مسائل بڑھ کیوں رہے ہیں ؟ !  اور المیہ یہ ہے کہ خیر کی قوت کے دعویداران اور ان کی تحریکیں ناکام ہیںکیونکہ دینداری روز بروز کم ہورہی ہے۔ اس صورتحال سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہی ہے کہ ان تحریکوں میں لازمی کوئی بنیادی کمی یا خرابی ہے۔

اصلاحِ معاشرہ کی تحریکوں کی ناکامی کی اصل وجہ

(اصل مسئلے سے صرفِ نظر)

موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے بہت سے حل بھی تجویز کئے جاتے ہیں مثلاً کوئی جہادکے نام پر حربی مزاحمت کی بات کرتا ہے ،کوئی خلافت کے نفاذاور کوئی تبلیغِ عبادات کو مسئلہ کا حل تصور کرتا ہے۔ لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ سالوں سے جاری ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آتے بلکہ مسئلہ دن بدن بگڑتا جارہا ہے مثلاً یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں کہ پچھلے  20سالوں میں پیش آنے والے واقعات میں مسلمانوں نے کفار کی کس قدر زمین پر قبضہ کیا یامسلمانوں کے کتنے علاقے دشمنوں کے قبضے میں گئے ، اس سلسلے میں ہونے والی اموات میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے یا کم اور اس طرح یہ سوال کہ مالِ غنیمت حاصل ہوا یا مسلمانوں کے وسائل کفار کے ہاتھوں میں گئے؟ اور یہ حقیقت کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی اکثر کامیابی دوسرے مسلمانوں ہی کے تعاون سے ممکن ہوئیں ، سیاسی اور معاشی محرکات  اور وطنی حمیت کے ز یرِ اثر ہونے والی ان رَسّہ کشیوں کو جہادِ اسلامی کا نام دینا قابلِ غور معاملہ ہے۔اسی طرح تبلیغِ عبادات کے ضمن میں مسجدوں میں لوگوں کی تعداد دکھا کردینی رجحان میں اضافہ کی بات کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آبادی کی مجموعی شرحِ اضافہ کے لحاظ سے دین کی طرف راغب ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔کیونکہ مساجد اور ان کی گنجائش کے مقابلے میں ہسپتالوں، اسکولوں اور کھانے پینے کے مراکز کی تعداد بے حساب ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ ہماری اصلاحی کوششوں کی و جہ سے ہی کچھ مشہورومعروف لوگ دین کی طرف راغب ہورہے ہیں اور کچھ نہ کچھ دینی ماحول باقی ہے وگرنہ حالات زیادہ خراب ہوتے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں سے آنکھیں پھیر کر اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کو ترک کرتے ہوئے ایسی بات کہنا اور اس حد تک کی کامیابی پر مطمئن ہونا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ کسی مرض میں مبتلا مریض کو ڈاکٹر اس کی بیماری کی جڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف دردکو وقتی طور پر دور کرنے والی دوا (Pain killer) دے اور مریض کے شکایت کرنے پر یہ احسان جتلائے کہ اگر یہ دوا نہ دی جاتی تو تم زیادہ تکلیف میں ہوتے یعنی اصل مر ض اور اس کے علاج کا ذکر نہیں کرتے اور سطحی اقدامات پر مطمئن ہوتے ہیں اور ویسے بھی یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ لوگ اپنی دینداری اور برتری کا اندازہ اسلام کے دئیے ہوئے معیار کے بجائے اپنے سے برے لوگوں سے تقابل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ مثلاً فلاں تو بالکل بے نمازی ہے ہم کم از کم نماز تو پڑھتے ہیں  یا یہ کہ فلاں تو بالکل بے پردہ ہے ہم کم از کم چادر تو اوڑھتے ہیں !!

رہا یہ یہ سوال کہ اسلام مغربی ممالک میں پھیل رہا ہے تو اس بات پرہم پیدائشی مسلمانوں کے مطمئن اور خوش ہونے کا کیا جواز ہے ؟  وہ ہمارے کردار کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوتے بلکہ وہ اقوام تو اپنے نظام سے بے زار اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر خود رجوع کررہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تبدیلی ٔ قوم کے اصول کے تحت مسلمان ہورہی ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ۔فرمانِ الہٰی ہے:(ترجمہ )اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہیں ہونگے۔(محمد 47:آیت 38)

اوریہ بھی سمجھ لیں کہ اسلام کبھی خطرے میں نہیں رہا اور نہ قیامت تک رہے گا ! مسئلہ تو پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے ہم پیدائشی مسلمانوں کی موجودہ کھیپ کا ہے کہ ہم مجموعی طور پر کرۂ ارض کے اکثر وسائل  کے مالک ہونے کے باوجود دین کی تعلیمات و احکامات سے دور اور مترفین (خوش حال لوگوں)کے طور پر ڈھیل کے مرحلے سے گذر رہے ہیں اور اجتماعی صفایا (Mass Cleansing)  بظاہر ہمارا مقدر نظر آتا ہے۔ 

   اصل مسئـلہ کیا ہے؟

1 ۔  شرک کا ارتکاب

2 ۔  آپس میں فرقہ بندیاں

3۔  نہی عن المنکر سے صرف ِنظر

4 ۔  دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دینا

5 ۔  ناموس ِربّ العالمین کے دفاع کے حوالے سے مجرمانہ غفلت

بنیادی و جہ یہ ہے کہ ہم نے ارتکابِ شرک اور آپس کا تفرقہ جیسے اہم اور اصل مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ــ رہنما حضرات اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے صرف ظاہری وجوہات اور درمیان سے صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں  اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔ مثلاً موجودہ تبلیغی تحریک تبلیغِ عبادات و فضائلِ اعمال کے ضمن میں ہے ۔مگرسوال یہ ہے کہ مسلمان کو ایمان اور توحید کے تقاضے سمجھاناآخر کس کی ذمہ داری ہے اور ملک میں جاری شرکیہ معاملات کا ارتکاب کون لوگ کر رہے ہیں؟

اسی طرح اکثر بزعم خود جہادی تحریکیں اعلائے کلمۃ الحق کے پہلو سے خالی اور محض خطۂ زمین کی آزادی اور دشمنوں سے بدلہ لینے کیلئے ہیں اسی طرح کچھ لوگ خلافتِ اسلامیہ کے نفاذ کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیںمگر آپ خود غور کریں کہ نظامِ خلافت کے نفاذ کی موجودہ کوشش تفرقے کے جوازپر مطمئن، الگ الگ اماموں پرقائم لوگوں کو ایک خلیفہ کے جھنڈے تلے کس طرح جمع کرسکتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں موجودہ صورتحال (Status quo) کے ساتھ خلافت کا نفاذ ایک ناممکن العمل بات ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ نظریاتی طور پر متفرق لوگ اگر بظاہر ایک تحریک اور ایک رہنما کے تحت بالفرض ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوبھی جائیں تو ایک وقت آتا ہے کہ بنیادی اختلاف حاوی ہوجاتا ہے اور اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مخالفِ شریعت طریقے اور مختصر (Shortcut) ناکام ہیںیا یوں کہہ لیں کہ پاؤںملوانے کی کوششوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک دل اسلامی اخوت کے تحت نہ جڑے ہوں اور نظریاتی (تفرقی) اختلاف کا خاتمہ نہ ہو۔ اس ساری بحث کا مقصد محض اعتراض اور لوگوں کی کوششوں پر تنقید نہیںبلکہ بصد خلوص و احترام یہ نکتہ گوش گذار کرنا ہے کہ متفرق رہتے ہوئے اور تفرقے کو جائز قرار دیتے ہوئے اصلاحِ احوال کی ساری کوششیں بے فائدہ ہیں اور اصل کام یعنی اسباقِ توحید کی تبلیغ کو نظر انداز کرنا بہر حال ایک سنگین غلطی ہے کیونکہ ابلاغِ توحید پسند ، ناپسند یا اختیاری (Optional) نہیں بلکہ لازمی اور ترجیحی کام ہے۔ باقی سارے کام اس کے بعد ہیں۔

چنانچہ اصل وجہِ ناکامی اسی صورتحال میں مخفی ہے ۔ ہم متحد مسلمان نہیں بلکہ متفرق انسان ہیں اور دینِ اسلام کے بجائے عملاً مذہب و مسلکِ انسان کے پیروکار ہیں اور عقیدہ توحید کے عملی مطالبوں سے نہ صرف ناواقف بلکہ اکثر صورتحال میں عقیدہ توحید کے خلاف عمل کرنے والے ہیں ۔ چنانچہ یہ بہت بہتر ہوگا کہ تمام مسلمان اس بات کو سمجھ لیں اس وقت درپیش تمام مسائل کی بنیادی وجہ توحید کے تقاضوں سے عدم آگاہی یا عقیدۂ توحید کے خلاف چلنا ہے ۔ جلد یا بدیرہم کو اس نتیجہ پر پہنچنا ہوگا کہ ہم وہ مسلمان ہی نہیں ہیں جس کی عزت اور مدد کا وعدہ کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت مسلمان کس قسم کے شرک میں مبتلا ہیں؟ آیئے دیکھیں۔

 مسلمانوں کی اکثریت نے اللہ تعالیٰ کو عملاًنظر انداز کردیا ہے۔ کیونکہ آفت اور مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے مدد مانگتے ہیں۔ پریشانی دور ہونے کے بعد خوشی کے وقت شکر گذاری (بذریعہ نذر و نیاز) غیر اللہ کی کرتے ہیں  اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں تو وہ بھی گانا گانے کے اندازمیں۔ توبہ و استغفار کی بجائے قبروں اور مزاروںپر فریاد کرتے ہوئے روتے دھوتے ہیں، آقائے حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی غلامی میں مطمئن ہونے کے بجائے غلاموں کی غلامی میں خوش ہیں۔ چنانچہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے وقار کا لحاظ نہیں کرے گا تو اسے اپنے حصے کی ذلت تو برداشت کرنی پڑے گی !

 جب مسلمان توحید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے مخلص نہ ہونگے تو آپس میں کس طرح متحد رہ سکتے ہیں؟ عقیدہ ٔ توحید کا نفاذ ہوگا تو آپس کا اتحاد بھی ممکن ہوگا کیونکہ شرک اللہ تعالیٰ کے بجائے انسان کو حاکمیت ، اہمیت اور اختیار دینے کے مترادف ہے جو تفرقے کو پروان چڑھانے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تفرقے اور اَنانیت کے جراثیم شرک کے ناسور میں پروان چڑھتے ہیں یعنی تفرقہ مسلمانوں کے ارتکابِ شرک کا منطقی اور حتمی نتیجہ ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عمل اور اثر کے لحاظ سے ایک متفرق کیلئے تفرقہ کے شکنجے سے نکلنا اتناہی مشکل ہے جتناکہ ایک غیر مسلم کیلئے اپنا عقیدہ اور مذہب چھوڑ کر دینِ اسلام میں داخل ہونا مشکل ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں اندرونی کشمکش اور بیرونی مخالفت کی نوعیت و شدت تقریباً برابر ہوتی ہے سوائے ان لوگوں کے جن کیلئے اللہ تعالیٰ آسان کردےفرمانِ الٰہی ہے:(ترجمہ) اور لوگ ہمیشہ اختلاف میں پڑے رہیں گے مگر وہ(محفوظ ہوگا) جس پر اللہ رحم کرے۔(ہود:118-119)

  صورتحال کا حل کیا ہے؟

 (عقیدہ توحید کی سمجھ اور عملی مطالبوں پر عملدر آمد)

 حقیقت یہ ہے کہ بگاڑ اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ مصلحین ِقوم اور ان کے اختیار کردہ فارمولے ناکام ہیں۔جب تک مصلحین ِ قوم کی سب سے اہم ترجیح (Top priority)  ناموسِ ربّ العالمین کا دفاع نہیں ہوگی اسلامی معاشرے کی بہتری کی کوئی صورت ممکن نہیں کیونکہ جب تک لوگوں کے دل اللہ کی عظمت اور اطاعت کیلئے نرم نہیں ہونگے انہیں برائیوں بشمول شرک سے نہیں روکا جاسکتا۔ 

سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے؟ اگر غور کریں تو ہم بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ صرف عقیدہ توحید کے عملی مطالبوں پر عملدر آمد ہی صورت حال پر قابوپانے میں مدد دے سکتا ہے۔

  اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا سب سے اہم اور بڑا موضوع اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کے ذکر اوروضاحت کے متعلق ہے اور عقیدۂ توحید کے عملی مطالبوں کی تفاصیل زیادہ تر قرآن مجید ہی میں بیان کی گئی ہیں۔عقیدہ توحید کا سیدھا سادہ مطالبہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ کا غلام سمجھے، وہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کو واحد مختارِ کُل سمجھتا ہو اور اس کا ہر عمل آقا کی مرضی کے مطابق ہو۔ چنانچہ توحیدِ الہٰی کی سمجھ اور نفاذ اولین نکتہ ہے۔ ہر خیر کی بنیاد توحید سے ہے اور ہر شر کا محرک شرک اور اس کی اقسام ہیں اس نکتہ کو اثرات و نتائج کے لحاظ سے پرکھیئے۔ پہلی بات تو یہ ہے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے بھی ابتدا میں صرف ایک نکاتی لائحہ عمل اختیار کیا  وہ یہ کہ کفار کے دل و دماغ سے شرک کا ناسور نکالا اور اسباقِ توحید کی تعلیم دی یعنی ابتدا عبادات یا اذکار کی تبلیغ سے نہیں کی بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور وقار کا احساس دلایا اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں غیر اللہ کی شراکت کی ہر لحاظ سے مذمت کی۔مختصر یہ کہ آج بھی اتباعِ دین کیلئے ذہن سازی عقیدۂ توحید کے اطلاق ہی سے ممکن ہے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ شرک کی موجودہ صورتوں کا خاتمہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق استوار ہوگا۔اسلام صرف عبادات ، زیارات اور دیگر اعمالِ صالحہ کا نام نہیں یہ سب چیزیں تو دیگر مذاہب میں بھی ہیں۔ اسلام میں ان سارے کاموں کی اہمیت و قبولیت بشرطِ ایمان اور عقیدہ کی درستگی کی بنیاد پر ہے۔ بہتر ہے کہ ان اہم نکات کو قرآنِ کریم سے براہِ راست سمجھا جائے تاکہ اعتراض کرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے۔ 

 حل کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟

(عقیدۂ توحید کی سمجھ بذریعہ تدبر و اتباعِ قرآن کریم)

   اب سوال یہ ہے کہ عقیدہ توحید کس طرح سمجھا اور سمجھایا جائے تو مختصر سا جواب یہ ہے کہ ’’ تدبر قرآن کے ذریعے‘‘جو بقول شخصے’’ بہت آسان مگر بہت مشکل۔‘‘ آسان اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے آسان کردیا اور مشکل اس لحاظ سے کہ نفس کُشی اور تفرقے کی مقدس گائے کو قربان کئے بغیر اس پر عملدر آمدممکن نہیں۔چنانچہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کا واحد عملی، آسان اور موثر ذریعہ تدبرِ قرآن ہے ۔ یعنی عقیدۂ توحید کے عملی مطالبوں کی سمجھ بذریعہ تدبر قرآن ہی ممکن ہے۔ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد اس پر غور و فکرہے تاکہ وحی کی اتباع کی جاسکے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے :

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ    ؀

(ترجمہ) یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے  نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں۔ (ص 38آیت29)

وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ   ؀

اور یہ کتاب ( قرآن) جو ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے لہٰذا اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (انعام:155)

نیز فرمایا:

(ترجمہ)یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جونا زل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیںشاید کہ وہ غور و فکر کریں۔ (النحل 44)

  کـیـا کلام اللہ کی اتباع لازمی ہے؟

اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی کئی مقامات پر تاکید کی گئی ہے کہ وہ بھی کلام اللہ کی اتباع کریں :جیسافرمانِ الٰہی ہے:ـ

اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ  ؁

آپ اس چیز کی اتباع کیجئے جو آپ کی طرف آپ کا رب نازل فرمائے اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور مشرکین سے منہ پھیر لیجئے ۔(انعام 6آیت 106)

اب یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ نزولِ قرآن کا اہم مقصد اتباعِ قرآن ہے اور اتباع کیلئے تدبّرِ قرآن ضروری ہے جو کہ از خود ایک اہم اور باقاعدہ کام ہے۔یعنی تلاوت ، ترجمہ اور تفسیر تو تدبر ِ قرآن کے عملی اور مدد گار مراحل(Practical & Helpful Steps) ہیں۔ کچھ لوگ عربی زبان کی اہلیت کوتدبر ِقرآن کیلئے ابتدائی شرط قرار دیتے ہیںمگر اکثر عرب اقوام کا موجودہ حال اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل زبان ہونا الگ بات ہے اور قرآن کریم پر غور وفکرکرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے ۔ بالفاظِ دیگرزبان دانی کی اہمیت اپنی جگہ مگر شوق اور عزم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر عربی جاننے والے بھی تدبّرِ قرآن کے مرحلے سے دور ہیں۔ صرف عربی زبان جاننا کافی نہیں بلکہ شوق اور عزم بھی ہونا چاہئے۔

 موجودہ زمانے میں قرآن کریم سے کس قسم کا تعلق ہے؟

   غور کیجئے ! کہ تدبرِ قرآن کے برعکس عملاً ہوتا کیا ہے؟30-40سالہ پرانے حفاظِ قرآن سمیت ہم میں سے اکثر لوگ زندگی بھر صرف تلاوت یا سماعتِ قرآن کریم پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اندازِ قرأت ، مخارج اور خوش الحانی کو نزولِ قرآن کے مقصد پر فوقیت دیدی گئی ہے اور سارا زور انہی نکات پر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل حدیثِ رسول کافی اہمیت کی حامل ہے۔

سیدناسہل بن سعد الساعدی tبیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دن قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  تشریف لائے اور فرمایا کہ الحمد للہ ! اللہ کی کتاب ایک ہی ہے اور تم میں سرخ ،سفید اور سیاہ قسم کے لوگ اسے پڑھنے والے ہیں، قرآن پڑھا کرو  بعد میںایسے لوگ اسے پڑھیں گے جو اس کے حروف کو تیر کی طرح سیدھا کرتے ہوئے پڑھیں گے(صرف مخارج پر زور دیں گے) اور اپنا اجر دنیا ہی میں طلب کریں گے آخرت کیلئے نہیں۔(ابوداؤد)

 ویسے بھی تلاوت پر ثواب کا پہلو یعنی ہر حرف پر دس نیکیاں تو رب کریم کی عطائے بیش بہا کا مظہر ہے مگر صرف ثواب کی خاطر قرآن پاک کا پڑھنا یا سننا اورپھر اسی سوچ کے تحت ہی ساری زندگی گذاردینا اس نعمت کی ناشکری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کسی چیز سے ادھورا فائدہ اٹھایا جائے ۔اسی طرح بعض افراد قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کو اپنا حتمی مقصد بناتے ہیں یہ مقصد بھی نا مکمل ہے یعنی صرف ترجمہ پر مطمئن ہوجانا بھی غلط ہے۔بلکہ اس میں غور و فکر ( تدبر) کرنا ہی اس کے نزول کا اہم مقصد ہے ۔

  تدبرِ قرآن سے کیا مراد ہے؟

سادہ ترین الفاظ میں تدبرِ قرآن کے معنی و مقصد یہ ہیں کہ انسان دورانِ تلاوت یہ غور کرے کہ کلام اللہ کی آیات کس طرح عملی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں یعنی ہر آیت کی تلاوت اور ترجمے کے بعد توقف کریں، غور کریں اور پھر آگے بڑھیں کیونکہ جلدی کرنے سے تدبر کا مقصد و مرحلہ چھوٹ جاتا ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، پچھلی اقوام کے انجام اورقرآن کریم میں انتہائی گہری نظر سے غور و فکر کرنا ہرمسلمان کیلئے ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط پر آنے والے عذاب کا تذکرہ کرکے فرمایا :

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ     ؀ (الحجر15آیت75)

’’بلاشبہ اس میںگہری نظر سے غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔‘‘

نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 164 اور اٰل عمران کی آخری آیات کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے فرمایا :

اس شخص پر افسوس ہے جو ان آیات کو پڑھ کر گذر جاتا ہے لیکن غور نہیں کرتا۔ (صحیح ابن حبان، الترغیب والترہیب)

 اس اصول کو ایک اور مقصد کیلئے قرآنِ کریم میں اس انداز سے بیان کیا گیا ہے ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا  

کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے  دو  دو ساتھ مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر اور پھر غوروفکر کرو۔(سبا  34آیت 46)

تدبرِ قرآن کس قدر اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ کفارِ مکہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سماعتِ قرآن کی ہی مزاحمت کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے:

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ       ؀(حم السجدہ41 آیت26)

(ترجمہ) کافر(اپنے ساتھیوں سے) کہتے ہیں کہ اس قرآن (کی تلاوت) نہ سنو بلکہ(دورانِ تلاوت) شور و غل کرو شاید کہ تم (مسلمانوں پر)غالب آجاؤ ۔

کیونکہ اہل مکہ اہل زبان تھے اس لئے ان کیلئے تدبرِ قرآن سماعتِ قرآن کے ذریعہ ممکن تھااور آج کے علمائے سوء قرآنِ کریم کی تلاوت و سماعت سے تو نہیں روکتے مگر ترجمہ و تفسیر کی مزاحمت کرتے ہیں تو بتائیے کہ تدبرو اتباعِ قرآن کیسے ممکن ہے۔ ان دونوں گروہوں کے مقاصد ملتے جلتے ہیں اور زندگی یوں ہی گذر جاتی ہے۔

تدبرِ قرآن سے دوری کی وجوہات:

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان قرآنِ کریم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ و جہ یہ ہے کہ شیطان نہیں چاہتا کہ مسلمان اس کتاب سے براہِ راست فائدہ حاصل کرنے کے قابل بنے اور نہ ہی کفارِ عالم ایسا چاہتے ہیں اور نہ ہی علمائے سوء کیونکہ اس طرح طاغوت کے ائمہ اور ان کے نمائندوں کی دکانیں بند ہوجائیں گی اور مسلمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے براہِ راست قائم ہوجائیگا۔کیونکہ جب  قرآنِ کریم پر تدبر کریں گے توعام آدمی کو معلوم ہوجائے گاکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام oکو کس بات کی تبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا؟ یعنی تبلیغِ عبادات پہلے ہے یا تبلیغِ عقیدۂ توحید ؟ مزید یہ کہ جہاد بالسیف کب ، کس لئے، کس انداز سے اور کس کیلئے ؟ اور اولین جہاد کیا ہے؟  یعنی فضائلِ جہاد کے ساتھ مسائلِ جہاد سے بھی آگاہی ہوگی۔ اسی طرح فرقوں میں بٹ کر رہنا اللہ تعا لیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا متحد ہوکر رہنا؟ اسی طرح آباواجداد کی اندھی پیروی کی سوچ صحیح ہے یا صرف رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ضروری ہے ؟ اسی طرح بزرگوں ، پیروں اور مشائخ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کوشامل کرنا صحیح ہے یا صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اس کی صفات کا حقدار سمجھنا عقیدتاً اور عملاً لازمی ہے؟ اور اسی طرح یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کو براہِ راست سوال کرنا پسند ہے یا کوئی واسطہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ یعنی دل کا حال جاننے والے ، شہہ رگ سے زیادہ قریب اور پکارنے والے کی دعا کو قبول کرنے والے مہربان رب تک پہنچنے کیلئے واسطے اور وسیلے کے لمبے راستے کا کیا منطقی جواز ہے؟ اگر سارے انسان یقین کی حد تک صرف اس نکتے کو سمجھ لیں کہ اکیلا اللہ براہِ راست، ہمہ وقت، ہر انسان کی ہر قسم کی مدد کیلئے موجود اور کافی ہے تو کوئی انسان اپنی حاجت روائی کیلئے کسی غیر اللہ پر ایک لمحہ اور ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے اور اس کے نتیجے میں تمام زندہ اور فوت شدہ نام نہادمشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کے کارخانے از خود بند ہوجائیں گے اور مندی کی وجہ سے یہ سارا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا کیونکہ کون احمق ہوگا جو اکیلے اللہ سے سب کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی در در کی ٹھوکریں کھائے گا؟

مختصر یہ کہ قرآن کریم ہر معاملے بشمول جہاد، تبلیغِ دین، نظامِ خلافت کا اطلاق،  نظامِ معاشرت و معیشت، غرض تمام شعبوں کیلئے رہنما اصول واضح کرتا ہے یوں کوئی بھی مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہتا اور انسانی شریعت سازی کی ضرورت نہیں رہتی۔ یعنی مسلمان کی نظریاتی رہنمائی بذریعہ کتاب اللہ اور عملی رہنمائی اسوۂ حسنہ کے ذریعے کردی گئی ہے ۔ ان دو بنیادی ذرائع کا ذکر قرآنِ مجید میں ہی بیان کیا گیا ہے۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے  :

(ترجمہ)اور ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے اور ہدایت، رحمت اور مسلمانوں کیلئے خوشخبری ہے۔ (النحل 16آیت 89

نیز فرمایا:(ترجمہ)تمہارے لئے رسول( صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ) بہترین نمونہ ہے۔  (احزاب33 آیت 21)

   تدبرِ قرآن کے ثمرات

 اب تفکر و تدبرِ قرآن کے ثمرات پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ تدبرِ قرآن مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کس طرح تبدیلیاں لاتا ہے؟ پہلا فائدہ یہی ہے کہ تعلیماتِ قرآنی عقیدۂ توحید کی مکمل وضاحت کرتی ہیںاور انسان توحید اور شرک کے فرق کو سمجھنے لگتا ہے اور جب عقیدۂ توحید رگ و پے میں رچ بس جاتا ہے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کوعملاً اپنا حقیقی مالک اور آقا سمجھتا ہے اور پھر اس کو ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ ہی کافی نظر آتا ہے ۔ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، صرف اس ہی سے سوال کرتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی عقیدۂ توحید کی برکت سے وہ  محمد  صلی اللہ علیہ و سلم سے اُس انداز میں محبت کرتا ہے جس انداز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یعنی وہ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم سے رسمی محبت اور عقیدت کے بجائے عملاً ان کا پیروکار بن جاتا ہے۔ ایساپہلے بھی ہوا ہے کیونکہ نبوت سے پہلے اہلِ مکہ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  سے محبت و احترام کرتے تھے اور صادق و امین سمجھتے تھے۔ لیکن توحید کے مطالبات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمن بن گئے پھر جب اسباقِ توحید سمجھ گئے تومسلمان ہوکررسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  سے اللہ کے پیغمبرکی حیثیت سے دوبارہ محبت کرنے لگے۔ اس کا منطقی اور ذیلی فائدہ یہ بھی ہواکہ توحید کی برکت سے ان کی آپس کی دشمنی بھی ختم ہوگئی۔یہاں بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپس کا تفرقہ صرف موحد بننے(توحید پر عمل پیرا ہونے) کی صورت میں ختم ہوسکتا ہے چنانچہ جب اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت عقیدۂ توحید کی روشنی میں قائم ہوگی تو آج کے مسلمان بھی ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مقدم رکھیں گے یعنی مسلمان کتاب اللہ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی تفصیلات کو کافی سمجھیں گی یعنی جب قرآن کریم پرتدبر ہوگا تو فکری انقلاب آئے گا  اور یوںیہ صورتِ حال اسلامی معاشرے کے احیاء اور عروج کی بہترین مثال ہوگی۔

  لائـحــہ عــمــل

nہر کام سے پہلے منصوبہ سازی لازمی ہے اوریہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ حالات میں تبدیلی کا کوئی مختصر راستہ (Short  cut) نہیںہے۔ جو لوگ اس وقت مسلمانوں کے حالات سے مایوس ہیں اور تبدیلی کے خواہشمند ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح بگاڑ میں وقت لگا اسی طرح تعمیرِ نو (Reform) بھی وقت طلب معاملہ ہے۔چنانچہ ہمت نہ ہاریں۔حالات بدلنے کے انتظار میں نہ رہیں اور کم از کم اپنی اور اپنے گھر والوں کی فکر کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:  (ترجمہ) اے ایمان والو! تمہیں اپنی فکر کرنالازم ہے۔(المائدہ 5آیت 105)

