اصلاح معاشرہ انفرادی تربیت کے ذریعے

معاشرہ ایک انسانی ’’عمارت‘‘ ہے جس کی اینٹیں وہ افراد ہیں جن کے معاشرتی تعلقات سے اس کے زندہ عناصر تشکیل پاتے ہیں، یہ عناصر جتنی قوت، زندگی اور شادابی فکر کے حامل ہونگے اسی کے بقدر معاشرے کو میدان زندگی میں مقام و مرتبہ حاصل ہوگا۔

اسی لئے قرآن کریم فرد کی اخلاقی تربیت پر پوری توجہ دیتاہے اور روحانی،عقلی اور مادی اعتبار سے تیار کرتاہے تاکہ اسی تربیت کے ذریعے اسی کا مستقبل وجود ابھر سکے اور اسی کے صادر ہونے والے اقوال وافعال میں ذاتی اور آزاد ادارہ نکھر کر سامنے آئے۔

اصلاح معاشرہ

اخلاقی تربیت کا اظہار بلاچوں اور چرا اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی سے ہوتاہے۔

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا(النساء 65)

’’اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میںتم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرواس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سراسر تسلیم کرلیں۔‘‘

( إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّہُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا ہُمْ مُبْصِرُونَ ) (الأعراف201)

’’حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتاہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چونکنے ہوجاتے ہیںاور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتاہے ان کیلئے صحیح طریقہ کار کیاہے۔‘‘

اصلاح بذریعہ نماز

نماز انفرادی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لیے کہ وہ ایسا سرچشمہ ہے جس سے مسلمان تقویٰ حاصل کرتاہے اور اپنے گناہوں کی آلودگیوں کو دھوتاہے۔‘‘

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’ ایک مرتبہ ایک شخص نے ایک عورت کابوسہ لیا (پھر اسے ندامت ہوئی تو) وہ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ماجرا سنایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی 🙁وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ) (ہود114)

’’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروںپر اور کچھ رات گزرنے پر بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘

اس شخص نے کہا کیا یہ صرف میرے لیے ہے آپ نے فرمایا : یہ میری امت کے تمام افراد کیلئے ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ خشوع وخضوع اور صدق دل سے نماز پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کی محفوظ پناہ میں ہوتے ہیں، اگر انہیں کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے جزع وفزع نہیں کرتے اور اگر کوئی خیر حاصل ہوتو اسے روک کر نہیں رکھتے، اسی لیے قرآن میں نماز کے قیام کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی نافرمانی سے اجتناب کیلئے فرمایا گیا ہے۔

(وَأَنْ أَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّقُوہُ وَہُوَ الَّذِی إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ) (الأنعام: 72)

’’نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گئے۔‘‘

نماز انسان کی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے اگر اس کا وجدان ذلت وپستی کے احساس سے آزاد ہوجائے تو اسے کوئی پریشانی لاحق ہوگی نہ روزی کا خوف اور نہ وہ اللہ کے علاوہ کسی سے ڈرے گا۔ اسی طرح اگر اسے اس بات کا احساس ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے تو اسے اپنی زندگی کے بارے میں کوئی خوف نہیں ہوگا۔

اصلاح بذریعہ عجز وانکساری :

اسلام مومن کے نزدیک دنیا کی حیثیت بتدریج کم کرنے کی کوشش کرتاہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ دنیا اور مال ودولت فتنہ، ابتلاء اور آزمائش ہیں۔

قرآن کہتاہے ( وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَی ) (طہ: 131)

’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان وشوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے یہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کیلئے دی ہے اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال بہتر اور پائندہ ہے۔‘‘

اس آیت کے ذریعہ انسانی اقدار کے اعتبار سے رد کیاگیاہے تاکہ مال ومتاع سے متعلق خالص مادی اقدار کے نتیجہ میں لاحق ہونے والے ضعف واضمحلال سے مسلمان محفوظ رہیں۔ قرآن فرد کی تربیت کے ضمن میں اس کی حقیقت یوں بیان کرتاہے (فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ Oخُلِقَ مِنْ مَاء ٍ دَافِقٍ O یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ) (الطارق5- 7)

’’پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیاگیا جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔‘‘

قرآن اس مفہوم کومتعدد مقامات پر بیان کرتا ہے تاکہ انسان کے دل میں یہ بات گھر کرجائے کہ اس کی اصل تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ اسی کے مطابق تمام انسان مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور تمام انسانوں کی تخلیق’’حقیر‘‘ پانی سے ہوئی ،پس جس طرح انسان طبعی طور پر ایک دوسرے سے افضل نہیں اسی طرح ایک جنس دوسری جنس سے اور ایک قوم دوسری قوم سے تخلیقی اعتبار سے کوئی فضیلت نہیں رکھتی ہے۔

( یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ ) (الحجرات13)

’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہنچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والااور باخبر ہے۔‘‘

اصلاح معاشرہ اجتماعی تربیت کے ذریعہ:

تعمیر معاشرہ کی پہلی بنیاد مومن فرد کی تربیت ہے تاکہ اس کی حیثیت معاشرے کی عمارت ، میں ایک اچھی اینٹ کی ہو اور صحیح رائے عامہ ہموار ہو۔ دوسری بنیاد فرد اور جماعت کے مابین الفت ومحبت، ربط وتعلق پیدا کرتاہے تاکہ دونوں میں سے ہر ایک پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں اور کچھ حقوق ملیں ہر فرد سب سے پہلے اس بات کا مکلف ہے کہ اپنا مخصوص عمل اچھی طرح انجام دے کیونکہ کسی کام کو بحسن وخوبی انجام دینا عبادت ہے ۔ دوسرا یہ کہ ہر فرد نگران ہے اور اس کی نگرانی معاشرے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے:

’’ کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ ‘‘

’’تم میں ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔‘‘

(وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) (المائدۃ: 2)

’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔‘‘

ہر فرد اس بات کا بھی مکلف ہے کہ اگر کوئی منکر ’براکام‘ہوتاہوا دیکھے تو اسے روکے حدیث میں ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص ’’منکر‘‘ ہوتا ہوا دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہوتو زبان سے روکے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہوتو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

اخلاقیات وکردار کا اجتماعی ضابطہ پوری مسلم جماعت کی ذمہ داری ہے، جولوگ علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے اسی طرح سزا کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جو معاشرے میں برائیوں کا فروغ چاہتے ہیں اس لئے ایک ایسا ضابطہ وجود میں لانے کا ہر شخص ذمہ دار ہے جس سے معاشرے میں مکارم اخلاق کی ترویج او ربرے اقوال وافعال کا خاتمہ ہو۔

اصلاح وتربیت بذریعہ اسوئہ حسنہ :

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں کیلئے اسوئہ ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ) (الأحزاب: 21)

’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا۔‘‘

یعنی رسول اللہ کی شخصیت نئے معاشرے کیلئے مینارہ نور ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے سوال کیا کہ رسول اللہ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا آپ کے اخلاق قرآن (کا عملی نمونہ) تھے۔

رسول اللہ نے اپنے کردار اوراخلاق سے اسی معاشرے کی تربیت فرمائی ، اور ہر عمل میں اپنی ذات کو بطور نمونہ پیش کیا ۔ رسول اللہ کی صورت میں اسلام نے اس معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جس نے جاہلیت کی پستی سے اٹھا کر بلند چوٹی پر پہنچا دیا اور انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ گویا ان کی پیدائش اور پرورش آز سہر نو ہورہی ہے۔ خود مسلمانوں کو بھی بخوبی احساس ہوگیا تھا کہ معاشرے میںآنے والی یہ تبدیلی کتنی عظیم اور کتنی پر شکوہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے خود کو اسی نظام الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جس کی برکتوں کا مشاہدہ انہوں نے رسول اکرم کی صورت میں کیاتھا۔ اس عمیق شعور کے نتیجے میں ان کے دل میں جاہلیت کی تمام باتوں سے نفرت پیدا ہوگئی ۔ اسی لیے آیت تحریم نازل ہونے کے بعد وہ رسول سے سوال کرنے لگے تھے ’’ماذا احل لھم ‘ ان کے لے کیا حلال کیاگیاہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ’’ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتِ‘‘ کہو کہ تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔

سورۃ الاعراف میں رسول اللہ کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں ۔

اصلاح وتربیت بذریعہ وعظ ونصیحت :

اسلام نے اجتماعی تربیت کے جو طریقے بتائے ہیں ان میں ایک وعظ ونصیحت ہے اس لیے کہ وہ نفس انسانی پر براہ راست اثر انداز ہوتاہے۔ اچھی نصیحت دل وجان سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے اگر اس کے ساتھ کوئی اسوئہ اور معاشرہ بھی ایسا ہو جو فرد کو اسوئہ اختیار کرنے پر اکسائے اور آمادہ کرلے اسوئہ حسنہ جذبات کو اپیل کرتاہے اور ان میں جوش وولولہ پیدا کرتاہے۔ قرآن میں بکثرت ایسے مواعظ وہدایات وتعلیمات موجود ہیں۔

(إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاء ِ ذِی الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنْکَرِ ) (النحل: 90)

’’بیشک اللہ عدل واحسان کا حکم دیتاہے اور قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتاہے اور بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتاہے ۔

سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے کہ(إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہِ ) (النساء 58)

’’اور اللہ تم کو حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتاہے۔‘‘

(وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًاO وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء َ سَبِیلًاO وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُورًا)  (الإسراء33-31)

’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیںگئے اور تمہیں بھی درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی سزا ہے۔ زنا کے قریب نہ جاؤ، وہ بہت برا (فعل ہے) راستہ ۔ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو، جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیاگیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے پس چاہے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے اس کی مدد کی جائے گی۔‘

اصلاح وتربیت بذریعہ سزا:

وعظ ونصیحت اسوئہ وحکمت کے ذریعے تربیت اسلام میں مطلوب اور پسندیدہ ہے یہ وہ ابتدائی اقدام اور مثالی طریقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نئے مدنی معاشرے کیلئے پسند فرمایا مگر جب اسوئہ اور وعظ ونصیحت کارگر نہ ہوتو اصلاح کیلئے قطعی علاج لازمی ہوجاتاہے اور وہ ہے سزا۔

ابتدائی مرحلے میں اسلام ڈراتا ہے کہ ان کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوگا یہ تخویف وتہدید کا بہت ہلکا انداز ہے مثلاً :

( أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیرٌ مِنْہُمْ فَاسِقُونَ ) (الحدید16)

’’کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے پگھل جائیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں اکثر فاسق ہیں۔‘‘

یہ تہدید کا ایک انداز ہے۔ اگرچہ اہل ایمان کے دلوں پر اس کا گہرا اثر پڑا تھا لیکن اگلے مرحلے میں بصراحت غضب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے۔

اخروی سزا

بعد کے مرحلے میں عذاب آخرت سے ڈرایا گیاہے (وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَامًا Oیُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا)

(الفرقان68-69)

’’جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے گا وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اسی کو مکرر عذا ب دیا جائے گا اور وہ اسی میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ رہے گا۔‘‘

دنیاوی سزا

قرآن دنیا کے عذاب سے بھی ڈراتاہے۔

(إِلَّا تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ) (التوبۃ: 39)

’’تم نہ اٹھو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا ، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا۔‘‘

(إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا) (التوبۃ: 55)

’’اللہ یہ چاہتاہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے ان کو دنیا کی زندگی میں مبتلائے عذاب رکھے۔‘‘

دور نبوی کے اسلامی معاشرے کی خصوصیات:

اسلامی تصورات معاشرت انسان کے روحانی اور جسمانی ہر طرح کے تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کا نام ہے کہ جس کے پس منظر میں خالق کائنات کی ہستی کارفرماہے۔ جو انسان کا خالق بھی ہے اور جس نے خود انسان کو {لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم} کے اعلان کے تحت اشرف المخلوقات بنا کر پیدافرمایا ہے ، اس لئے وہی مالک وخالق ہی خوب جانتا ہے کہ انسانوں کیلئے حسن معاشرت کاآئین کیا ہے اس لیے کہ اشرف المخلوقات کے لئے بہترین ضابطہ معاشرت کا نفاذ اسی کے ذمہ ہے چنانچہ اسلامی معاشرہ مندرجہ ذیل بنیادی عوامل پر معرض وجود میں آتاہے۔

۱۔ توحید

معاشرہ کے ہر فرد کیلئے لازم ہے کہ وہ ہر دم اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ اس کائنات کا خالق اور معبود ایک اللہ ہے جس کا کوئی ہمسر اور شریک نہیں جو سارے جہانوں کا مقتدر اعلیٰ اور مختار ہے۔

۲۔ اتباع رسول :

توحید کی اسی لازوال قوت کے ساتھ جب تک محبت رسول کا مکمل اہتمام نہ ہوگا، اس وقت تک معاشرتی اقدار کی تکمیل ناممکن ہوگی۔ اس لیے توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اتباع رسول بھی معاشرے کے افراد کے لیے لازمی ہوگا۔

۳۔ فکر آخرت

توحید ورسالت کے بعد تیسرا سب سے بڑا معاشرتی عامل عقیدئہ آخرت ہے جس کی وجہ سے جزاء وسزا پر کامل یقین ہر وقت انسان کو ہوشیار رکھتاہے اور انسان محاسبے اور مسؤلیت کے خوف سے ہر دم ڈرتا رہتاہے اور جرم وگناہ یا شروفساد کی جانب مائل ہونے نہیں پاتا بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برائیوں سے بچنا ہی اس کے لیے خیر وفلاح کا باعث ہوتاہے۔

۴۔اظہار رائے

اسلام، انسانی ضمیر کو غیر اللہ کی عباد ت اور اطاعت وفرمانبرداری سے آزاد کراتاہے۔

۵۔ غریبوں کی کفالت

اسلام دعوت دیتاہے کہ نفس کو ایسے سانچے میں ڈھالا جائے کہ انسان زندگی اور اس کی مسرتوں اور لذتوں کا غلام بننے کی بجائے انہیں قابو میں رکھے، ان سے لطف اندوز ہونے میں جائز حدود سے آگے نہ بڑھے، وہ حقیر ضروریات سے بلند ہوجائے، آپ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور عارضی و حقیر مرغوبات کی بجائے ان چیزوں کی طرف لپکیں، جو بلند تر اور وسیع ترین ہوں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: (زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاء ِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْـمُـقَـنْـطَـرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْـفِـضَّـۃِ وَالْـخَـیْـلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآبِO قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذَلِکُمْ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَأَزْوَاجٌ مُـطَـہَّـرَۃٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّہِ وَاللَّہُ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ ) (آل عمران14-15)

’’لوگوں کیلئے مرغوب نفس عورتیں، اولاد ، سونے ، چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمین بڑی خوش آئندہ بنا دی گئی ہیں مگر یہ سب دنیا کی چندہ روزہ زندگی کا سامان ہیں ، حقیقت میں جو بہتر ٹھکاناہے وہ تو اللہ کے پاس ہے، کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے اچھی کیاچیز ہے؟ جو لوگ تقوی کی روش اختیار کریں ان کے لیے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی، وہاںانہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہونگی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہونگے، اللہ اپنے بندوں کے روئیے پر گہری نظر رکھتاہے۔(مأخوذ از سیرت النبی اور اصلاح معاشرہ از نگہت رشید بتصرف)

آخر میں رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو مدنی معاشرہ بنادے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے