مشابہت کا مفہوم:
لغوی اعتبار سے لفظ ’’التشبہ‘‘ مشابہت سے ماخوذ ہے اور مشابہت نام ہے مماثلت،نقل، تقلید اور پیروی کا۔ نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اختیار کی تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقل اور پیروی اختیار کر کے اس جیسا ہوگیا۔
ایسی مشابہت جس سے قرآن و سنت میں ممانعت آئی ہے۔ کفار کے عقائد و عبادات یا ان عادات و اطوار میں مشابہت جو ان کی پہچان ہیں کسی طرح جائز نہیں اسی طرح معاشرے کے غیر صالح افراد سے مشابہت بھی ناجائز ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے بدکار، فاسق و فاجر اور جہلاء وغیرہ اسی طرح وہ بدو گنوار بھی اس زمرے میں آتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا ان کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔
مشابہت کے باب میں یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چیزیں مشابہت کے ضمن میں نہیں آتیں جن کا تعلق کفار کے عقائد، عبادات یا عادات وغیرہ سے نہیں یا وہ چیزیں جو ان کی پہچان یا ان کے ساتھ خاص نہیں وہ باتیں بھی جو کسی شرعی حکم کے خلاف نہیں اور نہ ان کے کرنے سے کسی فتنہ و فساد پھیلنے کا ڈر ہے۔
کفار کی مشابہت سے کیوں منع کیا گیا ہے؟
ابتدائی طور پر ہمیں اسلام کا یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ دین کی بنیاد تسلیم و رضا اور اطاعت پر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔ اطاعت نام ہے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کا۔ اللہ کے احکام کی بجا آوری اور منع کی گئی چیزوں سے اجتناب اور آپﷺ کی مکمل اتباع و پیروی کا۔ جب یہ اصول ہم نے سمجھ لیا تو پھر ایک مسلمان کو چاہیے کہ:
٭ ہر اس بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دے جو رسول مقبولe کی طرف سے ہو۔
٭ آپﷺ کی اطاعت اور احکام کی تعمیل کرے جن میں سے سے ایک مشابہت کفار سے اجتناب کا حکم ہے۔
٭ جب ایک مسلمان تسلیم و رضا کے ساتھ مطمئن ہو جائے، اللہ تعالی کی بیان کردہ اور عطا کی ہوئی شریعت پر مکمل اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ اطاعت بجا لائے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شرعی احکام کی وجوہات، اسباب اور حکمتیں تلاش کرے۔
ہم یوںکہہ سکتے ہیں کہ کفار کی مشابہت سے روکنے کے لئے بہت سارے اسباب ہیں اور ارباب عقل و دانش اور خوش فطرت لوگوں کو ان سے اکثر کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔
٭ کفار کے تمام اعمال کی بنیاد گمراہی اور فساد پر ہے: کفار کے اعمال کے متعلق یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ ان کے اعمال آپ کو پسند آئیں یا آپ انہیں ناپسند کریں۔ وہ اعمال بظاہر فتنہ انگیز ہوں یا فساد ان کے باطن میں چھپاہوا ہو۔ ان کے اعمال کی بنیاد بہر حال گمراہی، انحراف اور فساد پر ہی ہے۔ ان کے عقائد ہوں یا عادات و عبادات عام طور اطوار ہوں یا جشن و تہوار۔ یہ سب کے سب خیر وبھلائی سے یکسر خالی ہیں۔ فرض کریں ان میں کوئی اچھی بات ہو بھی تو ان کے لئے سود مند نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس پر اجر و ثواب نہ پا سکیں گے۔ جیسا کہ فرمان ربانی ہے:
وَقَدِمْنَا إِلٰی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء ً مَّنثُوراً (الفرقان)
’’اور ہم ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے جو انہوں نے کیے پس ہم انہیں اڑتی ہوئی خاک کی مانند بنا دیں گے۔‘‘
کفار سے مشابہت:
یہ چیز اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺ کی نافرمانی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ مسلمانوںکو صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہے جس کے متعلق شدید وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراًO } (النساء)
’’جو شخص رسول معظمﷺ کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے درآں حالیکہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی ہے، تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘
٭ مشابہت اختیار کرنے والا اور جس کی مشابہت اختیار کی جارہی ہے دونوں کے مابین اسی مشابہت کی بنا پر ایک ظاہری مناسبت اور ارادت مندی پیدا ہو جاتی ہے پھر اسے قلبی میلان اور موافقت کے ساتھ ساتھ قول و عمل کی ہم آہنگی بھی جنم لیتی ہے۔ جبکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔
٭ اکثر اوقات یہی مشابہت، کفار سے وابستگی کا سامان پیدا کر کے دل میں ان کے لیے پسندیدگی کا جذبہ ابھارتی ہے اور یوں ان کا مذہب، عادات و اطوار، ان کی باطل پرستی اور شر انگیزی حتی کہ ان کی ہر بری بات بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔
اس قلبی میلان اور پسندیدگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنت مطہرہ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور وہ رشد و ہدایت جسے رسول مقبولe لے کر آئے اور جسے سلف صالحین نے اپنا منہج بنایا تحقیری، ناقدری اور بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس شخص نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی گویا ان سے موافقت کر لی اور ان کے طور اطوار اور افعال اسے بھا گئے جبکہ عام حالات میں انسان کو اپنے مخالفین کی کوئی بات یا کام بھی اچھا نہیں لگتا۔
٭ یہ مشابہت ہی ہے جو فریقین کے دل میں محبت و مودت، قلبی لگائو اور یگانگت کا سبب بنتی ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کافر کی پیروی اور نقل کرتا ہے تو وہ یقینا اپنے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے یوں ایک طرف اس کا دل غیر مسلموں کی محبت و الفت کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور دوسری جانب اس کے دل میں پرہیزگار، متقی اور شرعی احکام کے پابند مسلمانوں کے لیے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ ایک فطری بات ہے جسے ہر صاحب عقل اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ خاص طور پر جب مشابہت اختیار کرنیو الا اجنبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو تو یہ شخص جس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے یقینا اس کی عظمت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اسے محبت و الفت کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو بلکہ صرف ظاہری شکل و صورت اور عادات و اطوار تک ہی مشابہت و ہم آہنگی محدود ہو تب بھی یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ کیونکہ ظاہری شکل و صورت میں مشابہت باطنی موافقت کا سبب ضرور بنتی ہے۔ اس بات کو ہر وہ شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے جو اس قسم کی عادات و اطوار پر تھوڑا سا غور وفکر کر لے۔
مثال سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ مشابہت کرنے والوں کے درمیان واقعتا محبت و الفت اور مناسبت و موافقت پائی جاتی ہے۔ جیسے کوئی اجنبی شخص کسی دوسرے ملک میں اپنے ہم زبان اور ہم لباس کو دیکھے تو وہ ضرور اس وقت اس کے لیے اپنے دل میں محبت و الفت کے جذبات زیادہ محسوس کرے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ اسے اپنے ملک میں دیکھتا ہے۔ جب کوئی انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرا شخص اس کی نقل کر رہاہے تو اس تقلید کرنے والے کے لیے اس کے دل میں خوشگوار جذبات جنم لیتے ہیں۔یہ تو ہے عمومی صورت حال مگر اس وقت صورت کیا ہوگی جب کوئی مسلمان کسی کافر کو پسند کرنے کی بنا پر اس کی نقالی اور تقلید کر رہا ہو…؟
حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافرکی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے تحت الشعور میں رضا و رغبت اور پسندیدگی کے عوامل ہی کار فرما ہوتے ہیں۔ پھر یہی نقل و مشابہت مودت و محبت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم اکثر مغرب زدہ اور مغربیت پسند مسلمانوں میں کرتے ہیں۔
٭مشابہت سے ہمیں اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو یہ مشابہت اسے ذلت و پستی کے گڑھے میں گرادیتی ہے۔ جہاں وہ احساس کمتری کے ساتھ ساتھ شکست خوردہ بھی دکھائی دیتاہے۔ اس ذلت میں آج اکثر وہ لوگ مبتلا نظر آتے ہیں جو کفار کی تقلید اور نقالی میں لگے ہوئے ہیں۔
بعض اہم اصولوں پر ایک نظر
آئیے اب ہم بعض اہم اصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔جن کی بنا پر ہم مذموم اور ممنوعہ مشابہت کا معیار سمجھ سکیں۔
٭ رسول اللہﷺ نے اپنی پاکیزہ اور سچی ترین زبان سے پیشین گوئی فرمائی ہے جو بلاشبہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع (صحیح بخاری)
’’تم ضرور اپنے سے پہلوں کی ہو بہو اس طرح پیروی کرو گے جیسے ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک بازو دوسرے بازوں کے برابر ہوتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس امت کے کچھ گروہ کفار کی مشابہت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ حدیث پاک میں جو ’’سنن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس میں کفار کے عقائد، عبادات، احکام و عادات، طور و اطوار اور عیدیں اور تہوار سبھی شامل ہیں۔
’’الذین من قبلنا‘‘ ہم سے پہلے لوگ۔ اس سے کون مراد ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف احادیث میں وضاحت آئی ہے۔ جن کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیں تاہم ان میں سے بعض کی تفصیل قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا، ’’الذین من قبلنا‘‘ سے مراد اہل فارس اور اہل روم ہیں اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہیں یعنی یہودی اور عیسائی۔ اسی طرح ان سے مراد عمومی کفار اور مشرکین بھی بیان فرمایا۔ یہ تمام تشریحات آپس میں میں ملتی جلتی ہیں۔ اسی طرح آپﷺ کے فرامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے لوگ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہونگے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’اس امت میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی جماعت موجود رہے گی جو حق پہ جمے رہیں گے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے تائید و نصرت حاصل کرنے والے اور حمایت یافتہ لوگ ہوں گے۔ یہ بر ملا حق کا اظہار کرنے والے،نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے والے ہونگے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘
یہی جماعت ’’الفرقۃ الناجیۃ‘‘ ہے۔ یعنی کامیاب و کامران جماعت۔ ان کے کامیاب و کامران ہونے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کفار کی مشابہت سے دو ر رہیں۔ سو آپﷺ کی پیش گوئی کی کہ یہ امت پچھلی ہلاک شدہ امتوں کی پیروی کرے گی، اس سے مراد افتراق کا شکار امت کے ایسے مختلف گروہ ہیں جو اتباع سنت اختیار کرنے والی جماعت کی سیدھی راہ چھوڑ کر الگ ہو گئے۔
٭ نبی اکرمﷺ نے جہاں یہ خبر دی کہ یہ امت مشابہت کفار میں مبتلا ہو گی وہاں اس موذی مرض سے بچنے کی بھی سخت تلقین فرمائی۔ مثال کے طور پرنبی کریمﷺ نے کفار کی مشابہت سے بچنے کی جو تلقین فرمائی ہے وہ مختصر بھی ہے اور جامع بھی۔ آپﷺ نے فرمایا:من تشبہ بقوم فھو منھم (ابودائود)
’’جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
اسی طرح اس حدیث میں بھی ہے۔
لتتبعن سنن من کان قبلکم(بخاری )
’’تم اپنے سے پیش رؤں کی پیروی کرو گے۔‘‘
یہ آپﷺ نے خبردار کرنے کے لیے فرمایا کہ دیکھو مشابہت کا دور ہو گا تو تم بچ کر رہنا۔ اسی طرح اور بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’خالفوا المشرکین’’
’’مشرکین کی مخالفت کرو۔‘‘
پھر فرمایا:’’’خالفوا الیھود’’
’’یہودیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
اور فرمایا:’’خالفوا المجوس’’
’’مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
یہ سب ایسے واضح احکامات ہیں جن میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
رسول اللہﷺ نے ہمیں اس خطرہ سے پیشگی متنبہ فرما دیا تاکہ ہم اس سے بچ سکیں۔
رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی انتہائی اہم ہے کہ اس امت میں ایک جماعت حق پر کاربند رہے گی۔ جو ان سے دشمنی کریں گے یا ان کی حمایت و مدد سے ہاتھ کھینچیں گے وہ انہیں قیامت تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ مشابہت کے مسائل پر نظر ڈالتے وقت ان اصول و قواعد کو ایک ودسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر ہم ان احادیث کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے تو بعض لوگوں کو یقینا یہ وہم ہوگا کہ شاید تمام مسلمان ہی مشابہت کا شکار ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ نا ممکن ہے۔ کیونکہ یہ بات دین حنیف کی حفاظت کے منافی ہے۔ اور دین کی حفاظت اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ اسی طرح یہ چیز نبیe کے فرمان سے بھی متصادم ہے کہ آپe نے فرمایا، اس امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی۔ اگر صرف اس حدیث کو لیکر دوسری حدیث چھوڑ دیں جس میں آپ نے فرمایا کہ تم ضرور اپنے سے پہلوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، تو بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ شاید یہ امت کفار کی مشابہت سے بالکل پاک ہے۔ حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ امت وسط یعنی اہل سنت کی جماعت ہمیشہ موجود رہے گی۔ یہ لوگ سنت مطہرہ پر کار بند اور کفار کی مشابہت سے دور رہیں گے اور وہ دوسرے گروہوں جو اہل سنت کی راہ چھوڑ بیٹھے ہیں ان کا یہ افتراق و گمراہی اصل میں مشابہت کفار ہی کا شاخسانہ ہے۔ بلاشہ اس امت میں موجود جتنے گروہ اور جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں کہ جس نے سنت مطہرہ سے دوری بھی اختیار کی ہو اور وہ پچھلی امتوں کے اطوار و عادت اپنانے سے محفوظ بھی رہے ہوں۔
(جاری ہے)