غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اسے بندوں کی غلامی سے آزاد رکھا جائے تاکہ بندہ اپنے رب ، خالق ومالک کی غلامی کرے نہ کہ بندوں کی غلامی ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر دن اور رات کی ساعتوں میں چند اوقات متعین کیے تاکہ وہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہوسکے اور اپنے خالق سے اپنا تعلق مضبوط کر سکے وہ اوقات اس کے علاوہ ہیں جب خود اس کا جی چاہے کہ وہ اپنے آقا کے حضور کھڑا ہو ، اس کی طرف متوجہ ہو ، دعا کرے اور اس سے لو لگائے رہے۔
نماز یادعا کا مطلب صرف مخصوص کلمات وحرکات کی ادائیگی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بندہ بیک وقت دل ، دماغ، جسم اور روح سمیت پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتاکہ ضمیرِ انسانی بندوں کی غلامی سے آزاد ہو اور تعلق باللہ کے ہمہ وقت اوربیدار شعور سے معمور ہو ، جان ومال ، عزت وجاہ کے سلسلہ میں ہر طرح کے خطرات سے بلند ہو۔ حقیقت میں یہ اندیشے اور خطرات بڑے ہی مہلک ہوتے ہیں ، یہ انسان کی خودداری اور آزادی کو اس قدر مجروح کر دیتے ہیں کہ بسا اوقات تو اسے یہ ذلت گوارا کرتے ہوئے بہت سے حقوق سے دست بردار ہونا پڑتاہے اور بڑی حد تک اسے اپنے عز وشرف سے بھی ہاتھ دھونا پڑتاہے۔ اسلام اس بات کو بڑی اہمیت دیتاہے کہ لوگوں کی عزت وآبرو، جان ومال، ان کے شرف وجاہ کے تحفظ کی ضمانت دی جائے ان میںصحیح قسم کی خودداری اور عزتِ نفس پرورش پائے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب افراد، معاشرہ اور حکومتیں بندوں کی غلامی سے آزاد ہوکر اللہ رب العزت کی غلامی اختیار کریں گی۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان حکومتیں عام طور پر پاکستانی حکومت خاص طور پر بندوں کی غلام نظر آتی ہیں ۔ پاکستان وہ عظیم مملکت ہے جس کی بنیادوں میں گارا نہیں بلکہ 6لاکھ سے زائد ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں ، بیٹوں ، بزرگوں اور جوانوں کا شہید خون جمع ہے۔ اس کے قیام کامقصد ہی اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیار کرنا تھا اور غیروں کی غلامی کا طوق گلے سے توڑنا تھا ، مگر ہمارے ارباب اقتدار اغیار کے خوف کے آسیب کا شکار ہیں، ان کے دل قوتِ ایمان ویقین وتوکل علی اللہ کی دولت سے یکسر خالی ہیں۔ وہ اپنے مکار اور جھوٹے آقا کے ایک اشارے پر اپنی اسلامی شناخت ، غیرت وحمیت اور خودداری کو کچلتے ہوئے اور اسلامی غیرت کا سودا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسانوں کی غلامی کا خوف انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا کیونکہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی غلامی کا دم نہیں بھرتا وہ ہرایرے غیرے سے ڈرتا ہے اس غلامانہ اطاعت کا مظاہرہ 16مارچ کو ریمنڈڈیوس جوکہ ظاہری طور پر تو دو مسلمانوں کا قاتل ہے در پردہ معلوم نہیں کتنے انسانوں کا قاتل ہوگا ، جبکہ اس نے فساد فی الارض کا ارتکاب بھی کیا اور جاسوسی کا اعتراف بھی وہ کر چکا ہے ایسے قومی مجرم کو عزت واکرام واعزاز کے ساتھ رہا کرکے بندوں کی غلامی کا ایسا حق ادا کر دیا ہے جس سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اے آقا آپ کے اٹارنی جنرل کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستانی تو 100 ڈالر میں اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں ۔ ریمنڈ کی رہائی نے اس قومی غیرت خود مختاری، حب الوطن، آئین وقانون کی پاسداری اور عزت وناموس سب کچھ کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔
اس قومی مجرم کو رہا کرنے کی آخر وجہ کیا بنی کونسی ایسی قیامت برپا ہورہی تھی کہ احسان فراموش ملک کے قاتل کو اتنی رازداری سے رہا کر دیا جائے جبکہ ہمارے ملک کی معیشت بقول حکمرانوں کے پہلے سے کافی بہتر ہے کہ ہمارے ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ حالیہ چھ ماہ میں ہماری بر آمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے گندم میں بھی ہم خود کفیل ہوچکے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں ہوا جبکہ اس غدار ملک نے اس قاتل کی رہائی کا بدلہ 80 لاشوں کی شکل میں دیا۔ قاتل جاسوس کو رہا کرنے کی وجہ بتلانے سے ہمارے حکمران ، سیاستدان اور معاشرہ سب قاصر ہیں مگر رسول مکرم e نے ایسے حالات پیدا ہونے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آج سے چودہ صدیاں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب لوگ اللہ ورسول eسے غداری اور عہد شکنی کرنے لگ جاتے ہیں تو ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اوراللہ ان کے اوپر غیر مسلم دشمن کو مسلط کر دیتا ہے جو ان کی بہت سی چیزیں چھین لیتا ہے ۔اگر مسلمان حکمران کتاب وسنت کے مطابق حکومت نہ کریں تو اللہ تعالیٰ مسلم معاشرہ میں پھوٹ ڈال دیتا ہے اور وہ آپس میں قتل وغارت کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
سیدنا عبد اللہ بن عمر w کہتے ہیں میں نے رسول اللہ e کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ جس نے اللہ کی بیان کردہ سزاؤں میں سے کسی سزا کو روکنے کیلئے سفارش کی اور جس نے جان بوجھ کر باطل کی حمایت کی تو ایسے لوگوں سے اللہ ناراض رہے گا یہاں تک کہ وہ توبہ کر لیں اور جس شخص نے کسی صاحبِ ایمان پر تہمت لگائی تو اسے ہلاکت کی جگہ(جہنم) میں جگہ دے گا الا یہ کہ وہ توبہ کرے اور اپنے بھائی سے معافی مانگے۔‘‘(سنن أبی داؤد )
جبکہ انسانی غلامی کے بارہ میں رسول مکرم e کا یہ مکتوب بھی ملاحظہ کریں۔
إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتب إلی أہل نجران …… أما بعد فإنی أدعوکم إلی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وأدعوکم إلی ولایۃ اللہ من ولایۃ العباد ………( تفسیر ابن کثیر )
رسول اللہ e نے اہل نجران کو (جو مذہباً عیسائی تھے) ایک خط لکھا جس کا ایک حصہ یہ ہے ’’اما بعد‘‘ میں تم لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی غلامی اور پرستش سے نکل کر اللہ کی بندگی اور پرستش اختیار کرو نیز میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی آقائیت اور سرپرستی سے نکل کر اللہ کی آقائیت اور اقتدار میں آجاؤ۔‘‘
مگروائے افسوس! کہ آج ہم مسلمانوں نے اسلامی طرز حکمرانی سے منہ موڑ لیا۔ اسلام کے بنیادی مصدر اور کتب سماویہ میں سب سے زیادہ عزت وشرف کی حامل مبارک کتاب’’قرآن مجید‘‘ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا۔ مغرب کی نام نہاد اظہار رائے کی آزادی نے گذشتہ دنوں امت مسلمہ کو پھر اشتغال انگیز کردیا جب فلوریڈا کے چرچ میں متعصب عیسائی پادریوں کی جیوری نے دس منٹ کی یک طرفہ بحث کے بعد معاذ اللہ قرآن مجید کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا۔ ملعون پادری ٹیری جونزنے قرآن مجید کو نذرآتش کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ مذکورہ واقعہ مغربی دنیا کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہیں۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملک عزیز پاکستان میں سرگرم عمل این۔جی اوز ادارے اور دیگر تنظیمیں جوکہ روشن خیالی ،آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے لیے سر آسمان پر اٹھالیتیں ہیں۔ان سب کی زبانوں کو اس واقعہ پر تالے لگ گئے ہیں۔ ملکی میڈیا(ماسوائے چند ایک چینلز) کی خاموشی کا کیا معنی ہے؟ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا پوپ بینی ڈکٹ دیگر معاملات میں دخل اندازی کو اپنا حق سمجھتاہے مگر اس واقعہ کے بعد اسے بھی سانپ سونگ گیا ہے۔
قارئین کرام! موجودہ حالات مسلم اقوام کے لیے انتہائی ناگفتہ بہ ہیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا پوری طرح احساس کرنا ہوگا۔ ہر مسلمان کو چاہے وہ حکمران ہے یا اس کا تعلق عوامی طبقہ سے ہے جب تک شریعت کے احکامات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتا اس وقت تک حالات جوں کے توں رہیں گے کیونکہ شریعت اسلامیہ کی پاسداری غلامانہ ذہن رکھنے والے نہیں کر سکتے بلکہ اغیار کے غلام تو اپنے آقا ومولی کی ڈپلومیسی پر کار بند رہیں گے۔ بقول شاعر
جو تھا نہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر