رحمت و بخشش کے خزانے

نیکوکاروں کی بخشش:

اللہ تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں میں اپنے خزانے لٹائے ہیں۔ یہ خزانے رحمت و بخشش کے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں چند اعمال صالحہ اور ان کے انعام و اکرام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

سوال: کیا تم گناہوں سے اس طرح پاک ہونا چاہتے ہو جس طرح نومولود بچہ ہوتا ہے؟

جواب: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو بیت اللہ کا حج کرنے آتا ہے اور کوئی گناہ نہیں کرتا، کسی کو گالی نہیں دیتا تو وہ اس طرح لوٹتا ہے جس طرح اس کو آج ہی اُس کی ماں نے جنا ہو‘‘۔ (یعنی گناہوں سے بالکل پاک)۔

سوال: کیا تم اپنے گذشتہ گناہوں سے جان چھڑانا چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص میرے وضو کی مانند وضو کرے، پھر دو رکعات نماز پڑھے اور ان رکعات کے دوران دل سے کوئی بات نہ کرے (یعنی خیالات میں نہ رہے) تو اس کے تمام گذشتہ گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ صغیرہ گناہوں کی بات ہو رہی ہے)۔

سوال: کیا تم لوگوں کی تعداد کے برابر نیکیاں چاہتے ہو؟

جواب: رسولِ اکرم نے فرمایا: ’’جو شخص تمام مومن مردوں، عورتوں کے لئے استغفار کرتا ہے تو اس کو ہر مومن اور مومنہ کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے‘‘۔

سوال: کیا تم پہاڑ کے برابر نیکیاں چاہتے ہو؟

جواب: رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص حالت ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے مسلمان کے جنازے میں شرکت کرتا ہے، نمازِ جنازہ کے ساتھ ساتھ دفنانے تک ساتھ جاتا ہے تو اس کو دو قیراط اجر و ثواب ملتا ہے۔ ایک قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ایک قیراط اجر و ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔ (مسلم)۔

سوال: کیا تم ایک نیکی چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص نیک کام کرنے کا صرف ارادہ کر لے اور ابھی عمل نہ بھی کیا ہو تو اسے ایک نیکی کا اجر و ثواب ملتا ہے‘‘۔ (یعنی نیت کرنے پر اجر ملتا ہے)۔

سوال: کیا تم سو نیکیاں حاصل کرنا چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص گرگٹ کو پہلی ضرب میں مارے اسے سو نیکیاں ملتی ہیں۔ (چھپکلی بھی شامل ہے)۔

سوال: کیا تم سات سو نیکیوں کا حصول چاہتے ہو؟

جواب: اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایک دانے کی ہے، جو سات بالیاں اُگاتا ہے، ہر بالی سے ایک سو دانے مزید پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی ایک نیکی کرنے سے بھی سات سو کے قریب نیکیاں ملتی ہیں۔

سوال: کیا تم بے حساب اجر و ثواب چاہتے ہو؟

جواب: فرمانِ الٰہی ہے: ’’بے شک صبر کرنے والوں کو بغیر حساب بدلہ دیا جائے گا‘‘۔

سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ پرتمہارے لئے بلا حساب لا محدود اجر دینا لازم ہو؟

جواب: فرمانِ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’جو شخص معاف کرے اور صلح کرے (خیر خواہی چاہے) اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ جو چاہے گا دے گا بے شمار … ان گنت …)۔

سوال: کیا تم آخرت میں نجات چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس کی تنگی کو دور کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے تلے رکھے گا۔ قیامت کے دن اس کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا‘‘۔

سوال: کیا تم اپنے عیبوں کی پردہ پوشی چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص دنیا میں اپنے مسلمان بھائی کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے تو قیامت کے دن اس پر اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دے گا‘‘۔ (اس کے عیبوں کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرے گا)۔

سوال: کیا جہنم کی آگ سے رکاوٹ چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہو اور وہ ان پر صبر کرے۔ انہیں کھلائے پلائے، اچھا لباس پہنائے تو یہ بیٹیاں اس شخص کے لئے جہنم سے رکاوٹ بن جاتی ہیں

سوال: کیا تم پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت چاہتے ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر صبح و شام دس دس بار درود پڑھتا ہے تو اس کو قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی‘‘۔

سوال: کیا تم جہنم سے آزادی چاہتے ہو؟

جواب: جو شخص کسی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کا خیال کرے (اس کی توہین کو ختم کرے) تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے جہنم سے آزاد کرے۔

سوال: کیا تم جنت میں اپنا گھر بنانا چاہتے ہو؟؟

جواب: 1رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بناتا ہے، جس میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو اس کے مثل جنت میں گھر بنایا جاتا ہے‘‘۔ 2جو شخص ایک دن میں بارہ رکعات سنتوں کی پابندی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا‘‘۔ 3جو شخص دس بار ’’سورہ اخلاص‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔

سوال: کیا تم جنتی لباس چاہتے ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص لباسِ فاخرہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے چھوڑ دے (حالانکہ وہ لباس فاخرہ پہننے کی استطاعت رکھتا ہو) تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے ایمان کا لباس پہننے کا اختیار دیا جائے گا کہ جو چاہے لباس پہنے…‘‘۔ (یعنی دنیا میں نمود و نمائش اور فخر ورِیا کو ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے)۔

سوال: کیا تم قیامت کو ریشم و دیباج کا لباس پہننا چاہتے ہو؟

جواب: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’جو کسی مسلمان کو کفن پہناتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ ریشم کا لباس پہناتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ جنت میں تمہارے اپنے لئے درخت لگائے جائیں؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ و بحمدہٖ‘‘ کہنے والے کے لئے جنت میں درخت لگائے جاتے ہیں۔

سوال: کیا تم شیطان سے چھٹکارا چاہتے ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ کلمات پڑھتا ہے تو اس کے لئے ایک سو بار پڑھنے پر ایک سو نیکیاں لکھی جاتی اور ایک سو گناہ مٹائے جاتے ہیں اور شیطان سے پناہ مل جاتی ہے، یہاں تک کہ شام ہو جائے؛ کلمات درج ذیل ہیں:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ

سوال: کیا تم فتنوں اور دجال سے حفاظت چاہتے ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص سورہ کہف کی پہلی دس آیات یاد کرتا ہے تو اس کو فتنہء دجال سے پناہ مل جاتی ہے‘‘۔

سوال: کیا تم اپنی عمر کو دراز اور رزق کو وسیع کرنا چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور اس کی عمر میں وسعت ہو تو اس کو چاہیئے کہ وہ صلہ رحمی کرے‘‘۔

سوال: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز پڑھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمے اور حفاظت میں آجاتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم ایسے شخص کی دعا چاہتے ہو جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا کے لئے فرشتہ آمین آمین کہتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اے دعا کرنے والے تجھے بھی اس کی مثل ہے‘‘ـ۔ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے بھی دے)۔

سوال: کیا تم جہنم کی آگ اور منافقت سے مکمل آزادی چاہتے ہو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص چالیس دن اللہ تعالیٰ کے لئے باجماعت نماز تکبیر اُولیٰ کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس کے حق میں جہنم اور منافقت سے آزادی لکھ دی جاتی ہے‘‘۔

سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحمتیں نازل کرے؟

جواب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پردس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کا ذکر فرشتوں کی جماعت میں کیا جاتاہے‘‘۔

سوال: سوال کیا تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے شہادت کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اگرچہ وہ شہید نہ بھی ہو‘‘۔

سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو؟؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے۔ سو تم اس حالت میں کثرت سے دعائیں مانگو‘‘۔

سوال: کیا تم ساری رات قیام کرنے کا اجر و ثواب چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو آدھی رات قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو تمام رات قیام کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور جہنم کے درمیان دُوری ڈال دے؟

جواب: رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ستر سال کی دُوری ڈال دیتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم شاہراہِ جنت پر چلنا چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم روزے دار اور مجاہد کا ثواب چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص بیواؤں اور مساکین کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مجاہد فی سبیل اللہ اور روزے دار کا اجر و ثواب دیتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم حج کرنے کا اجر و ثواب چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘‘۔ یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ حج کرنے کے مترادف ہے‘‘۔

سوال: کیا تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہوتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو الحمد ﷲ کہتا ہے۔ اگر پانی پیتا ہے تو الحمد ﷲ کہتا ہے‘‘۔

