اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا احترام اور اس پر عمل کرنے کی توفیق کلیۃً اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ لیکن ان اوامر ونواہی کو بتانا اور دلنشین کردینا ان برگزیدہ شعراء کے حصے میں آیا ہے جن کے حرف شیریں کی طرف اقبال نے اپنے بے مثل پیرایہ بیان میں اشارہ کیا ہے ۔

محمد بھی تیرا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا

یہ وہ عظیم شاعری ہے، جو صحف سماوی کی مانند لازوال ہوتی ہے اس لیے کہ انہی صحائف کی دی ہوئی اور انہی کی ترجمان ہوتی ، یہ شاعری مذہب کو تہذیب سے، تہذیب کو مذہب سے اور دونوں کو زندگی سے مربوط، مستحکم اور تازہ کار رکھتی ہے۔ اردو شاعری میں اقبال کا یہی مرتبہ ہے۔ عرضِ حال اور مسدّس میں حالی نے اور ارمغان حجاز اور اپنی دوسری نظموں میں جابجا اقبال نے جس سپردگی اور شیفتگی سے خاصۂ خاصانِ رسل کو پکارا ہے اور حضور’’آیۂ رحمت‘‘ میں نظر آتے ہیں، اس کو اردو شاعری میں ادب عالیہ کا درجہ حاصل ہے۔ (رشید احمد صدیقی صاحب)

(راقم /مقتبسِ مضمون ہذا)اپنے قارئین بالخصوص اساتذہ کرام، میدان عمل میں اترنے والے نوخیز طلبہ وطالبات کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتاہے کہ اردو زبان وادب اور اسی طرح علاقائی أدب وآداب کو بھی خوب پڑھیں اوراس میں رسوخ حاصل کرنے میں محنت کریں۔ ایک خطیب اور استاذ کی زبان اور اس کا بیان جس قدر سہل مگر فصیح وبلیغ ہوگا سامعین کے لیے اسی قدر کشش کا باعث ہوگا۔ اور اللہ توفیق دینے والاہے۔

مضمون ہذا مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ایک عظیم کتاب’’نقوش اقبال‘‘ سے استفادۃً پیش خدمت ہے۔ع۔ف۔س

طارق کی دُعا

(اندلس کے میدانِ جنگ میں)

یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دو نیم، ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا

سِمَٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی!

شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی!

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے!

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا

خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں!

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں!

کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں!

دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کردے

وہ بجلی کہ تھی نعرئہ ’’لاَ تَذَرْ‘‘ میں!

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے

نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے

تازہ دم اور جواں سال طارق بن زیاد جب عربی فوجوں کے ساتھ اندلس میں اترا تو اپنی فوج کے ان سفینوں کو جلا ڈالنے کا حکم دیدیا جن کے ذریعے اس کے لشکر نے دریا عبور کیا تھا ، اور یہ اس لئے کیا تھا کہ مسلم فوجوں کو پھر بھاگنے اورواپس ہونے کا خیال بھی نہ رہے ، جلانے کے بعد اس نے اپنے یادگار تاریخی خطبے میں کہا ’’أیھا الناس أین المفر، البحر من ورائکم ، والعدو أمامکم ولیس لکم واللہ إلا الصدق والصبر‘‘

’’لوگو! راہِ فرار کوئی نہیں سمندر تمہارے پیچھے اور دشمن تمہارے سامنے ہے، اب خدا کی قسم صبر وثبات، اور سچے مجاہدانہ ذوق وشوق کے سوا تمہارا کوئی ساتھی نہیں۔ ‘‘

اس شعلہ نوائی نے فوج کو دل وجان سے تیار کردیا اور اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے بازؤوں اور تلواروں پر ان کا بھروسہ پختہ ہوگیا۔

طارق نے دشمن کے مقابلے پر صف بندی کے بعد اپنی فوج کا معائنہ کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اسپینی فوج سے عددی طاقت اور فوجی قوت میں وہ بدر جہاکمتر ہے اور کسی رسد اور کمک کی بھی امید نہیں دشمن اپنے ملک میں ہے ، وہ ہر وقت اپنی طاقت بڑھا سکتاہے، لیکن اسلامی فوج غریب الدیار اور اپنے مرکز سے سیکڑوں میل دور ہے، اس لئے کسی بیرونی مدد کا سوال ہی نہیں اٹھتا، اگر چھینے ہوئے ہتھیار کچھ کام دے سکیں تو خیر ورنہ کسی کی خیر نہیں، اس روح فرساصورت حال نے طارق کے دل میں قدرتی طور پر تشویش ، اندیشے اور اضطرابی کیفیت پیدا کی اور اسے کوئی تدبیر سوچنے پر مجبور کردیا، مگر بالآخر اسے ایک ہی حیلہ سمجھ میں آیا کہ فوج کی روحانی طاقت اور ایمانی صلاحیت کو بڑھا کر وہ الٰہی مدد حاصل کی جائے جو ناقابل تسخیر اور غیر مغلوب ہے تائید غیبی پر طارق نے بھروسہ کیا اور یقین کر لیا کہ وہ اس کے ساتھ ہے کیونکہ اسے اپنے موقف کی صداقت وحقانیت پر پورا اطمینان تھا کہ یہ فوج حزب اللہ اور جنود الرحمن ہے، یہ ملک گیری ، جوع الارض کی تسکین اور اپنا اقتدار منوانے کے لئے نہیں نکلی ہے بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور حق وصداقت کو سربلند کرنے کے لئے آئی ہے، وہ اس لئے سر ہتھیلی پر لیکر نکلے ہیں، کہ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف ، انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی بندگی کی طرف، دنیا کی تنگنائے سے وسعتِ آفاق کی جانب اور مذاہب کے ظلم وستم سے بچا کر اسلام کے عدل واعتدال کی سمت راہنمائی کرے ، اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے معرکہ آراء ہونے والوں کو فتح وظفر کا وعدہ کیا ہے {وإِنَّ جُنْدَنَا لَھُمْ الْغَالِبُوْنَ}

اس موقع پر مسلمان کمانڈر نے اپنے رب سے دعا کی اور اس کی مدد کا طالب ہوا، مسلمان قائد اس قوت رسول ِمعظم e کی اتباع کررہا تھا، جنہوں نے پہلی اسلامی فوج کی قیادت کی تھی اور بدر کے میدان میں صف آرائی کے بعد خلوت عریش میں جاکر اور سجدے میں گر کر اپنے خدا سے رورو کر عرض کیا ’’اللھم إن تھلک ہذہ العصابۃ لن تعبد‘‘

’’اے اللہ ! اگر یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو پھر دنیا میںتیری عبادت نہ ہوسکے گی۔‘‘

چنانچہ طارق نے اپنے پیغمبر () اور اپنے سردار کی تقلید کرتے ہوئے ایسی دعا مانگی جسے عام طور پر قائد اور فاتح نہیں مانگا کرتے اور نہ کسی کو اس کا خیال ہی آتاہے ۔ اقبال نے اس عروس جمیل کو لباس حریر پہنا کر اور دلآدیز بنا دیا ہے، طارق نے اپنی دعا میں کہا کہ ’’اے اللہ! یہ بندے جو تیرے راستے میں جہاد کے لئے نکلے ہیں اور تیری رضا ڈھونڈتے ہیں یہ پر اسرار بھی ہیں، اور صاحب اسرار بھی ہیں، ان کی حقیقت اور ان کا مقام تیرے سوا کوئی نہیں جانتا، تو نے انہیں عالی ہمتی اور بلند پروازی سکھائی ہے، اس لئے وہ عالمی سیادت اور عالمگیر حکومت الٰہیہ سے کم پر راضی نہیں ہوں گے، یہ بطل غیور وہ ہیں، جو تیرے سوا کسی سے نہیں دبتے اور کسی کی نہیں سنتے، صحرا ودریا ان کی ٹھوکروں کے اشارے پر چلتے ہیں، اور ان کی ہیبت اور رعب ودبدبہ سے پہاڑ بھی گرد ہوجاتے ہیں، تو نے انہیں اپنی محبت کا آشنا بنا کر دو عالم سے بیگانہ بنا دیا، ذوق شہادت اور شوق جہاد کے سوا دنیا اور دنیا کی حکومت بھی ان کے لئے کوئی چیز نہیں اور محبت دل میں گھر کرنے کے بعد یہی کچھ کرتی ہے۔ یہی ایک دُھن ہے، جو انہیں اس دور دراز ملک تک لے آئی ہے، یہ لگن مومن کی آخری خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے۔

دنیا ہلاکت کے دہانے اور تباہی کے غار پر کھڑی ہے، انہیں اس میں گرنے سے عرب اپنی جان دے کر اور خون بہا کر ہی بچا سکتے ہیں، دنیا عربی خون کے لئے پیاسی ہے، اس کی تشنگی اور بیماری اسی مقدس خون سے دور ہوسکتی ہے، خیاباں وبیاباں میں لالۂ وگل اسی سرخ خون کے منتظر ہیں کہ اسے اپنا غازئہ رخسار بنائیں ہم اس سرزمین میں اسی لئے آئے ہیں کہ اپنے جسم وتن کا بیج بوئیں اور خون دل سے اس کی آبیاری کریں تاکہ انسانیت کی مرجھائی ہوئی کھیتی لہلہانے لگے اور خزاں کے طویل عہد کے بعد بہاریں لوٹ آئیں۔

یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دو نیم، ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا

سِمَٹ کر پہاڑ اِن کی سبیت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی!

شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی!

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے

قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے!

اے اللہ! تو نے صحرا نشینوں اور اونٹوں کے چرواہوں پر اپنے وہ مخصوص انعام کئے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں، تو نے انہیں نیا علم،ا پنا ایمان اور نیا طرز زندگی بخشا، تو نے انہیں آذان سحر کی دولت دی جو علم صحیح ، ایمان قوی اور ذوق سلیم سے عاری دنیا میں توحید کی کھلی دعوت ہے جولوگوں کو غفلت وجہالت کی نیند سے بیدار کرتی ہے ، عربوں نے اس کے سہارے دنیا پر چھائے ہوئے موت کے سناٹے کو توڑا اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو صبح نو کی بشارت دی، زندگی نے حرکت وحرارت کھودی تھی ، اور اس کی محرومی پر صدیاں گزر چکی تھیں، بالآخر اس نے عربوں کے سوزدروں اور جگر لخت لخت سے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا اور ایمان ومحبت کو حاصل کیا، یہ مجاہد موت کو زندگی کی انتہا اور جان کازیاں نہیں سمجھتے بلکہ اسے نئی زندگی کا فتح باب اور عیش تازہ کا سامان جانتے ہیں ۔

یار ب ! امت مومنہ کو پھر ایمانی حمیت اور بغض فی اللہ دے جس کا ظہور دعائے نوح میں ہوا تھا کہ انہوں نے دل بردانشہ ہوکر کہا تھا۔ ’’ رب لا تذر علی الأرض من الکافرین دَیَّاراً‘ تاکہ یہ فوج عالم کفر وفساد کیلئے برق صاعقہ فگن بن جائے انہیں عزم ویقین دے اور لوگوں میں انکا وہ رعب قائم فرما کہ انکی نگاہ ، سپاہ اور ان کی للکار،تلوار بن جائے۔

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا

خبر میں، نظر میں،آذان سحر میں!

طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو

وہ سوزاس نے پایا انہیں کے جگر میں!

کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو

ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں !

دل مردِ مومن میں پھر زندہ کردے

وہ بجلی کہ تھی نعرئہ ’’لاَ تَذَرْ‘‘ میں!

عزائم کو سینوں میں بیدار کردے

نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے

اس مومن ومخلص قائد کی دعا قبول ہوئی اور اسلامی فوج اپنے اس دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہوئی جو طاقت اور عددی اکثریت میں کئی گنا بڑی تھی۔ عیسائی اندلس ، اسلامی اندلس بن گیا اور مسلمانوں کی وہ پائدار حکومت قائم ہوئی جو صدیوں تک رہی اور پھر اس کا خاتمہ اسی وقت ہوا جب طارق اور اس کے ساتھیوں کی روح ان میں باقی نہیں رہی اور وہ نصب العین یاد نہیں رہا جو انہیں یہاں تک لایا تھا۔ جذبۂ ایمانی کا فقدان ، طاؤس ورباب کے مشاغل اور خانہ جنگیوں نے حکومت کے ساتھ ہی مسلمانوں کا وجود یہاں تک خطرے میں ڈال دیا کہ ایک متنفس بھی باقی نہ رہا، غافلوں اور خود فراموشوں کے ساتھ اللہ کا ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے {وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً}

 

(مأخوذ :نقوش اقبال ’’از سید ابو الحسن علی الندوی رحمہ اللہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے