گناہوں کو چھوڑئیے…..اللہ تعالیٰ کے لئے

جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے گناہوں، منکرات اور برائیوں کو چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بہترین نعم البدل عطا فرمائے گا۔

دیکھئے! خواہشات اور شہواتِ نفس، دلوں کو کنٹرول کر لیتی ہیں۔ بلکہ دلوں کو اپنے قبضے میں لے کر اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہیں۔ ان شہواتِ نفس سے جان چھڑانا بہت کٹھن اور چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔ لیکن جو دل اللہ تعالیٰ کے تقوی سے معمور ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے درخواستگار ہوں تو وہ کبھی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوتے۔

اللہ رب العزت کا اِرشاد ہے: ’’جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے‘‘۔

جو شخص گناہوں اور خواہشاتِ نفس کو کسی غیر اللہ کے لئے چھوڑتا ہے تو اس کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا کے لئے گناہوں سے دُور رہنے والے کو کوئی مشکل آڑے نہیں آتی۔ صرف چند ابتدائی آزمائشیں ہوں گی تاکہ معلوم ہو کہ توبہ کرنے والا سچا اور خلوصِ دل رکھتا ہے یا صرف ظاہراً توبہ کر رہا ہے۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ گناہوں کی جس قدر لذت زیادہ ہو گی اور اسباب گناہ جتنے زیادہ ہوں گے ان سے توبہ کرنے والے کو اسی قدر اجر و ثواب بھی زیادہ ملے گا۔

انسان فطرتاً خطا کا پتلا ہے۔ اس لئے اگر دل کا جھکاؤ کبھی کبھار گناہوں کی طرف ہو جائے تو اسے فطرتی عمل سمجھنا چاہیئے۔ اس لئے تقوی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن گناہوں میں لت پت ہونا اور اس سے نفرت نہ رکھنا قطعاً غلط ہے۔ بلکہ ہمیشہ گناہوں سے جان چھڑانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔ اور صمیم قلب سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے گناہوں کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑھ کر اور بہتر بدلہ عنایت کرتا ہے۔

’’بدلہ‘‘ مختلف انواع کا ہو سکتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کا حصول۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکونِ قلب و اطمینان کا حاصل ہونا۔ دنیا و آخرت کی خیر و برکت اور اکرام و انعام الٰہی کا حصول۔ زیر نظر سطور میں ہم مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھا رہے ہیں۔

1جو شخص لوگوں سے مانگنا، ان کے آگے دست سوال دراز کرنا، چھوڑ دے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قناعت، صبر اور عزت نفس کی دولت عطا فرمائیں گے۔ اس کا دل غنی اور خوددار ہو گا۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرمائے گا۔ (یعنی اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا)۔ اور جو شخص مانگنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا فرمائے گا‘‘۔

2جو شخص تقدیر پر شکوہ کرنا اور اعتراض کرنا ترک کرے گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے رضا و یقین کی نعمت عطا کرے گا۔ اس کے انجام کو اچھا کرے گا اور جہاں سے اسے کوئی خیال بھی نہ ہو گا، وہاں سے نعمت الٰہی سے سرفراز فرمائے گا۔

3جو شخص جادوگروں، کاہنوں اور عاملوں کے پاس جانا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے صبر، توکل اور توحید خالص کی دولت سے سرشار کر دے گا۔

4و شخص دنیا کے پیچھے مارا مارا پھرنا، ہمیشہ دولت دنیاوی کے لئے بھٹکنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے دل کا غنی کر دے گا۔ اس کے تمام معاملات کو حل کر دے گا اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے پھرے گی۔

5جو شخص ’’غیر اللہ‘‘ سے ڈرنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے وہم و خوف سے نجات دے گا، ہر چیز سے محفوظ کر دے گا، امن و سلامتی کی دولت مہیا کرے گا۔

6جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا اور ہمیشہ سچ کو مد نظر رکھے گا تو اسے نیکی کی ہدایت ملے گی، سچ بولنے کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ’’صدیق‘‘ کہلائے گا۔ عوام الناس میں اس کی سچائی، صداقت و امانت کا احترام ہو گا۔ اس کی عزت و منزلت بڑھے گی۔

7جو آدمی جھگڑا کرنا ترک کر دے گا (اگرچہ وہ حق پر ہو) تو اللہ تعالیٰ اسے درمیانِ جنت ایک محل کی ضمانت دیتا ہے۔ اور وہ آدمی جھگڑوں ، مصیبتوں سے محفوظ بھی رہے گا۔ اور وہ پاکیزہ دل اور پاک دامن بھی ہو جائے گا۔

