سیرت و سوانح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ

نام:       حسین      کنیت:    ابو عبد اللہ

لقب:     ریحانۃ النبی، سید شباب اہل الجنۃ

علی المرتضیٰ والد اور سیدہ بتول جگر گوشہ رسول والدہ تھیں، اس لحاظ سے آپ کی ذات گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی،

شجرہ نسب: حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف قریشی ہاشمی

آپ کی پیدائش: ابھی آپ شکم مادر میں تھے کہ حضرت حارث  رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اکرم کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آپ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے، آپ نے فرمایا کہ بیان کرو، آخر کیا ہے؟ چنانچہ آپ کے اصرار پر انہوں نے اپنا خواب بیان کیا ، آپ نے فرمایا: یہ تو نہایت مبارک خواب ہے، اور فرمایا کہ فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔(مستدرک حاکم ج۳ صفحہ۱۷۶)

کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیر ملی اور ریاض نبوی میں وہ خوش رنگ ارغونی پھول کھلا جس کی مہک حق و صداقت، جرات و بسالت، عزم و استقلال، ایمان و عمل اور ایثار و قربانی کی وادیوں کو ابد الآباد تک بساتی اور عقیق کی سرخی طرح چمکاتی رہے گی، یعنی ماہِ شعبان ۴ ھجری میں علی رضی اللہ عنہ کا کاشانہ حسین کے تولد سے رشک گلزار بنا، ولادت باسعادت کی خبر سن کر آپ تشریف لائے اور فرمانے لگے بچہ مجھے دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ آپ نے نومولود بچے کو منگوا کر اس کے کان میں اذان دی، اس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبانِ وحی و الہام نے اس بچے کے کان میں توحیدِ الٰہی کا صور پھونکا۔

پھر فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے مطابق چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا، آپ کے حکم کے مطابق فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے عقیقہ کیا۔(موطا مام مالک، کتاب العقیقۃ)

اوروالدین نے بچے کا نام حرب رکھا تھا، لیکن آپ کو یہ نام پسند نہ آیا پھر نبی نے نام بدل کر حرب سے حسین رکھا۔(اسد الغابۃ، ج۲ ص ۱۸)

حسین اور عہدِ نبوی:

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آپ کے پیار اور محبت کے واقعات ملتے ہیں، آپ نے ان کے ساتھ خلاف معمول شفقت فرماتے تھے، آپ تقریباً روزانہ دونوں بھائیوں کو دیکھنے کے لئے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں بھائیوں کو بلا کر پیار کرتے اور کھلاتے، دونوں بھائی آپ نے بے حد مانوس اور شوخ تھے، لیکن آپ نے کبھی کسی شوخی پر انہیں تنبیہ نہیں فرمائی بلکہ ان کی شوخیاں دیکھ کو خوش ہوتے تھے، اور جب آپ کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا تو اس وقت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات برس کی تھی۔

عہد صدیقی اور حسین رضی اللہ عنہ:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سیدنا حسین کی عمر ۷ ,۸ سال سے زیادہ نہ تھی اس لئے ان کے عہد کا کوئی خاص واقعہ قابلِ ذکر نہیں ہے۔

عہدِ فاروقی اور حسین رضی اللہ عنہ:

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہد خلافت میںبھی سیدنا حسین کم سن تھے، البتہ آخری عہد میں سنِ شعور کو پہنچ چکے تھے، لیکن اس عہد کی مہمات میں ان کا نام نظر نہیں آتا۔اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور قرابت رسول کا خاص خیال رکھتے تھے، چنانچہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیا تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قرابتِ رسول کا خیال رکھتے ہوئےپانچ ہزار ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔(فتوح البلدان، بلاذری عطا عمر بن الخطاب)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی بھی چیز میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کو نظر انداز نہ ہونے دیتے ایک مرتبہ یمن سے بہت سے حلّے آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روضہ نبوی اورمنبر کے درمیان تشریف فرماتھے لوگ ان حلّوں(جبُّوں) کو پہن کو شکریہ کے طور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو آکر سلام کرتے تھے، اسی دوران سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما اپنے گھر سے نکلے تو ان کا گھر(حجرہ) مسجد کے درمیان میں تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نظر ان دونوں بھائیوں پر پڑی تو ان کے جسموں پر حلے نظر نہ آئے یہ دیکھ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تکلیف پہنچی اور لوگوں سے فرمانے لگے کہ تمہیں حلے پہنا کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے جسم ان حلوں سے خالی ہیں، اس کے بعد یمن کے حاکم کو خط بھیجا کہ جلد از جلد دو جبے بھیجیں۔ چنانچہ جبے منگوا کر دونوں بھائیوں کو پہنانے کے بعد فرمایا، اب مجھے خوشی ہوئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ پہلے والے جبے سیدنا حسن و حسین کے لائق نہ تھے،(ابن عساکرج۴ ص۳۲۱/۲۳۲)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو  اپنے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ پسند کرتےتھے، جو عمر اور ذاتی فضل و کمال میں ان دونوں پر فائق تھے، ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ منبر نبوی خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسین رضی اللہ عنہ آئے اور منبر پر چڑھ کر کہا کہ میرے باپ(رسول اللہ ) کے منبر سے اترو اور اپنے باپ کے منبر پر جاؤ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس طفلانہ شوخی پر فرمایا کہ میرے باپ کا تو کوئی منبر ہی نہیں تھا،، اور انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور خطبہ ختم کرنے کے بعد انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے، راستے میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ تم کو کس نے سکھایا؟سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ واللہ ! کسی نے نہیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کبھی کبھی میرے پاس آیا کرو، چنانچہ اس ارشاد کے بعد ، ایک مرتبہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، سیدنا حسین بھی ان ہی کے پاس کھڑے ہوگئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بغیر ملے  واپس چلے گئے اس کے بعد جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم آئے کیوں نہیں؟ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں ایک مرتبہ آیا تھا، مگر آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ محو گفتگو تھے، اس لئے میں عبد اللہ کے ساتھ کھڑا رہا، پھر ان کے ساتھ لوٹ گیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی، تم تو ان سے زیادہ حقدار ہو، جو کچھ ہماری عزت ہے، وہ اللہ کے بعد تم ہی لوگوں کی دی ہوئی ہے۔(اصابہ ج ۲ ، ص ۱۵۰)

عہدِ عثمانی اور حسین رضی اللہ عنہ:

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سیدنا حسین پورے جوان ہوچکے تھے۔

چنانچہ سب سے پہلے اسی عہد میں میدانِ جہاد میں قدم رکھا اور س ۳۰ ھجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے۔(ابن اثیرج۳ ص ۸۳)

پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کےخلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کیا تو سیدنا علی نے دونوں بھائیوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو کہ ان دونوں بھائیوں کا خالو تھا، کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں، چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا اور جب باغی مکان پر چڑھ کر اندر گھس گئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اور جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بیٹوں کو بلا کر سخت ڈانٹا، اور باز پرس کی کہ تمہاری موجودگی میں باغی اندر کیسےگھس گئے؟(تاریخ الخلفا للسیوطی، ص ۱۵۹)

میرے عزیز دوستو ! اس تمام مندرجات بالا کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ  جن کے بارے میں رسول اکرم نے ارشاد فرمایا تھا کہ حسین و حسین  اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب کے متعلق فرمایا کہ سید الشہداء ہیں۔

معزز قارئین کرام !

یہود و نصاریٰ جن کا شروع دن سے مقصد اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔ کبھی انہوں نے عبد اللہ بن سبا یمنی یہودی شکل میں اسلام و مسلم امت کو اپنے زہر سے ڈسنا تو کبھی رافضیت کی شکل بن کر آج امت مسلمہ کو انہوںنے ایسی ضلالت زدہ ڈگر پر گامزن کردیا ہے، اور ان کی آنکھوں پر ایسی سیاہ پٹیاں باندھ دی گئی ہیں کہ حق کی وضاحت کے باوجود بھی حق کو پہچان نہیں سکتے۔

آج محرم کا ہلال نظر آنے کی دیر ہے کہ ماتم اور رونا دھونا شروع ہوجاتا ہے۔ آج جنوری شروع ہو تو مبارک باد اور خوشی کا اظہار مسلم و غیر مسلم امت دونوں ہی بڑے زور و شور سے کرتی، مگر محرم الحرام ! آج عامۃ الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ

 اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مگر اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ کہا جاتا ہے کہ مظلوم امت، مظلوم مدنیہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت اس شہادت سے کئی گنا زیادہ درد ناک ہے، یہاں تو تین دن کا فاقہ اور وہاں چالیس دن کا !! مگر باوجود اس حقیقت کے ہم اس کو فراموش کر جاتے ہیں اور ان کے عذاب میں شریک ہونے میں خوشی محسوس  کرتے ہیں، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام کی بریانیاں اور قورمے بڑے مزے سے کھاتے ہیں، سبیلیں لگاکر شربت پیتے پلاتے ہیں۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن نے ہم پر کس طرح سے وار کیا ہے، اور ہم اس کے وار کی گرفت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔

میرے عزیز دستو ! یہ وقت کچھ کر دکھانے کا، لوگوں کو بتلانے کا کہ حق کیا ہے اور کہاں ہے اب وہ وقت نہیں کہ تحقیق کے لئے کتب میسر نہیں بلکہ انٹرنیٹ نے آج اس پریشان سے کاآسانی سے حل کردیا ہے، اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ موقع ملا ہے کہ ہم خود بھی حق کو پہچانیں اور لوگوں کو اس کی بابت بتلائیں۔ اور خود بھی ان کا افعال بدعت و شرک سے اجتناب کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں۔ اور یزید بن معاویہ کی بابت اپنے اعتقادات درست کر لیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق والا بنائے اورحق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہم صلی علی محمدو علی آل محمد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے