Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

یہ لکھنے کا نہیں عمل کا وقت ہے

Written by ڈاکٹر اکمل وحید 10 Feb,2011
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

میرے محسن اور دوست ڈاکٹر مختیار علی نے مجھ سے سیرت پاک پر لکھنے کی فرمائش کی تو میں مشکل میں پڑگیا۔ ایک طرف تو ان کے اصرار پر انکار کی ہمت نہیں کررہا تھا جب کہ دوسری طرف اپنی اوقات سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ دراصل یہ موضوع ہی کچھ ایسا ہے کہ جس پر کچھ لکھنے کا دل کرتا بھی ہے اور جس پر کچھ لکھنے سے دل ڈرتا بھی ہے، سمجھ میںنہیںآتا کہ سیرت سرور عالم کو چند سطروں میں سمیٹنے کیلئے اس بحرِ بے کراں کے کن قطروں کو چنا جائے۔ یوں لکھنا لکھانا معمولی بات نہ سہی، معمول کی بات سہی مگر جب موضوع سرور عالم ﷺ کی مقدس ذات ہواور لکھنے والا مجھ سا بے اوقات ہوتو پھر بات نہیں بنتی، اسی لیے سوچتاہوں کہ اس مقدس موضوع پر لکھنے والا تو میرے سوا کوئی اور ہی ہونا چاہیے۔ مگر جب سوچتاہوںکہ وہ کون ہوتو سوچ کی لہریں کنارے سے دھارے تک جاتی ہیں اور دھارے سے کنارے تک آتی ہیں مگر کسی کا سراغ نہیں لاپاتیں، کسی ایسے سراغ جو اپنے گریبان میںجھانک کر دیکھے اور پھر کہے ’’ہاں! میں اس موضوع پر لکھ سکتاہوں ‘ سو میں نے سوچا کہ جب ایسا ہی ہے تو کیوں نہ میں ہی اس موضوع پر کچھ لکھنے کی جسارت کروں۔

یہی کچھ سوچ کر لکھنے بیٹھا تو دل نے کہا کہ اس موضوع پر لکھنے کے لیے تو نہایت پر سکون ماحول کی ضرورت ہے مگر ضمیر نے ٹوکا، ’’نادان! اس سے پہلے تو مجھے غارِحرا سے لیکر فتح مکہ تک کے پر آشوب دور سے گزرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔ دل نے کہا، سیرت پر لکھنے کے لیے تو ایک ائیر کنڈیشنڈ لائبریری چاہیے جہاں ہر طرف سیرت کے موضوع پر ہر قسم کی کتابیں ترتیب سے لگی ہوں، ضمیر نے پھر ٹوکا ’’نادان! اس سے پہلے مجھے پندرہ سو سال پرانے عرب کے ریگزاروں کی چلچلاتی دھوپ کی ضرورت ہے جہاں قدم قدم پر مخالفتوں کے طوفان، مصائب کے انبار اور مظالم کے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہوں۔‘‘ دل نے کہا ’’عقیدت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیرت پاک پر لکھنے کے لیے بہت اعلیٰ معیار کا ، نہایت نفیس کاغذ ہونا چاہیے ‘‘۔ضمیر نے پھر ٹوکا، ’’نادان! سیرت پاک ﷺ اعلیٰ معیار کے کاغذوں پر نہیں،ڈیڑھ ہزار صدی قبل والے مکہ کے بے آب وگیاہ صحراؤں، طائف کی وادیوں ،شعب ابی طالب کی گھاٹیوں اور مدینے کی تنگ وتاریک گلیوں کی پتھریلی زمین پر رقم کی جاتی ہے۔‘‘ دل نے پھر کہا ’’سیرت پاک ﷺ پر لکھنے کے لیے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کے تمام خوبصورت اور جامع الفاظ قطار درقطار، ہاتھ باندھے، باادب کھڑے ہوں‘‘ مگر ضمیر نے پھر ٹوکا اورکہا ’’ارے نادان! لفظوں کی اس قطار سے پہلے تو اس ذات اقدس پر طائف کی گلیوں میں برسنے والی گالیوں کی بوچھاڑ اور پتھروں کی بارش کا تجربہ درکاہے۔‘‘

دل بولا کہ ’’سیرت پاک ﷺ پر لکھنے کے لیے تو نہایت قیمتی قلم اور بہت اعلیٰ معیار کی سیاہی ہونی چاہیے ، ضمیر نے کہا ، ’’ارے نادان ! اس کے لیے تو سفرِ ہجرت میں مسام ہائے اقدس سے بہنے والا پسینہ اور طائف کی وادی میں جسم اطہر سے بہہ کر جوتوں کی ایڑیوں میںجمع ہوجانے والا مقدس خون چاہیے ‘‘۔

میں انہی سوچوں میں غلطاں کچھ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ بھوک نے آستایا، ادھر نہایت خوشبو دار، مرغن اور پر تکلف کھانے کی خوشبو نے اشتہا کو اور بھی انگیز کردیا۔ میں ہاتھ کھانے کی طرف بڑھایا ہی چاہتاتھا کہ ضمیر نے پر ٹوکا ، کہا’’سیرت پاک پر لکھنا چاہتا ہے تو پہلے اٹھ اور پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودنے میں مصروف ہوجا‘‘۔ میں نے ایک نظر کھانے پر ڈالی، ضمیر کو دھتکار اور شکم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، ساتھ ہی دل نے تسلی دی کہ ’’کھانا کھائے بغیر آخر سیرت پاک ﷺ پر مضمون کیسے لکھو گے؟ ‘‘ دلیل بڑی وزنی تھی سو میں نے دستر خوان پرچنے ہوئے کھانوں میں سے فرائیڈ مٹن کی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی اور دل کو تسلی دی کہ سرکار عالم ﷺ کو بکری کا گوشت بہت پسند تھا۔ کھانے کے بعد ٹھنڈی میٹھی رس ملائی اور کھیر کھاتے ہوئے بھی اپنے ضمیر کو تر کی بہ ترکی جواب دیاکہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا بھی تو سنت ہے۔ پھر پورے اطمینان قلب کے ساتھ الیکٹرک واٹر کولر سے منرل واٹر کا گلاس بھرتے وقت یاد آیا کہ پانی تین سانسوں میں پینا سنت ہے، سو یہ سنت بھی پوری کرڈالی، اسیر دل نے زبردست شاباش دی اور کہا ’’ اتنی ساری سنتوں پر عمل کرنے کے بعد تو تم سیرت پاک پر مضمون لکھنے کے حق دار ہوہی چکے ہو۔‘‘ ابھی دل کی اس شاباشی سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہوپایا تھا کہ سویا ہوا ضمیر کمبخت پھر اٹھ بیٹھا اور بولا ’’نادان! کھانے میں سنتیں تلاش کرتاہے؟ سنت تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانے کا نام ہے‘‘، شکر ہے کہ مجھ سے پہلے دل نے خود ہی جواب دے دیا’’آخر ہر سنت پر عمل کرنا تو ممکن نہیں ہے، میں نے سکھ کا سانس لیا اور نئے عزم کے ساتھ لکھنے کا ارادہ کیا مگر فوراً ہی دل کی یہ خوش کن آواز سنائی دی کہ ’’کھانے کے بعد قیلولہ کرنا بھی تو سنت ہے۔‘‘ سو میں ایک اور سنت پر عمل کرنے کے لیے لیٹ گیا۔ شام کو بیدار ہوا تو بیگم اور بچے تفریح کے موڈ میں تھے جب کہ مجھے سیرت پاک کے موضوع پر مضمون لکھنا تھا جو سرورِ عالم سے محبت کا عین تقاضاتھا۔ میں عجیب الجھن میں پڑگیا۔ ایک بار پھر اس مشکل گھڑی میں دل کی بڑی کامیاب تاویل نے مجھے اس الجھن سے نکالا اور یاددلایا کہ ’’سرکارِ دو عالم ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے بے حد محبت کیا کرتے تھے، کبھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ لگاتے تو کبھی سیدنا حسن وسیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو پیٹھ پر بٹھاکر کھلایا کرتے تھے‘‘ سو بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا بھی تو سنت ہے، بس میری مشکل آسان ہوچکی تھی، فوراً اٹھا اپنی نئی ائیرکنڈیشنڈ کر ولا نکالی جو میں نے پچھلے مہینے اپنی بیگم کی فرمائش پر خریدی تھی، اور بیوی بچوں کو لیکر ایک اور سنت پر عمل کرنے کی خوش کن تاویل کے ساتھ سی ویو کی طرف روانہ ہوگیا ساحلِ سمندر پہنچ کر ابھی چوکڑی جمائی ہی تھی کہ مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا،میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہاں نماز کہاں اور کیسے پڑھی جائے کہ بیگم نے یہ کہہ کر میری مشکل آسان کردی کہ مغرب کو عشاء کے ساتھ ہی ملا کر پڑھ لینا، ساتھ ہی دل نے بھی تسلی دی کہ آنحضور ﷺ نے بھی تو غزوئہ خندق کے موقع پر نماز تاخیر سے پڑھی تھی۔ ضمیر کچھ بولنا چاہتا تھا مگر ضمیر کی آواز سننے کا میرے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ ایک نشے میں چورنو جوان میری بے پردہ بیوی کو چھیڑ بیٹھا تھا۔ میں انتہائی غصے کے عالم میں اس پر جھپٹا مگر اس کے مزید چار دوستوں پر نظر پڑی تو میرا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور میں نے سوچا کہ میں ایک اعتدال پسند اور مہذب معاشرے کا روشن خیال فردہوں، مجھے ایسا غیر مہذبانہ رد عمل زیب نہیں دیتا اور یوںبھی کسی فتنے سے بچنے کے لیے مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا اور غصے کو پی جانا بھی تو عین سنت ہے سو میں نے عین اس سنت پر عمل کیا اور غصے کو پی گیا اور یوں میری بروقت عقل مندی سے سارا معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

رات کا کھانا ہم نے ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں کھایا جہاں میں کئی بار سوچنے کے باوجود کھانے کے آداب تک میں سنت کا کوئی طریقہ اختیار نہیں کرسکا۔ اسی مخلوط ماحول میں کرسیوں پر براجمان ہو کر، نیپکن باندھ کر، میز پر سجے بیش قیمت برتنوں میں چھری کانٹوں کی مددسے کھانا کھاتے ہوئے کئی بار میرے ضمیر نے ٹانگ اڑانے کی ناکام کوشش کی لیکن اب ظاہر ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دور اور مہذب معاشرے میںتمام کی تمام سنتوں پر عمل کرنا ممکن ہی کہاں ہے، آج عقلیت پسندی اور عمل کا دور ہے،آج ہمیں زمینی حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے عملیت پسندی کا ثبوت دینا ہے، اپنی اور آنے والی نسلوں کی ترقی کے لئے۔ انہی خیالات میں غلطاں پیچاں ڈرائیو کرتا ہوا گھر آپہنچا اور حسبِ عادت ٹی وی آن کر دیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک مختلف ملکی اور غیر ملکی چینلز تبدیل کرتارہا، اکثر چینلز پر میوزیکل پروگرامز آرہے تھے، میں ان میں سے کسی ایک پر بھی اپنی توجہ مرکوز نہیں کرسکا کیونکہ میرا ضمیر مجھے مسلسل ملامت کرتارہا کہ یہ عریاں اور فحش مناظر اور موسیقی…؟

مگر دل نے سمجھایا کہ آج دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس خلائی دور میں دنیا بھر کے حالات سے لمحہ لمحہ باخبر رہنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جو ظاہر ہے کہ ٹی وی اور ڈش انٹینا یا کیبل کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ اسی ادھیڑ بن میں ، میں ٹی وی لاؤنج سے اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں آگیا،ائیر کنڈیشن آن کیا اور سونے کے ارادے سے اپنے نرم وگدازبستر پر دراز ہوگیا۔ یہاں ضمیر ایک بار پھر سامنے آکھڑا ہوا اور بولا’’سیرت پاک ﷺ پر لکھنے سے پہلے یہ بھی سوچا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے نہ صرف یہ کہ زندگی بھر کبھی اتنے آرام دہ بستر پر استراحت نہیں فرمائی بلکہ ساری زندگی چٹائی کی سخت اور کھردرے بان کے نشان ہی جسم اطہر پر سجے رہے۔‘‘

میں گڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا لیکن میرے دل نے کہا ’’یہ خدا کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، کیا ان سے منہ موڑ کر کفرانِ نعمت کروگے؟‘‘ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ سیرت پاک ﷺ پر مضمون بھی تو لکھنا ہے مگر اس وقت لکھنے کا موڈ نہیں تھا سو میں نے سوچا لکھنے سے پہلے سیرتِ پاک ﷺ پر کچھ پڑھ لیاجائے۔ اس خیال سے بک شیلف پر نگاہ ڈالی تو سیرت کی ایک کتاب پر نظر پڑی جوکئی سال پہلے میرے ایک اچھے دوست نے مجھے تحفتاً دی تھی مگر تب سے آج تک اسے کھولنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔ میں نے کتاب پر جمی ہوئی گرد کی گہری تہ کو جھاڑ پونچھ کر کتاب پوری عقیدت سے کھولی تو پہلے ہی صفحے پر میرے اس مرحوم دوست کے ہاتھ کی ایک تحریر ثبت تھی جو آج پہلی مرتبہ میری نظر سے گزر رہی تھی۔لکھا تھا ’’یہ کتاب نرم گرم بستروں اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر پڑھنے کے لیے نہیں ہے کیونکہ جس عظیم ہستی کی سیرت پر یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کی پیٹھ زندگی بھر بستر سے ناآشنارہی، جسے دنیا کی آسائشیں چھوکر بھی نہیں گزریں، جس نے دنیا کے ہر عیش وآرام کو ہمیشہ پائے حقارت سے ٹھکرایا، جس کی زمانہ نبوت کی آدھی سے زیادہ زندگی گھوڑوں کی پشت پر دشمنانِ خدا سے لڑتے ہوئے اور باقی ماندہ زندگی کا بیشتر حصہ خدا کے حضور سربسجود ہوکر گڑگڑاتے ہوئے گزرا، جس کے دن میدان کا رزار میں اور راتیں حضور خداوندی میں بسر ہوتی تھیں۔‘‘

میں نے گھبرا کر یہ ورق الٹ دیا بلکہ کئی ورق الٹتا ہو ا اس تحریر سے کافی دور نکل گیا میرا ضمیر میری اس کیفیت پر ہنس دیا۔ میں نے بڑی مشکل سے کتاب پر دوبارہ نظریں جمائیں مگر یہ کیا؟ یہاں تو شعب ابی طالب کا تذکرہ چل رہا تھا جب آپ ﷺ کو آپ کے ساتھیوں سمیت اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنے کی پاداش میں تین سال تک محصور رکھا گیا تھا، جس محصوری کے دوران آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت سے بال برابر ہٹنا قبول نہیں کیا تھا۔ میرا ضمیر ایک بار پھر میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں نے نظریں چراکر جلدی جلدی کتاب کے کئی صفحے الٹ دئیے۔ یہاں ہجرتِ مدینہ کا ذکر جاری تھا جب مشرکین مکہ نے آپﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیاتھا۔ مشرکین مکہ کا مطالبہ محض اتنا تھا کہ ان کے خداؤں کو برا نہ کہا جائے تو پھر وہ دینِ اسلام کی تبلیغ سمیت آپ ﷺ کا مطالبہ تسلیم کرنے پر راضی تھے۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ کو سرداری دینے سمیت وہ آپ ﷺ کی ہر خواہش پوری کرنے پر تیار تھے مگر آپﷺ کو حق کے ساتھ باطل کی اتنی سی بھی آمیزش گوارانہ تھی ۔ آپ ﷺ باطل کے نظام میں حق کی تھوڑی سی پیوند کاری تو کجا، حق کے نظام میں باطل کے ایک بھی پیوند کو گواراکرنے پر تیار نہ تھے۔ آپ ﷺ نے کفار مکہ کی یہ تمام پیشکشیں پائے حقارت سے ٹھکرادیں اور اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرناگوارا کرلیا۔ یوں آپ نے عملاً دنیا پر واضح کردیا کہ اللہ کا دین اس دنیا میں باطل کے سامنے سرنگوں ہوکر یا مفاہمت کرکے ساتھ چلنے کے لیے نہیں بلکہ باطل کے مقابلے پر ببانگ دہل اور حکماً نافذ ہونے کے لیے آیا ہے خواہ اس مقصد کے لیے اس دین کے نام لیواؤں کو اپنے آباؤاجداد ،اپنے گھر بار، اپنے اہل وعیال اور اپنی جائیدادیں اور کاروبار سب کچھ ہی کیوں نہ چھوڑدینا پڑے۔میرے ضمیر نے ایک بار پھر میرے دل پر دستک دی۔ میں نے شرمندگی سے بچنے کے لیے کتاب کے مزید کچھ صفحے الٹ دئیے۔ اب میدانِ بدر کا معرکۂ کارزار میری نظروں کے سامنے تھا جہاں آقائے دوجہاں رات کی تاریکی میں اپنے رب کے حضور سربسجود ہیں۔ ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہے اور زبان پر یہ کلمات جاری ہیں کہ ’’ اے رب ذوالجلال ! اگر آج تیرے یہ مٹھی بھر جانثار باطل کے ہاتھوں شکست کھاگئے تو پھر اس روئے زمین پر کوئی تیرا نام لیوا باقی نہ رہے گا۔‘‘

عجیب شان ہے، جنگی سازوسامان سے مسلح ایک ہزار کے لشکر کے مقابلے پر صرف تین سو تیرہ(313) ، بے سروسامان جانثاروں کو لیکر ، صرف اللہ کے سہارے اور بھروسے پر، باطل سے ٹکراجانے اور مر مٹنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن باطل سے رتی برابر مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور چشم فلک نے دیکھا کہ صبح ہوتے ہی یہ مٹھی بھر جانثارانِ توحید ایک لشکر جرار سے ٹکرا گئے۔ محض اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر۔

میرے ضمیر نے پھر ایک چٹکی لی ، مجھے جھرجھری سی آگئی اور میں نے تیزی سے کتاب کے کئی صفحے الٹ دیئے۔ اب میرے سامنے احد کا میدان تھا جہاں رسول اکرم ﷺ دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں، دندانِ مبارک شہید ہوچکے ہیں، چہرئہ انور سے خون کے قطرے پونچھے جاتے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں ’ میں اللہ کا سچا نبی ہوں‘‘ کلمۂ حق کا اعلان ببانگِ دہل یہاں بھی جاری ہے۔

میرے ضمیر نے ایک بار پھر مجھے جھنجوڑا کہ ان پر آسائش بنگلوں اورآرام دہ بستروں میں بیٹھ کر اس ہستی اقدس کی سیرت پر لکھنے کی جسارت کرتے ہوئے میں ایک لمحے کو ہل کررہ گیا۔ میں نے کتاب کے اس باب کو بھی مزید پڑھے بغیر الٹ دیا مگر اب غزوئہ خندق نظروں کے سامنے تھا جہاں سرکارِ دو عالم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شانہ بشانہ خندق کھودنے میں مصروف ہیں، کھانے کو کچھ میسر نہیں ، صحابہ رضی اللہ عنہم بھوک سے نڈھال ہیں، ایک صحابی رضی اللہ عنہ بھوک سے بیتاب ہوکر آقائے دو جہاں کو کپڑا ہٹا کر دکھاتے ہیں کہ پیٹ سے ایک پتھر بندھا ہواہے ، سرکار دوعالم ﷺ جواباً اپنے شکم مبارک سے کپڑا ہٹا کر دکھاتے ہیں جہاں دو پتھر بندہے ہوئے ہیں۔

میرے ضمیر نے یہاں مجھے کچوکا لگایا مگر میں اسے بھی سہہ گیا اور جی کڑا کرکے یہ صفحات بھی پڑھے بغیر الٹ کر آگے گزر گیا مگر یہ کیا یہاں تو غزوئہ خیبر جاری ہے اور سرکارِ دوعالم ﷺ قلعہ ناعم کے سامنے مورچہ زن ہیں۔ میں نے گھبرا کر کتاب بند کردی۔

میرے ضمیر نے زہر خندلہجے میں کہا’’ابھی سے کتاب کیوں بند کردی؟ ابھی تو حنین اور تبوک کے غزوات باقی ہیں۔ آخر کیا سوچ کر اس عظیم المرتبت ہستی کی سیرت پر لکھنے چلے تھے؟ تمہارے ہاتھ میں اس وقت ایک کتاب نہیں، سیرت سرورِ عالم کا آئینہ ہے جس میں ہر مسلمان کو اپنی شکل دیکھنی چاہیے۔

کتاب بند کردی یہ ٹھیک کیا مگر اب آنکھیں کھولو ، اپنے اردگرد نظر ڈالو ، غربت ،جہالت، نکبت اور ذلت کا شکار امتِ مسلمہ کی حالتِ زار کو دیکھو، حق کے خلاف مسلمانوں پر باطل کی یلغار کو دیکھو ، کمیونیکیشن اور میڈیا کے نام پر عریانی اور فحاشی کے پرچار کو دیکھو۔ اسلام کے خلاف یہود وہنود کے فریبِ کاری کو دیکھو، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اغیار کے ایجنڈے کی تکمیل کرنے والے مکار کو دیکھو اور پھر اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے دل بیمارکو دیکھو اور سوچوکہ کب تک ان گدازبستروں اور آرام دہ گھروں میں بیٹھ کر سیرت ِ پاک پر مضامین لکھتے رہوگے اور کسی محمد بن قاسم کا انتظار کرتے رہو گے جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارے۔

یادرکھو! اگر آج تم اپنے ،اپنی آنے والی نسلوں اور اپنی ملت کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو کوئی دوسرا کبھی تمہارے لیے کچھ نہیں کرے گا اور اسلام کے خلاف بھڑکائی گئی یہ آگ مزید پھیلے گی اور بہت جلد تم سمیت امت کے ہر فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘

ضمیر کی یہ تقریر میرے لیے ناقابل برداشت تھی، میں نے کتاب کو مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے بند کردیاکہ کہیں دوبارہ نہ کھل جائے۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو ہوش آیا کہ رات کافی گزر چکی ہے اور صبح دفتر بھی جانا ہے۔ میرا ضمیر ترکی بہ ترکی بولا کہ جس کی سیرت پر لکھنے چلے ہو اس کی راتیں تو ان حالات میں اپنے رب کے حضور قیام وسجود میں گزرتی تھیں۔ میں نے ضمیر کی آواز سنی مگر پھر ان سنی کردی، ہاں ! میں نے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا، کتاب کو تکیے کے نیچے دبایا اور سکون سے سوگیا۔صبح جب بیدار ہواتو کتاب ہنوز میرے سرہانے موجودتھی۔ میں کتاب کو واپس رکھنے کے لیے بوجھل قدموں سے بک شیلف کی طرف بڑھا تو مجھے یوںلگا جیسے کتاب مجھ سے کہہ رہی ہو کہ ’’یہ سیرت پر لکھنے کا نہیں ، عمل کا وقت ہے۔‘‘

Read 1874 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in فروری

Related items

  • آزادی اظہار رائے کا اسلامی تصور
    in مارچ
  • دعوت دین پہنچانے میں داعی کا کردار
    in مارچ
  • شر سے بچاؤ خیر کی امید کے ساتھ
    in مارچ
  • اے ارض پاک ! آخر کب تک
    in دسمبر
  • اے امت مسلمہ جاگ ذرا !
    in ستمبر
More in this category: « اخبار الجامعہ رسالت محمدی ﷺ اور مغرب کا معاندانہ رویہ »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2011