8 جو آدمی کاروبار میں دھوکہ دہی، خیانت کو ترک کرے گا تو لوگوں کا اعتماد اس پر بڑھتا جائے گا۔ اور اس کا کاروبار وسیع تر ہوتا جائے گا۔

9 جو شخص سودی کاروبار اور ناپاک کمائی کو ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت ڈال دے گا۔ اس کے لئے خیر و برکت کے دروازے کھل جائیں گے۔

10 جو شخص برے کاموں اور حرام کردہ مقامات پر نظر ڈالنا ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ درست فہم و فراست، نورِ قلب اور لذتِ عبادت عطا فرمائے گا۔

11 جو شخص بخیلی، کنجوسی کو ترک کرے گا اور سخاوت اور دریا دلی کو اپنا شعار بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی محبت، قربت الٰہی عطا فرمائے گا۔ وہ شخص غموں، پریشانیوں اور تنگ دلی سے نجات پائے گا۔ کمال و فضیلت کے درجوں پر فائز ہو گا۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ:

اور جو شخص اپنے نفس کی بخیلی سے بچ گیا تو وہ فلاح پا گیا۔ (الحشر)

12 جو آدمی تکبر کرنا چھوڑ دے گا اور عاجزی و انکساری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر و منزلت کو بلند کر دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے کہ ’’جو اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)

13 جو شخص بے وقت کی نیند کو ترک کرے اور سستی و کاہلی کو چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھے تو اس کو اللہ تعالیٰ دلی خوشی، فرحت و نشاط اور محبت الٰہی عطا فرماتا ہے؛

14 جو شخص اللہ کے لئے سگریٹ نوشی، نشہ آور اشیاء کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اسے ہر حال میں ملتی ہے۔ اس کو صحت و عافیت ملتی ہے۔ یہ خوشی ہمیشہ رہنے والی ہے اور تندرستی ہزار نعمت ہے۔

15 جو شخص ذاتی انتقام کو باوجود قدرت کے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قلبی وسعت عطا فرمائے گا۔ دلی خوشی، اطمینان و سکون زندگی کی مٹھاس اور عزتِ نفس ملے گی۔ رسول اللہ کا اِرشاد ہے: ’’معافی دینے والے کی عزت مزید بڑھتی ہے‘‘۔

16 جو شخص بری صحبت اور دوستی کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اچھے دوست عطا فرماتا ہے جن سے نفع و سکون ملتا ہے۔ دنیا و آخرت کی بھلائیاں ان افراد کی محبت سے ملتی ہیں۔

17 جو شخص کثرت طعام کو ترک کرتا ہے تو اسے بڑے بڑے امراض سے نجات ملتی ہے۔ پیٹ کی خرابیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص زیادہ کھاتا پیتا ہے تو لازماً سوتا بھی بہت ہے۔ ایسا شخص تو بہت ہی محروم رہتا ہے۔

18 جو شخص قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ اور اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

19 جو شخص غیض و غصہ کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت و کرامت کو بلند فرماتا ہے۔ ندامت و شرمندگی کی ذلت سے وہ دُور رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک صحابی نے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ امام ماروردی فرماتے ہیں کہ ’’ہر باشعور اور عقل مند آدمی کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیئے، وہ حلم و بردباری اختیار کرے، شدت پسندی، غصے کو اپنی عقل و فراست سے محدود کر کے رکھے تاکہ خیر و برکت اور سعادت و کامرانی اس کا مقدر بنے‘‘۔ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ایک دن کسی شخص پر شدید غضبناک ہوئے۔ اس کو بطور سزا قید کرنے کا حکم دیا۔ اور جب اسے کوڑوں کی سزا دی جانے لگی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ’’اس قیدی کو رہا کر دیا جائے۔ میں نے جب اسے سزا سنائی تھی تو میں غصے میں آگیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت بھی یہی بیان کی ہے کہ مومن تو غصے کو پی جاتے ہیں۔ (بحوالہ سورہ تفسیرآل عمران)

20 جو شخص عوام الناس کی عزتوں کے درپے ہو اور ان کے عیبوں، لغزشوں کا پردہ چاک نہ کرے تو اس کے اپنے عیبوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ لوگوں کے شر سے محفوظ رہے گا۔ اس کی بصیرت و فراست میں اضافہ ہو گا۔ سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص لوگوں کی ناپسندیدہ باتوں کی طرف جلدی لپکتا ہے تو لوگ بھی اس کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس نے کبھی کہی نہ سنی ہوں۔

ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’اے میرے بیٹے! اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی سے بچاؤ۔ تم دوسروں کے عیبوں کو فاش کرو گے تو لوگ تمہیں بھی نشانہ بنا لیں گے۔ اور تم جانتے ہو کہ جس مقام پر بہت سے تیر پے درپے مارے جائیں تو وہ مقام اپنی قوت و مضبوطی کے باوجود کمزور ہو جاتا ہے بلکہ ٹوٹ کر گر جاتا ہے‘‘۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی شخص واقعتا مومن ہے تو وہ لوگوں کے عیبوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ جس طرح کوئی بیمار ہے تو وہ لوگوں کی بیماریوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں بلکہ اسے اپنی بیماری کی پڑی ہوتی ہے‘‘۔

21 جو شخص جاہلوں اور کم علم لوگوں سے مناظرے، بحث و مباحث کو ترک کرتا ہے تو اس کی اپنی عزت بھی محفوظ ہوتی ہے اور اس کا نفس بھی پرسکون رہتا ہے۔ اور تکلیف دہ باتوں کو سننے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ: ’’معافی دینے کو اپنا شعار بناؤ۔ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے دُور رہو‘‘۔ (سورہ اعراف)

22 جو آدمی حسد سے دُور رہتا ہے تو وہ مختلف نقصان دہ کاموں سے بچا رہتا ہے۔ حسد تو ایک خطرناک ناسور ہے۔ زہریلا پن، گھٹیا پن اور کمینگی حسد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ حسد کرنے والا اپنے بھائیوں، دوستوں، اور قریبی رشتے داروں سے دور ہوتا ہے۔ اہل نظر کا کہنا ہے کہ ’’ظالم لوگ بھی حسد کی بیماری کی وجہ سے ایک طرح کے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کا دل بیمار، غم و فکر کی آماجگاہ اور ٹھکانہ ہوتا ہے‘‘۔

23 جو شخص برے گمان سے بچتا ہے تو وہ اپنے دل کو فکر مندی، پریشانی، بدگمانی اور کدورت سے بچا لیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اے مومنو! کثرتِ گمان سے بچو۔ بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔ (سورہ حجرات)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کثرت گمان سے پرہیز کرو، بیشک گمان جھوٹی بات ہے‘‘۔ (بحوالہ صحیح بخاری و مسلم)۔

24 جو شخص سستی، کسل مندی اور سہل انگاری کو ترک کرے اور عمل و جدوجہد کو اپنا نصب العین بنائے تو اس کا مقام بلند، اس کا وقت برکت والا ہو گا۔ بہت کم عرصے میں بڑی طویل کامیابی کو سمیٹ لے گا۔ کسی اہل نظر کا کہنا ہے : ع

مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے

25 جو شخص شہرت و ناموری کی خواہش کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ اس کی فضیلت زبان زدِ عام ہوتی ہے۔ شہرت و ناموری اس کے پیچھے پیچھے پھرتی ہے۔

26 جو شخص نافرمانی کو ترک کر کے والدین کے حقوق ادا کرتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کی اپنی اولاد کو بھی نیک بنا دیتا ہے۔ اور اس کو جنت میں بھی داخل فرماتا ہے۔

27 جو شخص قطع رحمی کو ترک کر کے رشتے داروں سے تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو وسیع رزق عطا فرماتا ہے۔ اس کی عمر میں برکت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کا مددگار رہتا ہے۔

28 جو شخص ناجائز عشق و محبت کو ترک کرتا ہے اور ایسے کام جو عشق و محبت کو پروان چڑھاتے ہیں اُن سے دُور رہتا ہے اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت ِنفس، سکونِ قلب عطا فرماتا ہے۔ ذلت و رسوائی اور دل کی جلن سے سلامتی ملتی ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھرپور رہتا ہے۔ محبت الٰہی دل کی پراگندگی، میلے پن کو صاف کر دیتی ہے۔ دل کو غنی، پرسکون کر دیتی ہے۔ بے شک دلوں کو سکون و اطمینان، فرحت و سرور صرف اور صرف عبادتِ الٰہی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

29 جو شخص بداخلاقی، بدگوئی اور چہرے کا متکبرانہ پن چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو نرمی، اخلاق اور کشادہ دلی کی نعمت عطا فرماتا ہے۔ ایسے شخص پر جان نچھاور کرنے والے بے شمار ہوتے ہیں اور دشمن بہت قلیل ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے: ’’تمہارے بھائی کے لئے تمہاری مسکراہٹ بھی صدقہ ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)۔ ابن عقیل کہتے ہیں کہ ’’مسکراہٹ محبتوں کو پیدا کرتی ہے، مقبولیت کی بنیاد مسکراہٹ ہے۔ مسکراہٹ کی ضد نفرت و خشونت ہے‘‘۔

خلاصہ کلام

اگر ہم دریا کو کوزے میں بند کر کے یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کوئی بھی براعمل ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بدلے میں بہتر بلکہ بہت بہترین عوض عنایت فرماتا ہے‘‘۔

فرمانِ الٰہی ہے: (ترجمہ): ’’جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ اسے (قیامت کو) دیکھے گا۔ اسی طرح جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ بھی دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال7تا8)

ایک عظیم مثال:

اگر آپ جیتی جاگتی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب یوسف علیہ السلام کے قصے میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی سوانح عمری کا ایک درخشاں واقعہ، عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس عورت نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو گمراہ کرنے، اپنے راستے سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس عورت نے ’’گناہ‘‘ کے تمام اسباب، ذرائع اور تقاضے پورے کیے۔ اگر گناہ کے ان ذرائع میں سے بہت کم ذرائع آج کل کسی کو میسر ہوں تو وہ گناہ کی اتھاہ گہرائیوں میں گر سکتا ہے۔ بلکہ آج کل تو لوگ بذاتِ خود تلاش و بسیار کے بعد لذتِ گناہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ذلت و رسوائی کی پستیوں میں گر کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ اور ادھر دیکھئے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو لغزش پر آمادہ کرنے کے لئے عزیز مصر کی بیوی نے کون کون سی تیاریاں کی تھیں اور ’’گناہ‘‘ میں ملوث ہونے کے قوی اسباب بھی تھے:

1 پہلا بڑا سبب ِ گناہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام مکمل جوانِ رعنا تھے۔

2 آپ علیہ السلام ابھی کنوارے تھے۔ خواہش نفس کو سرد کرنے کا کوئی بھی ذریعہ نہ تھا۔

3 علاوہ ازیں اس سرزمین مصر پر آپ بالکل اجنبی مسافر تھے۔ عام طور پر ایسے گناہ کے لئے اپنا شہر اور عزیز و اقارب کی موجودگی ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ رکاوٹ بھی نہیں تھی۔

4 مزید ستم یہ کہ آپ زرخرید غلام تھے۔ پندرہ درہم کی قلیل رقم میں آپ کو خریدا گیا تھا۔ غلام لوگ اپنی جان، دل کے مالک کب ہوتے ہیں؟

5 دعوتِ گناہ دینے والی عورت انتہائی حسین و جمیل تھی۔

6 وہ عورت جناب یوسف علیہ السلام کی ’’مالکن‘‘ بھی تھی اور ملکۂ مصر بھی تھی۔

7 اس ’’مالکن‘‘ کا شوہر بھی موجود نہ تھا۔

8 اس عورت نے اپنے حسن و رعنائی کو مزید دوآتشہ کرنے کے لئے تمام تر تیاریاں کی تھیں۔

9 ہر قسم کی رکاوٹ اور خوف کو دُور کرنے کے لئے اس نے تمام دروازوں کو بند کر دیا تھا۔

10 پیش قدمی کرنے والی اور دعوتِ گناہ دینے والی بھی خود وہ عورت ہی تھی۔

11 اُس عورت نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ملوثِ گناہ نہ ہوئے تو وہ جیل میں ڈال دے گی۔ دنیا کی نگاہوںمیں ذلیل و رسوا کردے گی۔

لیکن یہ تمام دعوت ہائے گناہ اور تمام تر حشر سامانیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے تمام دعوتوں کو مسترد کر دیا، تمام پیش قدمیاں روک دیں۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو عظیم ترین نعم البدل عطا فرمایا۔ آپ علیہ السلام سعادت و خوش بختی کی بلندیوں کو پہنچے۔ دنیا میں بادشاہت ملی، آخرت میں جنت الفردوس سے نوازے گئے۔ حالات نے کروٹ بدلی۔ جناب یوسف علیہ السلام آقا بن گئے۔ اور آپ علیہ السلام کو جیل میں ڈالنے والی ’’مالکن‘‘ غلام بن گئی۔

ہر عقل مند باشعور شخص کو اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ اور سوچنا چاہیئے کہ اس دنیا کی وقتی لذت کے بدلے کہیں وہ ہمیشہ کے انعام و اکرام سے محروم تو نہیں ہو رہا ہے۔

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے