تقریب رونمائی سے سینیٹرپروفیسر ساجد میر ،عمر خان علی شیرزئی، ڈاکٹر یوسف حزیم اور مولانا عبدالمالک مجاہد کا خطاب

مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ اسلامی دنیا کے عظیم رہنما اور پاکستان کے حقیقی خیر خواہ تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو تاریخ دان ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز ہوتے ہیں اور دنیا کے جغرافیائی خطوط اپنی شمشیر کی نوک سے سیدھے کرتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ شجاعت، ذہانت، راست روی اور دیانت کا مرقع ، صبح کا اجالا، چاندنی کا اجالا، ستاروں کی جگمگاہٹ، اوس کا نم اور چنبیلی کا پیراہن تھے۔ ان کی شخصیت میں رعد کی کڑک اور بادل کی گرج تھی۔

وہ حقیقی معنوں میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اس شعر کا پر تو تھے   ؎

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

شاہ عبدالعزیز بہادر اور شجاع اتنے تھے کہ صرف 20 سال کی عمر میں 58 گھڑسواروں کے ساتھ آل سعود دارالحکومت ریاض، کو فتح کرنے کے لیے کویت سے چل پڑے۔ ریاض کے جس قلعے میں آل رشید کا حاکم قیام پذیر تھا، شاہ عبدالعزیز نے اس اہم ترین قلعے کو صرف 10 جانثاروں کے ساتھ فتح کر لیا۔ قلعے کو فتح کرنے کی خبر صحرانشینوں اور دشت نوردوں میں سے جس نے بھی سنی وہ دنگ رہ گیا۔ مورخین نے شاہ عبدالعزیز کے ہاتھوں ریاض کی فتح کو ایسا اہم واقعہ قرار دیا ہے جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

شاہ عبدالعزیز میں قیادت و سیادت کی فطری اور وہبی صلاحیتیں موجود تھیں۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ ان کے آئیڈیل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انکسار و تواضع، حرب و ضرب، جہاد فی سبیل اللہ اور دعوت و تبلیغ جیسی سبھی خوبیوں سے متصف تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے جس دور میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی یہ تاریخ کا ایسا دور تھا جب دنیا کے نقشے اور جغرافیے تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ ایسے حالات میں اسلامی خطوط پر ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھنا اور پھر اسے مضبوط و مستحکم کرنا ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور مومنانہ فراست کا بیّن ثبوت ہے۔ آج سعودی عرب کے حکمران اور عوام دنیا بھر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ، مساجد و مدارس کی تعمیر اور قرآن و حدیث کے تراجم و تفاسیر کی اشاعت کے لیے جو کارِ ہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں یہ یقینا شاہ عبدالعزیز بن سعود کے عظیم الشان صدقات جاریہ ہیں۔

تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ امر حیران کن اور تعجب خیز ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے بے سرو سامانی کے عالم میں، وسائل کی عدم دستیابی اور رفقاکی قلیل تعداد کے باوجود ریاض جیسے اہم اور مشکل محاذ کو کیسے فتح کیا اور پھر انتہائی نامساعد حالات میں سعودی عرب کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر کیسے استوار کر دیا…؟

ان تمام سوالوں کے جوابات ہمیں سعودی عرب کی معروف شخصیت ڈاکٹر یوسف بن عثمان حزیم کی نئی کتاب ’’شاہ عبدالعزیز ابن سعود کی قیادت و سیادت کے 15 رہنما اصول‘‘ میں بخوبی ملتے ہیں ۔ کتاب وسنت کی اشاعت کے عالمی ادارہ ’’دارالسلام‘‘ نے یہ کتاب شائع کر کے ایک اہم فریضہ سر انجام دیا ہے۔ یہ کتاب دنیا بھر کے حکمرانوں، سیاسی و دینی رہنماؤں، جرنیلوں، پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں ، کاروباری اداروں کے ذمہ داروں اور مختلف سماجی و انسانی شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے خواہش مند لوگوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔گذشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک ہوٹل میں اس کتاب کے اُردو ترجمہ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ یہ نہایت پر وقار اور شاندار تقریب تھی جس میں پاکستانی کمیونٹی نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ ہوٹل کا خوبصورت اور وسیع ہال تنگیٔ داماں کی شکایت کر رہا تھا۔ صدارت سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر عمر خان علی شیرزئی نے کی۔ مہمان خصوصی کتاب کے مصنف ڈاکٹر یوسف بن عثمان حزیم حفظہ اللہ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینٹر پروفیسر ساجد میرحفظہ اللہ تھے۔

تقریب کا آغاز قاری ولی اللہ کی تلاوت اور محمد عمران اشرف کی حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا۔ سٹیج سیکرٹری قاری محمد اقبال عابد نے حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے خوبصورت اشعار سے بانیٔ مملکت سعودی عرب شاہ عبدالعزیز کو خراج عقیدت پیش کیا اور حاضرین و سامعین کے جذبات کو خوب گرمایا۔

بعد ازاں مرکزی جمعیت اہلحدیث بلوچستان کے امیر مولانا محمد علی ابوتراب نے عربی زبان میں شاہ عبدالعزیز اور ان کے جانشینوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ کرہ ٔارض پر مسلمانوں کی مدد کے لیے مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ آل سعود ہمیشہ اس مقصد ِقیام پر عمل پیرا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے ہمیشہ صف اول میں نظر آتا ہے۔ ملک عبدالعزیز آل سعود ایشیا کے عظیم ترین رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے نہایت نامساعد حالات میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، حجاز مقدس میں مثالی امن قائم کیا اور سعودی عرب کو اسلامی دنیا کے لیے مشعل راہ بنادیا۔انھوں نے کتاب کے مصنف ڈاکٹر یوسف بن عثمان حزیم کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ پروفیسر محمد ذوالفقار نے کتاب پر تبصرہ پیش کیا۔ انھوں نے سعودی عرب کے قیام کو تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا کہ بانی مملکت ایک عبقری اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ملک عبدالعزیز کی دعوتِ اسلام حقیقی اور سچی دعوت تھی جو مسلمانوں کی تاریخی روایات کی امین تھی۔ انھوں نے واضح کیا کہ قرون وسطیٰ میں جب اسلامی دنیا کے شہر روشنی سے منور تھے تب یورپ کے گلی کوچے گندے اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب اسلامی دنیا میں مسجد قرطبہ اور الحمرا جیسی خوبصورت اور پرشکوہ عمارات تعمیر ہو رہی تھیں۔

اب دارالسلام کے مدیر مولانا عبدالمالک مجاہد حاضرین سے مخاطب تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے ان اشعار سے کیا   ؎

جس کو دنیا میں لٹایا تھا رسول اللہ ﷺ نے

ہے اسی گنجِ سعادت کا امیں ابن سعود

اس کے قدموں پر چلے گی ساری دنیا ایک روز

ہے محمد کا غلامِ کمتریں ابن سعود

اپنے مولا سے کرا لیتا ہے نذر اپنی قبول

کعبہ کی دہلیز پر رکھ کر جبیں ابن سعود

مولانا عبدالمالک مجاہد نے اپنے خطاب میں کہا: شاہ عبدالعزیز حقیقی معنوں میں سر زمین عرب کا ایسا شاہین تھے جن کی قیادت نے عرب کے بدوؤں کو اقوام عالم میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کیااور منتشر و متحارب قبائل کو متحد و متفق کر کے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ شاہ عبدالعزیز اسلامی دنیا کے حقیقی خیر خواہ، عظیم رہنما اور پاکستان کے سچے دوست تھے۔ انھوں نے اپنے دور میں پاک سعودی تعلقات کی بنیاد رکھی۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بعد میں آنے والے سعودی حکمرانوں نے پاک سعودی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔ سعودی عرب کی موجودہ قیادت بھی پاکستان سے بے حد محبت کرتی ہے۔ مولانا عبدالمالک مجاہد نے کتاب کے مصنف ڈاکٹر یوسف بن عثمان حزیم کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ موصوف پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں ۔جب پاکستان کی بات ہو ان کا چہرہ نہال ہو جاتا ہے اور خوشی سے جگمگا اٹھتا ہے۔ انھوں نے کہا ڈاکٹر یوسف حزیم تجزیہ و استدلال کی قوت سے مالامال ہیں۔ ان کی شاندار کتاب کی اشاعت ہمارے ادارے دارالسلام کے لیے ایک اعزازہے۔ مدیر دارالسلام نے خادم الحرمین کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی اور پاک سعودی تعلقات کو مضبوط بنانے پر خادم الحرمین اور ان کے رفقا کا شکریہ ادا کیا۔

سامعین سے مخاطب ہونے کے لیے سینیٹر پروفیسر ساجد میر بھی سٹیج پر رونق افروز تھے۔ وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر پاکستان سے تشریف لائے تھے۔انھوں نے کہا: آج جب سیاست و قیادت کا لفظ بدنام ہو چکا ہے ایسے میں ہمیں شاہ عبدالعزیز کی قیادت اور سیاست کے ان رہنما اصولوں کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے جن کا تذکرہ ڈاکٹر یوسف نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی سیاست و قیادت کے اصولوں میں جو چیز نمایاں تھی وہ قرآن پاک اور سیرت محمدی کی پیروی ہے۔ شاہ عبدالعزیزنے نبی کریمe کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہایت قابل، ذہین اور بہترین ساتھیوں کا انتخاب کیا جن کو ساتھ لے کر وہ کامیابی اور کامرانی کی اعلیٰ منازل تک پہنچے۔ انھوں نے کہا: شاہ عبدالعزیز کی شخصیت میں اسلامی قائد اور رہنما کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ ایک مسلمان حکمران کے اعلیٰ اوصاف تدبر، حلم، عدل و انصاف، نظم و ضبط اور نیک دلی و دریادلی جیسی صفات سے متصف تھے۔ انھوں نے شاہ عبد العزیز کی قوت فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت اور بروقت درست فیصلے کرتے تھے۔ قوتِ فیصلہ کی غیر معمولی خوبی کی بنا پر کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ پروفیسر ساجد میر نے واضح کیا کہ افراد سے خاندان بنتے ہیں اور خاندان سے قبائل تشکیل پاتے ہیں۔ اگر قبائل کو اچھا قائد مل جائے تو ان کی قسمت جاگ اٹھتی ہے۔ اس اعتبار سے عرب قبائل خوش قسمت ہیں کہ انھیں شاہ عبدالعزیز جیسا عظیم قائد اور عظیم مدبر ملا۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کو زمین کے کسی خطے کا والی بناتا ہے تو وہ پہلا کام اقامت صلوٰۃ اور ادائیگی زکوٰۃ کا کرتا ہے، یعنی اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔

شاہ عبدالعزیز قرآن کے اس تصور قیادت پر پورے اترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے مملکت کی بنیاد رکھی تو قرآن مجید کو مملکت کا دستور قرار دیا اور قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق وہاں مثالی نظم و نسق قائم کیا ۔

پروفیسر ساجد میر کے بعد اب کتاب کے مصنف ڈاکٹر یوسف بن عثمان حزیم سامعین سے مخاطب تھے۔ خطاب کے ترجمہ کی سعادت مولانا عبد المالک مجاہد کے حصے میں آئی۔ صاحب کتاب نے اپنے خطاب میں ان وجوہات کا احاطہ بڑے خوبصورت پیرائے میں کیا جو کتاب کی تصنیف کا سبب بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلامی دنیا قیادت کے بحران اور بے شمار مسائل کا شکارہے۔ ان حالات میں اس جیسی کتاب کی اشد ضرورت تھی۔ میرے لیے اس کتاب کی تصنیف ایک اعزاز ہے۔ مصنف نے پاک سعودی تعلقات پر بھی خوب روشنی ڈالی اور دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کا تذکرہ بڑے خوبصورت و جامع الفاظ میں پیش کیا۔

اس خوبصورت تقریب کے آخری مقرر سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر عمر خان علی شیرزئی تھے۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کتاب کی اشاعت کو دارالسلام کی خوبصورت کاوش قرار دیتے ہوئے اظہار مسرت کیا اور کہا کہ اس کاوش سے پاکستانیوں کو شاہ عبدالعزیز کی شخصیت سے روشناس ہونے میں بڑی مدد ملے گی۔ شاہ عبدالعزیز صرف عربوں کے جرأتمند قائد اور سپاہی ہی نہ تھے بلکہ انھوں نے حلم، بردباری اور تدبر کو اپناتے ہوئے عالم اسلام کی قیادت بھی کی۔ عالمی سطح پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اوراقوام عالم میں ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ سعودی عرب نے تیل کی دولت نہ صرف سعودی عوام بلکہ ہمیشہ اقوام عالم کے مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کی۔ موجودہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ، ولی عہدشہزادہ سلطان بن عبدالعزیز اور شہزادہ امیر نایف بن عبدالعزیز جس طرح دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاًپاکستان کے مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں وہ نہایت قابل تعریف ہے۔ پاکستان سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ 2010ء میں پاکستان سے 4000 ڈاکٹر سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں تعینات کیے گئے ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ 1500 سو سے زائد اساتذہ تعلیم کے میدان میں یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی کارکن محنت مزدوری کر کے اپنے لیے روزی کما رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے زر مبادلہ کا ایک اچھا خاصا حصہ سعودی عرب سے جاتا ہے۔ ہر مشکل وقت میں سعودی حکومت نے پاکستان کی مدد کی۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والے منشیات کی اسمگلنگ کے اسکینڈل میں جن پاکستانیوں کو پھنسایا گیا تھا انھیں باعزت طور پر پاکستان روانہ کر کے سعودی حکمرانوں نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اور رہنما سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ سلطان کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مصنف نے جس خوبصورتی کے ساتھ شاہ عبدالعزیز کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے وہ قابل تعریف ہے، میں مدیر دارالسلام مولانا عبد المالک مجاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے پاکستان کے دیرینہ دوست شاہ عبدالعزیز کی زندگی پر کتاب شائع کر کے پاکستانی عوام کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں۔ تقریب کے آخر میں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز کی صحت یابی کے لیے دعا کی گئی۔ دارالسلام کے مدیر کی جانب سے مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس طرح مہمانوں کی شاندار ضیافت سے یہ باوقار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے