Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

میلاد النبیﷺ پر ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا(حقیقت کیا ہے؟)

Written by عبد الوکیل ناصر 10 Feb,2011
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

میلاد النبی ﷺ کے موقع پر عید کا سامان کرنے والے اور جلوس نکالنے والے کہتے ہیں کہ ابولہب جیسے لوگوں نے میلاد النبی ﷺ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لونڈی آزاد کی تھی اور اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں ہر پیر کو کمی کی جاتی ہے اور اسے پیاس بجھانے کیلئے پانی بھی دیا جاتاہے اور یہ بات صحیح بخاری شریف میں بیان ہوئی ہے ۔

جبکہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے، جس کی تفصیل بیان کردینا مقصود ہے تاکہ ’’لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحی من حی عن بینۃ‘‘کا مصداق ہوجائے۔ مگر تفصیل سے قبل اس روایت کو بیان کردینا ضروری ہے جس سے استدلال کرتے ہوئے ’’عید میلاد النبی ﷺ ‘‘ پر جلوس وجشن کا اہتمام ہوتاہے اور یہ بھی حقیقت آشکار کرنا ضروری ہے کہ بخاری میں آنے والی یہ روایت کس انداز سے روایت کی گئی ہے۔ کیا یہ وہی ’’صحیح‘‘ ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا؟

روایت یہ ہے (طوالت سے بچنے کیلئے صرف ترجمہ پیش خدمت ہے)

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنھا بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری بہن ابو سفیان کی لڑکی سے نکاح کر لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اسے پسند کرو گی(کہ تمہاری بہن ہی تمہاری سوکن بنے؟) (وہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ ہاں میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پھر پسند نہ کرتی، اگر میرے ساتھ میری بہن بھلائی میں شریک ہوتو میں کیونکر نہ چاہوں گی(غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا:وہ میرے لیئے حلال نہیںہے۔‘‘ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ! لوگ کہتے ہیں آپ ابو سلمہ کی بیٹی جو ام سلمہ کے بطن سے ہے ، نکاح کرنیوالے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی( یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) تب بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی، وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کو اور ابو سلمہ کو (یعنی اس لڑکی کے باپ کو) ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو ایسا مت کرو اپنی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کیلئے نہ کہو۔

عروہ رحمہ اللہ(راوی) نے کہا کہ ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی، ابو لہب نے اسے آزاد کردیا تھا پھر اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا تھا، جب ابو لہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے اس کو خواب میں دیکھا( برے حال میں) تو پوچھا کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی پلایا گیا تھا بمقدار اس کے (یعنی اس نے اشارہ کیا اس گڑھے کی طرف جو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہوتاہے) اور یہ ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے تھا۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح)

یہ حدیث کہیں مختصر اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے ، رقم احادیث اس طرح ہے ۔ 5106،5107،5133 اور 5372۔

اب پچھلے دعاویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث پر غور کریں!

٭ کیا اس میں یہ ہے کہ ابو لہب نے لونڈی (ثوبیہ) کو میلاد النبی ﷺ کے دن آزاد کیا تھا اور اس کی وجہ میلاد النبی کی خوشی تھی؟

٭ کیا اس میں یہ ہے کہ اس نے پیر کے دن لونڈی (ثوبیہ) کو آزاد کیا تھا؟

٭ کیا اس میں یہ ہے کہ جو پانی اسے پلایا گیا تھا اس سے اس کے عذاب میں تخفیف (کمی) آئی تھی؟

٭ کیا اس میں یہ ہے کہ ہر سوموار (پیر) کو پانی پلایا جاتاہے؟

یقینا اس میں سے کسی سوال کا جواب بھی ’’ہاں‘‘ میں نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ہمیں ماننا ہوگا کہ اقارب اور اجانب کی زبان زد عام دعوے بلا دلیل ہیں ۔صحیح بخاری شریف میں ان کے دعوؤں کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

اجانب کو تو جانے دیں حیرت تو ان’’اقارب‘‘ پر ہے جو بلا دلیل بات نہ کرنے نہ سننے اور نہ ہی ماننے کے دعوے دار ہیں۔ وہ بھی ابو لہب اور اس کی لونڈی کے بارے میں ایسا ہی کچھ بیان کرتے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

’’تم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے‘‘

احباب علم ودانش کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ذمہ دار اسٹیجوں سے آج غیر ذمہ دارانہ بیانات بڑھتے جارہے ہیں؟

اب آئیے اس روایت کی حقیقت کی طرف، مگر اس سے قبل یہ سمجھ لیجئے کہ ائمہ محدثین ودیگر اہل علم وفضل نے صحیح بخاری شریف کی مرفوع متصل روایتوں کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے ، نہ کہ معلقات ومرسلات اور منقطع روایات کو ’کما لا یخفی علی اھل العلم والمعرقۃ‘

یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ اس کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے ۔ قال عروۃ …کے الفاظ پر غور کیجئے۔

٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ’’مرسل أرسلہ عروۃ ولم یذکر من حدثہ بہ‘ ‘ (فتح الباری)

یعنی یہ خبر مرسل ہے عروہ رحمہ اللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور یہ بیان نہیں کیا کہ ان سے کس نے اس(خبر) کو بیان کیاہے۔

٭ شیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : یہ خبر مرسل ہے اور مرسل سے نہ احتجاج کیا جاتاہے اور نہ ہی اس سے کوئی عقیدہ وعبادت ثابت ہوتی ہے۔ (الانصاف فیما قیل فی المولد من الغلو والاجحاف)

٭ ڈاکٹر طاہر القادری بھی لکھتے ہیں : یہ روایت اگرچہ مرسل ہے لیکن مقبول ہے۔ (میلاد النبی ص/۲۹۳)

یادرہے ’’فقہ حنفی‘‘ میں رد وقبول کے پیمانے بھی جناب کی طرح’’شوخ‘ ‘ ہوسکتے ہیں وہاں آیات کو اپنے اصحاب کے نظرئیے میں دیکھ کر منسوخ قرار دیدیاجاتاہے۔ (اصول کرخی ۔دیکھیے)

تنبیہ: یہ جو مرسل کی بات ہو رہی ہے تو اس سے مراد صرف وہ ٹکڑا ہے جو ’’قال عروہ‘‘ سے شروع ہوکر آخر تک چلاجاتاہے، پوری روایت نہیں کہ وہ تو متصل ہی ہے جیسا کہ صحیح بخای میں دیکھا جاسکتاہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ خبر متصل بھی ہوتی تو دلیل نہی بن سکتی تھی کیونکہ یہ ایک خواب کا معاملہ ہے۔ یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھ رکھی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں ’’ائمہ نے تصریح کی ہے کہ خواب کے ذریعہ شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے۔‘‘

چند سطورکے بعد لکھتے ہیں :’’اگر سویا ہواآدمی خواب میں دیکھے کہ نبی علیہ السلام اسے کسی چیز کا حکم دے رہے ہیں تو کیا اس کی تعمیل ہے یا یہ ضروری ہے کہ اسے ظاہری شرع پر پیش کیاجائے؟ فرماتے ہیں ، دوسری بات قابل اعتماد ہے۔ (فتح الباری)

غور کیجئے کہ حالت خواب میں دیا جانے والا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ظاہر شرع پر پیش کیاجائے گا۔

یادرہے کہ خواب کا حجت شرعیہ نہ ہونا خود مکتب بریلی کے ہاں بھی مسلمہ ہے ۔ (دیکھئے میلاد النبی ﷺ از سعید احمد کاظمی)

آج بہت سے اہل بدعت نے اپنے معتقدات کی دلیل خوابوں کو ہی بنا رکھا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کی خدمت میں ایک خواب عرض کیاجاتاہے۔ جو سنداً تو صحیح ثابت ہے ۔دیکھتے ہیں یہ خواب ان کے ہاں کیا حیثیت رکھتاہے۔

مشہور ثقہ امام قاضی ابو جعفراحمد بن اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان التنوخی البغدادی رحمہ اللہ(متوفی 318ھ) نے کہا کہ: میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میںنے دیکھا کہ آپ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن دار قطنی حدیث 1112)

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :وسندہ صحیح ، اس کی سند صحیح ہے)

(مؤطا امام مالک بروایۃ ابن القاسم تحت حدیث 121 صفحہ:209)

اب ظاہر ہے کہ حنفی کہلوانے والے حضرات اس سچے اور نیک آدمی کے خواب کو کبھی بھی صحیح باورنہیں کریں گے تو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کسی امتی کا خواب حجت نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لینے کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس ’’مرسل خبر ‘‘ میں ظاہری الفاظ سے یہ معنی لیا جاسکتاہے کہ ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے عمل سے قبل تھا مگر یہ بات اہل سیر کی بیان کردہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابو لہب کے لونڈی آزاد کرنے میں اور نبی علیہ السلام کے دودھ پلانے کی مدت میں ایک طویل عرصہ حائل ہے۔ (یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میںلکھی ہے )

اس بات کی وضاحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الإصابۃ‘‘ میں اس طرح کی ہے :

’’ابن سعد کہتے ہیں کہ ہمیں واقدی نے ایک سے زیادہ اہل علم سے یہ خبر نقل کی ہے کہ وہ کہتے تھے۔ ثوبیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضعہ تھیں اور آپ ﷺ مکے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ صلہ رحمی فرمایا کرتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ثوبیہ کا اکرام کیا کرتی تھیں تاحال کہ وہ (ابھی) ابو لہب کی ملکیت ہی میں تھیں، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ابو لہب سے کہا کہ اسے(یعنی ثوبیہ کو) مجھے بیچ دو تو ابو لہب نے اس بات سے انکار کردیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے (مدینہ) ہجرت فرمائی (اس وقت) ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا… (الإصابۃ جزء ۴)

طبقات ابن سعد کا مطالعہ کرنے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کی تائید ہوتی ہے۔

حافظ ابن عبد البر اور امام ابن جوزی رحمہما اللہ کے کلام سے اس قول( یعنی اہل سیر کے قول) کی تائید ہوتی ہے۔

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب فی أسماء الأصحاب‘‘ میں لکھا ہے:

’’ثوبیہ نے رسول کریم ﷺ ،حمزہ بن عبدالمطلب اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کو دودھ پلایا تھا ۔ نبی اکرم ﷺ ثوبیہ کا اکرام فرماتے۔ ثوبیہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس آیا جایا کرتی تھیں جبکہ نبی علیہ السلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما چکے تھے۔سیدہ خدیجہ بھی ان کا اکرام واحترام ملحوظ خاطر رکھتیں۔ جب نبی مکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو (اس وقت ) ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا… (ملخصاً الاستیعاب)

امام المحب الطبری نے ’’ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ‘‘ میں اس کلام کوحافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ’’الوفا فی احوال المصطفی‘‘ میں لکھاہے : سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا (چند دن) پھر حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ثوبیہ نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا کرتی تھیں آپ ﷺ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ثوبیہ کا اکرام فرماتے اور وہ (ثوبیہ) اس وقت(بھی) ابو لہب کی لونڈی ہی تھیں ، پھر (اس کے بعد) ابو لہب نے انہیں آزاد کردیا۔

ان تمام دلائل وبراہین سے بالکل واضح ہے کہ ابولہب کا لونڈی کو میلاد النبی ﷺ کے دن (خوشی میں) آزاد کرنا ثابت ہی نہیں بلکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد ہجرت مدینہ سے بھی بعد میں کسی وقت ابولہب نے بغیر کسی خوشی اور غمی کے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔

اس کے برعکس اگر کسی نے اس (ثوبیہ) کی آزادی کو ولادت نبی مکرم ﷺ کے دن کے ساتھ خاص مانا ہے اسے شدید مغالطہ لگا ہے، یا پھر انہوں نے دیدہ دانستہ ’’حقیقت‘‘ کو ’’پردہ‘‘ میں چھپا دیا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ازدواجی زندگی کا آغاز آپ ﷺ کی عمر کے پچیس سال مکمل ہونے کے بعد ہوا۔ اور اس وقت تک ثوبیہ ابو لہب کی ملکیت میں تھیں، آزاد نہ تھیں۔ کما مر آنفاً

چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اس ’’مرسل خبر‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ کافر کو اس کا عمل صالح (مرنے کے بعد) نفع دیتاہے۔ (یعنی کبھی کبھی) ۔ مگر یہ بات تو نصوص قرآنیہ کے بالکل خلاف ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {وقدمنا إلی ما عملو من عمل فجعلناہ ھباء منثوراً} (فرقان:۲۳)

’’ اور جو عمل ان(کافروں نے) کئے ہوںگے، ہم ان کی طرف متوجہ ہوںگے تو ان کو اڑتی ہوئی خاک بنادیں گے۔‘‘

اور ابو لہب کے مال کا اس کو نفع نہ دینا تو قرآن سے ہی ثابت ہے۔ {تبت یدا أبی لھب وتب ، ما أغنی عنہ مالہ وما کسب} (اللہب:۱۔۲)

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ وبرباد ہوجائے نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ ہی اس کا عمل۔‘‘

قرآن مجید نے صراحت کردی ہے کہ ابو لہب کو اس کے مال وعمل نے کوئی نفع نہیں پہنچایا لہذا اس صراحت کو’’مرسل خبر عورہ‘‘ سے ہرگزہرگز رد نہیں کیا جاسکتا۔ اور تمام اہل علم جانتے ہیں کہ ’’لونڈی‘‘ بھی مال کی ایک شکل ہے اگر خوشی میں آزاد بھی کی ہوتی تو اسے مرنے کے بعد نفع نہ دیتی اور آزاد کرنا(اس موقع خاص پر) تو ثابت بھی نہیں ہے۔ جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

قرآن کے ظاہر سے ٹکرا کر صحیح روایات کو رد کردینے والے کس طرح مرسل خبر کو حجت قرار دیتے ہیں۔

پانچویں بات یہ ہے کہ ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کا یہ عمل ایک طبعی خوشی کے نتیجے میں تھا کہ آپﷺ اس کے بھتیجے تھے نہ کہ اس نے آپﷺ کی نبوت ورسالت کو تسلیم کرتے ہوئے اس خوشی کا اظہار کیا تھا۔ فقط ذات رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ اور بات رسول ﷺ سے انکار وعداوت ہی ابو لہب کی تباہی کا سبب بنی تھی۔ اور آج جو لوگ اس خبر مرسل کو دلیل وجواز بنا کر فقط ایک مخصوص دن عید وجشن کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی فقط ذات رسول ﷺ سے محبت کے دعوے دار ہیں؟

ویسے ان کا عمل بھی اسی کی عکاسی وغمازی کرتاہے، کیونکہ بات رسول ﷺ میں تو اس طرح کے جشن وجلوس اور خود ساختہ ’’تیسری عید‘‘ پر کوئی دلیل نہیں ملتی؟

اور اس جلوس وجشن کا ’’عید شرعی ‘‘ نہ ہونا تو خود طاہر القادری صاحب ’’شوخ الاسلام‘‘ کو بھی تسلیم ہے۔ (دیکھئے : میلاد النبیﷺ از طاہر القادری )

’’طاہر القادری صاحب‘‘ کا اسے ’’عید فرحت‘‘ قرار دینا بھی ’’خود ساختہ‘‘ شریعت سازی ہے کیونکہ اسلام میں جو دو عیدیں بتائی گئی ہیں، وہ ’’عید نفرت وعداوت‘‘ یا ’’عید رنج والم‘‘ نہیں ہیں بلکہ جہاں وہ عبادت کا درجہ رکھتی ہیں وہاں وہ فرحت وسرور کا باعث بھی ہیں۔

چھٹی بات یہ ہے کہ جہاں تک ابو لہب کے عذاب میں تخفیف وکمی آجانے کا معاملہ ہے ۔تو یہ بات کہیں ہے ہی نہیں ، حتی کہ ’’ اس خبر مرسل ‘‘ میں بھی نہیں جسے لوگ دلیل کا درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس ’’روایت کے الفاظ‘‘ یہ ہیں کہ ’’غیرانی سقیت…‘‘ ’’مجھے (فقط) پانی پلایا گیا ہے۔‘‘

نہ ہر سوموار کا ذکر ہے اور نہ ہی اس پانی کی بدولت عذاب میں کمی کا کوئی ذکر ؟

یہ تخفیف ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ابو لہب تو سیصلی ناراً ذات لھب کے بمصداق نار جہنم میں ہے اور وہاں تو پانی بھی ایسا ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ {وأن یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی الوجوہ ، بئس الشراب }(الکہف۲۹)

اور اگر وہ (جہنم میں) فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پأنی سے ان کی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا بہت برا یہ (پینے کا) پانی ہوگا۔

اور مزید فرمایا گیا ’’تسقیٰ من عین آنیۃ‘‘ (الغاشیۃ)

’’ ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا۔ ‘‘

{وسقوا مائً حمیماً} (محمد)

’’ اوروہ کھولتا ہوا پانی پلائے جائیں گے۔‘‘

اس سے واضح ہواکہ ’’خبر مرسل‘‘ سے لفظ ’’پانی‘‘ کو لیکر عذاب کی تخفیف کا دعویٰ نصوص قرآنی سے متصادم ہے لہذا سراسر باطل ہے۔ اور پھر مرسل میں تو’’تخفیف‘‘ کا بیان ہی نہیں۔ فافہم

’’جہنم‘‘ میں ’’جنت‘‘ کا پانی نہیںملے گا جوکہ پیاس بجھانے والا اور سیراب کرنے والا ہوگا۔

’’اور دوزخی بہشتیوں سے (گڑگڑاکر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جورزق اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے (کچھ ہمیں بھی دو)۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے بہشت کا پانی اوررزق کافروں پر حرام کردیاہے۔ (سورۃ الأعراف۵۰)

قارئین کرام !یہ اس واقعہ کی حقیقت تھی جو بفضل اللہ تعالیٰ بیان کردی ہے کسی بھی ’’واعظ‘‘ وخطیب سے مذکورہ واقعہ کوسنیں اور اس تفصیل کے برعکس ہوتو ضرور بالضرور اسے اس کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ جزاکم اللہ خیراً

تفصیل کیلئے دیکھئے : (رسائل فی حکم الاحتفال بالمولد النبوی ۔ جزء الثانی طبع رئاسۃ ادارۃ البحوث العلمیۃ والإفتاء الریاض ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)
Read 2289 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in فروری

Related items

  • قیام نصف شعبان )قسط نمبر 3)
    in جون
  • تحریک سیدین شہیدین کامیابی ،ناکامی۔۔۔۔ ایک جائزہ
    in جون
  • واقعہ کربلا
    in جنوری
  • پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث
    in جولائی
  • ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا شہزادی یا کنیز
    in مارچ
More in this category: « رسالت محمدی ﷺ اور مغرب کا معاندانہ رویہ مطالعہ سیرت ضرورت و اہمیت »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2011