nتدبرِ قرآن کا کام پورے ادب و احترام ، توجہ ، کھلے دل و دماغ اور مکمل غیر جانبداری کے ساتھ کریںاور کلام اللہ کے بیان کردہ نکات کو حرفِ آخر سمجھیں تاکہ ذہن میں موجود گذشتہ معلومات سے تقابل کی صورت میں ذہنی انتشار پیدا نہ ہو۔

n مقصد یعنی تدبرِ قرآن کے حصول کیلئے روز مرہ کی بنیاد پر باقاعدہ وقت نکالئے جیسا کہ دیگر ضروری کاموں کے لئے اہتمام کرتے ہیں ۔  ہم مسلمان اگر رسائل و جرائد  یا کم از کم اخبارات پڑھنے میں لگنے والے وقت کا% 50بھی روز مرہ کی بنیاد پرتدبرِ قرآن پر لگادیں تو کافی بہتری آجائے گی۔ لہٰذا  اپنے آپ سے سنجیدہ ہوں،پہلے اپنے نفس کو اس نکتے پر قائل کریں کہ واقعی نزولِ قرآن کے مقاصدکو سمجھنا بھی ضروری ہے  اور یہ سمجھ لیں کہ نفس کشی لازمی امر ہے  اورگھر کے ماحول اور اپنی عادات بدلے بغیر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اوروقت نکالنے کیلئے دنیاوی زندگی کی مصروفیات و معاملات کو محدود (Limit)کرنا ہوگا یعنی ترجیحات کو بدلنا ہوگاکیونکہ دنیا کی محدود زندگی کے مقابلے میں آخرت کی ہمیشگی والی زندگی کی فکر زیادہ ضروری ہے۔

nذاتی پاکی و صفائی کو یقینی بناتے ہوئیگھر کے پاک و صاف ، روشن اور ہوا دار حصہ کو تلاوت اور تدبر قرآن کیلئے مخصوص کیجئے ۔

nذہنی یکسوئی کو منتشر کرنے والے اسباب مثلاً بھوک،نینداور دیگر مصروفیات و مجبوریوں کو دور کریں یعنی توجہ اور سکون کو یقینی بنائیںجیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 (ترجمہ)بلاشبہ اس(قرآن کریم) میں ہر صاحبِ دل کے لئے نصیحت ہے اور اس کے لئے بھی جو دل سے متو جہ ہو کر کان لگائے اور وہ حاضر(دماغ) بھی ہو۔(قٓ 50آیت 37)

nاپنی نظر (Eye sight)کے مطابق باترجمہ تفسیر ابن کثیر کے ذاتی نسخے کا انتظام کریں ۔

nآغازِ تلاوت سے پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ضرور پڑھیں تاکہ دورانِ تلاوت شیطان کے شر سے محفوظ رہ سکیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا سمجھنا آسان کردے اور

دعائے قرآنی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا  اور   رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ 

بھی ضرور پڑھیں۔دورانِ تلاوت ہر آیت کو ترجمے کے ساتھ بار بار پڑھیں تاکہ اس آیت کے معانی و اسباق واضح ترہوجائیں۔

nمقصد یعنی تدبرِ قرآن کو ہمیشہ مدنظر رکھیںلہٰذا مقدارِ تلاوت پر زور نہ دیں جب تک بات سمجھ میں نہ آجائے آگے نہ بڑھیں۔اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پہلی بار میں سمجھ میں نہ آنے والی بات پر مت گھبرائیں یہ منطقی بات ہے کہ آسان چیز جلد سمجھ میں آتی ہے اور مشکل چیز سمجھنے کیلئے وقت مانگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے :

 وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْo

(ترجمہ)اوریقینا ہم نے قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کردیا ہے توکیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ (القمر  17)

nمشکل کی صورت میںگھبرائیں نہیں بلکہ اپنی محنت جاری رکھیں کیونکہ قرآنِ کریم کا یہ اسلوب ہے کہ مشکل بات کو ایک سے زائد مقامات پرمختلف انداز میں بیان کردیاجاتا ہے اور اس طرح مشکل نکتہ واضح ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر ایسے اہلِ علم سے وضاحت طلب کریںجو صرف کتاب اللہ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو راہِ عمل بناتے ہیں اگر آپ کسی ایسے آدمی کے ہتھے چڑھ گئے جو قرآن و حدیث میں خامی تلاش کرتا ہے اور ان دونوں کو ناکافی قرار دیکر قیاس اور رائے دہی کے نام پر شریعت سازی کرتا ہے تو آپ کا معاملہ ایسا ہی ہوجائے گا جیسے کوئی آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔اس بات کو پرکھنے کا سب سے اچھا معیار یہ ہے کہ اگر آپ کسی صحیح عالمِ دین سے کوئی مسئلہ دریافت کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ صحیح عالم مسئلے کا حل آپ کو قرآنِ کریم ، اسوۂ رسول (احادیث نبوی ) اور صحابہ کرام]  کے اختیار کردہ طریقۂ عمل کی روشنی میں مکمل حوالوں کے ساتھ فراہم کرے گا ۔ اس کے بر عکس نام کا عالم مسائل کا حل قرآن و حدیث جیسے بنیادی معیارات کو چھوڑ کربلا دلیل و قیاس اور اپنے بزرگوںکی آراء کی روشنی میں فراہم کرے گا اور اس کے حوالہ جات صرف اپنے مکتبۂ فکر سے متعلق مصنفین کی کتب سے اخذ شدہ ہونگے اور یہ اس کے کمزور اور جعلی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے

nہر تلاوت کے بعد ایک اضافی نکتے سے ضرور فائدہ اٹھائیں وہ یہ کہ تلاوت کے بعد اپنے اور اپنے پیاروں کیلئے دنیا اور آخرت کے ہر معاملے کیلئے دعا کریں۔یاد رکھیں کہ تلاوت کا ثواب بعینہٖ ( such As)منتقل (Transfer) نہیں ہوتا بلکہ بعد از تلاوت دعا کے ذریعے ربّ کریم کے سامنے مدعا بیان کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ یا فوت شدہ انسانوں  کے معاملات آسان فرمائے ۔

  خــلاصــہ

خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اس وقت مختلف گروہوں میں منقسم ہیں اورعملاً بُعد المشرقین (Poles Apart) ہیں چنانچہ آپس کی وحدت کیلئے اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھنا لازمی ہے۔ حالات میں تبدیلی صرف اس وقت ممکن ہوگی جب عقیدہ توحید کے مطابق حقوق اللہ کی ادائیگی ہوگی اور شرک سے صرف اسی صورت میں بچاؤ ہوگا جب ہمیں عقیدۂ توحید کی مکمل سمجھ آئے گی اور توحید کی سمجھ کیلئے تدبرِقرآن لازمی مرحلہ ہے ۔

 مسلمان کا سب سے قیمتی سرمایہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، عقیدۂ توحید کی تفصیلات یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ، عظمت و صفات ،حقوق کی پہچان اور عبادات و معاملات میں اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی بنیاد جاننے کیلئے قرآنِ کریم اولین ذریعہ ہے ۔ قرآنِ کریم غیر متنازعہ کتاب ہے اور دیگر انسانی فلسفوں سے بے نیاز کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تدبرِ قرآن علمائے سوء سے چھٹکارا پانے کیلئے  پہلا قدم ہے،  اس کے بر عکس قرآن کریم کو فراموش کرنے اور پسِ پشت ڈالنے والاساری عمر دیگر کتب میں اُلجھا رہتا ہے ۔

رہا یہ سوال کہ اسباقِ توحید اور ردِّشرک کوکس طرح سمجھااور سمجھایا جائے تو المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ حق بات کہنے سے کترایا جاتا ہے، اعتبار کا فقدان ہے اور تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ توجہ اس بات پر نہیں ہوتی کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہنے والا ہم مسلک ہے بھی یا نہیں؟ ان حالات میں بہترطریقہ یہی ہے کہ قرآن کریم سے براہِ راست استفادے کی راہ اپنائی جائے ۔  فرض عبادات کی ادائیگی،روٹی روزی کی بھاگ دوڑ،حقوق العباد کی ادائیگی اور ضروری آرام وسکون کے بعد اعمالِ صالحہ کیلئے آج کے حالات میں سب سے بہتر مصروفیت یہی ہے کہ ہر مسلمان ہنگامی اور جنگی بنیادوں پرکچھ عرصے یکسو ہوکر صرف کتاب اللہ پرغور و فکر کرے اور اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  سے وضاحت اور رہنمائی حاصل کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روزِ قیامت ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  شکایت کریں گے۔ 

(ترجمہ:)اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار !  بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔(الفرقان 25آیت 30)

قاری کو سوچنا چاہئے کہ یہ دعوت مفاد پرستی کی خاطر ایک گروہ سے دوسرے گروہ کی طرف راغب کرنے کیلئے نہیںدی جارہی بلکہ مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنے رب سے ٹوٹا ہوا تعلق اور رابطہ بحال ہوجائے یہ تعلق بحال ہوگا تو حرم شریف میں کی جانے والی بیک وقت لاکھوں لوگوں کی دعائیں ان شاء اللہ قبول ہونگی۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ مخالفین اسلام پر ہم نہ صرف حجت قائم کرسکیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی براہِ راست مدد کے حقدار بھی بن سکیںکیونکہ جب ہم آپس میں ایک ہونگے تب ہی بیرونی مخالفین سے نمٹ سکیں گے اور معترضینِ اسلام کا سامنا (Face) کرسکیں گے ۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں عقیدہ توحید اور دینِ اسلام کے مطالبوں کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، ہماری عبادات کو مسنون بنائے اور شرف قبولیت بخشے اور ہم غلاموں کو حقِ غلامی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کی خیرخواہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین ۔ یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے