دہشت گردی ، انتہا پسندی اور خواتین کے حقوق وغیرہ کے حوالے سے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود مغرب میں اسلام کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام کو خواتین دشمن مذہب قرار دیے جانے والے سارے شوروغوغا کے باوجود مغرب کی عورتیں مردوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر اسلام قبول کررہی ہیں۔ عالم ذرائع ابلاغ میں وقتا فوقتا اس بارے میں خبریں اور تجزیے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تجزیاتی رپورٹ کچھ عرصہ پہلے ممتاز امریکی جریدے، کرسچین سائنس مانیٹر‘ کے ایک ایڈیشن میں شامل کی گئی، جس کا عنوان تھا ”Why European Women Are Turning To Islam” (یورپی عورتیں اسلام کیوں قبول کر رہی ہیں؟) پیٹر فورڈ کی مرتب کردہ اس رپورٹ کے مطابق’’ مسلم اور غیر مسلم تحقیق کار دونوں کہتے ہیں کہ 9/11 کے بعد اسلام کے بارے میں ابھرنے والے تجسس کی بناء پر اسلام کا پیغام زیادہ سے زیادہ یورپی باشندوں کو اپیل کرنے کا باعث بن گیاہے۔

متعین اعداد وشمار تو دست یاب نہیں ، مگر یورپ میں مسلمانوں کی آبادی پر نظر رکھنے والے مبصرین کا اندازہ ہے کہ ہر سال کئی مرد اور خواتین اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ محققین نشان دہی کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے والوں میں سے بمشکل چند تشدد کا راستہ اپناتے ہیں۔ مؤقر امریکی جریدے کے اخذ کردہ یہ نتائج اس امر کا کھلا اعلان اور اعتراف کررہے ہیں کہ اسلام کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا قطعی بددیانتی ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جریدے کے مطابق ’’اگرچہ مردوں کے مقابلے میں قبول اسلام کا رجحان عورتوں میں زیادہ ہے ، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عام خیال کے برعکس اس کا سبب مسلمان مردوں سے شادی نہیں اور بہت کم ہی عورتیں اس بنا پر اسلام قبول کر تی ہیں۔ قبول اسلام میں شادی کے کردار کے حوالے سے برمنگھم یونیورسٹی کی معلمہ ڈاکٹر حیفہ جواد کا کہنا ہے کہ ’’ماضی میں اگرچہ ایک عمومی سبب تھا، مگر اب زیادہ عورتیں اپنے یقین کی بنیاد پر مسلمان ہورہی ہیں۔‘‘

مسلمان ہونے والی ہزاروں یورپی خواتین میں سے ایک فرانس کی مس میری فیلوٹ بھی ہے، وہ تین سال پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہوئی تھی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس کی محبت اس کے فیصلے کا سبب بنی ہے؟ تو اس نے ہنستے ہوئے کہا :’’ جب میں نے اپنے دفتر کے ساتھیوں کو بتایا کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں تو ان کا پہلاسوال یہی تھا کہ کیا تمہارا کوئی مسلمان بوائے فرینڈ ہے؟ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ فیصلہ میں نے اپنی آزاد مرضی سے کیا ہے۔‘‘

مس فیلوٹ کے بقول اسلام کا راستہ انہوں نے اس لیے اپنایا ہے ، کیوں کہ ’’اسلام زیادہ سادہ اور مکمل ہے ، زیادہ صاف اور واضح ہے ، اس لیے زیادہ آسان بھی ہے‘‘ اس نو عمر فرانسیسی نو مسلمہ نے اپنے قبولِ اسلام کے اسباب کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا :’’مجھے زندگی بسر کے لیے ایک لائحہ عمل کی تلاش تھی، ہر روز انسان کو ایسے ضوابط اور رویوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جن کے مطابق وہ زندگی گزار سکے، جب کہ عیسائیت مجھے ایسے ریفرنس پوائنٹ نہیں دے سکی۔‘‘

میری فیلوٹ کا کہناہے:’’اسلام میرے لیے محنت، برداشت اور امن کا پیغام ہے۔‘‘ پیٹر فورڈ محققین کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ دلائل اور اسباب جو اسلام قبول کرنے والی بیش تر یورپی خواتین کے اندازِ فکر کی عکاسی کرتے ہیں، کے مطابق عورتوں کی ایک بڑی تعداد مغربی معاشرے کے غیر اخلاقی، غیر یقینی اور غیر ذمے دارانہ رویوں کے خلاف رد عمل کا اظہار کر رہی ہے۔ باہمی وابستگی وتعلق، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کے معاملات اور مسائل میں شرکت کا جو شعور اسلام دیتاہے وہ مغرب کی عورتوں کے دل جیت رہاہے۔

ڈچ عورتوں کی قبول اسلام پر ریسرچ کرنے والی کیرین وین نیو فکرک کے نزدیک’’مغربی عورتوں میں اسلام کی مقبولیت کا بڑا سبب مردوں اور عورتوں کے الگ الگ دائرئہ کار اور حقوق وفرائض کا وہ واضح تصور جو اسلامی تعلیمات فراہم کرتی ہیں۔ اسلام میں خاندان اور عورت کے مادرانہ کردار کا بڑا مقام ہے ۔یہاں عورتیں جنسی کھلونا نہیں ہوتیں‘‘ یہ رائے یقینا بڑی اہمیت کی حامل اور انتہائی قابل توجہ ہے کیوں کہ اسلام عورتوں کو ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے جو عزت واحترام دیتاہے، مغربی معاشروں میں اس کا کوئی تصورہی نہیں ہے۔ اس جنس زدہ تہذیب میں عورتوں کے حقوق اور آزادیِ نسواں کے تمام دعوؤں کے باوجود عورت محض مردوں کا کھلوناہے۔ مادہ پرست معاشروں میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ جب روحانی زندگی اور آخرت کی کامیابی کا اعلیٰ نصب العین انسان کے پیش نظر ہی نہ رہے اور اس کی ساری زندگی کی تگ ودو کا مقصد صرف حصولِ لذت ہوتو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نکل ہی نہیں سکتا۔ مسلم اور غیر مسلم معاشرے کے رویوں کے اس فرق کو واضح کرتے ہوئے نیو جرسی میں رہنے والی لاطینی امریکن جیسمین پائی نیٹ کہتی ہیں:’’ مسلمان مرد آپ کو ’’ہائے ڈارلنگ! تم کیسی ہو؟‘‘ کے الفاظ سے مخاطب نہیں کرتے ، بلکہ عام طور پر ’’ہیلو سسٹر‘‘ کہتے ہیں، وہ آپ کو جنسی کھلونا سمجھ کر نہیں گھورتے۔‘‘

کرسچین سائنس مانیٹر کی ایک رپورٹ جو گذشتہ دنوں’’لاطینی امریکی اسلام میں اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، اسی حوالے سے ہے۔ کرسٹائن آمیز یوگی کی مرتب کردہ اس رپورٹ کا بنیادی موضوع ہی یہ ہے کہ مغرب میں قبول اسلام کے روز افزوں رجحان کا ایک اہم سبب وہ احترام ہے، جو اسلام عورت کو عطا کرتاہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تقریباً چالیس ہزار لاطینی امریکی نو مسلم ہیں، جبکہ ہر سال تقریباً بیس ہزار امریکی مرد وخواتین اسلام قبول کرتے ہیں، جن میں کم وبیش چھ فی صد لاطینی امریکی ہوتے ہیں۔ نو مسلموں میں سے ایک بڑی تعداد کا کہناہے کہ ان کے قبول اسلام میں اس یقین واعتماد نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیاجاتاہے۔ تنقید کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ نقاب کی پابندی عورتوں کی ملکیت ہونے کی علامت محسوس ہوتی ہے، لیکن لاطینی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک خوشگوار حقیقت ہے کہ جب وہ راستے میں ہوتی ہیں تو کوئی انہیں دیکھ کر سیٹی نہیں بجاتا۔ جینی یانیز جو ہزاروں لاطینی نو مسلم خواتین میں شامل ہیں، کہتی ہیں کہ ’’اسلامی لباس کے نتیجے میں لوگ فطری طور پر مجھے ایک مذہبی شخصیت کا اعزاز دیتے اور احترام کرتے ہیں۔‘‘ تاہم مغرب کی تہذیب اورمعاشرے سے بغاوت کا یہ عمل اپنے ساتھ مشکلات بھی لاتاہے۔

حلقۂ بگوش اسلام ہونے والی خواتین کو اپنے والدین اور عزیزوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے۔ نو مسلم خواتین کے نزدیک اس کاسبب اسلام میں خواتین کے مقام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیاں ہیں۔ زیر نظر رپورٹ کے مطابق مسلمان ہوجانے والی کئی لاطینی امریکی خواتین نے بتایا کہ پہلے وہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان گھسی پٹی باتوں سے واقف تھیں۔ جو مغرب میں عام ہیں، لیکن جب مسلمانوں سے ان کا میل جول ہوا تو انہیں پتا چلا کہ اسلامی معاشرے میں عورت کا احترام اس لیے کیا جاتاہے کہ وہ ماں ہے، وہ بچوںکی پرورش ونگہداشت کرتی ہے اور اصول وضوابط پر عمل کرتی ہے۔

مغرب کے جدید ترین معاشرے کی عورتیں جن اسباب سے اسلام کو اپنے لیے نعمت اور رحمت سمجھ رہی ہیں کتنی بے عقلی کی بات ہے کہ مسلمان ملکو ں میں مغرب کے ذہنی غلام اسلام کی ان ہی تعلیمات کو عورتوں کی پسماندگی کا باعث قرار دیتے ہیں اور مغرب کی احمقانہ نقالی کرتے ہوئے عورتوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لے آنے، انہیں نیم عریاں لباس پہنا دینے، ان کے فیشن شو منعقد کرانے اور انہیں گلی کوچوں کی زینت بنا دینے ہی کو ترقی کی معراج باور کراتے ہیں۔ ٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے