امت مسلمہ کا اتحاد وقت کا اولین تقاضہ 

اے امت مسلمہ !

یاد رکھیں کہ آج عرفہ کا عظیم الشان دن ہے اسی دن کے بارے میں ارشادہے کہ :

 ما من یوم اکثر ان یعتق عبیدا من النار من یوم عرفۃ

اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے بڑھ کر کسی دن بھی لوگوں کو جہنم سے آزاد نہیں فرماتے۔

اے مسلم !وقوف عرفہ حج کا اساسی رکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ الحج عرفۃ  اصل حج تو وقوف عرفہ ہے۔ (سنن ترمذی)

نماز ظہر اور نماز عصر کو جمع و قصر کے ساتھ ادا کرنے کے بعد اس عظیم جگہ پر وقوف کریں دوران وقوف ذکر الہٰی میں مصروف رہیں اور بارگاہ الہی میں گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کثرت کے ساتھ لَا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک  ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیرکا رود کریں۔

اس یوم عرفہ کی رات باری تعالی آسمان دنیا میں رات کے آخری پہر تشریف لاتے ہیں ۔ جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ عرفہ کی شام اہل عرفہ کے ذریعے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو جو میرے پاس پرا گندہ حال اور غبار آلود ہو کر آئے ہیں۔ اے فرشتو! میں تم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے ان سب کو معاف کر دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ)

اس عظیم دن میں ہی تمہارے پیغمبر نے اس جگہ وقوف فرمایا تھا انتہائی فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا : اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان باہمی خون خرابہ ، عزتیں اور اموال کو حرام قرار دیا ہے اور اسی طرح جاہلیت کے تمام ایسے معاملات اور آثار کو جو شریعت اسلامیہ کے مخالف ہیں ان کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔

خطبہ عرفہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر وعصر کو جمع کرکے ادا کیا اور غروب آفتاب تک اپنی سواری پر قبلہ رخ ہو کر دعاو مناجات میں مصروف رہے آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے غروب آفتاب تک یہیں وقوف کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ہمار ا طریقہ مشرکین کے طریقہ کے مخالف ہے میں تو یہاں وقوف کر رہا ہوں درحقیقت میدان عرفہ پورا وقوف کی جگہ ہے ۔

امت مسلمہ ! باری تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کرتما م انسانوں کی طرف مبعوث فرمایاتاکہ وہ لوگوں کو کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید و ایمان کی روشنی سے روشناس کروا ئیں اور انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت اور فہم و رشد سے آگاہ کریں بعثت محمدی کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ لوگ شیطان اور نفس کی عبادت چھوڑ کر اللہ وحدہ کی عبادت بجالائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے ہی شہوانی خواہشات سے چھٹکاراپا کر عظیم ترین اسلامی اخلاق کو اپنانا ممکن ہوا۔رسول اکرم کی ہدایات کے ذریعے ہی انسانیت نے فانی دنیا سے اپنا تعلق توڑ کر ابدی حیات سے رابطہ پیدا کیا۔

انسانیت کو عقیدہ و عمل ،معاملات و اخلا قیات اور قیادت و سیادت کی درست روی سے اسلام نے روشناس کروایا۔ فرمان باری تعالی ہے

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ    

کہوں، میری نماز، میری قربانی، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے۔

دینِ اسلام نے ہر مسئلے کو قوی ترین دلائل اور واضح ترین الفاظ میں بتلایا ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ     ؀

 (یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں۔(ص:29)

دین اسلام کی اساس عقیدہ توحید پر رکھی گئی ہے، تمام قسم کی عبادات صرف اسی ذات کے لئے ہونی چاہئیں، اور باری تعالیٰ کی طرف نازیبا اسماء و صفات کو منسوب کرنا غلط ہے جیسا کہ فرمانِ ربّ العزت ہے :

 لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ   ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ       ؀

اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔(الشوریٰ11)

تمام آسمانی کتابیں احقاقِ حق اور ابطال باطل کا فریضہ احسن ترین انداز میں نبھاتی رہی ہیں، جیسا کہ قرآن میں فرمایا:

وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا    ۭ

اور (ویسی ہی) یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت جو اپنے سے پہلی (کتابوں) کی تصدیق کرتی ہے اور (جو) اسلئے (نازل کی گئی ہے) کہ تم مکّے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کر دو۔(الانعام92)

تمام رسولوں پر ایمان قبولیت اسلام کی بنیادی شرط ہے

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ  ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ 

 رسول(اللہ) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب (اللہ) پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اس پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (اللہ سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(البقرہ:286)

تقدیرِ الٰہی پر کامل یقین رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ باری تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے اختیار کرنے کی صلاحیت دی اگر انسان برے اعمال کرے گا تو اس کا خمیازہ بھی بھگتے گا اور اچھے اعمال کا بہترین بدلہ بھی پائے گا۔

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ  ۝ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ   ۝

تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔(الزلزال:7تا8)

مومن قیامت کے وقوع پذیر ہونے پر یقین رکھتا ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ روزِ قیامت (اعمال کے مطابق) یا تو نعمتیں ہونگی یا رسوا کن عذاب، باری تعالیٰ نے فرمایا:

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ؀وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ  

 اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی۔ اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی۔(الشعراء:91)

اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر شفقت کرتے ہوئے انہیں ایسے طریقے اور اعمال بتلائےجس پر عمل پیرا ہوکر وہ باری تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں۔ ان عبادات کے ذریعے انسان ہمیشہ ہمیشہ اپنے خالق سے ربط رکھتا ہے۔ اسی تعلق کے نتیجے میں وہ دنیا میں خوشگوار زندگی، تزکیہ نفس اور آخرت میں ابدی سعادت کا مستحق بنتا ہے۔

دین اسلام میں خانگی معاملات پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے کیونکہ معاشرہ خاندان سے ہی بنتا ہے، اسی لئے دینِ اسلام نے مرد و عورت کے ملاپ کے لئے نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو ضروری قرار دیا پھر شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق و فرائض کو بیان کیا اور زن و مرد کو اولاد کی  تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی نصیحت فرمائی کیونکہ یہی اولاد آگے جاکر ایک نیک اور صالح نسل بنے گی۔ اسی طرح اسلام نے والدین کے حقوق کو پورا کرنے کی تلقین کی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو۔(النساء:36)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے،۔(التحریم6)

صلہ رحمی کا بنیاد ی مقصد فیملی یونٹ کو برقرار رکھنا ہے تاکہ معاشرہ نااتفاقی سے دوچار نہ ہو۔ دینِ اسلام نے معاشرہ کی بنیاد اخوت پر رکھی ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔(الحجرات10)

رسول اکرم کا فرمان ہے:

تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى

 ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور دوستی و شفقت میں مومنوں کو ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔(بخاری)

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے:

 المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ومن کان في حاجة أخيه کان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم کربة فرج الله عنه کربة من کربات يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو اس پر ظلم کرے، اور نہ اس کو ظالم کے حوالہ کرے، (کہ اس پر ظلم کرے) اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے، اور جو شخص مسلمان سے اسکی مصیبت کو دور کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتیں اس سے دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی، تو اللہ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی کرے گا۔(بخاری)

دین اسلام نے باہمی تجارتی امور میں تعاون کی ترغیب دلائی ہے۔ جائز اور ناجائز طریقہ تجارت کی وضاحت بھی کی۔ اللہ نے تجارت کو مباح جبکہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ تجارتی لین دن میں دیانت داری، ایفائے عہد اور صدقِ مقال کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ دھوکہ دہی، ملاوٹ، غصہ کو حرام قرار دیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حلال و حرام کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔

اکل و شرب کی پاکیزہ چیزیں حلال ہیں جبکہ نشہ آور، مردار، خنزیر کا گوشت اور دیگر صحت انسانی کے لئے مضر چیزیں حرام ہیں۔

دینِ اسلام نے صبر، حلم، احسان، اخلاص، عدل و انصاف، جود و سخا کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ مذمومہ خصائل، مثلا غیبت، چغلی، استہزاء اور مسلمانوں پر الزام تراشی سے روکا ہے۔ فحاشی اور فحاشی کے اسباب ، چوری، قتل و غارت گری، عداوت ، لوگوں کے اموال اور عزتوں پر ظلما قبضہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ  ؀

اے نبی اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں : بے شرمی کے کام ۔ خواہ کھلے ہوں یا چھپے ۔ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے) ۔(الاعراف33)

باری تعالیٰ نے مختلف جرائم پر مختلف حدیں بھی جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔تنفیذِ حدود کے بنیادی طور پر دو بڑے مقصد ہیں

(۱)  مجرم کو اس کے کیے کی سزا مل جاتی ہے۔

( ۲) دیگر لوگ اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

فرمانِ الٰہی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ

اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت، حقوقِ اسلامی کی بنیاد پر ہے۔ اس میں کسی قسم کی وطنی، قبائلی اورنسبی تعصب کی ملاوٹ نہیں ہے۔ ولی امر کی معروف کاموں میں اطاعت لازمی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی رعایا میں عدل و انصاف کو فروغ دیں ۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

اسلامی معاشرے کا ہر فرد ایک انجمن اور متحرک شخصیت کا مالک ہے۔ معاشرے کی اصلاح اسی وقت ممکن ہوگی جب ہر فرد اپنی ذمہ داری کو بخوبی ادا کرے گا۔ ایک استاذ اپنے شاگردوں کے دلوں میں بھلائی کی محبت بٹھائے، مفتیانِ کرام لوگوں کی دینی رہنمائی کریں، داعی حضرات عامۃ الناس کو نیکی، تقویٰ کی دعوت دیں، حکم کو نافذ کرنا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔

صاحب ثروت لوگوں کو چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کے حال و مستقبل کو درست سمت میں گامزن رکھنے کے لئے اپنی دولت کو خرچ کیا کریں۔ صاحبِ تجارت لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے کاروبار کو سود سے محفوظ رکھیں۔الغرض اسلامی معاشرے کا ہر فرد اصلاح معاشرہ کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرے۔

عالمِ اسلام آج اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ آج عالمِ اسلام کو اندرونی و بیرونی سازشوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ناپید ہوچکا ہے۔ امن و امان کی بجائے غارت گری، دہشت گردی، معصوم جانوں کا بے دریغ قتل عام ہے، ان حالات پردرد مند مسلم خون کے آنسو رو رہا ہے۔

آج امت مسلمہ کو بہت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد عدل ہے کہ امت مسلمہ نے جب بھی کتاب و سنت کو عملی طور پر مضبوطی سے تھاما ، اللہ تعالیٰ نے اس کو عروج بخشا ہے۔ اور جب اسی امت نے اپنے رب کے احکامات ، رسولِ مکرم کے ارشادات سے روگردانی کی تو اس کے دشمن بڑھ گئے اور یہ خیر و بھلائی سے محروم ہوگئی۔

یاد رکھئے! دینِ اسلام کا تخریب کاری، قتل و غارتگری اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دشمن کی پر فریب چالوں سے خبردار رہیں۔ قیامِ عدل و انصاف،  فساد کی بیخ کنی کے لئے مسلم حکمرانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تمام مسائل مذاکرات اور خون خرابہ کے بغیر حل کریں۔

مملکت سعودیہ میں الحمد للہ ! امن کا دورِ دورہ ہے یہاں کے عوام اپنے حاکم سے خوش ہیں اور حاکم بھی اپنی رعیت کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کی فضا میں رہتے ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کریں۔

یاد رکھئے ! اسلام دشمن عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد اور اخلاق کو بگاڑنے میں مصروف ہیں، میڈیا کی جنگ نے مسلم نوجوانوں کی شخصیت کو کمزور کردیا ہے۔ مسلمان ممالک کو چاہئے کہ وہ ایسے تعمیری ٹی وی چینل کا اہتمام کریں جس میں شریعت کی روح بھی ہو اور وہ جدید دور کے تقاضوں پر پورا بھی اترتے ہو۔

اہلِ اسلام کو چاہئے کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت، عقیدہ و منہج، حلال و حرام کے ضوابط، حسن اخلاق پر مواظبت اختیارکریں۔ کسی بھی حالت میں ہم ان مبادی اسلامیہ سے روگردانی نہ کریں۔

منہج سلف کی چند ایک نمایاں خصوصیات یہ ہیں۔

1)  راہِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہنا۔

2)  علم و معرفت اور تشریع کے بنیادی مصدر کتاب و سنت ہیں۔

3)  قرآنی دعوت اور توحید کا ابلاغ اہم ترین امور میں سے ہیں، توحید باری کے اثبات کے لئے ہی مخلوقات پیدا کی گئی ہیں۔ کتابوں کا نزول ، رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد توحید ربّ العالمین کے پیغام کو عام کرنا ہی تھا۔

4) سلفیت میںکسی قسم کی خرافات، فضول کام، شیطانی امور، جادوگروںسے تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ۔

5) سلفیت کا عقیدہ یہی ہے کہ دینِ اسلام عقیدہ، تشریع احکامات، اصولِ سیاست، اقتصادی معاملات، معاشرتی اصلاح، سلوک و اخلاقیات کے لحاظ سے مکمل ترین رہنمائی فراہم کرنے والا ہے۔

6) سلفیت ایک متحرک جماعت ہے جو لوگ سلفی تحریک کو جامد اور عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق تصور نہیں کرتے وہ غلطی پر ہیں۔

7) ملک محمد بن سعود رحمہ اللہ اور امام محمد بن عبد الوھاب  رحمہ اللہ نے اس مملکت سعودیہ کی بنادیں کتاب و سنت کے اصولوں اور منہج سلف پر رکھی ہیں۔ اسی حرکت کی بہترین دلیل ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کا سنہری دورِ حکومت ہے۔ انہوں نے مملکت سعودیہ کی پالیسیوں کو جدید خطوط پر استوار کیا آج مملکت سعودیہ میں امن و امان کی بہاریں دیکھ کر لوگ اس ملک کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ عہد جدید میں ترقی کے حصول کے باوجود اس مملکت نے سلفی منہج کو نہیں چھوڑا۔

اے اہل اسلام !آج عالم اسلام میں کچھ لوگ مساوات اور آزادی اظہار رائے کا ڈنڈورا پیٹ رہے ہیں، ہم ان کو بتلادینا چاہتے ہیں کہ اسلام نے ان قواعد کو آج سے چودہ سو سال پہلے واضح کردیا تھا۔

دینِ اسلام میں آزادی کا مفہوم شیطان، انسان  اور قبروں کی عبادت وغلامی سے آزادی ہے۔ اسلام حق و باطل ، خیر و شر ، فساد اور اصلاح کو ایک جیسا نہیں کہتا۔

 بلکہ اسلام تو عدل کی دعوت دیتا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ     ؀

اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔(البقرہ90)

اسلام میں عدل کا وسیع ترین مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک چھوٹے اور بڑے معاملات میں شریعتِ الٰہی کا مکمل نفاذ ہی عدل ہے۔

دین اسلام کی واضح ترین حقیقت انسانیت میں مساوات کے رہنما اصول کی وضاحت ہے، ایک مسلمان کو اپنے دین کی اس حقیقت میں ضرور غور و فکر کرنا چاہئے۔

فرمانِ الٰہی ہے:

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ        ؀

لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(الحجرات13)

ہادی کائنات  کا فرمان ہے:

تمام لوگ آدم علیہ السلام سے پیدا کئے گئے ہیں اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا۔

اسلام نے اکرامِ انسانیت، حیات سعیدہ، شرعی مطالبات اور اخروی عقاب میں مرد و زن کے درمیان برابری رکھی ہے۔ جبکہ نفسیاتی ،تخلیقی اور معاشرتی لحاظ سے مرد اور عورت کےمابین بعض مسائل میں تفریق کی ہے، اس سے عورت کی عصمت بھی محفوظ ہوگئی ہے اور وہ عہدِ جاہلیت کے ظلم و ستم سے بھی نجات پا گئی ہے۔

سازشی عناصر مسلم عوام اور حکمرانوں کے مابین قتل و غارتگری کے لئے مصروف عمل ہیں ان کی سازشوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔

اے امت مسلمہ کے حکمرانو ! جرائم، نا انصافی اور غربت پر قابو پانے کے لئے جدو جہد کرو، اپنی رعایا پراسلحہ کے زور پر اپنے قوانین کو مسلط مت کرو، خون خرابے کی بجائے پر امن طور پر ان سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہئیں۔

اے حجاج کرام ! فریضہ حج کو پورے اخلاص اور کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ادا کریں۔ آج آپ لوگ امن و امان کے ساتھ یہ عظیم فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ سب مملکت سعودیہ عربیہ کے فرمانروا، خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز حفظہ اللہ کی ذاتی کوششوں سے ہی ممکن ہوا۔

افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہماری صفوں میں کچھ فساد پسند عناصرگھس آئے ہیں جو کہ اس بلدِ حرام میں فساد کا ارادہ رکھتے ہیں، آپ مفسدوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اپنے اردگرد نظر رکھیں۔

دشمن کی چالوں کو سمجھیں، حج کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال نہ کریں۔ اس چیز کو اسلام نے ناپسند قرار دیا ہے۔

حج کے شاندار انتظامات پر سعودی حکومت کا شکریہ ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں ثابت قدمی اور مزید بھلائی کے کاموں کی توفیق دے۔

آج آپ عرفہ کے عظیم دن میں یہاں جمع ہیں، اسی دن اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین اسلام کی تکمیل فرمائی تھی:

الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی

ترجمہ:اس دن کی گئی دعا کو رسول مکرم نے بہترین دعا قراردیا ہے:

خیر ایام الدعا، دعاء العرفۃ

عرفہ کے دن مانگی گئی دعا بہترین دعا ہے۔

اور دوسری حدیث میں ہے:

میں نے اور سابقہ انبیائے کرام نے یومِ عرفہ کے دن جو بہترین کلمات کہے وہ یہ ہیں

 لَا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک  ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر

اسی دن باری تعالیٰ آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں۔ اور فخر سے فرماتے ہیں:

 میرے ان بندوں کو دیکھو جو میرے پاس پرا گندہ حال اور غبار آلود ہو کر آئے ہیں ۔(صحیح ابن خزیمہ)

[[  اس کے بعد مفتی صاحب نے حج کا

مختصر طریقہ بیان کیا  ]]

 پھر حجاج کرام کو موت کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر جاندار چیز کی انتہا موت سے ہوتی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍo  وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ

ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔اور صرف تیرے رب کا جلیل و کریم چہرہ ہی باقی رہنے والاہے۔(الرحمن:26تا27)

موت کے ذریعے انسان کے اعمال اختتام پذیر ہوتے ہیں۔پھر اعمال کے مطابق حساب اور جزا ملتی ہے۔ وقتِ رخصت کو یاد رکھیں :

وَجَاءَتَ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ     

دیکھو ، وہ موت کی جان کنی حق لے کر آ پہنچی ، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ (ق:19)

قبر اور اس کے اندھیرے کو ذہن نشین کرلیں، قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے باغیچہ ہوگی یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔

قیامت کے ہولناک دن کو مت بھولیں، جب تمام مخلوقات خالق کے دربار میں پیش ہونگی، حساب و کتاب کو یاد رکھیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا، یا دائیں ہاتھ میں تھمادیا جائے گا۔

وزنِ اعمال کے مناظر بھی آپ کے سامنے ہونے چاہئیں۔ جن خوش نصیبوں کا نیکیوں والا پلڑا وزنی ہوگا، فلاح پائیں گے اور جن بد بختوں کا برائیوں والا پلڑا بوجھل ہوگا، جہنم کے دائمی عذاب سے دوچار ہونگے۔

اس وقت کو یاد رکھیں جب آواز لگائی جائے گی کہ ’’اے اہل جنت (خوش ہوجاؤ)آج کے بعد تمہیں لازوال نعمتیں دائمی صحت،عطا کی گئی ہے جبکہ بڑھاپے اور کمزوری سے نجات دے دی گئی ہے۔ اب کبھی بھی موت نہیں آئے گی، ہمیشگی کی زندگی ملی ہے۔

اے حجاج کرام ! دین اسلام کے فرائض مثلاً نماز، روزہ، زکاۃ، حج، اخلاق کریمانہ اور دیگر فرائض کو ادا کرتے رہیں، ہر قسم کے قولی و فعلی گناہوں سے توبہ نصوحہ کریں۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت و توقیر دے، مسلمانوں کی جملہ مساعی کو اپنی بار گاہ میں قبول فرمائے، مسلم عوام اور عمال کے باہمی تعلقات کو خوش گوار بنائے۔

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خادم الحرمین الشریفین ملک عبد اللہ بن عبد العزیز کو صحت و عافیت و سلامتی سے نوازے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ صاحب السمو الملکی امیر سلطان بن عبد العزیز کو جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین۔

ہم وزیرِ داخلہ، مرکزی حج کمیٹی کے رئیس اور مجلس الوزراء کے نائب سربراہ صاحب السمو الملکی الامیر نائف بن عبدالعزیز ولی عہد سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں اور اللہ ان کی مدد فرمائے اورنیکیوں کی مزید توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں مکۃ المکرمہ کے امیر صاحب السمو خالد الفیصل بن عبد العزیزکاشکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ ان کی مدد فرمائے اور مزید توفیق عطا فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے