قارئین!انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار عظیم المرتبت اولوالعزم، باکمال اور عبقری شخصیات کا ذکر ملتا ہے جن کے افکار وخیالات اور فلسفوں نے دنیا کو متاثر کیا ان میں سے بعض تو وہ ہیں جن کی عبقریت وحی الہی سے ماخوذ ومستفاد تھی اور بعض کی قابلیتیں اور صلاحیتیں ذاتی تجربات، روز مرہ کے مشاہدات، ذوق سلیم اور فکر رسا کا نتیجہ۔ دانائے سبل، فخر دوعالم ، دعائے خلیل، نوید مسیحا، رسول رحمت، فاضل مکتب حرا سید الاولین والآخرین محمدﷺ کی ذات گرامی بھی انہیں باکمال اور عظیم شخصیات میں سے ایک اکمل وعظیم ترین شخصیت تھی، جس کی جامعیت و کاملیت اور عالمگیریت کا یہ عالم ہے کہ اس نے دیگر اعاظم رجال کے برخلاف کسی مخصوص زمانہ، خطہ ارض اور گوشہ زندگی کے بجائے کائنات کے ہرذرے، ہرگوشے اور ہر شعبہ حیات کو متاثر کیا،کیا اپنے کیا پرائے سب اس سے فیض یاب ہوئے اور اس کا یہ فیضان تاقیامت جاری رہے گا۔ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان، عالمگیر شہرت اور قبولیت دوام کی بڑی دلیل نہیں ہے کہ آج تک دنیا نے آپ کی ذات بابرکات کو جس قدر قابل اعتناء ولائق اہتمام سمجھا اور جس خوبی اور حوصلہ و نیاز مندی کے ساتھ سیرت طیبہ کے آسن وکاکل کو سنوارا، اس اعزاز کا عشر عشیر بھی کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ کیا نبوت محمدی کا یہ اعجاز نہیں ہے کہ آپ کی زبان کا ایک ایک حرف، حرکات وسکنات کی ایک ایک ادا، اور آپ کی جلوت وخلوت کے ایک ایک خط وخال کا عکس آج بھی موجود ہے اور آپ کی حیات طیبہ کی ایک ایک کیفیت کتب سیرت کے اوراق میںبتفصیل محفوظ ومامون ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے۔لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف وعزت ہے۔
وجہ ظاہر ہے کہ دنیا اس جلیل القدر داعی ومصلح کی حالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کی روشن تعلیمات نے مختصر مدت میں دنیا کے اندر حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا اور جو اپنے پیچھے ایسی مثالی امت چھوڑ گئے جس کے شاندار کارناموں کے نقوش جریدہ عالم پہ تاابد ثبت رہیںگے۔
مطالعہ سیرت اسلامی نقطہ نظر:
جہاں تک مطالعہ سیرت کے اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے تو یہ عام نقط ہائے نظر سے بالکل جداگانہ ہے۔ کیوں کہ ایک مسلمان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا مطالعہ محض علمی مشغلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک دینی ضرورت اورشرعی فریضہ ہے۔ اس حقیقت کو درج ذیل نکات کے ذریعہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
مطالعہ سیرت افضل ترین عمل ہے:
علمائے محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیرت نبوی اسلام کا دائمی معجزہ، اللہ تعالی کی حکمت بالغہ اور قرآن کریم کی عملی تفسیر وتوضیح ہے اور یہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی میں معنی وحقیقتاًکوئی فرق نہیں پایا جاتا بلکہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ قرآن اگر متن ہے تو سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے تو سیرت اس کی عملی تطبیق، قرآن صحف ومابین الدفتین اور اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے تو سیرت اس زندہ وجاوید پیکر جمیل کا نام ہے جس نے مکے کی گلیوںمیں چلتے پھرتے اور توحید کے نغمے سنائے اور بعد از ہجرت روئے زمین پر سلطنت مدینہ کی بنیاد رکھی جس نے اہل دنیا کو ایک منفرد طرز حکمرانی سے روشناس کروایا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں آپ کسی بھی نوع کی آیت کو لے لیجیے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ سیرت اور مقام نبوت کا عکس ضرور نظر آئے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بایں الفاظ بیان کیاتھا کہ’’ کان خلقہ القرآن‘‘ (مسند احمد) اور قرآن کے بارے میں ارشاد ہے: لایخلق علی کثرۃ الرد ولاتنقضی عجائبہ (ترمذی، عن علی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی فضل القرآن) معلوم یہ ہوا کہ جس طرح قرآن کے عجائبات (علوم ومعارف) کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں اسی طرح سیرت طیبہ علی صاحبہا افضل الصلوٰۃ والتسلیم کے عجائبات بھی ختم نہیں ہوں گے۔سیرت نبی مکرمﷺ تاصبح قیامت اپنے شاخ در شاخ عملی اسووں سے دنیائے انسانیت کی تسکین وتکمیل کرتی رہے گی۔ ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت تو افضل ترین عمل قرار پائے لیکن سیرت طیبہ کے مطالعہ کو احب الاعمال الی اللہ کا مقام بلند حاصل نہ ہو؟
مطالعہ سیرت ایمان واقتداء کا تقاضہ ہے:
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو ایمان بالرسالت کے ساتھ ساتھ جابجا یہ حکم دیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی کریں۔ (فآمنوا باللہ ورسولہ النبی الا می الذی یؤمن باللہ وکلماتہ واتبعوہ لعلکم تہتدون)(اعراف:)’’سواللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ۔‘‘
ان کی اطاعت کریں: اطیعو اللہ واطیعو الرسول (مائدہ) ان کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں اور نہ ان کے فیصلے کو چیلنج کریں کیوں کہ یہ غارت گری ایمان اور بدبختی کا سودا ہے۔جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم وساء ت مصیرا(النساء)
’’اور جوشخص باوجوراہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسولﷺ کی خلاف ورزی کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
ایک مسلمان کے اندر قبول ورضا کی یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور کردار سے بخوبی واقف ہوگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان امورسے کماحقہ واقفیت مطالعہ سیرت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
سیرت کا مطالعہ قرآن فہمی میں معاون ہے:
سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن کریم اسلامی شریعت کا بنیادی ماخذ اور اولین مصدر ہے اور اسی میں انسانی سعادت وکامرانی اور دائمی فیروز مندی کا راز مضمر ہے۔ دنیا کا ہر انسان اور خصوصا مسلمان اس بات کا ضرورت مند ہے کہ وہ قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھے اور اس کتاب سعادت کے راز ہائے سربستہ سے واقفیت حاصل کرے جو بلاشبہ سیرت نبوی کے مطالعہ کے بعد ہی ممکن ہے کیوں کہ علمائے اصول جانتے ہیں کہ قرآن فہمی کے باب میں اسباب نزول اور ناسخ ومنسوخ کا بڑا دخل ہے اور اسباب نزول اور ناسخ ومنسوخ کی معرفت سیرت نبوی سے ہی وابستہ ہے۔ نیز یہ کہ قرآن کریم اپنے بلیغ اسلوب اور نادر انداز بیان کے سبب نہایت مختصر ہے۔ جس کے عموم کی تخصیص، اطلاق کی تقیید اور اجمال کی تفصیل سیرت نبوی ہی کرتی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم کو نہ سیرت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے احکام ونواہی اور اسرار ورموز سے واقفیت حاصل ہوسکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اعلی اقدار حیات مکمل جامعیت کے ساتھ پائی جاتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جملہ اقدار حیات اس خوبی کے ساتھ پائی جاتی ہیں کہ اس کا مطالعہ کرنے والا کبھی بھی اورکسی بھی مقام پر تاریکی کا نام ونشان نہیں پاتا۔ آپ کی مثالی شخصیت ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے مانند ہے۔ آپ کا شخصی کردار، رحمت ورافت، محنت وشفقت، خشیت وانابت، شجاعت وبسالت، صداقت وعدالت، جود وسخا، فراست ومتانت، ایثار وقربانی، احساس ذمہ داری،حلم و تواضع، صبر وتوکل، نیز گھریلو وجماعتی زندگی میں دوست، ساتھی، شفیق سردار، مساکین کے سرپرست، اسی طرح قومی وملی زندگی میں عدل وانصاف، فوجوں کی کمانڈری، انتظامات حکومت، رعایا پروری، سیاسی سوجھ بوجھ، دوستوں کی دلداری، دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک جیسے اوصاف عالیہ کی اتنی بہترین اور متنوع تصویریں جس خوبی کے ساتھ کتب سیرت میں دکھائی دیتی ہیں وہ کسی اورعبقری وقت کے حوالے سے اس جامعیت کے ساتھ دکھائی نہیں دیتیں اور کمال یہ ہے کہ اجتماعی وانفرادی زندگی کے سارے تابندہ نقوش ایک ہی مکمل ومقدس انسان کے اندر پائے جاتے ہیں۔ صدق من قال
حسن یوسف، دم عیسی ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں کے لیے ’’اسوئہ حسنہ ‘‘ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ وہ ایک مثالی شخصیت تھی اور یہ حسن مثالیت وکمال معتبریت انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کو محیط تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ا سوہ حسنہ کو نمونہ بناکر اس کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں {لقد کان لکم فی رسول اللہ ا سوۃ حسنۃ ’’یقینا رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب)
اس حکم کی رو سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس حقیقت کا پتہ لگائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کونسا ایسا نمونہ پیش کیا تھا جس کو قرآن نے ا سوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ اور ا سوہ حسنہ کو معلوم کرنے بہترین طریقہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ سیرت نبوی کا مطالعہ کیا جائے۔ جب ہم سیرت کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت صادق وامین بھی تھے اور داعی ومربی بھی، صابر وشاکر بھی تھے اور صاحب شوکت و عظمت بھی۔ اچھے دوست اور مخلص ساتھی بھی تھے اور کامیاب باپ اور شوہر بھی۔ عابد وزاہد اور شب زندہ دار بھی تھے اور عظیم مجاہد وسپہ سالار بھی۔بے مثال منصف وعادل بھی تھے اور اوالوالعزم قائد ورہنما بھی۔ میدان سیاست کے شہسوار اور مدبر بھی تھے اور شوشل ورکر اور عوامی لیڈر بھی۔ صلوات اللہ علیہ کثیراً
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے عروج وزوال کا قانون وابستہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعہ سے قاری کو اللہ تعالی کے قانون عروج وزوال سے واقفیت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ رسول کی اطاعت سے حیات جاوداں نصیب ہوتی ہے (یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم)(انفال:) ’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔‘‘
اور رسول کی نافرمانی سے قومیں ہلا ک ہوجاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے رسول کی پکار پر لبیک کہا اور آپ کی سنت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایاوہ عزت وسربلندی سے ہمکنار ہوئیں اور جن لوگوں نے آپ کے پیغام کو ٹھکرادیا وہ ہلاک وبرباد ہوگئے اور ان کا نام ونشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
سیرت نبوی شک واضطراب کا واحد علاج ہے
کیوں کہ علم کا حقیقی سرچشمہ اور مبدء خیرات وبرکات دو ہی ہیں۔ ایک کتاب اللہ ہے اور دوسری پیارے رسول کی سنت وسیرت، جس کو قرآن کریم نے حکمت سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی علوم وافکار ہیں وہ انسان کو حیرانی وپریشانی اور شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے والے ہیں۔ سیرت نبوی ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس سے دل کی ویرانی آباد ہوسکتی ہے، جو روح کی تمام بیماریاں دور کر سکتی ہے اورجس کے اندر انسانیت کے تمام دکھ درد کا درماں موجود ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ aنیشیخ عماد الدین واسطی aکوصیت کرتے ہوئے فرمایا:
ساری چیز کو چھوڑ کر سیرت نبویہ کا مطالعہ اور تدبر کو اپنے اوپر لازم ٹھہرالو۔ یقین اور ایمان کی تمام بیماریوں کے لیے یہی نسخہ شفا ہے۔
اس طرح شیخ عماد الدین واسطی نے جب سیرت نبوی کو حرز جان بنالیا تو ان کی روح ووجدان کی ساری ویرانیاں دور ہوگئیں اور ان کا دل شک واضطراب سے پاک ہوگیا۔ (دیکھئے شذرات الذہب)
مطالعہ سیرت عام انسانی نقطہ نظر سے
قارئین ! یہ تو مطالعہ سیرت کی اہمیت وافادیت کا خالص اسلامی وایمانی پہلو تھا۔ آئیے ذرا ہم مطالعہ سیرت کے عام انسانی گوشوں پر غور کریں کہ انسانی نقطہ نظر سے عصر حاضر میں سیرت نبوی کے مطالعہ کی کیا اہمیت وافادیت ہے، حقیقت یہ ہے کہ جہاں مطالعہ سیرت مسلمانوں کے لیے ایمانی فریضہ ہے وہاں عام انسانوں کے لیے بھی ایک انسانی فریضہ کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کا ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کادشمن ہے، کیوں کہ نوع انسانی میں مرد کامل اور انسانیت کا سب سے بڑا بہی خواہ اگر کوئی ہے تو وہ ذات رسالت مآب فداہ ابی وامی کی ہے۔
یہ سائنس اورٹکنالوجی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں دنیا نے کافی ترقی کی ہے، ہرروز نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں اورایجادات سامنے آرہی ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی برق رفتاری نے دنیا کوایک گاو ں بنادیا ہے،مادیت کاسیلاب ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا، جدھر دیکھو سامان عیش ونشاط کی فراوانی ہے ، شہرتوشہر اب دیہات بھی رفتہ رفتہ جدید سہولیات سے آراستہ ہورہے ہیں، سوائے ایک انسانیت کی بستی کے ،کہ جسے اجڑے ہوئے طویل عرصہ بیت چکا ہے ۔ اخوت وبھائی چارے کاچمن ویران پڑا ہے۔ حقوق انسانی بازیچہ اطفال بن کر رہ گئے ہیں۔ہرطرف دہشت و سراسیمگی چھائی ہوئی ہے۔ کس وقت اور کہاں کوئی دھماکہ ہوجائے ، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دہشت گردی ایک لاعلاج مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی دنیا اس طرح کے ناگفتہ دور سے آج سے چودہ سوسال قبل بھی گزر چکی ہے، جب انسانیت زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ خوف ودہشت اور معاشی استحصال کا دور دورہ تھا، امن وقانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی تھی، اعلیٰ انسانی قدروں کا جنازہ اٹھ چکا تھا۔ ایسے پرآشوب دور میں مرغ زار عرب میںمسیحائے انسانیت، رحمۃ للعالمین، احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کی بعثت ہوئی ،جہاں سے عروج انسانیت کی تاریخ شروع ہوئی۔
متوازن اور باغ وبہار شخصیت:
سید الاولین والآخرین محمد ﷺکی حیات طیبہ کا ایک درخشاں وتابناک پہلو توازن واعتدال پسندی ہے ۔ آپ نے عبادات ہو یامعاملات ہرباب میںہمیشہ متوازن اور آسان راہ اختیار فرمائی۔ آپ ﷺکے شوق عبادت کی کیفیت یہ تھی کہ رات میںلمبے قیام کی وجہ سے پائے مبارک متورم ہوجاتے ۔ زبان اقدس ہرگھڑی یادالٰہی میں مشغول رہتی۔ روزے کا بھی اہتمام تھا، فقر وفاقہ کے تکلیف دہ مراحل سے بھی گزرے ،لیکن اس سب کے باوجود آپ کورہبانیت کبھی پسند نہیں تھی۔ آپ نے شادیاں بھی کیں،اہل دنیا سے تعلقات بھی استوار کیے، ابتدائی ایام میں خود بھی تجارت سے شغل فرمایااورصحابہ کو بھی تجارت اور کسب حلال کی تلقین کی، آپ نے فرمایا:ہاتھ کے کام سے بہتر انسان کی کوئی روزی نہیں، اللہ کے نبی سیدنا داو د علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(بخاری) اگر آپﷺکی مبارک محفل میںپر سوز نصیحتوں کے سبب آنسوو ں اور سسکیوں کا سماں بندھ جاتا تو آپ کی شگفتہ مزاجی اورخوش طبعی سے مجلس رشک گلزار بھی بن جاتی۔ ایک مرتبہ ایک ضعیفہ خدمت رسالت میں حاضر ہوئی کہ نبی مکرم ﷺ اس کے لیے جنت کی دعا کردیں ارشاد ہوا، بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ ضعیفہ کو بہت ملال ہوا اور روتی ہوئی واپس چلی آئی، آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں ضرورجائیں گی مگر جوان ہوکر۔(ترمذی)
امن کا پیغامبر :
رسول اللہﷺآغاز شباب ہی سے امن پسند، صلح جو اور حق کے طرف دار تھے۔ معروف سیرت نگار ابن ہشام کا بیان ہے کہ مکہ میں قیام امن اورمظلوم کی دادرسی وحمایت کے لیے حلف الفضول کے نام سے ایک کمیٹی بنی۔ رسول اللہﷺاس میں شریک تھے۔ حالانکہ آپ کی عمر اس وقت پندرہ سال سے زائد نہ تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر (جہاں حلف الفضول قائم ہوئی تھی) ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر دور اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے بلایاجاتا تومیں لبیک کہتا۔(ابن ہشام)
رحمت عالم ﷺکی نگاہ میں انسانی جان کی اس قدر اہمیت تھی کہ آپ نے قتل ناحق کو گناہ کبیرہ قرار دیا۔(بخاری ومسلم) حتی کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل بتایا(المائدہ) خطبہ حجۃ الوداع میںانسانی جان کو محترم قرار دیتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا۔ لوگو! تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے ۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور اس شہر کی حرمت۔(ابن ہشام)
عدل وانصاف کا قیام :
عربوں میں بڑائی کا معیار خاندان، قبیلہ اور رنگ ونسل تھا۔ عموماً انہی بنیادوں پر فیصلے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی دنیا میں عدل وانصاف کا یہی معیار ہے۔ ملک ومذہب کی بنیاد پر فیصلے ہورہے ہیں جس کی ملکی وعالمی تناظر میں ہزاروں مثالیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تمام امتیازات کو مٹاکر ایک ایسے نظام عدل کی بنیادڈالی جس کے سایے میںہرشخص کو انصاف ملا اور کسی کاحسب ونسب امارت وغربت اور قومیت ووطنیت نفاذ عدل میںمانع نہیں ہوسکی۔ ایک مرتبہ قبیلہ مخزوم کی فاطمہ نامی عورت چوری کے جرم میںماخوذ ہوئی۔ عدالت نبوی سے اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا فیصلہ صادر ہوا۔ یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزری، انہوں نے سیدنااسامہ بن زیدt، جن سے رسول اللہﷺبہت زیادہ محبت کرتے تھے،سے سفارش کرائی کہ ایک ذی حیثیت عورت کی اتنی بڑی توہین نہ کی جائے ۔ رسول اللہﷺ سیدنا اسامہ t پر کافی غصہ ہوئے اور فرمایا کہ کہ کیاتم اللہ کی مقرر کی ہوئی ایک حد کو نافذ کرنے سے روکنے کے لیے سفارش کرتے ہو۔پھر آپ نے مجمع سے یہ خطاب کیا۔ لوگو!تم سے پہلے کی امتوں کی گمراہی کا سبب یہ تھا کہ جب سماج کا معزز آدمی چوری کرتا تواسے چھوڑدیا جاتا اورجب کم زور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کردی جاتی۔اللہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہr بھی چوری کرے تو میں اس کابھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔(بخاری)
رفاہی خدمات میں پیش پیش :
ہادی اعظم ﷺ کی سیرت پاک کا ایک نمایاں پہلو خدمت خلق بھی ہے۔آپ ﷺصرف داعی انقلاب اور مربی ہی نہیں تھے بلکہ آپ کی حیثیت سماجی کارکن اور رفاہی ادارے کی بھی تھی۔جس سے کیا مسلم کیا غیر مسلم،سب متمتع ہوتے تھے۔ کسی کی پریشانی کو دیکھ کر آپ بے چین ہوجاتے اور آگے بڑھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے۔ سیدنا جابرt کا بیان ہے کہ مدینے میں ایک یہودی رہتا تھا۔جس سے میں قرض لیا کرتا تھا۔ ایک سال اتفاق سے کھجوریں نہیں پکیں اوریہودی کاقرضہ ادا نہ ہوسکا۔ اس پر پورا سال بیت گیا بہارآئی تویہودی نے تقاضا شروع کردیا اب کے بھی پھل بہت کم آیا۔ میں نے آئندہ فصل کی مہلت مانگی اس نے انکار کردیا ۔میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعات بیان کیے توآپ چند صحابہ کے ساتھ اس یہودی کے گھرتشریف لے گئے اوراسے کئی بار سمجھا یا کہ مہلت دے دو۔ مگروہ کسی طرح راضی نہیںہوا۔ بالآخر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جابرtکے باغ میں درختوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور ان سے کہا کہ کھجوریں توڑنی شروع کرو۔ آپ کی دعا کی برکت سے اتنی کھجوریں نکلیں کہ یہودی کا قرض ادا کرکے بھی بچ رہیں۔(بخاری)
معاشی اصلاحات:
عصر حاضر میں ناجائز معاشی منافع خوری اور استحصال کی ایک نئی شکل گلوبلائزیشن ہے۔ اس نظام نے دوسری اور تیسری دنیا کے انسانوں کو اپنے خونیں پنجوں میں اس طرح دبوچ رکھا ہے کہ وہ اس سے الگ ہو کر آزادی معاش کے لیے سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دن بدن غریب ہوتے جارہے ہیں۔ جو کہ سراسر ظلم ہے۔ اس کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشی نظام پیش کیا ہے وہ نہایت معتدل اور عادلانہ ہے۔ آپ کی نگاہ میں مال ودولت اور سرماے کا حصول بُری چیز نہیں ہے۔ (الید العلیا خیر من الید السفلی)(بخاری) ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘{ و ان لیس للانسان لا ما سعی}’’انسان کے لئے وہ ہی ہے جو وہ کوشش کرتاہے‘‘۔ لیکن سرمایہ داری فی الحقیقت بری ہے۔ اسی طرح انسانوں کی آزادی معاش کو سلب کرلینا بھی مذموم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گلوبلائزیشن سے بڑھ کر عالمی برادری کا تصور پیش کیا لیکن ہر انسان کو معاشی طور پر آزاد رکھا۔ جس کی وجہ سے عالم اسلام پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی ناروا اصطلاحات اور اس کی خطرناکیوں سے محفوظ رہا۔ اور ہر طرف خوشی اور خوش حالی ہی خوش حالی نظر آنے لگی مگر وائے افسوس جب ہم نے سیرت طیبہ کی اس منورہدایات سے منہ موڑ لیا تو دنیا میں باعث عبرت بن گئے ۔اللھم ارحم علی حالنا
حرف آخر:
مختصر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بے مثال نمونہ زندگی اوراعلی تعلیمات کا اثریہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے انسانیت کی کایاپلٹ ہوگئی اورمحض تیئس سالہ کوششوں کے نتیجے میں جزیرہ عرب جاہلوں گنواروں، توہم پرستوں، غارت گروں، دخترکشوں اوردوسروں کے حقوق مارنے والوں کا مجمع نہیں رہ گیا بلکہ وہ ایک مہذب، تعلیم یافتہ، پاکیزہ اخلاق ، روشن خیال اورامن پسندصلح جو لوگوں اورحقوق انسانی کے پاسبانوں کا معاشرہ بن گیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کوعام کیا جائے ۔ اگرمعاصر دنیا واقعی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی وروحانی ترقی چاہتی ہے اوروہ پرامن اور خوش حال زندگی کی خواہا ں ہے تواسے اسوہ رسولﷺکوعملی طور پر اپنانا ہوگا یہی ربیع الاول کا حقیقی پیغام ہے۔ کیوںکہ موجودہ مشکلات کاحل سیرت نبوی میں موجود ہے ۔ سیرت نبوی ہی قیصریت وکسرویت کی طرح امریکیت کا زور توڑسکتی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے من گھڑت فلسفے کو نیست ونابود کرسکتی ہے، انسانیت کی کشت ویراں کو بہار حقیقی سے آشنا کرسکتی ہے۔ بلاشبہ سیرت نبوی کی معنویت آج بھی مسلم اور آئندہ زمانے میں بھی برقرار رہے گی۔ بقول باری تعالی{ورفعنا لک ذکرک }