سوال: کیا تم جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت چاہتے ہو؟

جواب: پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے کہ یہ دو انگلیاں ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔

سوال: کیا تم جنت کے خزانوںکا حصول چاہتے ہو؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲ‘‘ جنت کا خزانہ ہے‘‘۔

سوال: کیا آپ اللہ تعالیٰ کی ملاقات چاہتے ہیں؟

جواب: نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات چاہتا ہے‘‘۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور روزِ حشر باعزت ملاقات فرمائے گا)۔

 

آمین یارب العالمین

ایک عظیم مثال:

اگر آپ جیتی جاگتی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب یوسف علیہ السلام کے قصے میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی سوانح عمری کا ایک درخشاں واقعہ، عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس عورت نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو گمراہ کرنے، اپنے راستے سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس عورت نے ’’گناہ‘‘ کے تمام اسباب، ذرائع اور تقاضے پورے کیے۔ اگر گناہ کے ان ذرائع میں سے بہت کم ذرائع آج کل کسی کو میسر ہوں تو وہ گناہ کی اتھاہ گہرائیوں میں گر سکتا ہے۔ بلکہ آج کل تو لوگ بذاتِ خود تلاش و بسیار کے بعد لذتِ گناہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ذلت و رسوائی کی پستیوں میں گر کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ اور ادھر دیکھئے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو لغزش پر آمادہ کرنے کے لئے عزیز مصر کی بیوی نے کون کون سی تیاریاں کی تھیں اور ’’گناہ‘‘ میں ملوث ہونے کے قوی اسباب بھی تھے:

1 پہلا بڑا سبب ِ گناہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام مکمل جوانِ رعنا تھے۔

2 آپ علیہ السلام ابھی کنوارے تھے۔ خواہش نفس کو سرد کرنے کا کوئی بھی ذریعہ نہ تھا۔

3 علاوہ ازیں اس سرزمین مصر پر آپ بالکل اجنبی مسافر تھے۔ عام طور پر ایسے گناہ کے لئے اپنا شہر اور عزیز و اقارب کی موجودگی ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ رکاوٹ بھی نہیں تھی۔

4 مزید ستم یہ کہ آپ زرخرید غلام تھے۔ پندرہ درہم کی قلیل رقم میں آپ کو خریدا گیا تھا۔ غلام لوگ اپنی جان، دل کے مالک کب ہوتے ہیں؟

5 دعوتِ گناہ دینے والی عورت انتہائی حسین و جمیل تھی۔

6 وہ عورت جناب یوسف علیہ السلام کی ’’مالکن‘‘ بھی تھی اور ملکۂ مصر بھی تھی۔

7 اس ’’مالکن‘‘ کا شوہر بھی موجود نہ تھا۔

8 اس عورت نے اپنے حسن و رعنائی کو مزید دوآتشہ کرنے کے لئے تمام تر تیاریاں کی تھیں۔

9 ہر قسم کی رکاوٹ اور خوف کو دُور کرنے کے لئے اس نے تمام دروازوں کو بند کر دیا تھا۔

10 پیش قدمی کرنے والی اور دعوتِ گناہ دینے والی بھی خود وہ عورت ہی تھی۔

11 اُس عورت نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ملوثِ گناہ نہ ہوئے تو وہ جیل میں ڈال دے گی۔ دنیا کی نگاہوںمیں ذلیل و رسوا کردے گی۔

لیکن یہ تمام دعوت ہائے گناہ اور تمام تر حشر سامانیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے تمام دعوتوں کو مسترد کر دیا، تمام پیش قدمیاں روک دیں۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو عظیم ترین نعم البدل عطا فرمایا۔ آپ علیہ السلام سعادت و خوش بختی کی بلندیوں کو پہنچے۔ دنیا میں بادشاہت ملی، آخرت میں جنت الفردوس سے نوازے گئے۔ حالات نے کروٹ بدلی۔ جناب یوسف علیہ السلام آقا بن گئے۔ اور آپ علیہ السلام کو جیل میں ڈالنے والی ’’مالکن‘‘ غلام بن گئی۔

ہر عقل مند باشعور شخص کو اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ اور سوچنا چاہیئے کہ اس دنیا کی وقتی لذت کے بدلے کہیں وہ ہمیشہ کے انعام و اکرام سے محروم تو نہیں ہو رہا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے