اسلام کے لفظی معنی ہیں سرتسلیم خم کرنا۔ اسلام امن سلامتی اور اطمینان کا دین ہے۔ قرآن اسلام کی بنیادی کتاب ہے۔ شروع سے آخر تک قرآن عفو و درگزر اور برداشت کی تعلیم سے بھرا ہوا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔‘‘ (آل عمران134)

اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بالکل ایسے ہی، جیسے رات اور دن۔ لہٰذا جہاں دہشت گردی ہوگی، وہاں اسلام نہیں ہوگا اور جہاں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی نہیں ہوگی۔

یہ امر شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، جس کی وجہ سے بہت سے جانی و مالی نقصانات ہورہے ہیں اور ہم ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

مختلف اداروں کے سروے کے مطابق گزشتہ سال کے صرف آخری نو ماہ میں دہشت گردی کی وارداتوں کے نتیجے میں 1200سے زیادہ معصوم شہری ہلاک ہوئے اور 20ہزار سے زیادہ زخمی ہونے کے علاوہ معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

اس مسئلے نے پاکستان کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے انسداد کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن ایک عام شہری ان اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ حکومتی اہلکار امن و امان کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں لیکن ان کے دعووں کے برخلاف صورتحال میں بظاہر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

دہشت گردی کی لہر سے ساری قوم اضطراب میں مبتلا ہے۔ آئے دن ہونے والے نامعلوم بم دھماکوں اور فسادات نے ہر شخص کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ رزق حلال کی تلاش میں علی الصبح گھر سے نکلنے والوں کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ شام کو گھر بھی لوٹیں گے یا نہیں۔

ہمارے ملک کو ایسے حالات تک پہنچانے میں جہاں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے، وہاں اپنے بھی عاقبت نااندیشی میں ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ آئے دن قومی اخبارات میں کسی نہ کسی دہشت گرد کے پکڑے جانے کی اطلاعات شائع ہوتی ہیں۔ یہ حملہ آور اپنے مذموم مقاصد کی خاطر کسی کی جان لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جو لوگ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خالق کائنات نے ایسے لوگوں کو کتنی سخت تنبیہ کی ہے۔

’’جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (النساء92)

ملک میں اِس دہشت گردی کے علاوہ ایک اور قسم کی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ یہ ہیں سیاسی، لسانی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے باہمی جھگڑے … جس میں نہایت قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کو اللہ کے فرامین اور رسولﷺ کے ارشادات باربار سنائے جائیں تو شاید ان کے دلوں میں نرمی پیدا ہوجائے اور وہ قتل جیسے جرم عظیم سے باز آجائیں۔

’’اے لوگوں، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (المائدہ8)

’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین پر فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔‘‘ (المائدہ32)

’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔اس پر اللہ کا غضب اور اللہ کی لعنت ہے اور ان کیلئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (النساء93)

نبی کریم ﷺ نے اسی سلسلہ میں فرمایا تھا :

ان دمائکم واموالکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی شہرکم ہذا فی بلدکم ہذا

’’تمہارا خون اور مال ایک دوسرے پرایسے حرام ہے جیسا تمھارلیے یہ مہینہ یہ شہر محرم اور محترم ہے۔‘‘

امام غزالی ؒ اپنی کتاب (المستصفی ۱/۷۸۲) میں لکھتے ہیں: ’’انسان کی جان، مال اور عزت کا محفوظ ہونا، اُس کی زندگی کا اہم ترین حصہ اور عبادت کا فریضہ ادا کرنے کیلئے بنیادی شرط ہے۔

‘‘سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لایزال المؤمن فی فسحۃ من دینہ مالم یُصب دماً حراماً ’’

مؤمن ہمیشہ اپنے دین کے متعلق وسعت میں ہوگاجب تک کسی حرام خون کا ارتکاب نہ کرے۔‘‘ (صحیح بخاری۶۹۱۴)

کیاہم افغانستان کی موجودہ صورتحال سے عبرت نہیں لیں گے، جس دن وہ گروہ اور جماعتوں کی شکل میں تقسیم ہوکر آپس میں لڑنے لگے، ایک دوسرے کے خون کو حلال سمجھنے لگے اور ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تو ان پر باہر سے دشمن مسلط ہوگئے اور اللہ نے انہیں گروہ بندیوں کامزہ چکھا دیا۔

’’(اے نبی) کہہ دو، وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔ ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں، شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔‘‘ (الانعام25)

کیا ہم اب بھی نہ سمجھیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے